خطبہ جمعہ بطرز سوال و جواب فرمودہ ۲۳؍ دسمبر ۲۰۲۲ء بمقام مسجد مبارک، اسلام آباد، ٹلفورڈ (سرے) یوکے)
سوال نمبر۱:حضورانورایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے سلسلہ احمدیہ کی غرض اوراس زمانہ میں اس کےقیام کی بابت کیابیان فرمایا؟
جواب:فرمایا:حضرت اقدس مسیح موعودؑ فرماتے ہیں کہ’’یہ زمانہ کیسا مبارک زمانہ ہے کہ خدا تعالیٰ نے ان پُرآشوب دنوں میں محض اپنے فضل سےآنحضرتﷺ کی عظمت کے اظہار کے لئے یہ مبارک ارادہ فرمایا کہ غیب سے اسلام کی نصرت کا انتظام فرمایا اور ایک سلسلہ کو قائم کیا۔مَیں ان لوگوں سے پوچھنا چاہتا ہوں جو اپنے دل میں اسلام کے لئے ایک درد رکھتے ہیں اور اس کی عزت اور وقعت ان کے دلوں میں ہے وہ بتائیں کہ کیا کوئی زمانہ اس زمانہ سے بڑھ کر اسلام پر گذرا ہے جس میں اس قدر سبّ و شتم اور توہین آنحضرتﷺ کی کی گئی ہواور قرآنِ شریف کی ہتک ہوتی ہو؟ پھر مجھے مسلمانوں کی حالت پر سخت افسوس اور دلی رنج ہوتا ہے اور بعض وقت میں اس درد سے بیقرار ہو جاتا ہوں کہ ان میں اتنی حس بھی باقی نہ رہی کہ اس بے عزتی کو محسوس کر لیں۔ کیا آنحضرتﷺ کی کچھ بھی عزت اللہ تعالیٰ کو منظور نہ تھی جو اس قدر سبّ و شتم پر بھی وہ کوئی آسمانی سلسلہ قائم نہ کرتا اور ان مخالفینِ اسلام کے منہ بند کر کے آپ کی عظمت اور پاکیزگی کو دنیا میں پھیلاتا جبکہ خود اللہ تعالیٰ اور اس کے ملائکہ آنحضرتﷺ پر درود بھیجتے ہیں تو اس توہین کے وقت اس صلوٰة کا اظہار کس قدر ضروری ہے اور اس کا ظہور اللہ تعالیٰ نے اس سلسلہ کی صورت میں کیا ہے۔‘‘
سوال نمبر۲:حضورانورایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نےحضرت مسیح موعودؑ کی بعثت کےحوالہ سےکیابیان فرمایا؟
جواب: فرمایا:آپؑ فرماتے ہیں:’’مجھے بھیجا گیا ہے تا کہ مَیں آنحضرتﷺ کی کھوئی ہوئی عظمت کو پھر قائم کروں اور قرآن شریف کی سچائیوں کو دنیا کو دکھاؤں اور یہ سب کام ہو رہا ہے لیکن جن کی آنکھوں پر پٹی ہے وہ اس کو دیکھ نہیں سکتے حالانکہ اب یہ سلسلہ سورج کی طرح روشن ہو گیا ہے اور اس کی آیات و نشانات کے اس قدر لوگ گواہ ہیں کہ اگر اُن کوایک جگہ جمع کیا جائے تو ان کی تعداد اس قدر ہو کہ رُوئے زمین پر کسی بادشاہ کی بھی اتنی فوج نہیں ہے…اس قدر صورتیں اس سلسلہ کی سچائی کی موجود ہیں کہ ان سب کو بیان کرنا بھی آسان نہیں۔ چونکہ اسلام کی سخت توہین کی گئی تھی اس لئے اللہ تعالیٰ نے اسی توہین کے لحاظ سے اس سلسلہ کی عظمت کو دکھایا ہے…یہ زمانہ بھی روحانی لڑائی کا ہے۔ شیطان کے ساتھ جنگ شروع ہے۔ شیطان اپنے تمام ہتھیاروں اور مکروں کو لے کر اسلام کے قلعہ پر حملہ آور ہو رہا ہے اور وہ چاہتا ہے کہ اسلام کو شکست دے مگر خداتعالیٰ نے اِس وقت شیطان کی آخری جنگ میں اُس کو ہمیشہ کے لئے شکست دینے کے لئے اس سلسلہ کو قائم کیا ہے۔‘‘
سوال نمبر۳: حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے توحیدکےقیام اورمحبت الٰہی پیداکرنےکی بابت کیابیان فرمایا؟
جواب: فرمایا: آپؑ فرماتے ہیں کہ’’خدا کے ساتھ محبت کرنے سے کیا مراد ہے؟ یہی کہ اپنے والدین، جورو، اپنی اولاد، اپنے نفس، غرض ہر چیز پر اللہ تعالیٰ کی رضاء کومقدم کر لیا جاوے۔ چنانچہ قرآن شریف میں آیا ہے۔ فَاذْكُرُوا اللّٰهَ كَذِكْرِكُمْ اٰبَآءَكُمْ اَوْ اَشَدَّ ذِكْرًا۔(البقرة:۲۰۱) یعنی اللہ تعالیٰ کو ایسا یاد کرو کہ جیسا تم اپنے باپوں کو یاد کرتے ہو۔ بلکہ اس سے بھی زیادہ اور سخت درجہ کی محبت کے ساتھ یاد کرو۔ اب یہاں یہ امر بھی غور طلب ہے کہ خدا تعالیٰ نے یہ تعلیم نہیں دی کہ تم خدا کو باپ کہا کرو بلکہ اس لئے یہ سکھایا ہے کہ نصاریٰ کی طرح دھوکہ نہ لگے اور خدا کو باپ کر کے پکارا نہ جائے اور اگر کوئی کہے کہ پھر باپ سے کم درجہ کی محبت ہوئی تو اس اعتراض کے رفع کرنے کے لئے اَوْ اَشَدَّ ذِكْرًا رکھ دیا۔ اگر اَوْ اَشَدَّ ذِكْرًا نہ ہوتا تو یہ اعتراض ہو سکتا تھا۔ مگر اب اس نے اس کو حل کر دیا۔‘‘…حضرت اقدس مسیح موعودؑ اس محبت کی مزید وضاحت کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ’’اصل توحید کو قائم کرنے کے لئے ضروری ہے کہ خدا تعالیٰ کی محبت سے پورا حصہ لو اور یہ محبت ثابت نہیں ہو سکتی جب تک عملی حصہ میں کامل نہ ہو۔ نری زبان سے ثابت نہیں ہوتی۔ اگر کوئی مصری کا نام لیتا رہے۔‘‘چینی یا شکر کا نام لیتا ہے۔’’تو کبھی نہیں ہو سکتا کہ وہ شیریں کام ہو جاوے۔‘‘میٹھا تو نہیں ہو جاتا وہ۔’’یا اگر زبان سے کسی کی دوستی کا اعتراف اور اقرار کرے مگر مصیبت اور وقت پڑنے پر اس کی امداد اور دستگیری سے پہلو تہی کرے تو وہ دوست صادق نہیں ٹھہر سکتا۔ اسی طرح پر اگر خدا تعالیٰ کی توحید کا نرا زبانی ہی اقرار ہو اور اس کے ساتھ محبت کا بھی زبانی ہی اقرار موجود ہو تو کچھ فائدہ نہیں بلکہ یہ حصہ زبانی اقرار کی بجائے عملی حصہ کو زیادہ چاہتا ہے۔ اس سے یہ مطلب نہیں کہ زبانی اقرار کوئی چیز نہیں ہے۔نہیں۔میری غرض یہ ہے کہ زبانی اقرار کے ساتھ عملی تصدیق لازمی ہے اس لئےضروری ہے کہ خدا کی راہ میں اپنی زندگی وقف کرو۔‘‘
سوال نمبر۴: حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے جماعت احمدیہ کےقیام کی حقیقی غرض کی بابت کیابیان فرمایا؟
جواب: فرمایا:آپؑ فرماتے ہیں کہ ’’اللہ تعالیٰ نے اس جماعت کو اسی لئے قائم کیا ہے کہ آنحضرتﷺ کی نبوت اور عزت کو دوبارہ قائم کریں۔‘‘غیروں کی مثال دیتے ہوئے جو پیر پرستی میں ڈوبے ہوئے ہیں، قبروں کے پوجنے والے ہیں اور پھر یہ دعویٰ ہے کہ ہم آنحضرتﷺکے ساتھ عشق میں فنا ہیں اور ہمیں کافر کہنے والے ہیں اور اس بات کا اعلان کرتے ہیں کہ احمدی نعوذ باللہ آنحضرتﷺ کی توہین کے مرتکب ہوئے ہیں تو ان کے بارے میں بیان فرماتے ہیں کہ’’ایک شخص جو کسی کا عاشق کہلاتا ہے۔ اگر اس جیسے ہزاروں اَور بھی ہوں تو اس کے عشق و محبت کی خصوصیت کیا رہے۔‘‘یعنی ایک شخص کسی کا عاشق کہلاتا ہے لیکن ساتھ ہی بہت سارے اَور معشوق بھی بنائے ہوئے ہیں تو پھر جس سے عشق کر رہا ہے اس کی خصوصیت کیا رہی؟ ’’تو پھر اگر یہ رسول اللہﷺ کی محبت اور عشق میں فنا ہیں۔‘‘یہ لوگ جو دعویٰ کرتے ہیں کہ ہمیں آنحضرتﷺ سے عشق ہے۔اگر آنحضرتﷺ کے عشق میں فنا ہیں’’جیساکہ یہ دعویٰ کرتے ہیں تو یہ کیا بات ہے کہ ہزاروں خانقا ہوں اور مزاروں کی پرستش کرتے ہیں۔‘‘بہت ساری خانقاہیں ہیں، مزار ہیں جن پہ یہ جاتے ہیں، چڑھاوے چڑھاتے ہیں، دعائیں کرتے ہیں بلکہ سجدے بھی کر لیتے ہیں۔ فرمایا کہ’’مدینہ طیبہ تو جاتے ہیں مگر اجمیر اور دوسری خانقا ہوں پر ننگے سر اور ننگے پاؤں جاتے ہیں۔ پاک پتن کی کھڑکی میں سے گذر جانا ہی نجات کے لیے کافی سمجھتے ہیں۔کسی نے کوئی جھنڈا کھڑا کر رکھا ہے۔کسی نے کوئی اَور صورت اختیار کر رکھی ہے۔ ان لوگوں کے عرسوں اور میلوں کو دیکھ کر ایک سچے مسلمان کا دل کانپ جاتا ہے کہ یہ انہوں نے کیا بنا رکھاہے۔‘‘برصغیر، ہندوستان پاکستان میں یہ چیزیں عام نظر آتی ہیں۔’’اگرخدا تعالیٰ کو اسلام کی غیرت نہ ہوتی اور اِنَّ الدِّینَ عِنْدَ اللّٰهِ الْاِسْلَامُ(اٰل عمران:۲۰) خدا کا کلام نہ ہوتا اور اُس نے نہ فرمایا ہوتا اِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّكْرَ وَ اِنَّا لَهٗ لَحٰفِظُوْنَ(الحجر:۱۰) تو بیشک آج وہ حالت اسلام کی ہو گئی تھی کہ اس کے مٹنے میں کوئی بھی شبہ نہیں ہو سکتا تھا۔ مگر اللہ تعالیٰ کی غیرت نے جوش مارا اور اس کی رحمت اور وعدۂ حفاظت نے تقاضا کیا کہ رسول اللہﷺ کے بروز کو پھر نازل کرے اور اس زمانہ میں آپؐ کی نبوت کو نئے سرے سے زندہ کر کے دکھا دے۔ چنانچہ اس نے اس سلسلہ کو قائم کیا اور مجھے مامور اور مَہدی بنا کر بھیجا۔‘‘حضرت مسیح موعودؑ فرماتے ہیں مجھے ماموراور مہدی بنا کر بھیجا۔ پس ہمارا فرض ہے اور تبھی ہم حقِ بیعت ادا کر سکتے ہیں جب ہم اپنے اور غیر میں ایک واضح فرق پیدا کر کے دکھائیں اور محبت الٰہی اورعشق رسولﷺ کی غیر معمولی مثالیں قائم کریں۔اپنی زبانوں کو تسبیح، تحمید اور درود سے تر رکھنے کی کوشش کریں۔
سوال نمبر۵:حضورانورایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے قرآن کریم کوتوجہ سےپڑھنےکی بابت کیا فرمایا؟
جواب: فرمایا: آپؑ فرماتے ہیں:’’یاد رکھنا چاہئے کہ قرآن شریف نے پہلی کتابوں اور نبیوں پر احسان کیا ہے جو ان کی تعلیموں کو جو قصہ کے رنگ میں تھیں علمی رنگ دیدیا ہے۔ میں سچ سچ کہتا ہوں کوئی شخص ان قصوں اور کہانیوں سے نجات نہیں پا سکتا جبتک وہ قرآن شریف کو نہ پڑھے کیونکہ قرآن شریف ہی کی یہ شان ہے کہ وہ اِنَّهٗ لَقَوْلٌ فَصْلٌ وَّمَا هُوَ بِالْهَزْلِ (الطارق:۱۴-۱۵)‘‘یعنی یقیناً وہ ایک فیصلہ کن کلام ہے اور ہرگز کوئی بیہودہ کلام نہیں ہے۔’’وہ میزان، مہیمن، نور اور شفاء اور رحمت ہے۔ جو لوگ قرآن شریف کو پڑھتے اور اسے قصہ سمجھتے ہیں انہوں نے قرآن شریف نہیں پڑھا بلکہ اس کی بےحُرمتی کی ہے۔ ہمارے مخالف کیوں ہماری مخالفت میں اس قدر تیز ہوئے ہیں؟ صرف اسی لئے کہ ہم قرآن شریف کو جیساکہ خدا تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ وہ سراسر نور، حکمت اور معرفت ہے، دکھانا چاہتے ہیں۔ اور وہ کوشش کرتے ہیں کہ قرآن شریف کو ایک معمولی قصے سے بڑھ کر وقعت نہ دیں۔ ہم اس کو گوارا نہیں کر سکتے۔ خدا تعالیٰ نے اپنے فضل سے ہم پر کھول دیا ہے کہ قرآن شریف ایک زندہ اور روشن کتاب ہے اس لئے ہم ان کی مخالفت کی کیوں پروا کریں۔ غرض میں بار بار اس امر کی طرف ان لوگوں کو جو میرے ساتھ تعلق رکھتے ہیں نصیحت کرتا ہوں کہ خدا تعالیٰ نے اس سلسلہ کو کشفِ حقائق کے لئے قائم کیا ہے۔‘‘یعنی حقائق اظہار کے لیے ظاہر کرنے کے لیے قائم کیا ہے اور جس کی سمجھ قرآن کریم سے ہی ہمیں مل سکتی ہے۔ اس کا ادراک اور فہم ہمیں قرآن کریم سے مل سکتا ہے۔’’کیونکہ بدوں اس کے عملی زندگی میں کوئی روشنی اور نور پیدا نہیں ہو سکتا اور میں چاہتا ہوں کہ عملی سچائی کے ذریعہ اسلام کی خوبی دنیا پر ظاہر ہو جیسا کہ خدا نے مجھے اس کام کے لئے مامور کیا ہے۔ اس لئے قرآن شریف کو کثرت سے پڑھو مگر نرا قصہ سمجھ کر نہیں بلکہ ایک فلسفہ سمجھ کر۔‘‘