دیوان حافظ اور حافظ شیرازی کا تعارف
حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام نے اپنی ملفوظات اور کتب میں فارسی زبان کے جن چوٹی کے شعراء کے کلام کو بارہا بطور مثال پیش فرمایا ہے ان میں سے حافظ محمد شیرازی بھی ایک ہیں۔اس کے علاوہ حضرت خلیفۃ المسیح الاوّل رضی اللہ عنہ نے بھی اپنے تفسیری لیکچرز میں جابجا حافظ محمد شیرازی کے اشعار کو بیان فرمایا ہے۔فارسی شعراء میں حافظ شیرازی کا مقام بہت بلند ہے۔اسی حافظ شیرازی کا مختصر تعارف الفضل کے قارئین کی خدمت میں پیش ہے۔
حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام حافظ شیرازی کے بارہ میں اپنے منظوم کلام در مکنون میں فرماتے ہیں
کجا رفت حافظ که دیوان اُو
دہد یاد از رفعت شان اُو
رهِ رَاستِی آورد در مَقَال
اَزِین اعتبار است اُفتَد بِفَال
ترجمہ: حافظ کہاں گیا کہ جس کا دیوان اس کے بلند مقام کی گواہی دیتا ہے اور وہ اس قدر اپنے دیوان میں سچی بات کرتا ہے کہ اس کے کلام سے فال لی جاتی ہے۔
حافظ کا نام محمد،لقب شمس الدین اور تخلص حافظ تھا۔ حافظ نے خود اپنا نام یوں تحریر کیا ہے : محمد بن المقلب بہ شمس الحافظ الشیرازی۔ حافظ کے سال ولادت کے بارے میں محققین کا نقطہ نظر ایک دوسرے سے مختلف ہے۔ انسائیکلو پیڈیا آف اسلام میں تحریر ہے کہ حافظ آٹھویں صدی کے آغاز میں پیدا ہوئے۔ محترم نفیسی نے حافظ کا سال پیدائش ۷۲۶ ہجری سے ۷۲۹ ہجری کے درمیان قرار دیا ہے۔ مختلف شہادتوں کی بنیاد پر حافظ کا سال ولادت ۷۲۶ ہجری مانا جاتا ہے۔ حافظ شیرازی کا ایک بیٹا ۷۶۴ ہجری میں فوت ہوا۔ اس وقت حافظ کی عمر ۳۷ سال تھی۔ اس سے نتیجہ نکلتا ہے کہ حافظ کا سال ولادت ۷۲۶ ہجری ہے۔حافظ کا سال وفات ۷۹۱ ہجری تحریر کیا گیا ہے۔ اس طرح وفات کے وقت حافظ کی عمر ۶۵ سال تھی۔ حافظ کے دادا کا لقب غیاث الدین اور باپ کا لقب بعض تذکرہ نگاروں نے بہاءالدین اور بعض نے کمال الدین تحریر کیا ہے۔
حافظ کے والد اصفہان میں رہتے تھے۔ بعد میں اپنا وطن چھوڑ کر تجارت کی غرض سے اہل و عیال کے ساتھ شیراز آن بسے۔ والد کی وفات پر حافظ کی ماں اور دو بھائی باقی رہ گئے۔ بھائیوں میں حافظ سب سے چھوٹے تھے۔ ان کے بڑے بھائی خواجہ خلیل عادل ۷۷۵ ہجری میں وفات پا گئے جبکہ دوسرا بھائی ماں اور بھائی کو تنہا چھوڑ گیا۔ حافظ محنت مزدوری کرکے روزی کماتے اور فرصت کے وقت قریبی مدرسے میں تعلیم حاصل کرتے۔ انہوں نے بعد میں شیراز کے نامور اساتذہ سے متداولہ علوم حاصل کیے اور قرآن مجید حفظ کیا اور اسی نسبت سے حافظ تخلص اپنایا۔ آپ نے الہٰیات، تفسیر،فقہ اور حکمت کا مطالعہ کیا۔ علم ہندسہ اور موسیقی سے بھی آپ کو بہت لگاؤ تھا۔ آپ کے معاصر اور ہم درس نے آپ کو مولانا الاعظم، استاد تحاریرالادباء اور فخرالعلماء کے ناموں سے یاد کیا ہے۔ آپ کو لسان الغیب بھی کہا جاتا ہے۔حافظ شیرازی کی زندگی کا زمانہ ۷۲۶ سے ۷۹۲ ہجری شمار کیا جاتا ہے۔ یہ ایران میں جنگ و جدال اور بےآرامی کا زمانہ تھا۔ تیموری حملوں کے نتیجے میں ایران کی بستیاں تباہ و برباد ہو گئیں۔ اس کے باوجود علماء اور شعراء علمی اور عرفانی محفلیں برقرار رکھتے تھے۔ حافظ نے شیخ مجدالدین، شیخ بہاؤالدین، سید شریف جرجانی اور شمس الدین عبد اللہ شیرازی سے استفادہ کیا۔ انہیں شیراز سے بے حد محبت تھی اسی لیے انہوں نے مصلی اور رکن آباد سے دوری اختیار نہ کی۔ اپنی پوری زندگی میں یزد اور ہرمز کی جانب دو مختصر سفر کیے جو ان کے لیے خوشگوار نہ تھے۔ دیوان حافظ سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ ان کے اہل و عیال بھی تھے جن کی رفاقت میں وہ اپنے دکھ بھول جایا کرتے تھے۔ ان کا ایک بیٹا ان کی زندگی میں ہی فوت ہو گیا مگر اس کے باوجود ان کے دل سے اپنے گھر اور اہل خانہ کی محبت کم نہ ہوئی۔حافظ نے ۷۹۱ ہجری میں شیراز کے مقام پر وفات پائی اور مصلی کے مقام پر دفن ہوئے۔ ان کا مزار ہر خاص و عام کی زیارت گاہ ہے۔
حافظ شیرازی کی زندگی کے ابتدائی دور میں حملہ منگول کے بعد امیر مبارز الدین محمد بن شرف الدین مظفر میبدی، یزد اور کچھ ارد گرد کے حصہ پر حکمران تھا اور نہایت ظالم بادشاہ تھا اس نے شیخ ابو اسحاق کو شکست دی اور اپنی حکومت جو کہ سلسلہ آل مظفر کہلائی اس کی بنیاد رکھی۔ اس سلسلہ کی حکومت ایران کے اکثر جنوبی حصہ پر قائم ہوئی اور پھر پورے ایران پر رہی سوائے اصفہان کے اور بالآخر ۷۹۵ ہجری میں امیر تیمور کے حملہ سے اس سلسلہ کی حکومت ختم ہوئی اور گورکانی خاندان (فارسی تواریخ میں مغل سلسلہ بادشاہت کو گورکانی خاندان کی حکومت کہا جاتا ہے)کی حکومت شروع ہوئی۔
کلام حافظ میں سے چند اشعار بطور نمونہ کے پیش ہیں۔
دیوان حافظ جو شائع شدہ ہے اس کا پہلا شعر ہے
اَلَا ایٰاَ اَیها السَاقِی اَدِر کَاْساً وَ نَاوِل هَا
کِه عِشق آسان نمود اول ولی افتاد مشکل ها
کہ اے ساقی شراب کا جام اٹھا اور اس کا دور چلا کیونکہ عشق شروع میں آسان معلوم ہوتا ہے لیکن بہت مشکل ہے۔
اور غزلیات حافظ کا آخری شعر ہے
مکن ای صبا مُشَوَش سَرِ زُلفِ دلبَراَن رَا
کِه هَزَار جَانِ حافظ بِه فدای تار مُوییِ
کہ اے باد صبا تو میرے محبوب کی زلفوں کو پراگندہ مت کر کیونکہ اس کی ایک ایک زلف پر میری هزار جانیں قربان ہیں۔
ایک اور شعر میں اپنی شاعری کی نسبت حافظ کہتے ہیں۔
حسن مهرویان مجلس گرچه دل می برد و دین
بحث ما در لطف طبع و خوبی اخلاق بود
کہ بیشک خوبصورت لوگوں کا حسن دل اور دین دونوں ہی کو لے اڑتا ہے۔لیکن ہم تو صرف طبیعت کی نرم خوئی اور اخلاق کی خوبی کی ہی بات کرتے ہیں۔
دیوان حافظ میں حافظ شیرازی کی ۲۳ رباعیات بھی موجود ہیں جن میں سے بطور نمونہ چند یہ ہیں
عشق رخ یار بر من زار مگیر
بر خسته دلان خرده به یکبار مگیر
صوفی چو تو رسم رهروان می دانی
بر مردم رند نکته بسیار مگیر
کہ میرے محبوب کے حسین چہره کے عشق میں گرفتار ہونےکا الزام مجھ کمزور کو مت دو اور ٹوٹے ہوئے دل والوں پر ایک دم ہی نکتہ چینی مت کرو۔اے صوفی تو چونکہ سلوک کی راه پر چلنے والے کے طریقہ کو اچھی طرح سےجانتا ہے اس لیے تو شراب نوشوں پر زیاده نکتہ چینی نہ کر۔
مردی ز کننده در خیبر پرس
اسرار کرم ز خواجه قنبر پرس
گر تشنه فیض حق به صدقی حافظ
سر چشمه آن ز ساقی کوثر پرس
کہ دلیری اور بہادری کے باره میں خیبر کے دروازه کو توڑنے والے سے پوچھو اور کرم کس طرح حاصل ہوتا ہے اس کے باره میں خواجہ قنبر سے پوچھو۔ قنبر حضرت علی رضی الله کے دربان کا نام تھا اور اسی طرح اسے حضرت امام حسن کی خدمت کا موقع بھی ملااور اگر اے حافظ تو الله تعالیٰ کے فیض پانےکاواقعی مشتاق ہے تو اس کا سرچشمہ کیا ہے وه آنحضرت صلی الله علیه وآلہ وسلم سے پوچھو۔
ز روئ دوست دلِ دشمنان چه دریابد
چراغ مرده کجا شمع آفتاب کجا
کہ محبوب کے چہرہ سے دشمنوں کے دل پر کوئی اثر نہیں ہوسکتا، بجھا ہوا چراغ کہاں اور ایک روشن سورج کہاں۔جب دونوں میں کوئی نسبت ہی نہیں تو وہ کیا فائدہ حاصل کرےگا۔
دیوان حافظ کی قدر ایرانی معاشرہ کی نظر میں
حافظ شیرازی کے کلام کو ایرانی معاشرہ میں بہت اہمیت حاصل ہے یہاں تک کہ اس بارہ میں مشہور ہے کہ کہا جاتا ہے کہ آپ کو ہر ایرانی گھر میں دو کتابیں ضرور ملیں گی، ایک قرآن اور دوسرا دیوان حافظ۔ان میں سے ایک کتاب لوگ پڑھتے ہیں اور دوسری نہیں۔
ایران میں ۱۲؍اکتوبر کو ہر سال یوم حافظ کے طور پر منایا جاتا ہے۔
ایرانی معاشرہ کا سب سے بڑا تہوار، جشن نوروز ہے اس میں ایک خاص دسترخوان، سفرہ ہفت سین تیار کیا جاتا ہے اس میں سین سے شروع ہونےوالی ۷ چیزیں رکھی جاتی ہیں .سات اشیاء سیب، سبزگھاس، سرکہ، سمنو (ایک معروف ایرانی غذا ہے جس کو تیار کرنے میں گندم استعمال کی جاتی ہے)، سنجدRussian Olive، سکہ اور سماق (ایک پودے کا پھل،ترش ہوتا ہے)تیار کیا جاتا ہے اس پر موجود چیزوں میں سے ایک دیوان حافظ بھی ہوتا ہے۔ایران میں دیوان حافظ سے فال لی جاتی ہے۔
فال لینے کی وجہ حافظ شیرازی کا حافظ قرآن ہونا ہے۔خدا تعالیٰ سے اس کا پختہ تعلق ہوناہے۔ ایرانیوں کا اعتقاد کہ حافظ اپنے اشعار میں غیب کی باتیں کرتا ہے۔
دیوان حافظ میں موجود موضوعات
حافظ کا کلام چونکہ غزل پر مشتمل ہے ا س لیے اس نے عشق و شراب کی شان میں اشعارکہے ہیں لیکن اس کے ساتھ ساتھ اس نے مذہبی طبقہ کی منافقت کو بھی اپنا موضوع بنایا ہے۔چھ سو برس پہلے حافظ نے کہہ دیا تھا کہ
واعظان کاین جلوه در محراب و منبر می کنند
چون به خلوت می روند آن کار دیگر می کنند
مشکلی دارم ز دانشمند مجلس بازپرس
توبه فرمایان چرا خود توبه کمتر می کنند
منبر و مسجد میں کھڑے جو مبلغ اپنی پارسائی کی نمائش کرتے نہیں تھکتے، تنہائی میں اس وعظ کے علاوہ کچھ اور ہی اعمال بجالاتے ہیں۔ میرا ایک سوال ہے جو تم مجلس کے دانا شخص سے پوچھو،وہ جو ہمیں ہر وقت توبہ کا سبق دیتے ہیں، خود اس پر عمل کیوں نہیں کرتے؟
اس کے علاوہ دو مثنوی بھی حافظ نے اپنے دیوان میں کہی ہیں اور چار قصائد بھی موجود ہیں، حافظ کی مشہور مثنوی کے چند اشعار کچھ یوں ہیں۔
بیا ساقی آن می که حال آوَرَد
کرامت فزاید کمال آوَرَد
به من ده که بس بیدل افتاده ام
وزین هر دو بی حاصل افتاده ام
کہ اے ساقی! مجھے ایسی شراب دے کہ جو مجھ پر حال طاری کر دے اور میری کرامت کو بڑھا دے اور کمال عطا کردے۔اورمجھے یہ شراب جلد عطا کردے کیونکہ یہ دونوں یعنی کمال اور کرامت مجھے ابھی تک حاصل نہیں ہوئے۔
دیوان حافظ حافظ شیرازی کا فارسی مجموعہ کلام ہےدیوان حافظ میں پانچ سو غزلیں اوربہت سی رباعیاں، قصیدے اور قطعات موجود ہیں۔ اس میں کل ۴۷۹۷؍ اشعار موجود ہیں حافظ شیرازی کے دیوان کے خطی نسخے ایران، ہندوستان، افغانستان، پاکستان اور ترکی کے کتب خانوں میں بھی موجود ہیں۔ حافظ شیرازی کو غزل گوئی میں مہارت حاصل تھی اور انہیں فارسی غزل کا بادشاہ کہا جاتا ہے۔دیوان حافظ کے ترجمے پوری دنیا میں پائے جاتے ہیں۔ حافظ شیرازی کو حافظ قرآن ہونے کی بنا پر حافظ کا لقب دیا گیا تھا۔ حافظ شیرازی نے اپنے اشعار میں بھی اس کی طرف اشارہ کیا ہے۔
دیوان حافظ میں موجود اشعار ۲۳بحروں میں کہے گئے ہیں۔
گر نور عشق حق به دل و جانت اوفتد
بالله کز آفتابِ فلک خوب تر شوی
فاش می گویم و از گفت خود دلشادم
بند عشقم و از هر دو جهان آزادم
اگر خدا تعالیٰ کا عشق تیرے دل و جان میں گھر کر جائے تو خدا کی قسم تُو آسمان میں موجود سورج سے بھی زیادہ بہتر ہوجائے گا۔ میں ببانگ دہل یہ کہتا ہوں اور اپنی اس بات پر مجھے فخر ہے کہ میں عشق کا بندہ ہوں اور دونوں جہانوں کی فکروں سے آزاد ہوں۔