اللہ تعالیٰ اپنی پکڑ میں ڈھیل دیتا ہے
اللہ تعالیٰ نے یہ جو جزا سزا کا دن رکھا ہے یہ بھی اس بات کا ثبوت ہے کہ اللہ تعالیٰ فوری طور پر یہاں نہیں پکڑتا بلکہ آگے جا کے پکڑے گا۔ اگلے جہان جا کر جزا سزا کا فیصلہ ہو گا۔ اس لئے آخرت پر یقین نہ رکھنے والے یہ نہ سمجھیں کہ اس دنیا میں اگر پکڑ نہیں ہے تواگلے جہان میں بھی ہمارے ساتھ کوئی پوچھ گچھ نہیں ہو گی کیونکہ ہمارا کفارہ ادا ہوا ہے یا خدا کا کوئی وجود ہی نہیں ہے جو ہمیں سزا دے۔ کاش کہ اللہ تعالیٰ کی چھوٹ سے غلط مطلب نکالنے کی بجائے یا خدا کو نہ سمجھنے والے اس حقیقت کو سمجھیں کہ خدا ہے اور اس کی طرف جھکنے والے بنیں۔ پھر اس آیت میں خداتعالیٰ نے یہ بھی فرمایا ہے کہ اگر ہر گناہ پر اس دنیا میں گرفت شروع ہو جائے تو اس زمین پر مَیں پھر کوئی جاندار بھی باقی نہ چھوڑتااور جاندار کا نہ چھوڑنا، کیا مقصد ہے؟یہ اس لئے کہ اس رحمان خدا نے انسان کی بقائے زندگی کے لئے اس دنیا میں پہلے زندگی پیدا کی ہے۔ اس لئے کہ جو خداتعالیٰ کی باقی مخلوق ہے اس کی زندگی بھی انسان کی زندگی کے لئے ضروری ہے بلکہ انسان کی پیدائش سے پہلے ہی دوسری مخلوق اللہ تعالیٰ نے پیدا کر دی تھی۔ پہلے دوسری زندگی شروع ہو ئی تھی۔ ہر چیز کو اللہ تعالیٰ نے انسان کی خدمت پر لگا دیا اور اس کے لئے مسخّر کر دیا۔ پس اگر انسان کی زندگی کا سزا دے کرخاتمہ کرنا تھا تو اس مخلوق کو ہی ختم کر دیتاجو انسان کی بقا کے لئے تھی اور انسان ایک عذاب میں مبتلا ہو کر ختم ہو جاتا۔ کیونکہ بقایا زندگی کی بنیاد ہی ختم ہو جاتی۔ یا یہ بھی کہہ سکتے ہیں کہ جب کسی عذاب سے انسانیت ہی کو ختم کرنا تھا تو پھر اس کی بقا کے جو سامان مہیافرمائے ان کا بھی خاتمہ کر دیتا۔ کیونکہ جب انسان ہی نہیں رہا تو ان چیزوں کی بھی ضرورت نہیں رہی۔ پس اللہ تعالیٰ کے فوری طور پر کسی جرم میں نہ پکڑنے کی بڑی حکمت ہے۔ جس طرح نیک لوگوں میں سے بد پیدا ہو جاتے ہیں یا ہو سکتے ہیں اسی طرح بدوں میں سے نیک بھی پیدا ہوتے ہیں۔ آنحضرتﷺ نے اللہ تعالیٰ کی اس صفت حلیم کو خوب سمجھا ہے تبھی تو طائف کے سفر میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے اس بدقماش قوم کو ختم کرنے کے لئے کہنے پر آپؐ نے اس حلیم کا پر تَو بنتے ہوئے عرض کی کہ اے اللہ! میں امید کرتا ہوں کہ ان کی نسل میں سے تیری عبادت کرنے والے پیدا ہوں گے۔ اور تجھ سے دعا بھی کرتا ہوں اور تو میری اس دعا کو قبول کر۔ اور پھر اس قوم میں سے دنیا نے دیکھا کہ ایک خدا کی عبادت کرنے والے پیدا ہوئے۔ وہ جو آپؐ کی جان لینا چاہتے تھے، ان کی زندگی کا مقصد ہی یہ تھا کہ نعوذ باللہ آنحضرتﷺ کی جان لیں۔ وہی آپؐ پر اپنی جانیں نثار کرنے والے بن گئے۔ پس اللہ تعالیٰ کی ڈھیل میں بڑی حکمت ہے۔ اللہ تعالیٰ نے یہ نہیں فرمایا کہ میں ان کا حساب نہیں لوں گا بلکہ مؤاخذہ میں ڈھیل ہے۔ اور فرمایا جب مؤاخذہ کا وقت آئے گا تو پھر اس کو کوئی ٹال نہیں سکتا۔
پھر ایک جگہ اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں ان لوگوں کا ذکر کرتے ہوئے جو حد سے بڑھ جاتے ہیں فرماتا ہے کہ وَ لَوۡ یُؤَاخِذُ اللّٰہُ النَّاسَ بِمَا کَسَبُوۡا مَا تَرَکَ عَلٰی ظَہۡرِہَا مِنۡ دَآبَّۃٍ وَّ لٰکِنۡ یُّؤَخِّرُہُمۡ اِلٰۤی اَجَلٍ مُّسَمًّی ۚ فَاِذَا جَآءَ اَجَلُہُمۡ فَاِنَّ اللّٰہَ کَانَ بِعِبَادِہٖ بَصِیۡرًا (فاطر:۴۶) اور اگر اللہ لوگوں کا اس کے نتیجہ میں مؤاخذہ کرتا جو انہوں نے کمایا تو اس (زمین) کی پشت پر کوئی چلنے پھرنے والا جاندار باقی نہ چھوڑتا لیکن وہ ان کو(آخری) مدت تک مہلت دیتا ہے۔ پس جب ان کی مقررہ مدت آ جائے گی تو (خوب کھل جائے گاکہ) یقیناً اللہ اپنے بندوں پر گہری نظر رکھنے والا ہے۔
اس آیت سے کچھ پہلے اسی سورۃ فاطر میں اللہ تعالیٰ اپنے حلیم ہونے کا ذکر کرتے ہوئے فرماتا ہے کہ اِنَّ اللّٰہَ یُمۡسِکُ السَّمٰوٰتِ وَ الۡاَرۡضَ اَنۡ تَزُوۡلَا ۬ۚ وَ لَئِنۡ زَالَتَاۤ اِنۡ اَمۡسَکَہُمَا مِنۡ اَحَدٍ مِّنۡۢ بَعۡدِہٖ ؕ اِنَّہٗ کَانَ حَلِیۡمًا غَفُوۡرًا (فاطر:۴۲)کہ یقیناً اللہ آسمانوں اور زمین کو روکے ہوئے ہے کہ وہ ٹل سکیں اور اگر وہ دونوں (ایک دفعہ) ٹل گئے تو اس کے بعد کوئی نہیں جوپھر انہیں تھام سکے۔ یقیناً وہ بہت بُردبار اور بہت بخشنے والا ہے۔
اس آیت کا مقصد ہے کہ وہ لوگ جو ایمان لانے والے نہیں وہ اپنی مذموم حرکتوں کی وجہ سے اللہ تعالیٰ کی پکڑ کے یقیناً قابل ہیں۔ لیکن خدا تعالیٰ جو رحم کرنے والا ہے، برد بار ہے، بخشنے والا ہے اس نے تمہیں بچایا ہوا ہے اور ڈھیل دیتا ہے کہ ابھی بھی وقت ہے کہ اپنی حالتوں کو بدلو۔ اس رویّے کو بدلوجو آنحضرتﷺ کے خلاف تم نے اپنایا ہوا ہے۔ اپنی اصلاح کر لو ور نہ اگر اللہ تعالیٰ اپنا حساب لینا شروع کر دے اور فوری سزا شروع کر دے تو چند لمحوں میں تمہیں ختم کر سکتا ہے۔ اور زمین و آسمان کو اس نے روک رکھا ہے۔ اگر وہ ٹل جائیں تو پھر قیامت کا نمونہ ہو گا۔ پس وہ خدا جس نے زمین و آسمان کو پیدا کیا ہے جو فوری بدلے نہیں لیتا اور بخشنے والا بھی ہے اس کی طرف جھکو اور اپنی حدود کے اندرر ہو۔
یہ جو پہلی آیت میں نے پڑھی تھی [فاطر :۴۶] اور ترتیب کے لحاظ سے وہ آخری آیت ہے۔ اس میں بھی اس بات کا اعادہ کیا گیا ہے کہ اگر تمہاری ان حرکتوں کی وجہ سے اللہ تعالیٰ فوری مؤاخذہ کرتا تو نہ کوئی جنگلی جانور باقی رہتا، نہ کوئی گھریلو جانور باقی رہتا، نہ کوئی پرندہ باقی رہتا۔ یعنی پھریہاں دوبارہ اس بات کا اظہار فرمایا کہ تمہاری زندگی کی بقا جن زندگیوں سے وابستہ ہے اگر صرف انہی کا خاتمہ اللہ تعالیٰ کر دے تو تمہاری زندگی اذیت ناک ہو جائے گی اور اسی عذاب میں مبتلا ہو کر ختم ہو جاؤ گے۔ پس کس بات پر اِتراتے پھرتے ہو اور تکبر کرتے ہو۔
پس اللہ تعالیٰ نے جو یہ عارضی ڈھیل دی ہے اس سے سبق سیکھو۔ یہ مستقل سزا بھی بن سکتی ہے۔ اب یہاں مرغیوں کی بیماریاں آئیں مثلاً برڈ فلوہے، دنیا میں بڑا پھیلا۔ اس نے کئی ملکوں کے لوگوں کو پریشان کر دیا۔ یہ تو ہلکے ہلکے جھٹکے ہیں جو خداتعالیٰ کی طرف سے ملتے ہیں۔ لیکن سب سمجھتے نہیں۔ سمجھتے وہی ہیں جو سمجھنے والے ہیں۔ ایک زمانے میں گائیوں کی بیماری نے ان کو پریشان کر دیا تھا۔ اگر غور کریں اور سوچیں کہ اللہ تعالیٰ جو ہر چیز پر قادر ہے ایک وقت میں ہی دنیا کے ان تمام جانوروں میں کسی قسم کی بیماری پیداکر دے تو دنیا اسی سے عذاب میں مبتلا ہو جائے گی۔ پس اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ہر چیز کی ایک حد ہوتی ہے۔ وہ ایک آخری مدت تک مہلت دیتا ہے اور جب وہ مدت آ جائے اور انسان اپنے رویوں میں تبدیلی نہ کرے، خدا کے کاموں میں ہاتھ ڈالنے سے بازنہ آئے، اس کی رَکھ میں داخل ہونے کی کوشش کرے تو پھر مزید ڈھیل نہیں ہوتی۔ پھر صفت حلیم کی بجائے دوسری صفات اپنا کام کرنا شروع کر دیتی ہیں۔ اس آیت میں بھی اور دوسری آیات میں بھی دَابَّۃ کا لفظ استعمال ہوا ہے اس کا ترجمہ ہے جاندار یا جانور۔ اس کا ایک مطلب یہ بھی ہے کہ زمین کے کیڑے، پس یہاں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ ایسے لوگ جو خداتعالیٰ کے اور اس کے نبیوں کے مقابلے پر کھڑے ہوتے ہیں وہ دنیا کے کیڑے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کو اس بات کی کوئی پرواہ نہیں ہو گی کہ اگر یہ لوگ اپنی اصلاح نہیں کرتے تو جس طرح کیڑوں کو مسلنے میں کوئی عار نہیں ہے ان کو بھی اسی طرح ختم کر دے۔ مگر اللہ تعالیٰ نے اپنے قانون کے مطابق ایک مدت تک مہلت دی ہوئی ہے۔ اللہ تعالیٰ کی نظر میں اور ہر دیندار کی نظر میں یہ لوگ بے حقیقت ہیں۔ ذلیل کیڑے سے زیادہ ان لوگوں کی کوئی حیثیت نہیں جوخدا کے مقابلے پر کھڑے ہوتے ہیں۔ یہ تو چند مثالیں ہیں جو مَیں نے پیش کیں، ان لوگوں کی جو استہزاء میں بڑھے ہوتے ہیں اور خاص طور پر اسلام اور آنحضرتﷺ کو نشانہ بناتے ہیں اور زبان حال سے یہ کہتے ہیں کہ اسلام کا اگر کوئی خدا ہے تو سامنے آ کر ہم سے بدلہ کیوں نہیں لیتا۔ تو اللہ تعالیٰ حلیم ہے درگزر کرتا ہے لیکن جب اس کی چکی چلتی ہے تو اس دنیا میں بھی حد سے بڑھے ہوؤں کو خائب و خاسر کر دیتی ہے اور اگلے جہان میں بھی۔