ابطال الوہیتِ مسیح
۲۲؍مئی تا ۵؍جون۱۸۹۳ء اہل اسلام اور عیسائیان امرتسر کےمابین بمقام کوٹھی ڈاکٹرہنری مارٹن کلارک امرتسر، مناظرہ ہواجس میں اہل اسلام کی طرف سے حضرت مرزاغلام احمد صاحبؑ اورعیسائیوں کی جانب سے ڈپٹی عبداللہ آتھم صاحب کے مابین تحریری پرچوں کا تبادلہ ہوا۔یہ مناظرہ جنگِ مقدس کے نام سے شائع شدہ ہے۔اس میں حضرت اقدس مسیح موعودؑ نےابطال الوہیت مسیح کے حوالہ سے جودلائل حقہ دیے ہیں وہ خلاصۃً نذرِ قارئین ہیں۔
حضرت مسیح موعودؑ نےشرائط مباحثہ میں یہ شرط بھی رکھی تھی کہ واضح ہوکہ اس بحث میں یہ ضروری ہوگا کہ جوہماری طرف سے سوال ہویاڈپٹی صاحب کی طرف سے جواب ہووہ اپنی طرف سے نہ ہوبلکہ اپنی اپنی کتاب کے حوالہ سے ہوجس کو فریق ثانی حجت سمجھتا ہےاورایسا ہی ہرایک دلیل اورہرایک دعویٰ جو پیش کیا جاوے وہ بھی اس التزام سے ہو۔غرض کوئی فریق اپنی اس کتاب سے باہرنہ جائے جس کا بیان بطورحجت ہوسکتا ہے۔قارئین پر واضح رہے کہ حضرت صاحبؑ اس شرط پرمباحثہ میں پورے طورپرکاربند رہے لیکن ڈپٹی صاحب اس میں گریزپا دکھائی دیے۔
دلیل نمبر۱۔قیاس استقرائی:قیاس استقرائی دنیا کے حقائق ثابت کرنے کے لیے اول درجہ کا مقام رکھتا ہے۔جیسا کہ مَا الۡمَسِیۡحُ ابۡنُ مَرۡیَمَ اِلَّا رَسُوۡلٌ قَدۡ خَلَتۡ مِنۡ قَبۡلِہِ الرُّسُلُ۔یعنی مسیح ابن مریم میں اس سے زیادہ کوئی بات نہیں کہ وہ صرف ایک رسول ہے اس سے پہلے بھی رسول آتے رہے۔آپؑ فرماتے ہیں۔تم نظراٹھا کردیکھوکہ جب سے یہ سلسلہ تبلیغ اور کلام الٰہی کے نزول کا شروع ہوا ہے۔ہمیشہ اورقدیم سے انسان ہی رسالت کا مرتبہ پاکردنیا میں آتے رہے ہیں یا کبھی اللہ کا بیٹا بھی آیا ہےاور خلت کا لفظ بھی اس طرف توجہ دلاتا ہے کہ جہاں تک تمہاری نظر تاریخی سلسلہ کودیکھنے کی وفا کرسکتی ہے اورگزشتہ لوگوں کے حالات معلوم کرسکتے ہو خوب سوچو اورسمجھو کہ کبھی یہ سلسلہ ٹوٹا بھی ہے۔کیا تم کوئی ایسی نظیر پیش بھی کرسکتے ہوجس سے ثابت ہوسکے کہ یہ امرممکنات میں سے ہےپہلے بھی کبھی ہوتا آیا ہے؟
دلیل نمبر ۲:اگر بائبل کے تمام انبیااور صلحا جن کی نسبت خداتعالیٰ کے بیٹے یا خدا ہونے کی تھی۔یہ حقیقی معنوں پرحمل کرلیا جائیں تواس صورت میں اقرارکرنا پڑے گا کہ خدا تعالیٰ کی عادت بھی ہے کہ وہ بیٹے بھی بھیجا کرتا ہے بلکہ بیٹے کیا کبھی کبھی بیٹیاں بھی۔
دلیل نمبر۳: اُمُّہٗ صِدِّیْقَۃٌ۔والدہ حضرت مسیح راستباز تھیں۔اگر حضرت مسیح کوحقیقی بیٹا فرض کرلیا جائے توپھریہ ضروری امرہے کہ وہ دوسروں کی طرح ایسی انسانی والدہ کے تولد میں محتاج نہ ہو کیونکہ نوع سے نوع پیدا ہوتی ہے۔یعنی انسان سے انسان اورگھوڑا سے گھوڑا۔
دلیل نمبر۴:کَانَا یَاۡکُلَانِ الطَّعَامَ۔دونوں حضرت مسیحؑ اور آپؑ کی والدہ صدیقہ کھانا کھایا کرتے تھے۔کھانے کا محتاج اس لیے کہ پہلا جسم چند سال میں تحلیل ہوکر نیا جسم آ جاتا ہے یعنی انسانی جسم متغیر حالت میں رہتا ہے۔غذا کا اثر روح پر بھی ہے اور روح جسم پر اثر ڈالتی ہے اور کبھی جسم روح پر اثرڈالتا ہے۔ اب یہ خدائی مرتبہ سے بعید ہے کہ اللہ کا جسم بھی ہمیشہ اڑتا رہے۔ کھانے کا محتاج بھی ہو حضرت مسیح کوانسانی حاجات بھی لاحق تھیں جوخدا کی ذات میں ہرگزنہیں پائی جاتیں۔کیا ان دردوں اوردکھوں کے باوجود وہ خدا تھے یا ابن اللہ۔بھوک بھی ایک دردہے۔
دلیل نمبر ۵:اللہ تعالیٰ کی صفات ازلی ابدی ہیں وہ ان سے کام لے سکتا ہے۔اس میں قوت عموم پائی جاتی ہے۔اللہ تعالیٰ نے جوکچھ پیدا کیا ہے وہ دوبارہ بھی پیدا کرسکتا ہے۔
دلیل نمبر۶:انسان باعتبار جسم کے انسان نہیں بلکہ باعتبارروح کے انسان کہلاتا ہے۔جسم کے ساتھ کہلاتا تو ۶۰ برس کی عمر میں وہ کچھ اور ہی بن جاتا زید وبکر نہ رہتا۔اس لیے مسیح نے تولد کے وقت جوجسم پایا وہ کفارہ نہ ہوسکا کیونکہ ۳۰ سال کی عمر میں اسے اور جسم ملا۔ اور اسی جسم کے ساتھ موافق انجیل مصلوب ہوا۔
دلیل نمبر۷:اگرحضرت مسیح کی روح انسانی روح کی سی نہیں ہے اور انہوں نے مریم صدیقہ کے رحم میں اس طریق اور قانون قدرت سے روح حاصل نہیں کی جس طرح سے انسان حاصل کرتے ہیں توثبوت دینا چاہیے کہ ان کے جنین کا نشوو نما پانا کس نرالے طریق سے تھا؟
دلیل نمبر ۸:خدا تعالیٰ اپنی صفات کاملہ میںتقسیم نہیں ہوسکتا اس کی صفات تامہ کاملہ میں سے ایک صفت بھی رہ جائے اس پہ خدا کا اطلاق نہیں ہوسکتا۔اب یہ تقسیم کہ باپ کامل،روح القدس کامل ،ابن اللہ کامل۔اس تقسیم کے کیا معنی ہیں؟ اور تین ناموں کی وجہ کیا ہے تفریق ناموں کی چاہتی ہے کسی صفت میں کمی بیشی ہے۔
دلیل نمبر ۹:اگرکسی صفت میں کمی بیشی نہیں ہے تو پھر ان تینوں اقنوم میں مابہ الامتیاز کون ہے۔ اب جس کو مابہ الامتیازقرار دیں گے وہ صفت ہوگی جواس ذات میں پائی جانی چاہیے جوخدا کہلاتا ہے۔اس کے مقابل دوسرے نام تجویز کرنا لغو ہوجاتا ہے۔
دلیل۱۰:یوحنا باب ۱۰۔آیت۳۵۔ میں جب یہود نے مسیح سے اس کی ابنیت سے متعلق سوال کیا توانہیں جواب دیتے کہ ہاں میں حقیقی ابن اللہ ہوں۔بلکہ جواب میں کہا کہ تمہیں توخدا کہا گیا ہے اور مجھے بیٹا۔تم تو خطاب میں مجھ سے بڑھ کرہو۔
دلیل نمبر۱۱:اگریہ کہوکہ پہلے تو نہیں مگراب آیا ہے۔توفن مناظرہ میںاس کا نام ہے مصادرہ علی المطلوب یعنی جوامرمتنازعہ فیہ ہے اسے ہی بطوردلیل پیش کرنا۔زیربحث تو یہ ہے کہ حضرت مسیح اس سلسلہ متصلہ مرفوعہ(قیاس استقرا) کوتوڑ کرکیونکر بحیثیت ابن اللہ دنیا میں آگئے؟
دلیل نمبر۱۲:اگر حضرت مسیح کو حضرت آدمؑ کے ساتھ مشابہ کرنا ہے اوراس نظیرسے فائدہ اٹھانا مدنظر ہے تو جس طرح دلائل عقلیہ سے انتہائی سلسلہ نوع انسانی کا حضرت آدمؑ کی پیدائش خاص تسلیم کی گئی ہے اس طرح حضرت مسیح کا ابن اللہ ہونا یا خدا ہونا اور سلسلہ سابقہ منصہ و مثتبہ کوتوڑکر بحیثیت خدائی وابنیت خدا تعالیٰ کا دنیا میں آنا ثابت کردیں؟
دلیل نمبر۱۳:انجیل سے عیاں ہے کہ یسوع میں انسانی کمزوریاں تھیں۔مثلاً عالم الغیب نہ ہونا،صاحب قادر مطلق نہ ہونا(زبدی کی ماں کی درخواست ردکرنا)۔
دلیل نمبر۱۴:علم روح کی صفت ہے۔اگراس میں اللہ کی روح تھی بلکہ خود اللہ تھے تو قیامت سے لاعلمی کا انکارکیوں کیا۔نیک ہونے کا انکارکیا۔صلیب سے بچنے کی دعا کی۔جب یہودیوں نے نشان مانگا تو آہ کھینچ کر کہا اس زمانہ کے لوگوں کو کوئی نشان نہیں دیا جائے گا۔(مرقس۔باب ۸)
دلیل نمبر۱۵:کیامسیح میں دوروحیں تھیں ایک کامل انسان کی اورایک خدا تعالیٰ کی۔اس طرح گویا مسیح کے جسم کی دوروحیں مدبرتھیں۔ایسا کیونکرہوسکتا ہے۔اگر خدا کی روح تھی تو انسان کامل کن معنوں میں ہوئے۔
دلیل نمبر۱۶: اگردرحقیقت انسانی روح رکھتے تھے وہی مدبرجسم تھی اور وہی روح مصلوب ہوتے وقت ایلی ایلی پکارتے جان دی تھی تو خدائی روح کس شمارمیں؟دونوں صورتوں میں انسان ہوئے تو خدا نہ تھے۔خدا ہوئے توانسان نہ ہوئے۔
دلیل نمبر۱۷: باپ کامل۔روح القدس کامل۔بیٹا کامل۔ تینوں کے ملنے سے اکمل ہونا چاہیے۔۔مثلاً تین چیزیں تین تین سیرہوں تو وہ نوسیرہونگی۔
دلیل نمبر ۱۹: کیا مسیح مظہراللہ روح القدس کے سے پہلے تھے یا نزول کے بعد میں ہوئے؟
دلیل نمبر۲۰: اگرروح القدس کا نزول انسان کو خدااور مظہراللہ بنا دیتا ہے تو حضرت یحییؑ،زکریاؑ،یوسفؑ،یوشع بن نونؑ اور حواری خدا ٹھہریں گے؟
دلیل نمبر۲۱:کیا سلسلہ نبوت میں تین چیزوں کا ہونا ضروری نہیں ہے (خدا۔روح القدس۔نبی)۔مسیح کی خصوصیت کہاں رہی؟
دلیل نمبر۲۲:اب جبکہ تینوں اقنوم کامل بھی ہیں اور تینوں میں ارادہ کی صفت موجود ہے۔اب ارادہ کرنے والا،ابن ارادہ کرنے والا، روح القدس ارادہ کرنے والا۔ اب باوجوداس حقیقی تفریق کے اتحاد ماہیت کیونکر ہوا۔بےنظیری اور نظیربےحدی میں کوئی حقیقی تفریق قرار نہیں دی گئی۔ وہ کیونکر یہاں صادق آسکتی ہے؟
دلیل نمبر ۲۳:کلام مجسم ہوا تو پھریہ بھی ثابت ہوا کہ حضرت مسیح کا جسم بھی خدا تھا۔تو یہ یک نہ شد دوشد ہوئے۔
بہت ہی اعلٰی خلاصہ لکھا ہے۔