پسرِ موعود کے ظہور کے بعد پہلا جلسہ اور بعض ایمان افروز واقعات
مصلح موعود کا ظہور مذہبی دنیا میں ایک زبردست تہلکہ مچا دینے والا واقعہ تھا۔… اس کی اہمیت تقاضا کررہی تھی کہ پورے زور کے ساتھ یہ آواز بلند کر دی جائے جس سے ہندوستان کے کونے کونے میں یہ گونج چلی جائے کہ وہ پسر موعود ظاہر ہوچکا ہے۔
جنوری1886ء میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے حضرت اقدس مرزا غلام احمد قادیانی ؑکو حصول نشان کے لیے خلوت نشین ہو کر دعائیں کرنے کا حکم ملا اور اس بارے میں یہ الہام ہوا کہ ’’ایک معاملہ کی عقدہ کشائی ہوشیار پور میں ہوگی‘‘(تذکرہ صفحہ 106)
سیرت المہدی حصہ اوّل صفحہ 62میں حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحبؓ نے حضرت میاں عبداللہ صاحب سنوریؓ کے حوالہ سے روایت بیان کی ہے کہ حضورعلیہ السلام کا اول سوجان پور ضلع گورداسپور میں جا کر خلوت نشین ہو کردعائیں کرنے کا پروگرام تھا۔ مگر پھر اس سفر کے متعلق حضور کو سفر سوجان پور کے متعلق الہام ہوا کہ’’تمہاری عقدہ کشائی ہوشیار پور میں ہوگی ‘‘چنانچہ آپ نے سوجان پور جانے کا ارادہ ترک کر دیا۔(سیرت المہدی جلد اول صفحہ 62)
چنانچہ آپؑ 22؍جنوری 1886ءکواپنے مخلص مریدوں حضرت مولوی عبداللہ صاحب سنوریؓ اور حضرت شیخ حامد علی صاحبؓ نیز ایک اور ساتھی فتح خاں صاحب (ساکن رسول پور ضلع ہوشیار پور) کے ساتھ ہوشیار پور تشریف لے گئے اور حضرت شیخ مہر علی صاحب کے ایک بالاخانہ میں فروکش ہوئے اور پوری خلوت نشینی اختیار فرماتے ہوئے چلّہ کشی کی۔
اس عظیم مجاہدے کے دوران اللہ تعالیٰ کی طرف سے حضور علیہ السلام پر آسمانی افضال و انوار کے بے شمار دروازے کھولے گئے اور مکالمات و مخاطبات سے نوازا گیا۔ اس سلسلے میں حضرت مولوی عبداللہ صاحب سنوریؓ کی روایت ہے کہ میں کھانا چھوڑنے اوپر جایاکرتا تھا اورحضور سے کوئی بات نہیں کرتا تھا۔ مگر کبھی حضور مجھ سے خود کوئی بات کرتے تھے تو جواب دے دیتا تھا ۔ایک دفعہ حضرت صاحب نے مجھ سے فرمایا:’’میاں عبداللہ !ان دنوں میں مجھ پر بڑے بڑے خدا تعالیٰ کے فضل کے دروازے کھلے ہیں اور بعض اوقات دیر دیر تک خدا تعالیٰ مجھ سے باتیں کرتا رہتا ہے۔ اگران کو لکھا جاوے تو کئی ورق ہوجاویں‘‘(سیرت المہدی جلد اول صفحہ 64)(تاریخ احمدیت جلد 8 صفحہ 479 ایڈیشن 2007ء قادیان )
پیشگوئی مصلح موعود
حضرت مسیح موعودؑ نے چلّہ کشی کے دوران اسلام کی آسمانی فتح کے لیے اللہ تعالیٰ کے حضور جو دعائیں کیں خدا تعالیٰ نے انہیں قبول فرمایا۔ اور وعدہ کے موافق ایک ایسے لڑکے کی پیدائش کی خبر دی جس کے ذریعہ دین اسلام کا شرف اور کلام اللہ کا مرتبہ لوگوں پر ظاہر ہونا تھا۔ اور جو رحمت کا ایک نشان تھا۔ اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی اس پیشگوئی کے عین مطابق تھا جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے چودہ سو سال پہلے مسیح موعود اور امام مہدی کے بارے میں فرمائی تھی کہ یَتَزَوَّجُ وَیُوْلَدُ لَہٗ وہ شادی کریں گے اور انہیں ایک عظیم الشان صفات کا حامل بیٹا دیا جائے گا۔ چنانچہ حضرت مسیح موعودؑ نے بارگاہ الٰہی سے الہام پا کر پیشگوئی مصلح موعود 20؍فروری 1886ء کے اشتہار میں شائع فرمائی جو جماعت احمدیہ میں پیشگوئی مصلح موعود کے نام سے مشہور ہے۔
حضرت صاحبزادہ مرزا طاہر احمد صاحب (خلیفۃ المسیح الرابعؒ) سوانح فضل عمر کی جلد اوّل میں فرماتے ہیں:’’سب سے زیادہ قابل فخر اور سب سے اعلیٰ و اولیٰ ان پیشگوئیوں میں وہ پیشگوئی ہے جو ہمارے آقا و مولیٰ سب نبیوں کے سردار حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس بارہ میں فرمائی۔ چنانچہ حضرت عبداللہ بن عمرؓ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں:یَنْزِلُ عِیْسَی بْن مَرْیْم اِلیٰ الْاَرْضِ یَتَزَوَّجُ وَیُوْلَدُ لَہٗ حضرت عیسیٰ علیہ السلام دنیا میں تشریف لائیں گے اور شادی کریں گے اور ان کو اولاد دی جائے گی۔
اس حدیث کی تشریح فرماتے ہوئے حضرت مرزا صاحب (مسیح موعود علیہ السلام) فرماتے ہیں:
’’…آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ تعالیٰ سے خبر پاکر فرمایا کہ مسیح موعود شادی کریں گے اور ان کے ہاں اولاد ہوگی۔ اس میں اس امر کی طرف اشارہ کیا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ انہیں ایسا نیک بیٹا عطا کرے گا جو نیکی کے لحاظ سے اپنے باپ کے مشابہ ہوگا نہ کہ مخالف اور وہ اللہ تعالیٰ کے معزز بندوں میں سے ہوگا۔‘‘(ترجمہ عربی عبارت آئینہ کمالات اسلام حاشیہ صفحہ 578ایڈیشن 1984ء لندن) (سوانح فضل عمر جلد اول صفحہ 65)
انبیاء کو قبولیت دعا کا نشان
یہ بات ہر ایک شخص کے ذہن میں مستحضر رہنی چاہیے کہ دنیا کے ایک لاکھ چوبیس ہزار انبیاء کی اس بات پر گواہی موجود ہے کہ خدا تعالیٰ بولتا ہے۔ اس کی صفت تکلم نہ کبھی معطل ہوئی اور نہ ہوگی۔ خدا تعالیٰ ہمیشہ سے ہر نبی کو اس کی صداقت کا نشان دیتا چلا آیا ہے۔ اور ہر نبی کو اس کے حالات اور مواقع کے مطابق قبولیت دعا کا نشان دیا گیا۔ اور اگر نبی سے یہ نشان لے لیا جائے تو اس کا نبی ثابت ہونا ہی ناممکن اور محالات میں سے ہوجائے گا۔ خدا تعالیٰ انبیاء کی دعاؤں کو قبول فرماتا ہے۔ جس طرح حضرت عمرؓ کا قبول اسلام آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی دعا کا نتیجہ تھا۔اسی طرح حضرت ابوہریرہؓ کی والدہ کا قبول اسلام آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی دعا کا نتیجہ تھا یہی دعائیہ معجزات ہوتے ہیں جو وقت کے امام اور نبی کو خدا تعالیٰ کی طرف سے دیے جاتے ہیں اور اسی نہج پر ہم حضرت اقدس مسیح موعودؑ کو جب دیکھتے ہیں تو ہمارے ایمانوں میں مزید تقویت اور جِلا پیدا ہوجاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کی اس دعا کو قبولیت بخشی۔ اور حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشگوئی کے مطابق آپ کو یہ رحمت کا نشان دیا گیا۔ اور جس نے ’’مصلح موعود‘‘کا لقب پایا۔
حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمدؓ ہی مصلح موعود ہیں
حضرت مسیح موعودؑ کی پیشگوئی مصلح موعود کے مطابق 12؍ جنوری 1886ء کو آپ کے ہاں حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر الدین محمود احمدصاحب ؓکی ولادت باسعادت ہوئی اور پھر آپ حضرت خلیفۃ المسیح الاولؓ کی وفات کے بعد حضرت مسیح موعودؑ کے دوسرے خلیفہ اور جانشین بھی بنے۔ایک جہان اس بات کا شاہد ہے کہ پیشگوئی مصلح موعود میں بیان کردہ 52 علامات ساری کی ساری آپؓ کی ذات میں جمع تھیں۔ بعض مواقع پر صحابہ اور دیگر بزرگان نے آپؓ کو مشورہ بھی دیا کہ جب تمام نشانیاں اور علامات آپ میں موجود ہیں تو پھر آپ مصلح موعود ہونے کا دعویٰ کردیں لیکن آپ نے ایسا نہ کیا جب تک کہ اللہ تعالیٰ سے آپ کو اس کی خبر نہ ملی۔
سفر لاہور اور مصلح موعودہونے کا انکشاف
حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب خلیفۃ المسیح الثانی ؓنے حضرت سیدہ امّ طاہر کی تشویشناک بیماری کے باعث لاہور کا سفر اختیار فرمایا اور مکرم شیخ بشیر احمد صاحب بی اے،ایل ایل بی ایڈووکیٹ کی کوٹھی واقع 13 ٹیمپل روڈ میں قیام فرمایا۔
5؍6؍جنوری 1944ء کی درمیانی شب کو ایک عظیم الشان رؤیا کے ذریعہ آپؓ پر منکشف ہوا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے 20؍فروری 1886ء کو جس موعود بیٹے کی پیدائش کا اعلان ہوشیار پور کی سرزمین سے فرمایا تھا اور جس کے متعلق یہ بتایا گیا تھا کہ وہ مسیحی نفس ہوگا ، جلد جلد بڑھے گا، علوم ظاہری و باطنی سے پُر کیا جائے گا ، زمین کے کناروں تک شہرت پائے گا اور قومیں اس سے برکت پائیں گی وغیرہ وغیرہ اس پیشگوئی کے مصداق آپؓ ہی ہیں۔
مصلح موعود کا پُرشوکت دعویٰ
اس انکشاف کے بعد حضورؓ27؍ جنوری1944ء کو قادیان تشریف لائے اور اگلے روز 28؍جنوری 1944ء کومسجد اقصیٰ قادیان کے ممبر پر رونق افروز ہوکر ایک مفصل خطبہ جمعہ ارشاد فرمایا جس میں پہلے تو اپنی تازہ رؤیا بالتفصیل بیان فرمائی اور پھر پُرشوکت اعلان فرمایاکہ’’میں ہی مصلح موعود کی پیشگوئی کا مصداق ہوں۔‘‘ یہ رؤیا اور خطبہ جمعہ کا ایک حصہ تفصیل کے ساتھ تاریخ احمدیت جلد 8 صفحہ 491تا 506 پر درج ہے۔
قادیان میں جشن مسرت
تاریخ احمدیت جلد 8 صفحہ 506 پر اس عنوان کے تحت درج ہے کہ’’حضورؓ کی زبان مبارک سے یہ اعلان سن کر خطبہ میں موجود سب احمدیوں کے دل نہایت درجہ خوشی،مسرت اور شادمانی سے بھر گئے کہ اللہ تعالیٰ نے انہیں مصلح موعود کا مبارک دَور دیکھنے کی سعادت عطا فرمائی ہے اور انہوں نے نماز جمعہ کے بعد ایک دوسرے کو مبارک باد دی۔…‘‘
قادیان میں پہلا جلسہ یوم مصلح موعود
’’اگلے روز اس نئے اور مبارک دَور کے آغاز پر قادیان میں ’’یوم مصلح موعود‘‘منایا گیا۔ اور تین بجے بعد نماز ظہرچودھری فتح محمد صاحب سیال ایم اے ناظر اعلیٰ کی زیر صدارت مسجد اقصیٰ میں نہایت تزک و احتشام سے ایک جلسہ عام منعقد کیا گیا جس میں حضرت مفتی محمد صادق صاحبؓ،قاضی محمد نذیر صاحب فاضل لائلپوری، حضرت مولوی عبدالرحیم صاحب نیرؓ،حضرت خان صاحب منشی برکت علی صاحبؓ، حضرت ماسٹر عبدالرحمٰن صاحب نو مسلمؓ، حضرت مولوی سید سرور شاہ صاحبؓ، مولوی ابوالعطاء صاحب اور مولوی عبدالرحیم صاحب درد نے ایمان افروز تقریریں کیں۔ آخر میں حسب ذیل عرضداشت پاس کی گئی کہ
’’ہم تمام افراد جماعت احمدیہ قادیان جو اس جلسہ میں شریک ہیں، حضور کی خدمت میں پیشگوئی مصلح موعود کے بارے میں خداتعالیٰ کی طرف سے کامل انکشاف پر خادمانہ طور پر اجتماعی رنگ میں مبارکباد عرض کرتے ہیں۔ ہم سب ناچیز خدام اس شاندار موقعہ پر اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرتے ہوئے حضور کی خدمت میں اظہار عقیدت پیش کرتے ہیں کہ ہم اپنی جان، مال، عزت، حضور کے حکم پر ہر وقت نثار کرنے کو تیار ہیں۔ اللہ تعالیٰ ہمیں توفیق بخشے۔ ہم خادم حضور سے درخواست کرتے ہیں کہ حضور اپنی خاص قوتِ قدسیہ سے جو خداتعالیٰ نے حضور کو عطا فرمائی ہے ہمارے لئے بھی دعا فرمائیں کہ اللہ تعالیٰ ہماری کمزوریوں کو دُور فرمائے اور حضور کے ارشادات و ہدایات کے ماتحت خدمت دین کی توفیق دے‘‘
اس عرضداشت کے بعد حضرت چودھری فتح محمد صاحب سیالؓ نے تقریر فرمائی اور جلسہ6بجے شام ختم ہوا۔‘‘(تاریخ احمدیت جلد 8 صفحہ 506تا507)
یہ تو تھا اس پہلے جلسہ کا تاریخی انعقاد جو پیشگوئی مصلح موعود کے بارے میں قادیان میں ہوا لیکن یہ بات بھی جاننی بہت ضروری ہے کہ مصلح موعود کا ظہور مذہبی دنیا میں ایک زبردست تہلکہ مچا دینے والا واقعہ تھا۔جو ایک طرف تو قبولیت دعا کا نشان دوسری طرف صداقت حضرت مسیح موعود کا نشان اور تمام دنیا کے لیے یہ خدا تعالیٰ کی طرف سے ایک آسمانی نشانِ رحمت تھا۔اس لیے اس کی اہمیت تقاضا کررہی تھی کہ پورے زور کے ساتھ یہ آواز بلند کر دی جائے جس سے ہندوستان کے کونے کونے میں یہ گونج چلی جائے کہ وہ پسر موعود ظاہر ہوچکا ہے۔ چنانچہ اس کے لیے ہوشیار پور ، لاہور، لدھیانہ اور دہلی میں پبلک جلسے منعقد کیے گئے۔ چنانچہ یہ چاروں جلسے بہت شان کے حامل اور ایمان افروز تھے۔ ان جلسوں میں حضرت مصلح موعودؓ نے بنفس نفیس شرکت فرما کر اپنی پُرشوکت تقاریر کے ذریعہ جلالی انداز میں مصلح موعود ہونے کا حلفیہ اعلان فرمایا۔ چنانچہ پہلا پبلک جلسہ ہوشیارپور میں 20؍ فرووری 1944ء کو ہوا۔ اس کے لیے حضرت مصلح موعودؓ نے احباب جماعت کے نام ایک پیغام دیا۔ اس کا ایک حصہ بطور تبرک اور بطور اس جلسے کی غرض و غائیت لکھا جاتا ہے۔ آپؓ نے اس پیغام میں فرمایا:’’اس جلسہ کی غرض صرف یہ ہے کہ جس جگہ دنیوی حالات کے خلاف ہوتے ہوئے حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ایک رحمت کے نشان کی خبر دی تھی جس کے ذریعہ سے حضرت مسیح موعودعلیہ السلام کا نام دنیا کے کناروں تک پہنچے گا اسی جگہ آج یہ اعلان کیا جائے کہ وہ پیشگوئی نہایت شان کے ساتھ پوری ہوگئی ہے۔‘‘
فرمایا:’’پس یہ موقعہ خشیت اور تقویٰ اللہ کے اظہار کا ہے …پس میں یہ اعلان کرتا ہوں کہ صرف وہی لوگ اس جلسہ میں شامل ہوں جو دعائیں کرنے والے، استغفار کرنے والے، حمد کرنے والے اور ذکر کرنے والے ہیں ۔اور اس جگہ پر جب تک رہیں اس امر کا تعہد کریں کہ نہ بلاوجہ بات کریں، نہ ہنسی مذاق کریں، نہ ہنسی تمسخر سے کام لیں بلکہ تمام وقت سنجیدہ رہیں اور دعاؤں اور استغفار میں مشغول رہیں۔… بلکہ وہ جائیں جو اس ارادہ کے ساتھ گھر سے نکلیں کہ کلّی طور پر خاموشی سے شمولیت کریں گے اور سب وقت اللہ تعالیٰ کے ذکر میں گزاریں گے یا ایسے کاموں میں جو ان کے سپرد کئے جائیں گے۔‘‘(تاریخ احمدیت جلد 8 صفحہ 579)
پیغام کا غیر معمولی اثر
اس پیغام نے جلسہ ہوشیارپور میں شامل ہونے والوں پر نہایت گہرا اثر ڈالا قریباً دو اڑھائی ہزار احمدی جو اس تقریب پر دوسرے مقامات سے ہوشیارپور پہنچے، ان کی ہر حرکت و سکون سے خاص وقار اور خشیت اللہ کا اظہار ہوتا تھا۔ تسبیح و تحمید اُن کی زبانوں پر تھی اور وہ متانت و سنجیدگی کے پیکر معلوم ہوتے تھے۔ اس روحانی کیفیت کا حال پڑھ کر مولوی ثناء اللہ صاحب امرتسری مدیر’’اہلحدیث‘‘نے لکھا:’’ایسا معلوم ہوتا ہے کہ گویا صحابہ کرام کی فوج مکہ فتح کرنے جارہی ہے‘‘
پہلا قافلہ قادیان سے ہوشیار پور
اس قافلہ کے امیر حضرت میر محمد اسحاق صاحبؓ تھے جو 19؍فروری کی شام گاڑی سے ہوشیار پور کے لیے روانہ ہوئے۔ آپؓ نے روانگی سے قبل ’’چند معروضات ‘‘ کے نام سے ایک پمفلٹ چھپوا کر جانے والوں میں تقسیم کیا۔ اس کی چیدہ چیدہ باتیں یہ تھیں:’’جیسا کہ حضرت امیرالمومنین المصلح الموعود کا ارشاد’’الفضل‘‘میں شائع ہوچکا ہے نہایت ضروری ہوگا کہ قادیان سے روانگی کے وقت سے ہی تمام اہلِ قافلہ کو خاموشی، متانت، خشوع و خضوع اور دعاؤں میں لگے رہنے کی عادت سے متصف ہو جانا ضروری ہے۔قادیان سے روانہ ہوکر صرف امرتسر پہنچنے پر گاڑی سے باہر نکلا جاسکتا ہے۔ امرتسر انشاء اللہ مغرب و عشاء کی نماز باجماعت ہوگی۔ اگر کوئی شخص نماز باجماعت سے غیرحاضر رہا تو اُسے امرتسر سے آگے جانے کی اجازت نہ ہوگی۔ اسی طرح نماز تہجد کا بھی انتظام ہوگا اور نماز فجر باجماعت کا بھی۔راستہ میں کسی شخص کو نعرہ لگانے یا اشعار پڑھنے کی اجازت نہ ہوگی۔ ہر ڈبہ میں ایک ایک شخص امیر ہوگا۔ اس کی اطاعت ضروری ہوگی۔ کھانا کھا کر دوست قادیان سے روانہ ہوں یا اپنے ہمراہ کھانا لے جائیں۔ کھانے کا انتظام مرکز کی طرف سے نہ ہوگا۔ چونکہ گاڑی میں ہی غالباً ساری رات بسر ہوگی۔ اس لئے گاڑی میں بستر بچھانے کی گنجائش نہ ہوگی۔ بدیں وجہ دوست کافی گرم کپڑا اوڑھ کر بیٹھیں۔ جو شخص کسی قسم کی ناشائستہ حرکت کا مُرتکب ہوگا، علاوہ اس کے کہ وہ گاڑی سے فوراً کسی اسٹیشن پر اُتار دیا جائے گا، اس کا معاملہ حضرت امیرالمومنین المصلح الموعود کے حضور پیش کیا جائے گا۔
غرض یہ سفر نہایت تہذیب، متانت، شرافت، تقویٰ اور خشوع و خضوع کے ساتھ ہونا چاہئے اس موقعہ پر مَیں دعا کرتا ہوں کہ اے میرے قادر مطلق خدا! تو ہمیں دنیاداروں، فیشن پرستوں اور ظاہر پرستوں کی طرح تمام خرابیوں سے بچا کر اس طرح اس سفر پر لے جا کہ تیری نظر میں عام لوگوں کی طرح نہیں بلکہ ہم فرشتوں کی ایک جماعت ہوں جو محض تیری تسبیح و تہلیل کا پانی پیتے ہوئے اور تیری تمجید و تقدیس کی غذا کھاتے ہوئے اور تیری تحمید و تکبیر کی ہوا میں سانس لیتے ہوئے قادیان سے ہوشیارپور اور ہوشیارپور سے قادیان کا سفر کریں۔‘‘(تاریخ احمدیت جلد 8 صفحہ 581تا582)
اسی طرح اس جلسہ ہوشیار پور میں شامل ہونے کے لیے دوسرا قافلہ حضرت مولانا ابو العطاء صاحب کی قیادت میں 20؍ فروری کی صبح کو قادیان سے روانہ ہوا تھا۔ بآسانی ہوشیار پور جلسہ میں شریک ہونے کے لیے پہنچ گیا۔
حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ؓپونے دو بجے کے قریب لاہور سے بذریعہ کار ہوشیارپور پہنچ گئے۔اور جلسہ گاہ میں تشریف لاکر نماز ظہر و عصر جمع کر کے پڑھائیں۔جلسہ گاہ میں یہ الہامی فقرے موٹے حروف میں لکھ کر نمایاں جگہ پر آویزاں تھے:’’خدا تیری دعوت کو دنیا کے کناروں تک پہنچا دے گا‘‘’’وہ زمین کے کناروں تک شہرت پائے گا اور قومیں اس سے برکت پائیں گی‘‘۔
جلسہ کی کارروائی شروع ہوئی اور حضرت مصلح موعودؑ نے تقریر کی ابتدا میں قرآنی دعائیں تلاوت فرمائیں اور فرمایا کہ ’’یہ اللہ تعالیٰ کی وہ دعائیں ہیں جن میں انبیاء اور ان کی ابتدائی جماعتوں کے لئے خدا نے ایک طریق بیان فرمایا ہے۔‘‘
آپؓ نے جلسہ میں پیشگوئی مصلح موعود کے پس منظر پر روشنی ڈالی اور فرمایا کہ اس پیشگوئی کا ظہور ہوچکا ہے۔فرمایا:’’میں جو کچھ کہتا ہوں وہ یہ ہے کہ وہ پیشگوئی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃوالسلام پر اس شہر ہوشیارپور میں سامنے والے مکان میں نازل ہوئی۔ جس کا اعلان آپ نے اس شہر سے فرمایا۔ اور جس کے متعلق فرمایا کہ وہ نو سال کے عرصہ میں پیدا ہوگا۔ وہ پیشگوئی میرے ذریعہ سے پوری ہوچکی ہے اور اب کوئی نہیں جو اس پیشگوئی کا مصداق ہوسکے۔‘‘(تاریخ احمدیت جلد 8 صفحہ 586)
آپؓ کی اس تقریر کے بعد مبلغین سلسلہ کی باری باری مختصر تقاریر ہوئیں۔ قریباً 18مبلغین نے اس موقع پر تقاریر کیں۔ ان تقاریر کے بعد حضرت مصلح موعودؓ نے اختتامی تقریر فرمائی اور فرمایا:’’اس وقت مختلف ممالک کے مبلغین نے آپ لوگوں کو بتایا ہے کہ کس طرح دنیا کے کناروں تک میرے زمانہ میں اللہ تعالیٰ نے اسلام اور احمدیت کا نام پہنچایا۔ مغرب کے انتہائی کناروں یعنی شمالی امریکہ وغیرہ سے لے کر مشرق کے انتہائی کناروں یعنی چین اور جاپان وغیرہ تک اللہ تعالیٰ نے مجھے اسلام کا نام اور اس کی تعلیم پہنچانے کی توفیق عطا فرمائی۔‘‘
فرمایا:’’ان میں ہزاروں ایسے لوگ ہیں جو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا نام سننا بھی گوارا نہیں کرتے تھے مگر اب وہ آپؐ پر درود اور سلام بھیجتے ہیں اور صبح شام آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے مدارج کی بلندی کے لئے دعائیں کرتے ہیں ہزاروں ایسے ہیں جو خدا تعالیٰ کے نام تک سے ناآشنا تھے مگر خدا تعالیٰ میرے ذریعہ سے ان لوگوں کو اپنے آستانہ پر لے آیا۔‘‘
آخر پر فرمایا:’’خدا کی تقدیر ایک دن پوری ہوکر رہے گی اور یہ سلسلہ تمام زمین پر پھیل جائے گا۔ کوئی نہیں جو اس سلسلہ کو پھیلنے سے روک سکے۔ میں آسمان کو گواہ رکھ کر کہتا ہوں۔ میں زمین کو گواہ رکھ کر کہتا ہوں۔ میں ہوشیارپور کی ایک ایک اینٹ کو گواہ رکھ کر کہتا ہوں کہ یہ سلسلہ دنیا میں پھیل کر رہے گا۔ اگر لوگوں کے دل سخت ہوں گے تو فرشتے اُن کو اپنے ہاتھ سے مَلیں گے یہاں تک کہ وہ نرم ہو جائیں گے اور ان کے لئے احمدیت میں داخل ہونے کے سوا کوئی چارہ نہیں رہے گا۔‘‘(تاریخ احمدیت جلد 8 صفحہ 587تا 590)
جلسہ لاہور
جلسہ ہوشیار پور کے بعد جلسہ لاہور ہوا۔ حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ کی تشریف آوری سے قبل شیخ بشیر احمد صاحب ایڈووکیٹ نے حضورؓ کا یہ ارشاد مبارک تمام لوگوں کو سنایا جو تھوڑے تھوڑے وقفہ کے بعد دہرایا جاتا رہا ۔
’’درود اور ذکر الٰہی میں وقت گزاریں۔ لغو بات کوئی نہ کرے ۔نہ آتے نہ جاتے۔ دعائیں کثرت سے کریں۔ نعرہ کوئی نہ لگائے۔‘‘
حضرت مصلح موعودؓ نے اپنی تقریر میں قرآنی دعائیں عجزو انکسار کے ساتھ تلاوت فرمائیں اور 1914ء کے اختلافاتِ سلسلہ کی تاریخ پر تفصیلی روشنی ڈالی اور پھر پیشگوئی مصلح موعود کے بارے میں وضاحت بیان فرمائی۔
نیز فرمایا کہ ’’اس طرح وہ پیشگوئی جو آج سے انسٹھ 59سال پہلے حضرت مسیح موعودؑ کے ذریعہ کی گئی تھی(پیشگوئی مصلح موعود) و ہ پیشگوئی بڑی شان اور جاہ و جلال کے ساتھ پوری ہوگئی آج سینکڑوں ممالک زبان حال سے گواہی دے رہے ہیں کہ میرے زمانہ خلافت میں ہی اسلام کا نام ان کو پہنچا۔‘‘
اس تقریر کے دوران ایک مرتبہ حضورؓ نے یہ بھی فرمایا کہ ’’اس وقت میں نہیں بول رہا بلکہ خدا میری زبان سے بول رہا ہے۔‘‘ یہ بھی کَاَنَّ اللّٰہَ نَزَلَ مِنَ السَّمَاءِ کا ایک نظارہ تھا۔
حضرت مصلح موعودؓ کی تقریر کے بعد سپین، اٹلی، ہنگری، البانیہ، یوگوسلاویہ، پولینڈ، چیکو سلواکیہ، جنوبی امریکہ، جرمنی، شمالی امریکہ، سیرالیون، گولڈ کوسٹ، نائیجیریا، مصر، کینیا، یوگنڈا، ٹانگانیکا، فلسطین اور روس کے مبلغین نے تقاریر کیں۔ اس کے بعد پھر حضرت مصلح موعودؓ نے حلفیہ اعلان فرمایا کہ آپ کو خدا تعالیٰ نے پیشگوئی مصلح موعود کا مصداق قرار دیا ہے۔ اور اس کے بعد آپؓ نے جماعت احمدیہ کی مالی و جانی قربانیوں کا تذکرہ فرمایا۔ اور اس موقعہ پر آپ نے وہ تاریخی کلمات بیان فرمائے جن کی گونج کسی وقت بھی ختم نہیں ہوسکتی۔ آپؓ نے فرمایا:’’خدا نے مجھے وہ تلواریں بخشی ہیں جو کُفر کو ایک لحظہ میں کاٹ کر رکھ دیتی ہیں۔ خدا نے مجھے وہ دل بخشے ہیں جو میری آواز پر ہر قربانی کے لئے تیار ہیں۔ مَیں انہیں سمندر کی گہرائیوں میں چھلانگ لگانے کے لئے کہوں تو وہ سمندر میں چھلانگ لگانے کے لئے تیار ہیں۔ مَیں انہیں پہاڑوں کی چوٹیوں سے اپنے آپ کو گرانے کے لئے کہوں تو وہ پہاڑوں کی چوٹیوں سے اپنے آپ کو گرا دیں۔ مَیں انہیں جلتے ہوئے تنوروں میں کُود جانے کا حکم دوں تو وہ جلتے ہوئے تنوروں میں کُود کر دکھا دیں۔ اگر خود کشی حرام نہ ہوتی، اگر خود کشی اسلام میں ناجائز نہ ہوتی تو مَیں اس وقت تمہیں یہ نمونہ دکھا سکتا تھا کہ جماعت کے سَو آدمیوں کو مَیں اپنے پیٹ میں خنجر مار کر ہلاک ہو جانے کا حکم دیتا اور وہ سَو آدمی اسی وقت اپنے پیٹ میں خنجر مار کر مرجاتا۔ خدا نے ہمیں اسلام کی تائید کے لئے کھڑا کیا ہے۔ خدا نے ہمیں محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا نام بلند کرنے کے لئے کھڑا کیا ہے۔‘‘(تاریخ احمدیت جلد 8 صفحہ 597)
جلسہ لدھیانہ
تیسرا مبارک جلسہ 23؍مارچ 1944ء کو لدھیانہ میں قرار پایا تھا۔ اس جلسہ کو رکوانے کے لیے زبردست مظاہرے کیے گئے اور مخالفت کا ایک طوفان اٹھ کھڑا ہوا۔ یہاں تک کہ ایک اخبار ’’ویربھارت‘‘نے لکھا کہ’’احمدیہ کانفرنس شروع ہے۔ احراریوں نے اس جلسہ میں مظاہرے کئے اور جلوس نکالے۔ ایک لڑکے کا منہ کالا کرکے اُسے گدھے پر سوار کرایا گیا اور ایک جنازہ بھی نکلا جس میں مرزا قادیان کے خلاف نعرے لگائے جارہے تھے۔ کچھ احمدیوں پر ڈاک خانہ کے قریب جوتے بھی پھینکے گئے۔‘‘
حضرت مصلح موعودؓ کو ان سراسر ناموافق حالات میں اللہ تعالیٰ نے جلسےسے قبل ہی جلسےکی کامیابی کی بشارت ان الفاظ میں دے دی تھی کہ ’’بہت سی برکتوں کے سامان کروں گا‘‘ یا ’’بہت سی برکتوں کے سامان ہوں گے‘‘
جب جلسہ شروع ہو رہا تھا تو اس وقت شدید بارش ہو رہی تھی لیکن سب حاضرین نے بڑے ذوق شوق اور دلجمعی کے ساتھ جلسہ سنا یہاں تک کہ بعض غیر احمدی مسلمان جو شامل تھے وہ بھی صبر و سکون اور اطمینان کے ساتھ جلسہ کے آخر تک جلسہ میں بیٹھے رہے۔
حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ نے جلسہ سے خطاب کرتے ہوئےفرمایا کہ’’اس شہر لدھیانہ میں 23؍مارچ 1889ء کو حضرت مسیح موعودعلیہ السلام بانی ٔسلسلہ احمدیہ نے بیعت لی تھی۔ اور اس بیعت کے وقت صرف چالیس آدمی آپؑ پر ایمان لانے والے تھے۔ یہ ساری کی ساری پونجی تھی جسے لے کر حضرت مسیح موعودؑ اسلام کی فتح کے لئے کھڑے ہوئے تھے۔ باقی تمام دنیا ہندو، عیسائی، سکھ، ہندوستانی، ایرانی اور برطانی سب کے سب آپ کے مخالف تھے اور آپ کو مٹا دینے پر تُلے ہوئے تھے۔ مگر ان مخالفتوں کے باوجود آپ نے اللہ تعالیٰ سے خبر پاکر دنیا کو بتایا کہ ’’دنیا میں ایک نذیر آیا پر دنیا نے اس کو قبول نہ کیا لیکن خدا اُسے قبول کرے گا اور بڑے زور آور حملوں سے اس کی سچائی کو ظاہر کر دے گا۔‘‘اس اعلان کے بعد باوجود شدید مخالفتوں کے اللہ تعالیٰ نے آپ کے سلسلہ کو بڑھانا شروع کردیا……!‘‘
آپؓ نے مزید فرمایا کہ ’’آج میں اہل لدھیانہ کو خبر دیتا ہوں ۔ حضرت مسیح موعودعلیہ السلام نے خدا تعالیٰ کی طرف سے خبر پا کر قدرت اور فضل اور رحمت کے جس نشان کی خبر دی تھی وہ ظاہر ہوچکاہے جن لوگوں کے کان میں یہ آواز پہنچے وہ اُن لوگوں تک اسے پہنچا دیں جو نہیں سن رہے…میں یہ نہیں کہہ سکتا کہ اللہ تعالیٰ کس رنگ میں اور کس طریق سے اپنے کام کو پورا کرے گا۔ لیکن یہ ضرور ہے کہ وہ کام ہوکر رہے گا۔ میرے ذریعہ یا مجھ سے دین سیکھنے والے کسی اور کے ذریعہ، اور جہاں آج دنیا میں ہر طرف محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کا انکار کرنے والے موجود ہیں، وہاں گھر گھر سے درود کی آوازیں آئیں گی اور خدا تعالیٰ کا وعدہ پورا ہوکر رہے گا۔‘‘
حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ کی تقریر کے بعد حضرت چودھری سر محمد ظفر اللہ خان صاحبؓ نے بھی مختصراً تقریر فرمائی۔ آپ دنیا کے مختلف ملکوں، کونوں ، شہروں، بستیوں اور برّاعظموں میں تشریف لے گئے تھے جہاں آپؓ نے جماعت کی ترقی اور مبلغین کے کاموں کی کارروائی خود مشاہدہ کی تھی۔ اسے بیان فرمایا اور کہا:’’اس لحاظ سے مَیں کہہ سکتا ہوں کہ خداتعالیٰ کے فضل سے دنیا کے چاروں برّاعظموں میں مَیں نے اپنی آنکھوں سے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے نام اور آپ کی تعلیم کو پھیلتے ہوئے دیکھا اور ان ممالک کے لوگوں کو اسلام کی تعلیم پر عمل کرتے ہوئے پایا۔ جس کے لئے خدا تعالیٰ نے حضرت مسیح موعودؑ کو مبعوث فرمایا۔ اَلْحَمْدُلِلّٰہِ عَلٰی ذَالِکَ۔‘‘
حضرت مصلح موعودؓ کی اس جلسہ میں آخری تقریر
حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ نے اس جلسہ میں آخری خطاب فرمایا اور پیشگوئی مصلح موعود کی پیشگوئی پر شرح و بسط کے ساتھ تفصیل سے اپنے اوپر چسپاں فرمایا ۔ آخر میں فرمایا:’’اے خدا میں تجھ سے دعا کرتا ہوں کہ تو ان لوگوں کے دلوں کو کھول دے اور ساری دنیا کے کانوں تک اس آواز کے پہنچنے کے سامان پیدا کردے جس طرح ہم تیرے بندے ہیں۔ اسی طرح وہ بھی ہیں جنہوں نے ابھی تیرے پیارے محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کو نہیں پہچانا تو ان کو ہدایت دے اور سب کو اپنے جھنڈے کے نیچے جمع کر دے۔ دنیا سے فساد، بدامنی، بےدینی، ظلم، فسق و فجور، ایک دوسرے کے مال کو کھانے اور آپس میں لڑنے کی روح کو دنیا سے مٹا دے اور امن و آشتی کی روح پیدا کردے۔‘‘(تاریخ احمدیت جلد 8 صفحہ 608)
جلسہ دہلی
دہلی کا جلسہ 16؍اپریل 1944ء کو ہوا۔اس جلسہ کا اعلان مختلف طریقوں سے کیا گیا۔ پچاس ہزار پوسٹر اور اشتہارات اردو، انگریزی اور ہندی میں شائع کیے گئے۔ تقسیم کے علاوہ ٹریم گاڑیوں پر بھی چسپاں کیے گئے ۔ نیز دہلی کے قریباًتمام اخبارات میں اعلان چھپے ۔ لجنہ نے بھی بذریعہ اشتہارات خواتین کو جلسے میں شمولیت کی درخواست کی۔
اس جلسہ کی خبر ملتے ہی دہلی میں جماعت کے خلاف اشتعال انگیز تقاریر اور اشتہارات کا باقاعدہ ایک سلسلہ شروع ہوگیا۔ اور دشمنوں نے کھلے عام اعلان کیا کہ ہم خون کی ندیاں بہا دیں گے مگر قادیانیوں کو جلسہ نہیں کرنے دیں گے۔
حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ 16؍اپریل کو شام 4 بجے جلسہ گاہ تشریف لائے۔جب جلسہ شروع ہوا تو شورش پسند طبقہ نے جو جلسہ کو درہم برہم کرنے کی غرض سے آیا تھا اور بڑے دروازہ کے سامنے کھڑا تھا گالیاں دیتے ہوئے شورمچا تے ہوئے مداخلت شروع کر دی۔ جب ان لوگوں کو جلسہ گاہ سے باہر نکال دیا گیا تو سات آٹھ ہزار کا ایک بہت بڑا ہجوم جلسہ گاہ کے اردگرد جمع ہوگیا۔ حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ نے ہدایت فرمائی کہ ہماری جماعت کے سب دوست بیٹھ جائیں اور اگر وہ باہر گئے ہوں تو واپس آجائیں خواہ ان کو کوئی مارے یا پیٹے وہ کوئی جواب نہ دیں۔
حضورؓ کی تقریر شروع تھی اور یہ شور و شر پیدا کرنے والا طبقہ گالیاں دیتا رہا اور شور کرتا ہوا سٹیج پر حملہ کرنے کی نیت سے آگے بڑھا ۔ جسے احمدیوں نے روک دیا۔ چنانچہ انہوں نے پھر پتھر برسانے شروع کر دیے۔ اور شور کرتا ہوا مستورات کے جلسہ گاہ کی طرف بڑھا۔ حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ نے فرمایا عورتوں کی حفاظت کے لیے ایک سو آدمی چلے جائیں۔
اسی موقع پرحضور ؓنے تقریر کرتے ہوئے فرمایا:’’یہ لوگ جو شور مچارہے ہیں اور گالیاں دے رہے ہیں یہ بھی میری صداقت کی ایک دلیل پیش کررہے ہیں۔‘‘
فرمایا:’’اس شوروشر سے تو کچھ فائدہ نہ ہوگا۔ آپ لوگ یہ خیال کرتے ہیں کہ آپ کے دلوں میں اسلام کا درد ہے اور آپ اپنے زعم میں ہمیں دشمن اسلام تصور کرتے ہوئے ہمارے مٹانے کے درپے ہیں…میں ایک مفید اور صحیح طریق فیصلہ آپ کے سامنے پیش کرتا ہوں جو بتا دے گا کہ ہم میں سے کونسا فریق اپنے دلوں میں اسلام سے سچی محبت اور اس کے لئے سچا درد رکھتا ہے اور اس سے تبلیغ اسلام کو بھی بہت بڑا فائدہ پہنچے گا۔ اور وہ طریق فیصلہ یہ ہے کہ آپ لوگ اپنی اپنی جماعت اور اپنے اپنے ہم خیال لوگوں میں سے اسلام کی اشاعت کے لئے اپنی زندگیاں وقف کرنے والے نوجوان اور تبلیغ دین کے لئے اپنی جائیدادیں اور اموال راہ خدا میں دینے والے اشخاص کا مطالبہ کریں تاکہ اس ذریعہ سے بلاد عربیہ اور اطراف و اکنافِ عالم میں تبلیغ اسلام ہوسکے۔ میں بھی اپنی چھوٹی اور غریب جماعت سے یہی مطالبہ کروں گا۔ اس کے نتیجہ سے دنیا پر واضح ہو جائے گا کہ کن کے ساتھ خدا تعالیٰ کی تائید و نصرت کا ہاتھ ہے اور کونسا فریق اسلام کا حقیقی خیر خواہ اور دلوں میں اس کا سچا درد رکھتا ہے۔ میری تازہ تحریک پر جو میں نے اپنی جماعت میں کی ہے اس وقت تک ڈیڑھ سو اعلیٰ تعلیم یافتہ نوجوان اپنی زندگیاں اسلام کی خدمت کے لئے وقف کرچکے ہیں اور ایک کروڑ روپیہ کی جائیدادیں اس وقت تک وقف ہوچکی ہے۔ پس گالیاں دینے، اینٹ اور پتھر برسانے سے کوئی نتیجہ نہیں نکلے گا۔ اگر آپ لوگ سچے ہیں تو میں دعوت دیتا ہوں کہ میدان میں نکلیں اور اس طریق فیصلہ کو قبول کرکے اپنے دعویٰ کی صداقت کو ثابت کریں۔‘‘
اس کے بعد حضورؓ نے فرمایا کہ ’’حضرت بانیٔ سلسلہ احمدیہ کی جس پیشگوئی کے پورا ہونے کا ذکر میں اس وقت کرنا چاہتا ہوں اور جو مصلح موعود کے متعلق ہے۔ اس میں ایک علامت یہ بھی بیان کی گئی ہے کہ وہ ظاہری اور باطنی علوم سے پُر کیا جائے گا…میں جسے خدا تعالیٰ نے اس پیشگوئی کا مصداق قرار دیا ہے تمام علماء کو چیلنج دیتا ہوں کہ میرے مقابلہ میں قرآن کریم کے کسی مقام کی تفسیر لکھیں اور جتنے لوگوں سے اور جتنی تفسیروں سے چاہیں مدد لے لیں۔ مگر خدا کے فضل سے پھر بھی مجھے فتح حاصل ہوگی۔‘‘
نیز فرمایا :’’میں یہ دعویٰ کرتا ہوں کہ بے شک ہزار عالم بیٹھ جائیں اور قرآن مجید کے کسی حصہ کی تفسیر میں میرا مقابلہ کریں۔ مگر دنیا تسلیم کرے گی کہ میری تفسیر ہی حقائق و معارف اور روحانیت کے لحاظ سے بے نظیر ہے۔‘‘
پھر فرمایا کہ’’میں خدا سے خبر پاکر اعلان کرتا ہوں کہ وہ پیشگوئی جس کا ذکر حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے20؍فروری 1886ء کے اشتہار میں فرمایا تھا پوری ہوگئی ہے۔ خدا تعالیٰ نے رویاء میں مجھے اطلاع دی ہے کہ مصلح موعود کی پیشگوئی کا مصداق میں ہی ہوں…اگر میں اس بیان میں سچا ہوں اور آسمان و زمین کا خدا شاہد ہے کہ میں سچا ہوں تو یاد رکھنا چاہئے کہ آخر ایک دن میرے اور میرے شاگردوں کے ذریعہ سے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا کلمہ ساری دنیا پڑھے گی اور ایک دن آئے گا جب ساری دنیا پر اسی طرح بلکہ اس سے بھی زیادہ شان کے ساتھ اسلام کی حکومت قائم ہو جائے گی جیسا کہ پہلی صدیوں میں ہوئی تھی۔‘‘(تاریخ احمدیت جلد 8 صفحہ 611تا 613)
یہ تاریخ احمدیت کا وہ سنہری ورق ہے کہ جس سے اسلام کی صداقت، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی صداقت اور حضرت مسیح موعودؑ کی صداقت ثابت ہوئی اور قبولیت دعا کانشان ظاہر ہوا۔ یہ دراصل تمام دنیا پر ایک اتمام حجت بھی ہے۔ اور جو دلائل اور جو چیلنج آپؓ نے 1944ء میں فرمائے تھے ۔ آج بھی اسی طرح خدا تعالیٰ کے فضل سے قائم ہیں۔ دشمنان احمدیت گالیوں، ڈنڈوں، قتل و غارت اور شور و شرابہ اور مختلف قسم کے الزامات لگانے میں تو صفِ اول پر ہیں مگر حقیقی خدمت اسلام اور تفسیر قرآن اور اسلامی اخلاق سے عاری ہیں۔
اللہ تعالیٰ ہمیں خلافت احمدیہ سے ہمیشہ جوڑے رکھے اور ہمیں خلافت کے سلطان نصیر بنائے۔ آمین
٭…٭…٭