میدانِ عمل میں مبلغین اور داعیان الیٰ اللہ کے ساتھ ہونے والے تائیدِالٰہی کے ایمان افروز واقعات
وَلْتَکُنْ مِّنْکُمْ اُمَّۃٌ یَّدْعُوْنَ اِلَی الْخَیْرِ وَیَاْمُرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَیَنْھَوْنَ عَنِ الْمُنْکَرِ۔ وَ اُوْلٰٓئِکَ ھُمُ الْمُفْلِحُوْنَ (آل عمران: ۱۰۵)
تبلیغ دین اور دعوت الیٰ اللہ ایک ایسا اہم فریضہ ہے کہ جس کے بغیر کوئی بھی دین دین نہیں کہلا سکتا۔ اسی لیے اللہ تعالیٰ نے نبی کریم ﷺ سے فرمایا کہیٰۤاَیُّہَا الرَّسُوۡلُ بَلِّغۡ مَاۤ اُنۡزِلَ اِلَیۡکَ مِنۡ رَّبِّکَ ؕ وَاِنۡ لَّمۡ تَفۡعَلۡ فَمَا بَلَّغۡتَ رِسَالَتَہٗ (المائدہ:۶۸)اے رسول ! اس پیغام کو آگے پہنچا جو تیری طرف نازل کیا گیا ہے۔ اگر تونے ایسا نہ کیا تو تُونے اپنی رسالت کا حق ادا نہ کیا۔ یعنی رسالت کا سب سے اہم ستون تبلیغ دین ہے۔ لیکن یہ فریضہ صرف نبی کے لیے خاص نہیں ہے بلکہ اللہ تعالیٰ ہر انسان پر یہ ذمہ داری ڈالتا ہے کہ جو ہدایت اس تک پہنچی ہے اسے دوسرے بھائیوں تک پہنچائے چنانچہ جو آیت خاکسار نے آغاز میں آپ کے سامنے پیش کی ہے اس میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
’’ اور چاہئے کہ تم میں سے ایک جماعت ہو۔ وہ بھلائی کی طرف بلاتے رہیں اور اچھی باتوں کی تعلیم دیں اور بری باتوں سے روکیں۔ اور یہی ہیں وہ جو کامیاب ہونے والے ہیں۔‘‘
نبی کریم ﷺ کی حیات مبارکہ پر غور کرنے سے ہمیں پتا چلتا ہے آپ نے اپنی ساری زندگی اس مقدس فرض کی ادائیگی میں صرف کر دی۔
حضرت جابر بن عبد اللہ اور حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہم سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’میری اور تمہاری مثال ایسی ہے جیسے کسی شخص نے آگ جلائی اور پتنگے اور پروانے اس میں گرنے لگے اور یہ شخص انہیں اس سے ہٹا رہا ہے۔(اسی طرح)میں تمہیں کمر سے پکڑ پکڑ کر آگ میں گرنے سے بچا رہا ہوں لیکن تم میرے ہاتھوں سے نکلے جاتے ہو‘‘۔(صحیح بخاری ۶۴۸۳)
اسی طرح آپ نے اپنے متبعین میں یہی جذبہ پیدا کیا کہ ان کا اوڑھنا بچھونا ہی انسانیت کو اس آگ سے بچانا ہو گیا۔اگر ہم اس آیت پر غور کریں جو شروع میں بیان کی گئی ہے تو ہمیں پتا چلتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اس میں کامیابی کی ایک کلید عطا فرمائی ہے جیسا کہ وہ فرماتا ہے کہ اُوْلٰٓئِکَ ھُمُ الْمُفْلِحُوْنَ یعنی کامیاب وہی ہوںگے جو دین کی اس تعلیم کو دنیا میں پھیلانے کے لیے اپنی زندگیاں وقف کریں گے۔اور اسی طرح اگر کوئی دین کی خاطر دنیا اور اس کی ضروریات کو خیرباد کہہ دیتا ہے اس کے ساتھ اللہ تعالیٰ کا یہ وعدہ ہے کہ وہ اس کا خود متکفل ہو جاتا ہے اور اس کو اس اس طرف سے رزق و مدد عطا فرماتا ہے جہاں سے اس کو خبر ہی نہیں ہوتی۔اللہ تعالیٰ فرماتا ہے وَمَنۡ یَّتَّقِ اللّٰہَ یَجۡعَلۡ لَّہٗ مَخۡرَجًا۔ وَّیَرۡزُقۡہُ مِنۡ حَیۡثُ لَا یَحۡتَسِبُ (الطلاق: ۳۔۴)
پس جو شخص اللہ تعالیٰ کا تقویٰ اختیار کرے وہ اُس کے لیے نجات کی کوئی راہ بنا دیتا ہے اور وہ اُسے وہاں سے رزق عطا کرتا ہے جہاں سے وہ گمان بھی نہیں کرسکتا۔ امام اعظم ابو حنیفہؒ صحابی رسول حضرت عبداللہ بن الحارثؓ سے روایت کرتے ہیں کہ آپﷺ نے فرمایا:مَنْ تَفَقَّہَ فِیْ دِیْنِ اللّٰہِ کَفَاہُ اللّٰہُ تَعَالیٰ مُھِمَّہٗ وَ یَرْزُقُہٗ مِنْ حَیْثُ لَا یَحْتَسِبْ (مُسند الامام الاعظم کتاب العلم روایت نمبر۳۳ صفحہ۵۹-۶۰ ناشر مکتبۃ البشریٰ کراچی) یعنی جو شخص بھی اپنے اندر تفقّہ فی الدین پیدا کرتا ہےتو اللہ تعالیٰ اُس کے تمام کاموں اور مقاصد کا خود متکفل ہو جاتا ہے اور اُس کے لیے ایسی جگہوں سے رزق کے سامان مہیا کرتا ہے جہاں سے وہ گمان بھی نہیں کرتا۔(الفضل ۱۰؍نومبر ۲۰۲۲ء)
نبی کریم ﷺ اور آپ کے اصحابؓ نے کس کمال جانفشانی سے اس فریضے کو انجام دیا حضرت مسیح موعود علیہ السلام صحابہ کے اس پاک نمونے اور ہماری ذمہ داریوں کے متعلق فرماتے ہیں:’’حضرت رسول کریمﷺ کے اصحاب کا نمونہ دیکھنا چاہئے۔ وہ ایسے نہ تھے کہ کچھ دین کے ہوں اور کچھ دنیا کے بلکہ وہ خالص دین کے بن گئے تھے اور اپنی جان و مال سب اسلام پر قربان کر چکے تھے۔ ایسے ہی آدمی ہونے چاہئیں جو سلسلہ کے واسطے مبلغین اور واعظین مقرر کئے جائیں وہ قانع ہونے چاہئیں اور دولت و مال کا ان کو فکر نہ ہو۔حضرت رسول کریمﷺ جب کسی کو تبلیغ کے واسطے بھیجتے تھے تو وہ حکم پاتے ہی چل پڑتا تھا۔ نہ سفر خرچ مانگتا تھا اور نہ گھر والوں کے افلاس کا عذر پیش کرتا تھا۔ یہ کام اس سے ہو سکتا ہے جو اپنی زندگی کو اس کے لیے وقف کر دے۔ متقی کو خدا تعالیٰ آپ مدد دیتا ہے۔ وہ خدا کے واسطے تلخ زندگی اپنے لیے گوارا کرتا ہے… خدا اُس کو پیار کرتا ہے جو خاص دین کے واسطے ہو جائے۔ ہم چاہتے ہیں کہ کچھ آدمی ایسے منتخب کئے جائیں جو تبلیغ کے کام کے واسطے اپنے آپ کو وقف کر دیں اور دوسری کسی بات سے غرض نہ رکھیں۔ ہر قسم کے مصائب اٹھائیں اور ہر جگہ پر پھر تے رہیں اور خدا کی بات پہنچائیں۔ صبر اور تحمل سے کام لینے والے آدمی ہوں ان کی طبیعتوں میں جوش نہ ہو۔ ہر ایک سخت کلامی اور گالی سن کر نرمی کے ساتھ جواب دینے کی طاقت رکھتےہوں۔‘‘(بدر۳؍اکتوبر۱۹۰۷ء)
پھر اسی طرح آپ فرماتے ہیں:’’میں اپنا فرض سمجھتا ہوں کہ اپنی جماعت کو وصیّت کروں اور یہ بات پہنچادُوں۔ آئندہ ہر ایک کا اختیار ہے کہ وُہ اُسے سنے یا نہ سُنے! اگر کوئی نجات چاہتا ہے اور حیاتِ طیّبہ یا اَبدی زندگی کا طلبگار ہے تو وہ اللہ کے لیے اپنی زندگی وقف کرے۔‘‘(ملفوظات جلد۱ ایڈیشن ۱۹۸۸ء صفحہ۳۷۰)
اللہ تعالیٰ کے فضل سے حضرت مسیح موعود ؑکو آغاز سے ہی ایسی جانثار ملے جنہوں نے تبلیغ دین کے لیے اپنی زندگیاں قربان کر دیں اور ایسے نمونے دکھائے جو کہ قرون اولیٰ کی یاد تازہ کرنے والے تھے۔کابل کی سنگلاخ زمین سے لے کر لاہور کی مساجد کے مینار اس بات کے گواہ ہیں کہ جانثاران دین مصطفیٰ نے کبھی ایک قدم بھی پیچھے نہیں ہٹایا کیونکہ انہوں نے اس کو مانا ہے کہ جس کی سرشت میں ناکامی کا خمیر نہیں تھا۔اسی طرح خدا تعالیٰ نے بھی اپنی نصرت و مدد کے وہ وہ نظارے دکھائے جو ایمانوں کو حرارت دینے کے لیے کافی ہیں۔ خدائی تائیدات کے یہ نظارے کسی ایک جگہ سے مخصوص نہیں بلکہ دنیا کے کونے کونے میں اس کے نمونے دیکھنے کو ملے ہیں کہ جہاں بھی تبلیغ احمدیت میں کفر کی ناگنوں نے زہر گھولنے کی کوشش کی ہے ہمارا خدا عرش سے ہماری مدد کو اترا ہے۔
عبید اللہ علیم صاحب مرحوم نےاس مضمون کو کیا ہی اچھے پیرائے میں بیان فرمایا ہے:
زمین جب بھی ہوئی کربلا ہمارے لیے
تو آسمان سے اترا خدا ہمارے لیے
انہیں غرور کہ رکھتے ہیں طاقت و کثرت
ہمیں یہ ناز بہت ہے خدا ہمارے لیے
احمدیت کی تاریخ تو خدائی تائیدات کے نظاروں سے بھری پڑی ہے لیکن وقت کی مناسبت سے آئیے ہم تاریخ کے جھروکوں سے بستان احمد کی چند کلیوں کا نظارہ کرتے ہیں۔
سب سے پہلے، حضرت مولوی غلام رسول صاحب راجیکیؓ حضرت مسیح موعود ؑکے وہ جلیل القدر صحابی تھے جنہوں نے اپنی ساری زندگی اعلائے کلمة الاسلام کے لیے وقف کر دی تھی اور بے شمار الٰہی تائیدات کا مشاہدہ کیا اور ایک کتاب حیات قدسی نامی تحریر فرمائی جس میں ان واقعات کو تحریر فرمایا۔فرماتے ہیں کہ جب آریوں کی طرف سے ملکانہ کے علاقہ میں شدھی کی تحریک زوروں پر تھی اور وہ مسلمانوں کے ارتداد کے علاوہ اور ذرائع استعمال کر کے ان کی مفلسی اور اقتصادی بد حالی سے ناجائز فائدہ اٹھا رہے تھے اور ان کو مالی طور پر لالچ دے کر شدھ کر رہے تھےتو سیدنا حضرت خلیفة المسیح الثانی ؓنے یہ تحریک فرمائی کہ ارتداد کی ایسی تحریکات کے مضر اثرات سے بچنے کے لیے مسلمانوں کو چاہیے کہ وہ بھی اپنی اقتصادی حالت کو درست کریں اور اپنے تجارتی کاروبار کو وسیع کر کے اور اپنی دکانیں کھول کر اور ان کو ترقی دے کر اپنی مفلسی کو دور کریں۔
اس غرض کے لیے حضور ؓنے ایک تنظیم کے ماتحت مبلغین کو مختلف علاقہ جات میں بھجوایا۔اس سلسلہ میں خاکسار کو ضلع جھنگ میں متعین کیا گیا۔ جب میں شہر جھنگ میں پہنچا تو میں نے حالات کے پیش نظر مقامی احمدی احباب کے پاس جانا پسند نہ کیا اور شہر میں دریافت کیا کہ جھنگ میں زیادہ بااثر اور معزز رئیس جو شریف الطبع اور بااخلاق بھی ہوں کون ہیں؟ مجھے بتایا گیا کہ میاں شمس الدین صاحب میونسپل کمشنر ان اوصاف کے مالک ہیں۔ چنانچہ میں ان کی رہائش گاہ کا پتا لے کر وہاں پہنچا۔ میاں شمس الدین اپنے گھر کے بڑے صحن میں اپنے حلقہٴ احباب میں بیٹھے ہوئے تھے۔ مجلس میں تقریباً ہر طبقہ کے لوگ شامل تھے۔ بعض کے آگے بڑے قیمتی حقے پڑے تھے خود میاں شمس الدین صاحب بھی حقہ پی رہے تھے۔ جس پر چاندی کا کام ہوا ہوا تھا۔
مجلس کے قریب پہنچتے ہی میں نے اونچی آواز سے السلام علیکم کہا۔ علیک سلیک کے بعد میاں صاحب نے میرے سے پوچھا آپ کہاں سے تشریف لائے ہیں۔ میں نے کہا قادیان مقدس سے آیا ہوں اور احمدی ہوں۔ انہوں نے مقصد دریافت کیا تو میں نے مختصر طور پر آریوں کی تحریک شدھی اور مسلمانوں کی بدحالی اور اس کے تدارک کے متعلق ضروری سیکم کا ذکر کیا اور وہ امور بیان کیے جو سیدنا حضرت مصلح موعود ؓ نے رسالہ ’’اسلام ‘‘میں ذکر فرمائے۔ میاں شمس الدین صاحب نے کہا کہ مقاصد تو اچھے ہیں لیکن کسی قادیانی کے لیے یہاں بیٹھنا تو درکنار کھڑا ہونے کی بھی اجازت نہیں دی جاسکتی۔ فرماتے ہیں کہ اس پر میں نےان کی خدمت میں احمدیہ جماعت اور اس کے مقدس امام کی مسلمانوں کے ساتھ ہمدردی اور ان کی بروقت امداد کا ذکر کیا۔ اوران کو بھی اس مفید سکیم میں تعاون کی طرف توجہ دلائی لیکن انہوں نے اس طرف کوئی توجہ نہیں دی۔ اسی اثنا میں ایک طبیب نے جو اسی مجلس میں بیٹھا تھا کسی تعلق میں کہا کہ علم الطب ایک یقینی علم ہے۔ میں نے یہ بات سن کر عرض کیا کہ اس وقت تو میں جا رہا ہوں کسی علمی بات کا موقع نہیں،صرف اتنا کہہ دیتا ہوں کہ افلاطون کا مشہور مقولہ اطباء اسلام نے نقل کیا ہے کہ اَلْمُعَالَجَةُ کَرَمْیِ السَّھمِ فِی الظُّلُمَاتِ قَدْیخطیُٔ وَ قَدْ یُصِیْبُ یعنی مریضوں کا علاج معالجہ اندھیرے میں تیر پھینکنے کی طرح ہے جو کبھی نشانہ پر بیٹھتا ہے اور کبھی خطا جاتا ہے۔ پس علم طب کو یقینی علم کہنا درست نہیں۔
میں ابھی اس سلسلہ میں بات کر ہی رہا تھا کہ میاں شمس الدین صاحب کو گھر سے اطلاع ملی کہ ان کی لڑکی جس کو آٹھواں مہینہ حمل کا ہے بوجہ قے قریب المرگ ہے ان کو زنان خانہ میں فوراً بلایاگیا۔ ادھر پیغام لانے والے نے یہ اطلاع دی اور دوسری طرف میں نے باہر نکلتے ہوئے السلام علیکم کہا اور پنجابی میں یہ بھی کہا ’’ تسی وسدے بھلے تے اسی چلدے بھلے‘‘ ابھی میں نے ایک دو قدم ہی باہر کی طرف اٹھائے تھے کہ میاں صاحب نے کہا کہ آپ ذرا ٹھہرجائیں اور اگر آپ کو طبابت سے واقفیت ہو تو اس مرض کے لیے ایک نسخہ بتا جائیں۔ میں نے کہا کہ حاملہ کی قے کے لیےسات پتے پیپل کے جو خودریختہ ہوں (یعنی خودگرے ہوں )لے لیں اور ان کو جلا کر راکھ چینی کے پیالہ میں ڈال لیں اور آدھ پاوٴ یا تین چھٹانک پانی ڈال کر راکھ کو اس میں گھول لیں۔ جب راکھ نیچے بیٹھ جائے توپھر گھولیں اس طرح سات بار گھولیں اور پھر پانی نتھار کر مریضہ کو پلادیں۔میرے کہنے کے مطابق میاں صاحب نے عمل کیا ۔خدا تعالیٰ کے عجائبات ہیں کہ مریضہ کی قے پانی پیتے ہی رک گئی اور طبیعت فوراً سنبھل گئی۔ جب انہوں نے یہ کرشمہٴ قدرت دیکھا تو میری طرف آدمی دوڑایا اور مجھے رکنے کا کہا (میں اس عرصہ میں گھر سے کافی دور نکل آیا)۔چنانچہ میں رک گیا۔ تھوڑی دیر میں وہ بھی آگئے۔ علاج کی بہت زیادہ تعریف کرنے کے بعد درخواست کرنے لگے کہ میں ان کے ہاں مہمان ٹھہروں وہ ہر طرح سے میرے آرام و سہولت کا خیال رکھیں گے اور مہمان نوازی کا حق ادا کر یں گے۔ میں نے کہا کہ میری دعوت کو تو آپ نے ردّ کر دیا جو قومی فائدے کی تھی اور اپنی طرف سے مجھے دعوت دے رہے ہیں۔
میاں صاحب نے بہت معذرت کی اور کہا کہ جو کچھ ہوا سب ناواقفیت کی وجہ سے ہوا۔اب میں روزانہ شہر میں اعلان کروا کر مسلمانوں کو اکٹھا کروں گا اور جلسہ کا انعقاد کر کے مسلمانوں کی خدمت کا موقع بہم پہنچاوٴں گا۔
چنانچہ حسب وعدہ انہوں نے روزانہ جلسوں کا انعقاد کروایا اور ان جلسوں میں صدارت بھی خود کی۔اور میری تقاریر کو سننے سے مسلمانوں میں بڑی بیداری پیدا ہوئی۔اسّی کے قریب مسلمانوں کی نئی دکانیں کھلیں اور جو دکانیں اور کاروبار پہلے موجود تھے مزید پُر رونق ہو گئے۔ ‘‘ (حیات قدسی صفحہ ۱۶۵تا ۱۶۸)
اب دیکھیں کہ وہ شخص جو مولوی صاحب کو اپنے گھر میں کھڑا نہیں ہونے دیتا تھا اور بات تک کرنا کسر شان سمجھتا تھا محض خدائی کرشمہ سے آپ کا مطیع ہو گیا۔ اب اس کی بیٹی کی بیماری میں کوئی انسانی کارروائی نہیں ہو سکتی یہ صرف اور صرف خدائی تائید ہی تھی جس نے اسلام کا نام بلند کرنے کے لیے انتظام فرمایا۔
پھر ایک واقعہ وہ بھاگلپور کا بیان فرماتے ہیں کہ بھاگلپور میں ایک جلسہ کا انعقاد کیا گیا۔ ایک وسیع میدان میں دریاں بچھا کر پنڈال بنایا گیا، ابھی جلسہ کا آغاز ہونےہی والا تھا کہ شدید کالے بادل امڈ آئے اور موٹے موٹے قطرات گرنا شروع ہوگئے۔فرماتے ہیں میں سٹیج کے پاس ہی بیٹھا تھا۔ بارش کے خطرہ اور تبلیغ اسلام کے نقصان کو دیکھ کر خدا تعالیٰ کی طرف سے دل ایک جوش سے بھر گیا۔ اور میں نے جوش سے دعا کی کہ اے خدا! یہ ابر سیاہ تیرے سلسلہ حقہ کے پیغام پہنچانے میں روک بننے لگا ہےاور تبلیغ کے اس زریں موقع کو ضائع کرنے لگا ہے تُو اپنے کرم اور فضل سے اس امڈتے ہوئے بادل کو برسنے سے روک دے اور اس کو ہٹا دے۔
چنانچہ جب لوگ موٹے موٹے قطرات کے گرنے سے ادھر ادھر ہلنے لگےاور بعض لوگوں نے فرش کو جو نیچے بچھایا ہوا تھا لپیٹنے کی تیاری کر لی تو میں نے اس سے منع کر دیا اور لوگوں کو تسلی دلائی کہ وہ اطمینان سے بیٹھے رہیں بادل ابھی چھٹ جائے گا۔ یہ خدا تعالیٰ کی قدرت کا عجیب کرشمہ ہے کہ وہ بادل جو تیزی سے امڈا چلا آتا تھا، قدرت مطلقہ سے پیچھے ہٹ گیا اور بارش کے قطرات بھی بند ہو گئے اور ہمارا جلسہ خدا تعالیٰ کے خاص فضل کے ماتحت کامیابی کے ساتھ سرانجام ہوا۔(ماخوذ از حیات قدسی صفحہ ۱۶۹تا۱۷۰)
پھر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے دو جلیل القدر صحابہ حضرت شیخ زین العابدین صاحبؓ اورحضرت حافظ حامد علی صاحبؓ جن کو آپ علیہ السلام نے خود مشرقی افریقہ بھیجا اپنے اس مشرقی افریقہ کے سفر کا ذکرکرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے کس طرح ہماری تائید و نصرت فرمائی اس لیے کہ ان کو یہ یقین تھا کہ حضرت صاحب کی دعائیں ہمارے ساتھ ہیں۔ ان کا واقعہ یہ ہے۔ کہتے ہیں کہ ہم جہاز پر روانہ ہوئے اور اس میں ایک ہزار افراد سفر کر رہے تھے۔ ابھی افریقہ پہنچنے میں چند روز باقی تھے کہ کپتان نے آدھی رات کو اعلان کر دیا کہ جہاز طوفان میں گر گیا ہے اور خراب ہو گیا ہے اس کے بچنے کی کوئی امید نہیں۔ لوگ دعا کریں۔ شیخ صاحبؓ بیان کرتے ہیں کہ بھائی حامد علی صاحبؓ نے مجھے جگایا۔ میں نے دریافت کیا کہ لوگ کیوں روتے ہیں۔ حافظ صاحب نے مجھ سے وعدہ لے کر کہ میں غم نہ کروں بات بتلائی اور کہا کہ دعا کرو۔ مَیں نے کہا کہ جہاز غرق نہیں ہو سکتا اس پر مسیح کے دو حواری بیٹھے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کے مامور نے مجھے خوشخبری دی تھی کہ تم دونوں بھائی افریقہ جاؤ وہاں سے صحیح سلامت اور فائدہ حاصل کرکے آؤ گے۔ تو بھائی حامد علی نے کہا کہ کیا پتا حضور کے الفاظ کی تعبیرکچھ اور ہو۔ (الفاظ تعبیر طلب ہوں )۔ مَیں نے کہا ہرگز نہیں۔ میرا ایمان اور یقین ہے کہ مَیں نے جو حضور کے منہ سے سنا ہے وہی ہو گا چنانچہ اس وقت دعا میں شامل ہو گئے۔ تقریباً ڈیڑھ گھنٹے بعد کپتان نے اعلان کیا کہ اب امن ہو گیا ہے اور جہاز خطرے سے باہر ہو چکا ہے۔ قریباً چوتھے روز ہم بخیر و خوبی مشرقی افریقہ پہنچ گئے اس کے بعد جہاز اور آٹھ دن وہیں کھڑا رہا۔ پھر وہ زنجبار کو روانہ ہوا اور ایک ہی دن کے بعد راستہ میں غرق ہو گیا۔کہتے ہیں میرے چچا شہاب الدین صاحب سودا سلف لینے بٹالہ گئے تو یہ خبر ایک اخبار میں پڑھی تو انہوں نے گھر آ کر بھائی فقیر علی کو بتایا۔ انہوں نے کہا گھر میں نہیں بتانا لیکن حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی خدمت میں یہ خبر ضرور پہنچانی ہے۔ دونوں قادیان آئے اور حضرت صاحب سے مل کر رونے لگ پڑے۔ حضورؑ نے اس کی وجہ پوچھی تو انہوں نے یہ خبر بیان کی اور کہا کہ وہ دونوں غرق ہو گئے ہوں گے۔حضرت مسیح موعود ؑ نے بڑے وثوق سے فرمایا ہرگز نہیں۔ وہ زندہ ہیں اور جاؤ اور جا کر دیکھو۔ تمہارے گھر میں جو ڈاک آئے گی اس میں ضرور تمہارے بھائیوں کا خط ہو گا اور میری طرف بھی خط آ رہا ہے۔ اگر مجھے پہلے خط پہنچا تو میں آپ کو پہنچا دوں گا اور اگر آپ کو پہلے مل گیا تو مجھے پہنچا دینا۔ (ماخوذاصحاب احمدجلد ۱۳صفحہ۲۳.۲۴)
پھراسی طرح جماعت کے دیرینہ خادم حضرت مولانا نذیر احمد صاحب مبشر لکھتے ہیں کہ جولائی ۱۹۳۹ء کا واقعہ ہے کہ گھانا کی ڈگوبہ قوم کا نوجوان حج بیت اللہ اور دینی تعلیم کی تکمیل کے بعد مکّہ مکرمہ سے واپس آ کر گھانا کے ایک گاؤں صراحہ نامی میں قیام پذیر ہو گیا اور غالباً اپنی اہمیت بڑھانے کے لیے اس نے ہمارے خلاف پراپیگنڈا شروع کر دیا کہ مَیں مکّہ سے آیا ہوں اور امام مہدی کا ظہور ابھی نہیں ہوا۔ احمدی غلط بیانی سے کام لیتے ہیں۔ اور کہتے ہیں کہ ان کا پراپیگنڈہ اتنا زور پکڑ گیا کہ اس علاقے کے ایک چیف رئیس ’’محمد‘‘نامی جو تھے وہ کہتے ہیں میرے پاس ’’سالٹ پانڈ‘‘ آئے اور اس شخص کے زہریلے پراپیگنڈے کے بارے میں کہا کہ اس کے خلاف کوئی کارروائی کرنی چاہیے۔ مَیں نے انہیں کہا کہ مَیں کچھ ضروری کاموں میں مصروف ہوں۔ میرے کسی شاگرد کو لے جائیں۔ لیکن وہ نہ مانے۔ وہاں گیا لیکن وہ بہانے بنا کر مناظرہ کی طرف نہ آیا۔ اس پر گاؤں والوں نے خواہش ظاہر کی کہ مَیں علامات مہدی پر تقریر کروں۔ چنانچہ مَیں نے پونے دو گھنٹے اس موضوع پر تقریر کی جس کے بعد سامعین کو اعتراضات اور سوالات کی کھلی دعوت دی گئی۔ مگر کسی نے کوئی معقول سوال نہ کیا۔ اس کے برعکس وہ ملکی قانون کے مطابق سفید پٹیاں باندھ کر جلوس نکالنے لگے کہ مہدی کی علامت تو زلزلہ تھا جو کہ نہیں آیا اس لیے یہ مہدی جھوٹا ہے کیونکہ مہدی ظاہر ہوتا تو زلزلہ ضرورآتا۔ (گھانا کے اس علاقے میں عموماً زلزے بہت کم آتے ہیں یاشاید آتے ہی نہ ہوں )۔
بہرحال جب مجھے ان کی اس حرکت کی اطلاع ملی تو مَیں نے اللہ تعالیٰ کے حضور ایک ہفتہ بڑے الحاح اور درد سے دعا کی کہ الٰہی ان مخالفوں کے مطالبہ کے مطابق اور صداقت مہدی علیہ السلام کے اظہار کے لیے زلزلے کا نشان دکھا۔ چنانچہ کہتے ہیں کہ اس دعا کا اتنا اثر تھا کہ مجھے یقین ہو گیا کہ اللہ تعالیٰ اب اس ملک میں زلزلے کا نشان ضرور دکھائے گا اور مَیں نے اس علاقے میں تین مقامات پر جلسے کا پروگرام بنایا او ر ہر جگہ تمام واقعات بیان کرکے اعلان کر دیا کہ اب مہدی علیہ السلام کی صداقت کے اظہار کے لیے زلزلہ ضرور آئے گا۔ چنانچہ ابھی دو ہی مقام پر جلسہ ہوا تھا اور تیسرے مقام کی جگہ کا انتظام کیا جارہا تھا کہ جمعرات اور جمعہ کی درمیانی رات کو عشاء کے وقت سارے گھانا میں شدید زلزلہ آیا۔ اور اگلے دن جب مَیں ہیڈکوارٹر سالٹ پانڈ واپس جا رہا تھا تو جہاں سے مَیں گزرتا لوگ مجھے دیکھ کر تعجب کرتے ہوئے کہتے تھے کہ اس شخص نے کہا تھا زلزلہ ضرور آئے گا جو آ گیا ہے اور مشرکین اور عیسائی بھی اپنے دو تارے بجا بجا کر اعلان کرنے لگے کہ مسلمانوں کا مہدی آگیا ہے کیونکہ زلزلہ آ گیا ہے۔ اور اس وجہ سے پھر اس قریب کے علاقے میں ہی ۱۸۰ افراد نے بیعت کر لی۔ (روح پرور یادیں۔مولانا محمد صدیق امرتسری صاحب صفحہ۷۷-۷۹)
اسی طرح جماعت کے ایک فدائی خادم مولانا صادق سماٹری صاحب الٰہی تائیدات کا ایک انوکھا واقعہ بیان کرتے ہیں کہ کس طرح ایک شخص کی خاطر خدا تعالیٰ ایک قوم کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کر دیتا ہے۔ فرماتے ہیں کہ دوسری عالمی جنگ میں ۶؍مارچ ۱۹۴۲ء تک جاپان سارے انڈونیشیا پر مسلط ہو چکا تھا اور اپنی من مانی کارروائیاں کرنے لگا تھا۔ کسی کے متعلق کوئی شکایت پہنچے تو اس کی موت کا یہی بہانہ بن جاتی۔ کوئی تفتیش ہوتی نہ تحقیقات۔ فیصلہ سنا دیا جاتا۔ بلکہ عموماً اسے سنانا بھی ضروری نہ سمجھا جاتا۔ فوراً اسے نافذ ہی کر دیا جاتا۔ کہتے ہیں میرے متعلق بھی جاپانی حکومت نے قتل کا فیصلہ کیا۔ اطلاع دینے والے نے بتایا کہ میرے متعلق دو شکایات بھیجی ہیں۔ نمبر ایک یہ کہ جماعت احمدیہ انگریزی حکومت کی مداح ہے۔ نمبر دو یہ کہ تمام علمائے اسلام سماٹرا نے یہ فتویٰ دیا ہے کہ جاپان کی انگریزوں اور امریکہ سے یہ جنگ جہاد فی سبیل اللہ ہے۔ مَیں نے ایسا فتویٰ دینے سے انکار کیا بلکہ اس کے خلاف ایک مضمون لکھا ہے۔ تو کہتے ہیں کہ اس پر مَیں نے جماعت کوتلقین کی کہ نماز تہجد کی ادائیگی کا التزام کیا جائے اس میں باقاعدگی اختیار کی جائے اور دعا کی جائے اور اگر کسی کو کوئی خواب آئے یا کشف یا کوئی نظارہ نظر آئے تو مجھے بتایا جائے۔ کہتے ہیں اس تحریک کے بعد مَیں خود بھی ہر وقت دعا میں مشغول ہو گیا۔ اور ہر وقت اپنے حقیقی مولا پر نظر تھی۔ کہتے ہیں مجھے خوب یاد ہے کہ چوتھی رات تہجد کی نماز کے بعد فجر سے پہلے مَیں ذرا لیٹا تو ایک دیوار پر موٹے حروف میں لکھا ہوا دکھائی دیا کہ دانیال نبی کی کتاب کی پانچویں فصل پڑھو۔ اذان ہوئی نماز فجر کے لیے اٹھا دوستوں کو جو حاضر تھے اپنے خواب سے مطلع کیا۔ دانیال نبی کی کتاب کی پانچویں فصل دیکھی۔ اس میں کیا لکھا تھا؟ لکھا تھا کہ بخت نصر کے بعد اس کا بیٹا ب بِلْشَضَّر (Belshazzar) بادشاہ ہوا۔ یہ بت پرست بھی تھا اور ظالم بھی۔ اس نے ایک خواب دیکھا تھا (ایک لمبا خواب ہے جس میں خدا نے اس کو ایک تحریر دکھائی) اس کی اس نے لوگوں کو اکٹھا کرکے تعبیر پوچھی لیکن سب نے کہا ہم کو اس کی تعبیر نہیں آتی۔ آخر دانیال نبی کو بادشاہ کے حضور حاضر کیا گیا۔ اس نے کہا اے بادشاہ! یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہے اور اس میں پہلے لفظ کا مطلب یہ ہے کہ خدا نے تیری مملکت کا حساب کیا اور اسے تمام کر ڈالا یعنی ختم کر دیا۔ اور پھر دوسرے لفظ کے یہ معنے ہیں کہ تو ترازو میں تولا گیا اور کم نکلا اور تیسرے لفظ کے یہ معنے ہیں کہ تیری سلطنت منقسم ہوئی اور مادیوں اور فارسیوں کو دی گئی۔ جس دن نبی دانیال نے یہ تعبیر بتائی اسی دن بِلْشَضَّر (Belshazzar) قتل ہوا اور’’ دارا مادی ‘‘نے ۶۲برس کی عمر میں مملکت سنبھالی۔
یعنی اس خواب کا مضمون یہ بنتا تھاکہ جاپانی حکومت کا بھی وہی حشر ہو گا جو بیلشضر حکومت کا ہوا تھا۔ میرا یہ خواب اپریل ۱۹۴۵ء کے آخر یا مئی کے ابتدا کا ہے۔ اور اس وقت کئی ہندو سکھ دوستوں کو بھی یہ خواب سنا دیا گیا تھا۔ چنانچہ اسی سال اگست میں ناگا ساکی اور ہیرو شیما پر ایٹم بم برسائے گئے اور جاپانی حکومت کا تختہ الٹ کر رکھ دیا گیا۔ انہی دنوں جاپانی حکومت کے کاغذات میں سے ایک خط نکلا جس میں ۲۳-۲۴ اگست ۱۹۴۵ء کی رات ۶۵آدمیوں کے قتل کا فیصلہ درج تھا اور سرفہرست خاکسار کا نام تھا۔ یعنی مولانا صادق سماٹری صاحب کا نام تھا۔ تو اللہ تعالیٰ نے اس طرح ان کو محفوظ رکھا۔ کہتے ہیں کہ گویا اس فیصلے کے نافذ ہونے میں صرف دس دن باقی تھے کہ خدائے قادر و قیوم نے جو اپنے عاجز بے کس بندوں کی سنتا ہے جاپانی حکومت کو تباہ کر دیا اور قبل اس کے کہ وہ خدا کے اس عاجز بندے پر ہاتھ ڈالے اس کے ہاتھ بلکہ تمام قویٰ کو شل کرکے رکھ دیا۔ کہتے ہیں کہ خوب یاد رکھئے، جو کچھ ہوا وہ میری ذاتی خوبی کی وجہ سے نہیں ہوا بلکہ جو کچھ ہوا مسیح الزمان، مہدی دوراں مرزا غلام احمد علیہ الصلوٰۃ والسلام کی سچائی کے اظہار کے لیے بطور نشان آسمانی ظاہر ہوا کیونکہ اسی پیارے کی پیروی کی وجہ سے مجھے مجرم گردانا جا رہا تھا۔ (ماخوذ ازبرہان ہدایت عبد الرحمان مبشر صاحب صفحہ ۲۰۵ تا ۲۰۸)
اسی طرح سلسلہ کے ایک اور خادم حضرت مولانا شیخ واحد صاحب لکھتے ہیں کہ ۱۹۶۸ء میں ہم نے فجی کے مشہور شہر’’با‘‘ میں احمدیہ مشن کی برانچ کھولنے کا فیصلہ کیا اور اس کے لیے ایک مناسب حال مکان بھی خرید لیا تو اس شہرمیں ہماری شدید مخالفت شروع ہو گئی۔ اس وقت ہمارے مخالفین کا سرغنہ وہاں ایک صاحب اقتدارشخص ’’ابو بکر کو یا‘‘ نامی تھا۔ چنانچہ اس نے اور دیگر مخالفین نے اعلان کرنا شروع کر دیا کہ احمدیوں کے’’با‘‘ مشن کی عمارت کو جلا دیں گے اور ایک رات کسی طرح ان میں سے کسی نے ہمارے مشن ہاؤس کے ایک حصے میں تیل ڈال کر آگ لگا دی اور یہ یقین کرکے کہ اب آگ ہر طرف پھیل جائے گی کیونکہ لکڑی کا حصہ تھا لکڑی کو تو فوراً آگ لگ جاتی ہے اور ہمارے مشن ہاؤس کو خاک سیاہ کر دے گی۔آگ لگاتے ہی آگ لگانے والا وہاں سے چلا گیا، بھاگ گیا۔ لیکن خدا کا کرنا کیا ہوا کہ ہمیں پتا لگنے سے پہلے ہی وہ آگ بغیر کوئی نقصان پہنچائے خود ہی بجھ گئی یا بجھا دی گئی۔ بہرحال کہتے ہیں ہم سفر پر تھے اگلے دن جب ہم واپس آئے تو ہم نے دیکھا کہ عمارت کے اس طرف جہاں اکثر حصہ لکڑی کا تھا آگ لگائی گئی تھی جس سے چند لکڑی کے تختے جل گئے مگر وہ آگ بڑھنے سے قبل ہی بجھ گئی۔جب اس میں جو نقصان ہوا تھا اس کا جائزہ لے رہے تھے تو مبلغ انچارج مولانا نورالحق صاحب انور نے بڑے دکھ بھرے انداز میں آہ بھر کر کہا کہ جس نے اللہ تعالیٰ کے دین اسلام کی اشاعت کا یہ مرکز جلانے کی کوشش کی ہے خدا اس کے اپنے گھرکو آگ لگا کر راکھ کر دے۔ چنانچہ خدا کا کرنا ایسا ہوا کہ اس کے چند روز بعد اچانک’’با‘‘ میں ہمارے مخالفین کے سرغنہ ابوبکر کویا کے گھر کو آگ لگ گئی اور باوجودبجھانے کی ہر کوشش کے اس کا وہ رہائشی مکان سارے کا سارا جل کر راکھ ہو گیا۔ (ما خوذ از روح پرور یادیں۔ از مولانا محمد صدیق امرتسری صاحب صفحہ۹۵,۹۶)
پھر مولانا غلام حسین صاحب کے متعلق ہے، کہتے ہیں کہ جب انگریزواپس آنے لگے تو دونوں طرف سے گولہ باری ہو رہی تھی ایک گولے کے پھٹنے سے محلے میں جہاں وہ رہتے تھے آگ لگ گئی اور آگ نے بڑھتے بڑھتے ان کے گھر کی جگہ کے قریب آنا شروع کر دیا، بڑی تیزی سے پھیلتی جا رہی تھی۔ احباب جماعت اس کو دیکھ کر بڑے پریشان ہو گئے۔ مولوی صاحب کے مکان کے پاس لکڑیاں جل رہی تھیں خیال تھا کہ سامان کا نکالنا بھی مشکل ہے۔ اُس وقت آدمیوں نے سامان نکالنا چاہا تو مولوی صاحب نے منع کر دیا اور کہا فکر نہ کرو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کا الہام ہے کہ آگ ہماری غلام بلکہ غلاموں کی بھی غلام ہے۔ آگ انجمن احمدیہ کا کچھ نہیں بگاڑ سکتی۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ نے اپنے کمزور اور بے بس بندوں کی آواز کو سنا اور ان کی دعا کو قبول فرمایا اور مولوی صاحب کے منہ سے ان الفاظ کا نکلنا تھا کہ آگ فوراً پلٹ گئی اور بیچ سے چند مکان چھوڑ کر آگے پیچھے گھروں کو جلا دیا لیکن اتنا حصہ محفوظ رہا۔ اور جو ساتھ کے مکان تھے وہ بھی محفوظ رہے۔ (الفضل۶؍فروری۴۶ء صفحہ۴)
حضرت مولانا غلام رسول صاحب راجیکی رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ چودھری نتھے خان صاحب جو گاؤں مذکور غازی کوٹ کے رئیس اور مخلص احمدی تھے انہوں نے وہاں ایک تبلیغی جلسے کا انتظام کیا اور علاوہ مبلغین اور مقررین کے ارد گرد کے احمدی احباب کو بھی اس جلسے میں شمولیت کی دعوت دی۔ جلسہ دو دن کے لیے مقرر کیا گیا۔ جب غیر احمدیوں کو اس جلسے کا علم ہوا تو انہوں نے بھی اپنے علماء کو جو فحش گوئی اور دشنام دہی میں خاص شہرت رکھتے تھے، گالیاں نکالنے میں بڑے مشہور تھے۔ (ان کے پاس گالیوں کے سوا کچھ نہ تھا۔ آج بھی یہی حال ہے۔ ) ان کو بھی دعوت دی اور ہماری جلسہ گاہ کے قریب ہی اپنا سائبان لگا کر اور سٹیج بنا کر حسب عادت سلسلہ حقہ اور اس کے پیشواؤں اور بزرگوں کے خلاف سبّ و شتم شروع کر دیا۔ گالیاں دینی اور فضول بکواس شروع کر دی۔ کہتے ہیں کہ ابھی چند منٹ ہی ہوئے ہوں گے کہ ایک طرف سے سخت آندھی اٹھی اور اس طوفان باد نے انہیں کے جلسے کا رخ کیا اور ایسا اودھم مچایا کہ ان کا سائبان اڑ کر کہیں جا گرا، قناتیں کسی اور طرف جا پڑیں اور حاضرین جلسہ کے چہرے اور سرگرد سے اٹ گئے۔ یہاں تک کہ ان کی شکل دکھائی نہ دیتی تھی۔اور احمدیوں کا جلسہ بخیر و خوبی پورا ہو ا۔
بھائیو! اب یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ یہ الٰہی تائیدات ہمیں ملیں گی کیسے تو ان الٰہی تائیدات کے حصول کے لیے ہمیں اپنے اندر ایک پاک تبدیلی پیدا کرنی ہوگی۔حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة و السلام فرماتے ہیں:
خدا کے پاک لوگوں کو خدا سے نصرت آتی ہے
جب آتی ہے تو پھر عالَم کو اِک عالَم دکھاتی ہے
وہ بنتی ہے ہَوا اور ہر خسِ رَہ کو اُڑاتی ہے
وہ ہو جاتی ہے آگ اور ہر مخالف کو جلاتی ہے
کبھی وہ خاک ہو کر دشمنوں کے سر پہ پڑتی ہے
کبھی ہو کر وہ پانی اُن پہ اِک طوفان لاتی ہے
غرض رُکتے نہیں ہرگز خدا کے کام بندوں سے
بھلا خالِق کے آگے خَلْق کی کچھ پیش جاتی ہے
(براہین احمدیہ حصہ دوم صفحہ ۱۱۴۔مطبوعہ ۱۸۸۰ء)
حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ نے ۱۹۴۸ء میں ان پاک اوصاف کے حامل افراد کی تلاش کے لیے ایک اشتہار شائع کیا۔ خاکسار اس اشتہار کے الفاظ پر اپنی گذارشات کا اختتام کرتا ہے۔اس اشتہار کا عنوان تھا ’’مجھے آپ کی تلاش ہے‘‘ اور اس میں ہرمبلغ سلسلہ اور داعی الی اللہ کے لیے راہنما اصول ہیں کہ ان کے اندر کیا کیا اوصاف ہونے چاہئیں۔آپؓ فرماتے ہیں:
’’مجھے آپ کی تلاش ہے‘‘
۱۔ کیا آپ محنت کرنا جانتے ہیں؟ اتنی محنت کہ تیرہ چودہ گھنٹے دن میں کام کرسکیں۔
۲۔ کیا آپ سچ بولنا جانتے ہیں؟ اتنا کہ کسی صورت میں آپ جھوٹ نہ بول سکیں؟ آپ کے سامنے آپ کا گہرا دوست اور عزیز بھی جھوٹ نہ بول سکے، آپ کے سامنے کوئی اپنے جھوٹ کا بہادرانہ قصہ سنائے تو آپ اس پر اظہارِ نفرت کئے بغیرنہ رہ سکیں۔
۳۔ کیا آپ جھوٹی عزت کے جذبات سے پاک ہیں؟ گلیوں میں جھاڑو دے سکتے ہیں؟ بوجھ اُٹھا کر گلیوں میں پھر سکتے ہیں؟ بلند آواز سے ہر قسم کے اعلان بازاروں میں کرسکتے ہیں؟ سارا سارا دن پھر سکتے ہیں اور ساری ساری رات جاگ سکتے ہیں؟
۴۔ کیا آپ اعتکاف کرسکتے ہیں؟ جس کے معنے ہوتے ہیں (الف) ایک جگہ دنوں بیٹھ رہنا (ب) گھنٹوں بیٹھے وظیفہ کرتے رہنا (ج) گھنٹوں اور دنوں کسی انسان سے بات نہ کرنا۔
۵۔ کیا آپ سفر کرسکتے ہیں؟ اکیلے اپنا بوجھ اُٹھا کر بغیر اس کے کہ آپ کی جیب میں کوئی پیسہ ہو۔ دشمنوں اور مخالفوں میں، ناواقفوں اور ناآشناؤں میں؟ دنوں، ہفتوں اور مہینوں۔
۶۔ کیا آپ اس بات کے قائل ہیں کہ بعض آدمی ہر شکست سے بالا ہوتاہے؟ وہ شکست کا نام سننا پسند نہیں کرتا۔ وہ پہاڑوں کو کاٹنے کے لئے تیار ہوجاتا ہے۔ وہ دریاؤں کو کھینچ لانے پر آمادہ ہو جاتا ہے۔ اور کیا آپ سمجھتے ہیں کہ آپ اس قربانی کے لئے تیار ہوسکتے ہیں؟
۷۔ کیا آپ میں ہمت ہے کہ سب دنیا کہے نہیں اور آپ کہیں ہاں؟ آپ کے چاروں طرف لوگ ہنسیں اور آپ اپنی سنجیدگی قائم رکھیں۔ لوگ آپ کے پیچھے دوڑیں اور کہیں کہ ٹھہر تو جا ہم تجھے ماریں گے اور آپ کا قدم بجائے دوڑنے کے ٹھہر جائے اور آپ اس کی طرف سر جھکا کر کہیں کہ لو مارلو۔ آپ کسی کی نہ مانیں کیونکہ لوگ جھوٹ بولتے ہیں مگر آپ سب سے منوالیں کیونکہ آپ سچے ہیں۔۸۔ آپ یہ نہ کہتے ہوں کہ میں نے محنت کی مگر خداتعالیٰ نے مجھے ناکام کردیا۔ بلکہ ہر ناکامی کو آپ اپنا قصور سمجھتے ہوں۔ آپ یقین رکھتے ہوں کہ جومحنت کرتا ہے کامیاب ہوتا ہے اور جو کامیاب نہیں ہوتا اُس نے محنت ہرگز نہیں کی۔اگر آپ ایسے ہیں تو آپ اچھا مبلغ اور اچھا تاجر ہونے کی قابلیت رکھتے ہیں۔ مگر آپ ہیں کہاں، خدا کے ایک بندہ کو آپ کی دیر سے تلاش ہے۔ اے احمدی نوجوان ڈھونڈ اس شخص کو اپنے صوبہ میں، اپنے شہر میں، اپنے محلہ میں، اپنے گھر میں، اپنے دل میں کہ اسلام کا درخت مرجھا رہا ہے۔ اسی کے خون سے وہ دوبارہ سرسبز ہوگا۔مرزا محمود احمد(الفضل ۲۸؍مئی ۱۹۴۸ء صفحہ ۴) وآخر دعوانا أن الحمد للّٰه رب العالمين
(نوٹ:حیات قدسی کےحوالہ جات الاسلام ویب سائٹ پر موجود ایڈیشن کے مطابق ہیں)