متفرق مضامین

یہ جلسہ ہمارا، یہ دن برکتوں کے

اس جلسہ پر جسقدر احباب محض للہ تکلیف سفر اٹھا کر حاضر ہوئے خدا ان کو جزائے خیر بخشے اور ان کے ہر یک قدم کا ثواب ان کو عطا فرمائے۔آمین ثم آمین

حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے قادیان میں ۲۷؍ دسمبر ۱۸۹۱ء میں اللہ تعالیٰ کے اذن سے جماعت احمدیہ کے جلسہ سالانہ کی بنیاد رکھی۔اس جلسہ کے بعد ۳۰؍دسمبر ۱۸۹۱ء کو آپؑ نے بذریعہ اشتہاراعلان فرمایا کہ ہر سال دسمبر کی ۲۹,۲۸,۲۷ تاریخ کو جماعت کا جلسہ سالانہ مرکز احمدیت میں منعقد ہواکرے گا۔ اسی اشتہار میں آپؑ نے جلسہ کی اغراض و مقاصد بیان فرمائیں۔ آپؑ نے اس کی ضرورت کو واضح کرتے ہوئے فرمایا:’’سلسلہ بیعت میں داخل ہو کر پھر ملاقات کی پرواہ نہ رکھنا، ایسی بیعت سراسربے برکت اور صرف ایک رسم کے طور پر ہوگی اور چونکہ ہر یک کے لئے بباعث ضُعفِ فطرت یا کمیٔ مقدرت یا بُعد مسافت یہ میسر نہیں آسکتا کہ وہ صحبت میں آکر رہے یا چند دفعہ سال میں تکلیف اٹھاکر ملاقات کے لئے آوے۔ کیونکہ اکثردلوں میں ابھی ایسا اشتعالِ شوق نہیں کہ ملاقات کے لئے بڑی بڑی تکالیف اور بڑے بڑے حرجوں کو اپنے پر روا رکھ سکیں۔ لہٰذا قرین مصلحت معلوم ہوتا ہے کہ سال میں تین روز ایسے جلسہ کے لئے مقرر کئے جائیں جس میں تمام مخلصین اگر خدا چاہے بشرط صحت و فرصت وعدمِ موانع قویہ تاریخ مقررہ پر حاضر ہوسکیں۔‘‘ (مجموعہ اشتہارات جلد اوّل صفحہ۳۰۲)

آپؑ نے اس جلسے کی سب سے بڑی غرض بیان کرتے ہوئے فرمایا :’’اس جلسہ کی اغراض میں سے بڑی غرض تو یہ ہے کہ تا ہرایک مخلص کو بالمواجہ دینی فائدہ اٹھانے کاموقعہ ملے اوران کے معلومات وسیع ہوں اورخدا تعالیٰ کے فضل و توفیق سے ان کی معرفت ترقی پذیر ہو۔پھر اس کے ضمن میں یہ بھی فوائد ہیں کہ اس ملاقات سے تمام بھائیوں کا تعارف بڑھے گا اور اس جماعت کے تعلقات ِ اخوّت استحکام پذیر ہوں گے۔

ما سوا اس کے جلسہ میں یہ بھی ضروریات میں سے ہے کہ یورپ اور امریکہ کی دینی ہمدردی کےلئے تدابیر حسنہ پیش کی جائیں کیونکہ اب یہ ثابت شدہ امر ہے کہ یورپ اور امریکہ کے سعید لوگ اسلام کے قبول کرنے کے لئے طیار ہو رہے ہیں…‘‘(مجموعہ اشتہارات، جلد اوّل، صفحہ ۳۴۱)

امریکہ میں رہتے ہوئے آپؑ کی یہ تحریر ازدیاد ایمان کا باعث بنتی ہے اور روح خوشی سے سرشار ہوجاتی ہے کہ مسیح دوراں کے مبارک الفاظ کیسے کیسے رنگ لاتے ہیں سبحان اللہ۔اب امریکہ میں وسیع پیمانے پرجلسہ ہائے سالانہ منعقد ہوتے ہیں، الحمدللہ۔

اہالیانِ امریکہ کو ان جلسوں سے دینی فائدہ اٹھانے اور افراد جماعت سے ملنے کا موقع میسرآتا ہے۔اللہ تعالیٰ کے حضور شکرانے کے جذبات ابھر تے ہیں۔ گھروں اور محفلوں میں جلسہ سالانہ کے تذکرے پرانی یادوں کوتازہ کرتے ہیں اوریہ قدرتی بات ہے کہ اس کے ہر ذکر کے ساتھ طائرِ تخیل ربوہ کی مقدس بستی میں پہنچ جاتا ہے۔

خاکسار کا تعلق ربوہ سے ہے اور ربوہ میں رہنے کے بہت سے روحانی فائدوں میں سے ایک فائدہ یہ بھی ہواکہ کئی سال وہاں جلسہ سالانہ مستورات کی تیاریوں، مہمانوں کے استقبال اور جلسہ کے دوران ڈیوٹیاں دینے کی سعادت ملتی رہی۔

بظاہر تو وہ تین دن کا ایک اجتماع ہوتا تھا لیکن اپنی افادیت کے لحاظ سے یہ ایک عظیم روحانی تربیت کا انتظام ہے جس کا اجرا حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ۱۸۹۱ء میں قادیان میں فرمایا تھا۔اور اسی افادیت کے پیش نظر آپؑ نے یہ اعلان فرماکر کہ یہ جلسہ ہر سال منعقد ہوا کرے گا، اس وقت کے افراد جماعت اور آئندہ آنے والی نسلوں کے لیے ایک مستقل تعلیم و تربیت، ملاقات اور یکجہتی کا لائحہ عمل ترتیب فرمادیا۔

الحمدللہ حضرت اقدسؑ کے ارشاد کی بجا آوری میں جلسہ سالانہ جماعت احمدیہ کے انعقاد کا اہتمام پورے جوش و جذبہ سے کیا جاتا ہے۔ابتدا میں تو یہ جلسہ قادیان میں ہی منعقد کیا جاتا تھا۔ قادیان دارالامان سے ہجرت کے بعد پاکستان میں یہ مرکزی جلسہ پہلے دو سال لاہور میں منعقد ہوا۔ جماعت احمدیہ کے نئے مرکز ربوہ میں ۱۹۴۹ء سے اس سالانہ جلسہ کا آغاز ہوا جو ۱۹۸۳ء تک ربوہ میں جاری رہا۔ ۱۹۸۴ء میں حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ کی برطانیہ ہجرت اور وہاں رہائش پذیر ہونے کے بعد جلسہ سالانہ برطانیہ کو بین الاقوامی اور مرکزی جلسہ کی حیثیت حاصل ہوگئی۔پاکستان میں ۱۹۸۳ءکے بعدسے اب تک یہ جلسہ فی الحال منعقد نہیں ہوا لیکن دنیا کے بہت سے بڑے ممالک میں وہاں کی سہولت کے مطابق مختلف تاریخوں میں اس جلسہ سالانہ کا اہتمام ہوتا ہے جس سے نہ صرف احمدی مسلمان بلکہ غیر از جماعت بھی کثیر تعداد میں فیض اٹھاتے ہیں۔ جلسے کی برکات بذریعہ ایم ٹی اے تو دنیا کے کناروں تک پہنچتی ہیں، الحمدللہ۔اس مضمون میں ربوہ میں خلافتِ ثالثہ اور خلافتِ رابعہ کے دور کے جلسہ ہائے سالانہ کی کچھ یادیں پیش ہیں۔

شہر ربوہ میں جلسے کی رونق

دریائے چناب کے کنارے خوبصوت پہاڑیوں سے سجا، سادہ، صاف پرسکون شہر جس میں زیادہ تر لوگ سڑکوں، بازارو ں میں پیدل چلتے ہوئے نظر آتےتھےیا آمد و رفت کے لیے سائیکل، موٹر سائیکل اور تانگہ کا استعمال ہوتا تھا۔اس وقت شہر میں اکا دُکّا ہی گاڑیاں ہوتی تھیں جس کے باعث ڈیزل اور پٹرول کی بدبو شہر میں تو کہیں محسوس نہیں ہوتی تھی البتہ بر لبِ شہر بڑی شاہراہ پر آنے جانے والی ٹریفک اپنی موجودگی کا اچھا خاصا احساس دلاجاتی۔ جلسے کے دنوں میں اس ٹریفک میں اضافہ ہوجاتا۔

جلسہ کے نزدیک دارالضیافت، منڈی اور گول بازار میں رونق بڑھنے لگتی۔ بازاروں میں نئے چہرے اور گہما گہمی نظر آتی۔مستقل بازاروں کے اطراف میں عارضی ٹھیلے سجے ہوئے ملتے جن کا جلسے کے ماحول اور یاد وں میں ایک اپنا ہی تاثر تھا۔ ان دکانوں پر دیگر اشیاء کے علاوہ موسم سرما کی مخصوص اشیائے خورو نوش بھی مہیا ہوتیں۔جن سے اہل ربوہ اور مہمان یکساں لطف اٹھاتے۔ یہ ٹھیلے جلسے کے قریب ہی منظر عام پر آتے اور جلسے کے بعد چند دن میں ہی ایک ایک کر کے اگلے جلسے تک کے لیے غائب ہوجاتے۔ لیکن اپنے پیچھے مزیدار یادیں اور تذکرے چھوڑ جاتے۔

جلسے سے چند ہفتے قبل ہی مسجدوں میں حاضری پہلے سے بڑھ جاتی۔پاکستان کے دوسرے شہروں اور دوسرے ممالک سےمہمانوں کی آمد شروع ہوجاتی تھی۔ نماز کے اوقات میں ربوہ کی گلیوں میں مناظر دیکھنے سے تعلق رکھتے تھے۔ ہر کسی کو خلیفہ وقت کی اقتدا میں نماز پڑھنے کی لگن ہوتی۔

اسی طرح بہشتی مقبرہ میں بھی مہمانوں کا آنا جانا سارا دن ہی لگا رہتا جو نہ جانے کب سے اپنے پیاروں کی قبروں پر جا کر دعا کرنے کی خواہش رکھتے تھے۔بہشتی مقبرہ کے احاطۂ خاص میں مدفون بزرگوں کی قبروں پر دعا سے اس کا آغاز ہوتا اور اس میں جانے کے لیے بعض اوقات باری کا انتظار کرنا پڑتاتھا۔

لنگر خانہ کے کام میں تیزی آجاتی، روٹی بنانے کی مشینوں کا کام بھی پہلے ہی شروع ہوجاتا۔ایک بار لنگر خانہ میں کام کرنے والوں کی کمی کی وجہ سے خواتین کو بھی گھر وں سے روٹی بنا کر لنگر خانہ کی ضرورت پوری کرنے کی توفیق ملی۔

جلسہ کی تیاری

جلسہ دسمبر کے مہینے میں ہوتا تھا۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بیان فرمودہ جلسہ کے اغراض و مقاصد کی روشنی میں اور خلیفۂ وقت کی ہدایات کے مطابق، جماعتی سطح پر کافی عرصہ پہلے ہی جلسہ کی تیاریوں کا آغاز ہوجاتا تھا۔

جلسہ مستورات کی تیاری ومنصوبہ بندی

جلسہ مستورات کی تیاری ومنصوبہ بندی کے لیے لائحہ عمل تیار کرنے کے بعد انتظامی امور کی انجام دہی کے لیے مختلف شعبہ جات ترتیب دیے جاتے ممبرات لجنہ اما ء اللہ اور ناصرات کومختلف خدمات تفویض کی جاتیں۔پھر نقشہ انتظام جلسہ سالانہ مستورات شائع کردیا جاتا تاکہ ہر منتظمہ اپنی نائبات اور معاونات کو ان کے سپرد کام کے متعلق آگاہی دے سکے۔ محترمہ ناظمہ جلسہ سالانہ کی دی گئی ہدایات کے مطابق مفوضہ فرائض سمجھا دیے جاتے۔ ٹریننگ کے لیے لجنہ اماء اللہ کی زیر نگرانی اجلاس منعقد ہوتے تھے۔ اللہ تعالیٰ کی تائید اور نصرت سے ہر کام میں ایک ترتیب اور برکت نظر آتی جو مستعد دلوں کی تربیت میں اور نکھار پیدا کرتی۔ اسی جذبہ سے کثیر تعداد میں بچیاں اور مستورات اپنے آپ کو ڈیوٹیوں کے لیے پیش کرتی تھیں۔ جلسے کے کاموں کی یہ بہت نمایاں خوبصورتی ہے کہ ہر کوئی محض للّہی اس عظیم انتظام میں خلوص اوراطاعت کے جذبہ سے اس طرح حصہ لیتا ہے کہ مشکل سے مشکل کام بھی معجزانہ طورپر آسان ہوتے چلے جاتے ہیں جس کی دنیا میں اور کہیں بھی مثال نہیں ملتی۔

ڈیوٹی کے لیے بِلّے( Badges)بنائے جاتے جس پر ڈیوٹی کا درجہ اور شعبہ لکھا جاتا مثلاً منتظمہ خدمت خلق، نائبہ منتظمہ خدمت خلق۔معاونہ خدمت خلق وغیرہ۔ Badgeملنے پر ذمہ داری کا احساس ہوتا اورجلسے کے لیے جو ش و جذبہ پہلے سے بہت بڑھ جاتا۔

گھروں میں جلسہ کی تیاری

جلسہ سالانہ کی تیاری اور پروگراموں کی ترتیب جہاں جماعتی سطح پر ہوتی وہاں اہالیانِ ربوہ بھی اپنے گھروں کو جلسہ کےلیے تیار کرنے میں مصروف نظر آتے تھے۔ ایک عید کا ساسماں ہوتاتھا۔

ہم جو اس وقت طالب علمی کےدور سے گزررہے تھے اور دسمبر میں نوماہی امتحانات سے فراغت کے بعد موسم سرما کی چھٹیاں ہوتی تھیں۔ ایسے میں جلسہ کی آمد ایک خاص تفریح بن جاتی۔ جلسہ کے مہمانوں کی آمد، عزیزو اقارب سے ملاقات اور پھر خالص روحانی ماحول میں تین دن جلسہ گاہ میں گزارنا ایک بہت بڑی سعادت تھی۔

گھروں میں خواتین میزبانی کے انتظامات اور تیاریوں میں مصروف ہو جاتیں۔ چھوٹے موٹے تعمیری کام، مرمتیں، سفیدیاں رنگ و روغن اور سجاوٹ کا خاص اہتمام اور وقت سے پہلے پکوان کی تیاریاں شروع ہوجاتیں۔ نئے لحاف، نئے بستر بنتے۔ نئے برتنوں کا اضافہ کیا جاتا۔ مجھے یہ بھی یاد ہے کہ نئے کپڑے بنوائے جاتے یا اچھے کپڑے جلسہ کے لیے سنبھال کر رکھ لیے جاتے جیسے عید کے لیے رکھے جاتے ہیںتاکہ مہمانوں سے ملیں تو ہمارے لباس سے بھی ہماری خوشی کا اظہار ہو۔یہ بھی ایک طرح سے اکرامِ ضیف میں شامل ہے۔

میزبانی کے انتظامات کی مختلف صورتیں دیکھنے کو ملتی تھیں۔بالخصوص کسیر یعنی پرالی کے گٹھے گھروں، بیرکس، دوسری عارضی قیام گاہوں اور جلسہ گاہ کے لیے مہیا کیے جاتے تھے۔ یہ کسیر فرشوں پر بستر کے نیچے بچھانے کے لیے استعمال ہوتی تھی اوروسیع و عریض جلسہ گاہوں میں حاضرین جلسہ گاہ کے بیٹھنے کے لیے استعمال کی جاتی تھی۔ ایک عام سے سائز کے گھر میں بھی بعض اوقات چالیس پچاس سے بھی زیادہ مہمان ٹھہرجاتے تھے۔یہ نظارہ دیکھنے کے لیے کچھ تفصیل میں جانا پڑے گا۔ کمروں سے معمول کا فرنیچر وغیرہ ہٹا دیا جاتا اور پھر خالی کمروں کے فرشوں پر پرالی بچھا کر اس پر بستر ڈال دیے جاتے تھے جیسے آج کل میٹریس وغیرہ استعمال ہوتے ہیں۔خواتین اور مرد حضرات کے لیے علیحدہ علیحدہ کمرے اور قیام گاہیں مختص کی جاتی تھیں۔ بہت سے گھروں میں ایسے ہی انتظامات ہوتے تھے اورمیزبان خود عام طورپر سٹور روم میں یا کسی ایسے ہی حصے میں اپنے بستربچھا لیتے اور گھر کا بہترین حصہ حضرت مسیح موعودؑکے مہمانوں کی خدمت میں پیش کردیتے۔ایک گھر کی محدود سہولتوں کے باوجود سب مل جل کر بخوشی گزارا کرتے۔کیونکہ اس کے پیچھے ایک ہی مقصد ہوتا تھا کہ حضرت اقدسؑ کی توقعات اوران کے اپنے پاک نمونہ کے مطابق جلسہ کے مہمانوں کی خدمت کرنی ہے۔

دسمبر کے مہینے میں جلسے کی تاریخوں کے قریب تو تیاریاں عروج پر ہوتیں۔

یوں توربوہ میں عمومی طورپر صفائی کا معیار بہت اچھا تھا لیکن جیسے جیسے جلسے کے دن قریب آتے توجماعت کے دفاتر، دیگر عمارتوں یہاںتک کہ سبزہ زاروں، درختوں اور پھولوں کی کیاریوں وغیرہ کی تزئین کا بھی خاص خیال رکھا جاتا تھا۔ نمایاں جگہوں پر جلسے سے متعلق خوش آمدید، تہنیتی پیغامات اور دعائیہ کلمات لکھے جاتے تھے۔ اورایسا لگتا تھا کہ پورا شہر اور اس شہر کا ہر گھر اپنے مکینوں سمیت حضرت مسیح موعودؑ کے مہمانوں کے استقبال اور میزبانی کے لیے بازو کھولے تیار کھڑا ہے کہ اے مسیح موعودؑ کے مہمانو! ہمارے گھر میں آکر قیام کرو تاکہ ہمارے گھر تمہارے وجود کی برکتوں سے بھر جائیں۔یہ جذبہ آج بھی ایسے ہی یاد ہے اور اس کی یاد آج بھی لہو کو گرمادیتی ہے۔

ریلوے سٹیشن پر اوربسوں کےاڈہ پر مہمانوں کے استقبال کےلیے خدام کی ڈیوٹیاں لگتیں۔کچھ لوگ توصرف یہ ایمان افروزمناظردیکھنے کے لیے وہاں پہنچ جاتے۔ خاندانوں اور قافلوں کی صورت میں مہمان ربوہ کی بستی میں اترتے۔ ان کے چہروں پر مرکزِ احمدیت، خلیفۂ وقت کے مسکن میں آنے کی خوشی اور شکرانے کے آنسو دیکھنے سے تعلق رکھتے تھے جو بزبان حال یہ کہہ رہے ہوتے تھے کہ ؂

پھر آئے ہیں آئے ہیں جلسے میں ہم

بصد شوق و جذبۂ نو دم بہ دم

سروں پر خلافت کا سایہ لیے

مئے شوق کے ساغر و خُم پئے

جلا کر دلوں میں وفا کے دیے

اطاعت کو سینوں میں روشن کیے

پھر آئے ہیں آئے ہیں جلسے میں ہم

میزبان یا ڈیوٹی پر موجود خدام مہمانوں کو ان کی جائے قیام تک بصد احترام پہنچا کر آتے۔ گھروں کے علاوہ بیرکس اور جامعہ نصرت اور نصرت گرلز ہائی سکول میں بھی خواتین کے لیے علیحدہ قیام وطعام کا انتظام ہوتا تھا۔

دن اور رات کا کوئی بھی پہر ہو ہر گلی کوچہ جاگ رہا ہوتا تھا۔ سارا دن گلی میں تانگوں کے گزرنے اوررکنےکی آوازیں آتیں۔ مہمانوں کے اترنے اور سامان اتارنے کے مراحل پر مشتمل یہ پُر لطف سا شور رات گئے تک جاری رہتا۔جن کے گھر مہمان آجاتے تو گویا ان کا جلسہ اسی وقت سے ہی شروع ہوجاتا۔ بچھڑے ہوئے رشتہ دار ملتے، رات گئے تک محفلیں لگتیں، دکھ سکھ پھولے جاتے اور وہ وقت کئی جہات سے بہت ہی با معنی اورخوبصورت ہوجاتا۔

صبح سویرے ہی گھروں میں ٹھہرے ہوئے مہمانوں کے لیے لنگر خانہ سے کھانا لانے اور صبح کی شفٹ کی ڈیوٹی پر جانے والوں کا رش شروع ہوجاتا۔ بیرکس میں بھی علی الصبح ہی ناشتے کی تیاری شروع ہوجاتی تھی۔ صبح بیرکس میں جاکر بڑی بڑی کیتلیوں میں گرم چائے بھر کر کھانے کے ساتھ ہر کمرے میں جا کر سب کو پیش کی جاتی۔ کچھ بچیاں آب رسانی کے فرائض سر انجام دیتی نظر آتیں۔ مٹی کے آبخورے اور سٹیل کے برتن وغیرہ استعمال ہوتے تھے۔ سارا سال ہی گھروں میں اچھے کھانے بنتے ہیں لیکن جلسے کے دنوں میں مسیح کے لنگر کی مخصوص خوشبو والی لذیذ دال اور آلو گوشت اور گرما گرم روٹیوں کا ذائقہ اور معیارانہی دنوں کے ساتھ مخصوص تھا۔

جلسے کی کارروائی

جلسے کے تین دن کی کارروائی کا نظارہ الفاظ میں بیان کرنا یاا س کا حسن کسی تصویر میں دکھانا مشکل ہے۔عاشقانِ خلافت کے لیے سب سے بڑی کشش خلیفۂ وقت کا بابرکت وجود ہے۔جلسہ میں ان کے خطابات سننا، خاص طور پر جلسہ گاہ مستورات میں ان کا خطاب سننا، ان کی اقتدا میں نماز پڑھنا، ان کی دعائیں حاصل کرنا بہت بڑی سعادت محسوس ہوتی ہے۔بہت سے خوش نصیب قریب سے ان کے دیدار اور ملاقات کا شرف بھی حاصل کرتے۔بالخصوص ان دنوں میں خاندان حضرت مسیح موعود ؑکی خواتین مبارکہ سے ملاقات ہوجاتی تھی جو ایک قابل تقلید نمونہ کے ساتھ جلسہ گاہ کے سٹیج، اور دوسرے حصوں میں امور انتظام سنبھالتے ہوئے دکھائی دیتی تھیں۔ مقررین کی علم و فیض سے بھرپور تقاریر سننے کاموقع میسر آتا۔جلسے پر آتے جاتے جماعت کی بہت سی بزرگ شخصیات کو دیکھنے کا بھی موقع ملتا۔

اندرون جلسہ گاہ کا نظارہ بھی خوب یاد ہے۔وسیع کھلا میدان جس میں کسیر بچھی ہوتی تھی۔ ایک طرف سٹیج اور اس کے قریب کرسیوں والا حصہ جس پر شامیانہ لگا ہوتا تھا۔ ہم گھروں سے کسیر پر بچھانے کے لیے چادراور جائے نماز اور کچھ کھانے پینے کے لوازمات وغیرہ ساتھ لے کر جاتے تھے۔ جلسے کے سیشن قدرے طویل دورانیہ کے ہوتے تھے۔سخت سردی اور بعض اوقات ہلکی بارش کی پھوار میں بھی کسیر پر بیٹھ کر گھنٹوں جلسہ کی لمبی لمبی تقاریر پورے جذب کے ساتھ سنی جاتی تھیں۔ اس دوران پیش کیے جانے والے منظوم کلام اور پُر شوکت نعرہ ہائے تکبیر اس محویت میں اوربھی اضافہ کرتے تھے۔

جلسے کے دنوں میں عبادتوں کے معیار بھی بہت بڑھ جاتے، جلسہ سالانہ کی کامیابی کے لیے خصوصی دعائیں،نماز تہجد،باجماعت نمازیں، قرآن کریم کی تلاوت کا خصوصی اہتمام ہوتا اور بعض لوگ جلسہ کی کامیابی کے لیے روزے بھی رکھتے۔

جلسے کا اختتام

جلسے کے اختتام کے بعد بھی چند دن یہ گہما گہمی رہتی۔ رشتہ داروں سے گھروں میں میل ملاقات ہوتی۔ بڑے مل بیٹھتے اور بچوں کے مستقبل یعنی رشتوں پر بات ہوتی، بہت اپنائیت تھی اس معاملہ میں۔ یوں جہاں قریبی رشتہ داروں سے ملاقات ہوتی وہاں اور کئی نئے رشتے بھی طے پاجاتے۔لوگ اکثر ان چھٹیوں میں ہی ربوہ میں ایسی تقریبات کا پہلے سے اہتمام کر کے آتے تھے تاکہ اس میں جلسے پر آئے ہوئے سارے عزیزو اقارب شامل ہوسکیں۔

مہمانوں کی روانگی

اس کے بھی عجیب اداس نظارے دیکھنے کو ملتے تھے۔ لوگ اگلے سال پھر یہ برکتیں حاصل کرنے کے عزم اوردعاکے ساتھ اپنے گھروں کو روانہ ہوتے۔ جلسے میں سنے گئے حقائق و معارف کا زادِ راہ اگلے سال تک کے لیے ساتھ ہوتا۔ بیرون از ربوہ جلسہ میں شمولیت کے لیے آنے والے بعض مخلصین ذاتی شوق کی بنا پر جلسہ کی تقاریر اور کارروائی کو ریکارڈ کرنے کا اہتمام کرتے تاکہ سارا سال اپنے گھروں میں اپنے اہل خانہ کے ساتھ پُرمعارف تقاریر سے مستفیض ہوتے رہیں۔ مسیح موعودؑ کے لنگر کی روٹی بھی بطور تبرک احتیاط سے سامان میں رکھی جاتی۔ عقیدت کے نرالے انداز ہیں۔

گھر واپس جاتے ہوئے عموماً خوشی ہوتی ہے لیکن مرکز سے اور اپنوں سے بچھڑتے ہوئے یہ احساس بھی ہوتا کہ یاقسمت یا نصیب سال کے بعد ربوہ کے خالص اسلامی ماحول میں گزارے ہوئے دن پھر سے دیکھنا نصیب ہوںگے۔ایسے دن جو ربّانی تذکروں اور پر سوز اجتماعی دعاؤں کی وجہ سے لوگوں کے دل اور زندگیاں بدلنے کی تاثیر رکھتے ہیں۔

مہماں جو کر کے الفت آئے بصد محبت

دل کو ہوئی ہے فرحت اور جاں کو میر ی راحت

پر دل کو پہنچے غم جب یاد آئے وقت رخصت

یہ روز کر مبارک سبحان من یرانی

’’سب جلسےبہت اچھے ہوتے ہیں‘‘

وہ لوگ جنہیں قادیان یا ربوہ کے جلسے میں شمولیت کا موقع نہیں ملا اور اس کی صرف تفصیلات سنتے ہیں وہ ضرور سوچتے ہوںگے کہ دور حاضر کے کسی بھی ملک کے جماعت احمدیہ کے جلسے اور ربوہ، پاکستان کے جلسے میں کوئی نمایاں فرق نہیں۔ یہ بات درست بھی ہے۔ کیونکہ اصل تو جلسے کی غرض و غایت اور اس میں بیان کی جانے والی اللہ اور اس کے رسولﷺ کی تعلیمات ہیں۔ یہ حقیقت بھی ہمیشہ مسلّم رہے گی کہ وہ جلسے جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بستی میں باذن اللہ تعالیٰ قرار پائے، جن جلسوں کے دوران اللہ تعالیٰ نے بعض الہامات کو پورا ہوتے ہوئے دکھایا، اوراس بستی میں ہونے والے جلسے جو اللہ تعالیٰ کے مقرر کردہ خلیفہ کا مسکن ہو جیسے ربوہ دارالہجرت اور لندن اور ہر وہ جلسہ جس میں خلفائے وقت بنفس نفیس شریک ہوں وہ تمام جلسے باقی جلسوں سے ممتاز ہوجاتے ہیں۔اسی طرح بعض جلسے اپنے حالات و واقعات کی وجہ سے سب کے لیے یا کچھ لوگوں کے لیےمنفرد حیثیت اختیار کرجاتے ہیں۔ وہ جگہیں بابرکت ہوجاتی ہیں جہاں یہ جلسے منعقد کیے جاتے ہیں۔ ابتدائی جلسوں کی یادیں اس لیے بھی اچھی لگتی ہیں کہ ہمارےبزرگوں نے وہ جلسے قادیان میں حضرت مسیح موعودؑ اور ان کے اصحابؓ کی صحبت میں دیکھے۔ ہمارے والدین نےربوہ میں ان میں شمولیت کی،ان سے اپنے بڑھتے ہوئے ایمان اور فیض کو آئندہ آنے والی نسلوں یعنی ہم میں منتقل کیا جس کا اب ہم بھی مشاہدہ کرتے اور لطف اٹھاتے ہیں۔جلسوں میں اوران کے مقام میں اللہ تعالیٰ ایک برکت رکھ دیتا ہے جس کا ایک تسلسل ہے جو ہر آنے والے جلسے میں منتقل ہوتا رہتا ہے۔

حضرت مصلح موعود ؓنے ۱۹۴۸ء میں جماعت کے نئے مرکز احمدیت یعنی ربوہ کے قیام کے موقع پر فرمایا:’’قادیان کی تقدیس اسلام کی اشاعت اور اسلامی تعلیم کے قیام کا مرکز ہونے کی وجہ سے تھی۔ اگر یہ چیز اب قادیان کے بجائے کسی اور مقام سے شروع ہوجائے گی تو وہ مقام بھی بابرکت ہوجائے گا۔ اس طرح جس طرح ہجرتِ نبویؐ کے بعد گو مکّہ بھی بابرکت رہا مگر خدا نے مدینہ کو برکت دے دی۔ جس طرح گو اصل مسجد خانہ کعبہ ہے مگر مسلمان ہر جگہ اس کی نقل میں مسجد بناتے ہیں اور وہ مسجد بابرکت ہوجاتی ہے۔ اس طرح گو ہمارا مرکز قادیان ہے لیکن اس کی نقل میں جو بھی مرکز بنیں گے یقیناً وہ سبھی بابرکت ہو جائیں گے۔ جس طرح خدا نے مکے اور مدینے کو برکت دی میں تمہیں یقین دلاتا ہوں کہ اس کے خزانے میں ابھی اور بھی بہت سی برکتیں ہیں۔تم صرف نیک نیتی سے دین کی خدمت کرنے کا تہیہ کرلو پھر جس جگہ مرکز بناؤ گے وہ مقدس ہوجائے گی۔‘‘(بحوالہ الفضل ۲۸؍دسمبر۱۹۴۸ء صفحہ ۳)

اسی طرح حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ نے جلسہ سالانہ یوکے کے بارے میں فرمایا:’’یہ وہ جلسہ ہے جو ایک عالمی نوعیت اختیار کرچکا ہے۔ سب جلسے بہت اچھے ہوتے ہیں محض اللہ کی خاطر دُور دُور سے لوگ اکٹھے ہوتے ہیں بہت سے فوائد باہمی محبت کے ذریعے بھی بڑھتے ہیں اور دیگر روحانی اور آسمانی برکات بھی بکثرت نازل ہوتی ہیں۔ جرمنی کا جلسہ بھی بہتر غیر معمولی نوعیت اختیار کرچکا ہے کینیڈا کا بھی اپنا رنگ رکھتا تھا امریکہ کا بھی، دور دور سے مہمان آتے ہیں اور ان سے مل کر محبتیں تازہ ہوتی ہیں پرانی یادیں پھر زندہ ہوجاتی ہیں اور آئندہ کے لیے گویا زادِ راہ مل جاتا ہے۔ بعض جلسے ایسے ہیں اتنا روحانی زاد چھوڑ جاتے ہیں ایسی غذا پیچھے چھوڑ جاتے ہیں کہ سارا سال یادوں میں ان کو کھا یا جاتا ہے اور وہ ختم نہیں ہوتیں۔مگر یوکے یعنی United Kingdom کا جو جلسہ ہے اس کی اپنی ایک شان ہے۔ اس کثرت سے دور دراز سے، مشرق و مغرب، شمال و جنوب سے دنیا کے کسی جلسے میں لوگ اس طرح اکٹھے نہیں ہوتے جیسے انگلستان کے جلسے میں آتے ہیں اس لئے اس پہلو سے اسے ایک مرکزیت حاصل ہوگئی ہے۔ ‘‘ (جلسہ سالانہ، شائع کردہ جماعت احمدیہ برطانیہ صفحہ ۶۳)

دورِ حاضر میں اللہ تعالیٰ کے فضل سے دنیا کے بہت سے ممالک میں جماعت احمدیہ جلسوں کا انعقاد کرتی ہے۔او رجہاں بھی مقامی یا ملکی سطح پر جماعت کا جلسہ سالانہ منعقد ہوتا ہے بانئ جماعت احمدیہ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کے نمائندہ حضرت خلیفۃ المسیح ایدہ اللہ تعالیٰ کی اجازت اور ہدایات کے مطابق ہوتا ہے۔ اب بھی ایسے ہی انتظامات، رونقیں اور برکتیں ہوتی ہیں۔اللہ تعالیٰ کی تائید و نصرت کے نظاروں سے نہ صرف احمدی بلکہ غیراز جماعت بھی مستفید ہوتے ہیں۔ میزبان جماعتیں اور مہمان مل کر جلسے کی کامیابی کے لیے بھرپور کردار ادا کرتے ہیں۔ الغرض جماعت کا ہر پروگرام اور ہر جلسہ ہی بہت قابل احترام ہے اور اس میں شامل ہونا باعث صد افتخار ۔

ربوہ کے جلسوں کو اس شدت سے یاد کرنے کی ایک بڑی وجہ یہ بھی ہے کہ بوجوہ فی الحال وہاں جلسے نہیں ہورہے۔جلسے کے انتظار اور تیاریوں میں جو دن گزارے جاتےہیں وہ بھی بہت برکتوں اور دعائیں کرنے کے دن ہیں۔ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ ربوہ میں پھر سے جلسوں کا انعقاد ہو۔ اور ہم سب اور ہماری نسلیں اس پیاری بستی میں پھر سے ان رونقوں اور برکتوں کا اپنی آنکھوں سے مشاہدہ کرسکیں۔

اللہ تعالیٰ ہمیں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے جلسے سے متعلق ان ارشادات کی روشنی میں جلسوں میں شامل ہونے کی توفیق عطا فرمائے۔ آپؑ نے فرمایا: ’’ اس جلسہ کو معمولی جلسوں کی طرح خیال نہ کریں۔ یہ وہ امر ہے جس کی خالص تائیدِ حق اوراعلائے کلمہ اسلام پر بنیاد ہے۔ اس سلسلہ کی بنیادی اینٹ خدا تعالیٰ نے اپنے ہاتھ سے رکھی ہے اوراس کے لئے قومیں طیار کی ہیں جو عنقریب اس میں آملیں گی کیونکہ یہ اس قادر کافعل ہے جس کے آگے کوئی بات انہونی نہیں۔‘‘(مجموعہ اشتہارات جلد اول صفحہ ۳۴۱، ایڈیشن ۱۹۸۹ء)

’’ہر یک صاحب جو ا س للہی جلسے کے لئے سفر اختیار کریں خدا تعالیٰ ان کے ساتھ ہو اور ان کو اجرعظیم بخشے اور ان پررحم کرے۔ اور ان کی مشکلات اور اضطراب کے حالات ان پر آسان کر دیوے اور ان کے ہمّ و غم دور فرمادے۔ اور ان کو ہریک تکلیف سے مخلصی عنایت کرے۔ اور ان کی مرادات کی راہیں ان پرکھول دیوے۔ اور روزِآخرت میں اپنے ان بندوں کے ساتھ ان کو اٹھاوے جن پراس کا فضل ورحم ہے۔اور تااختتام سفر ان کے بعد ان کاخلیفہ ہو۔‘‘ (اشتہار ۷؍دسمبر ۱۸۹۲ء۔مجموعہ اشتہارات جلد اول صفحہ ۳۴۲)

’’اس جلسہ پر جس قدر احباب محض للہ تکلیف سفر اٹھا کر حاضر ہوئے خدا ان کو جزائے خیر بخشے اور ان کے ہر یک قدم کا ثواب ان کو عطا فرمائے۔آمین ثم آمین۔‘‘(مجموعہ اشتہارات جلد اوّل صفحہ ۳۰۳)

اللہ تعالیٰ ہمیں آپؑ کی ان دعاؤں کا وارث بنائے۔

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button