مکتوبِ فرانس: فرانس کا جغرافیہ، تاریخ، آبادی، مذاہب اور طرز حکومت کا تعارف
فرانس یورپ کے قدیم ترین اور تہذیب و تمدن کے اعتبار سے اہم ترین ممالک میں سے ہے۔دنیا میں جہاں جہاں فرانسیسی بولی جاتی ہے وہ فرانس کے نوآبادیاتی تسلط کی وجہ سے ہے۔فرانس کے زیر تسلط علاقوں میں سے غالب اکثریت آزادی حاصل کرچکی ہے۔لیکن بعض علاقے ابھی بھی کسی نہ کسی طرح سے سیاسی و انتظامی لحاظ سے اس کا حصہ ہیں۔ان میں سے بعض کو’’سمندر پار ڈیپارٹمنٹ‘‘ اور بعض کو’’سمندر پار علاقے‘‘کہا جاتا ہے۔یورپین یونین کے قیام کے لیے فرانس کی کاوشوں کو کبھی بھی فراموش نہیں کیا جا سکتا۔
پیرس فرانس کا دارالحکومت ہونے کے ساتھ ساتھ سب سےبڑا شہر بھی ہے۔ کئی اعتبار سے پیرس کو دنیا کا بہترین دارالحکومت سمجھا جاتا ہے۔پیرس کے علاوہ ’’مارسائی،لیوں، تولوز،بوردو،لیل،سٹراس برگ اورموں پیلیئے‘‘ شہر ہیں۔
جغرافیہ،رقبہ اور کرنسی
فرانس مغربی یورپ میں واقع ہے اور یورپ کے کئی ممالک سے اس کی سرحدیں ملتی ہیں۔ فرانس کے شمال مشرق میں بیلجیم اور لکسمبرگ واقع ہیں۔ مشرق میں اس کی حدود جرمنی، سوئٹزر لینڈ اور اٹلی سے ملتی ہیں۔ فرانس کے جنوب میں بحیرہ روم واقع ہے اسی طرح آندورہ اور سپین بھی اس کے جنوب میں واقع ہیں۔ مغرب میں خلیج بسکے (Bay of Biscay) اور شمال مغرب میں رود بار انگلستان واقع ہیں۔فرانس کا کل رقبہ ۲۱۰۰۲۶مربع میل یعنی ۵۴۳۹۶۵مربع کلومیٹر ہے۔فرانس کی موجودہ کرنسی یورو ہے۔یورو سے قبل فرانس کی کرنسی فرنچ فرانک تھی۔
فرانس کی آبادی اور مذاہب
فرانس کی کل آبادی ۶۷.۷۵ ملین ہے۔محکمہ شماریاتINSEE کے ۲۰۱۹۔۲۰۲۰ء کے اعداد و شمار کےمطابق ۵۱ فیصد کا کوئی مذہب نہیں۔۲۹ فیصد اپنے آپ کو کیتھولک کہتے ہیں۔۹فیصد غیر کیتھولک عیسائی کہلاتے ہیں۔۱۰ فیصد مسلمان،تقریباً ایک فیصد بدھسٹ اور ایک فیصد سے کم یہودی ہیں۔ مزید برآں نوجوان نسل کی ایک بڑی تعداد ایسی بھی ہے جو دہریت میں داخل ہے اور کسی قسم کے مذہبی عقائد نہیں رکھتی۔قانوناً مذہبی آزادی ہے مگر لوگ عملاً مذہب سے بہت دور ہیں۔
فرانس میں دوسرا بڑا مذہب اسلام ہے۔ فرانسیسی آزاد کردہ افریقن اور عرب کالونیوں سے مسلمان یہاں آکر آباد ہو چکے ہیں۔ گذشتہ تین دہائیوں میں دنیا کے بیشتر ممالک سے مسلمان افراد کی ایک کثیر تعدادبسلسلۂ روزگار فرانس میں آکر آباد ہوئی ہے۔ بعض شہروں میں مساجد تعمیر کی گئی ہیں اور بعض علاقوں میں مختلف تعمیر شدہ عمارتوں یا ہالز کو نماز سنٹرز کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے۔ بظاہر یہاں مذہبی آزادی ہے مگر میڈیا کے ذریعہ اسلام کو ہمیشہ الزامات کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔جس کی ایک وجہ تو اسلام دشمنی ہے اور دوسرا عنصر مسلمانوں کے اپنے افکار و اعمال ہیں۔ ان مسلمانوں میں الجیرین نژادتقریباً ۲۶ لاکھ، مراکش نژادتقریباً ۱۵ لاکھ اور تیونس نژادتقریباً۷ لاکھ کے لگ بھگ ہیں۔ان کے علاوہ دیگر افریقن کی تعداد تقریباً۴۵ لاکھ ہے۔
مندرجہ بالا مسلمان اقوام کے علاوہ ترک بھی کافی تعداد میں موجود ہیں۔جرمنی کے بعد ترکوں کے لیے سب سے بڑی آماجگاہ فرانس ہے۔ حکومتِ فرانس نے ترکی کے ساتھ ایک باہمی معاہدہ کیا۔جس کے تحت ۱۹۷۰ء سے فرانس نے ترکی کے مزدور طبقہ کو فرانس بلانا شروع کیا۔ ۲۰۲۰ء کے اعداد و شمار کے مطابق فرانس میں ترکوں کی تعدادتقریباً دس لاکھ ہے۔
فرانس میں بسنے والی دیگر اقوام
پندرھویں صدی عیسوی میں شمالی اور جنوبی امریکہ کی دریافت سے قبل فرانس کو دنیا کا کنارہ سمجھا جاتا تھا اور دنیا کے مختلف علاقوں سے لوگ یہاں پر آکر بس جاتے تھے۔ موجودہ فرانسیسی لوگ انہی مہاجرین کی اولاد ہیں۔ فرنچ قوم مختلف قومیتوں کا مجموعہ ہے لاطینی اقوام کا اثر ان میں نمایاں ہے۔ خاص کر فرانس کے وہ جنوبی علاقے جو بحیرہ روم سے متصل ہیں وہاں کے لوگوں میں یہ اثر نمایاں ہے۔ نارمنڈی جو فرانس کا شمال مغربی علاقہ ہے وہاں کے لوگ اپنے دراز قد اور گوری رنگت کی وجہ سے ڈنمارک سے آئے ہوئے وائیکنگز (Vikings) کی نسل سمجھے جاتے ہیں۔ اسی طرح Bretagne کے علاقے کے نسبتاً چھوٹے قد کے سانولے لوگوں کو Celticsقبائل کی نسل سے سمجھا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ فرانس کی موجودہ آبادی میں Germanic قبائل کا اثر بھی نمایاں ہے۔ آج بھی فرانسیسیوں میں یہ تصور پایا جا تاہے کہ دراز قد سنہری بالوں اورنیلی آنکھوں والے لوگ بعض Germanicقبائل کے مہاجرین کی اولاد ہیں۔ فرانس کے بعض جنوبی علاقوں میں سپین کی Basqueقوم کے اثرات بھی پائے جاتے ہیں۔
موجودہ فرانس میں شمالی افریقہ کے علاوہ مختلف ممالک سے ہجرت کر کے آنے والی کئی اقوام آباد ہیں۔ان میں آرمینین، افرو امریکن، عرب، بائیگور، بلغارین، یونانی، ایرانی، جاپانی اور چینی قابل ذکر ہیں۔ان کے علاوہ شمالی فرانس کے علاقہ بروتوں میں رہنے والے لوگ جو اکثر ان لوگوں کی اولاد ہیں جو چوتھی سے چھٹی صدی عیسوی کے درمیان جنوبی انگلستان سے ہجرت کر کے فرانس میں آباد ہو گئے۔
فرانس میں بسنے والے پاک و ہند کے افرا د
پاکستانیوں کی ایک بڑی تعداد فرانس اور فرانس کی سمندر پار ریاستوں میں مقیم ہے۔ ایک محتاط اندازہ کے مطابق ۷۰۰۰۰ پاکستانی اور تقریباً اتنی ہی تعداد میں ہندوستانی فرانس میں رہتے ہیں، جبکہ سمندر پار فرانسیسی ریاستوں میں بسنے والے ہندوستانیوں کی تعداد تین لاکھ کے قریب ہے۔
فرانس میں اسلام کے دور اول میں مسلمانوں کی آمد
ابن خلدون کے مطابق فرانس میں اسلام کا نام پہلی بار ۹۲ھ بمطابق ۷۱۰ء میں پہنچا جبکہ مشہور عالم مسلمان جرنیل طارق بن زیاد فتح مندی کا جھنڈا لہراتے ہوئے جبل الطارق تک پہنچ گئے۔ ۹۲ھ بمطابق ۷۱۱ء میں امیر افریقہ موسیٰ بن نُصَیر نے پورے اندلس پر مسلم حکومت قائم کر دی۔
اس کے بعد حضرت عمر بن عبد العزیزؒ نے السمع بن مالک خولانی کو کمانڈر بنا کر بھجوایا۔تاریخ سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ اسلامی لشکر حضرت عمر بن عبد العزیزؒ کی خلافت کے پہلے ہی سال ۹۹ھ بمطابق ۷۱۸ء میں پیغینے (Pyrenees) پہاڑی سلسلہ کو عبور کر کے فرانس کی سرحد میں داخل ہو چکا تھا اور گال (Gaul) قوم سے معرکہ آزمائی ہو رہی تھی۔ پروفیسر فلپ۔کے۔ حِتّی۔ السمع بن مالک خولانی کی فتوحات کا ذکر کرتے ہوئے لکھتا ہے کہ ۷۲۰ء میں السمع نے فرانس کے جنوبی علاقےسبتمانیہ (Septimania) اور اربونہ (Narbonne) کو فتح کر لیا۔ بعد میں عربوں نے ایک بڑا قلعہ بنادیا اور اس میں اسلحہ اور اناج کے گوداموں کے ساتھ ایک اسلحہ ساز کارخانہ بھی قائم کر دیا۔ اسی سال السمع نے جنوبی فرانس کے شہر تولوز کو فتح کرنے کی کوشش کی اور یہیں جامِ شہادت نوش کیا۔
فرانسیسی مؤلف و محقق ڈاکٹر گستاولی بان لکھتا ہے:’’آٹھویں صدی عیسوی میں جب عربوں نے فرانس پر حملہ کیا تو یہ ملک ان بادشاہوں کی حکومت میں تھا جو سلاطین کاہل الوجود کے نام سے مشہور ہیں۔ جاگیرداروں اور اُمراء کے مظالم سے حالت ابتر ہو رہی تھی اور اسی لیے وہ بآسانی عربوں کے ہاتھ آگیا اور انہوں نے آسانی سے اکثر جنوبی شہروں پر قبضہ کر لیا… بعض مؤرخین کہتے ہیں کہ وہ فرانس کے مشرقی شہر Metz تک آگئے تھے۔ ‘‘(تمدن عرب،ترجمہ از ڈاکٹر گستاولی بان صفحہ ۲۸۵ تا ۲۸۷)
مسلمان بادشاہ جب اندلس سے بھی بے دخل کیے گئے توعیسائیوں نے ان کا قتل عام شروع کر دیا اور بچوں کو زبردستی عیسائی بنانا شروع کر دیا ان میں سے وہ بھی تھے جو نو مسلم تھے اور بعض عربی النسل تھے اس لیے یہ تصور بھی پایا جاتا ہے کہ جنوبی فرانس اور شمالی اندلس کے بعض لوگ عربی النسل ہیں اور اسی لیے نپولین بونا پارٹ کو بعض لوگوں نے عربی النسل بیان کیا ہے۔
بادشاہت
موجودہ دور جمہوریت سے قبل فرانس میں دیگر مغربی ممالک کی طرح بادشاہت تھی اور پوپ اور بادشاہ باہمی ملی بھگت سے اپنی پرتعیش زندگی کے لیے عوام پر طرح طرح کے ٹکسز لگاتے اورمظالم ڈھاتے تھے۔ فرانس کے سیاسی حالات میں جن بادشاہوں کے زمانہ میں انقلابی تبدیلیاں آئیں ان میں سے ایک بادشاہ لوئیس سولہواں کہلاتا ہے۔انقلابیوں نے ۱۷۹۲ء میں اس کے خلاف اپنا فیصلہ سناتے ہوئے اسے معزول کردیا۔یہ سال فرنچ ریپبلک کا پہلا سال شمار کیا جاتا ہے۔۲۱؍جنوری ۱۷۹۳ء کو اس کی گردن مار دی گئی۔یہ آخری بادشاہ تھا جو شاہی محل ’’ شاتو دے وارسائی‘‘ Chateau de Versailles میں رہا۔اب یہ محل سیاحوں کے لیے تاریخی اہمیت کا حامل بنا ہوا ہے۔اس کے بعدایک بادشاہ لوئیس اٹھارھواں کا بھی تاریخ میں ذکر ملتا ہے۔گو وہ ’’شاتو دے وارسائی ‘‘ میں پیدا ہوا مگرپیرس میں وفات وہاں نہیں ہوئی۔یہ بادشاہ بے اولاد رہا۔ فرانس کا آخری بادشاہ کہلانے والا لوئیس فلپ اول ہے۔تقریباً ۱۸ سال بادشاہ رہنے کے بعد ۱۸۴۸ء میں وفات پاگیا۔اس کی جگہ لوئیس نپولین نے لی جو بعد میں شہنشاہ نپولین سوم کے نام سے مشہور ہوا۔لیکن یہ وہ مشہور نپولین نہیں جو واٹرلو کی جنگ کی وجہ سے مشہور ہوا۔ چونکہ اس کی وفات ۵؍ مئی ۱۸۲۱ء کو قید و بند کی صعوبتیں سہتے ہوئےجزیرہ سینٹ ہیلن میں ہوئی تھی۔
مختلف ریپبلکن ادوار
فرانس کے سیاسی نظام سے متعلق یہ جاننا قارئین کے لیے دلچسپی کا باعث ہوگا کہ موجودہ سیاسی نظام سے قبل فرانس کن کن مراحل سے گزرا۔ یاد رہے کہ موجودہ سیاسی نظام پانچویں ریپبلک کہلاتا ہے۔اور سب سے زیادہ مضبوط سمجھا جاتا ہے۔پہلی ریپبلک کا دور ستمبر ۱۷۹۲ء تا مئی ۱۸۰۴ء تھا۔۲۱؍ستمبر کو جدید نیشنل کنونشن کے ممبران پارلیمنٹ نے موروثی بادشاہت کے خاتمہ کا ووٹ دیااور ۲۲؍ستمبر کے دن اس کا اعلان ہوا۔
دوسری ریپبلک کا زمانہ ۲۴؍فروری ۱۸۴۸ء تا ۲؍دسمبر ۱۸۵۲ء تھا اور تیسری ریپبلک کا زمانہ ۴؍ستمبر ۱۸۷۰ء تا ۱۰؍جولائی ۱۹۴۰ء تھا۔جبکہ چوتھی ریپبلک کا زمانہ۱۳؍اکتوبر ۱۹۴۶ءتا ۲۸؍ستمبر ۱۹۵۸ء رہا۔ پانچویں اور موجودہ ریپبلک کا دور ۲۸؍ستمبر ۱۹۵۸ء سے تا حال ہے۔
ایک سوال پیدا ہوتا ہے کہ یہ پہلی دوسری تیسری ریپبلک کے قیام کا کیا مطلب؟ اور ایسا کیوں ہوا؟۔سادہ جواب یہ ہے کہ جب بھی کوئی ایسا بحران پیدا ہوا کہ قانونی و آئینی لحاظ سے ملک نہ چلایا جا سکتا ہو تو نئے دور کا آغاز کیا گیا۔ اس کے لیے پانچویں ریپبلک کے قیام کی مثال پیش کی جاتی ہے۔الجزائر فرانس کی کالونی تھی۔جب وہاں آزادی کی رو چلی تو جنگ کا ماحول پیدا ہوگیا اور حالات اتنے بگڑے کہ فرانس میں حکومت چلانا ناممکن ہوگیا۔جمہوریت خطرہ میں پڑ گئی۔ تو ۱۳؍مئی ۱۹۵۸ء کو جنرل ڈیگال کو معاملات سلجھانے کے لیے بلایا گیا۔ انہوں نے ریفرنڈم کے ذریعہ،غالب اکثریت کی رائے سے، پانچویں ریپبلک کی بنیاد ڈالی۔جنرل ڈیگال نے نیا آئین دیا۔
موجودہ طرز حکومت
فرانسیسی نظام حکومت میں صدر کو مرکزی حیثیت حاصل ہے۔صدر مملکت کو پانچ سال کے لیے براہ راست منتخب کیا جاتا ہے۔یاد رہے کہ۱۸۷۳ء میں تیسری ریپبلک کے دور میں صدرمملکت کے لیے سات سالہ مدت رکھی گئی تھی۔اور ایک صدر دو مرتبہ یعنی ۱۴ سال سے زیادہ عرصہ نہیں رہ سکتا۔لیکن سال ۲۰۰۰ء میں یک شیراک کے زمانہ صدارت میں مدت صدارت ۵ سال کر دی گئی۔موصوف پہلی دفعہ سات سال صدر رہے۔ اور دوسری مرتبہ پانچ سال۔
وزیراعظم صدر کی صوابدیدپر منتخب کیا جاتا ہے۔ وزیر اعظم کے فرائض میں حکومتی لائحہ عمل کی تشکیل اور حکومتی اداروں کی سرپرستی شامل ہے۔ جب کہ دیگر تمام اہم معاملات کے مدار المہام فرانس کے صدرہیں۔ آجکل فرانس کے صدرEmanuel Macron ہیں۔ جبکہ خاتون وزیر اعظم Élisabeth Borneہیں۔
فرانسیسی پارلیمنٹ دو حصوں پر مشتمل ہے۔قومی اسمبلی اور سینیٹ۔قومی اسمبلی ان ممبران پر مشمل ہے جن کو پانچ سال کے لیے براہ راست منتخب کیا جاتا ہے۔جبکہ سینیٹ میں سے ہر ایک ممبر کو نو سال کے لیے مجلسِ انتخاب منتخب کرتی ہے۔ جن سینیٹرز کی مدت پوری ہوجاتی ہے ان کی جگہ پر کرنے کے لیے ہر تین سال بعد انتخاب ہوتے ہیں۔