خیانت کی اقسام اور اس سے بچنے کی تلقین
(انتخاب از خطبہ جمعہ حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ ۶؍ فروری ۲۰۰۴ء)
یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا لَا تَخُوۡنُوا اللّٰہَ وَ الرَّسُوۡلَ وَ تَخُوۡنُوۡۤا اَمٰنٰتِکُمۡ وَ اَنۡتُمۡ تَعۡلَمُوۡنَ (الانفال:۲۸)
اللہ تعالیٰ اس آیت میں فرماتاہے : اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو! اللہ اور (اس کے) رسول سے خیانت نہ کرو ورنہ تم اس کے نتیجہ میں خود اپنی امانتوں سے خیانت کرنے لگو گے جبکہ تم(اس خیانت کو) جانتے ہوگے۔
خیانت ایک ایسی برائی ہے جس کا کرنے والا اللہ تعالیٰ اور بندوں دونوں کے حقوق ادا نہ کرنے والا ہوتاہے۔ اللہ تعالیٰ نے مختلف پیرایوں میں، مختلف سیاق وسباق کے ساتھ قرآ ن کریم میں مختلف جگہوں پراس کے بارہ میں فرمایاہے اور خیانت کرنے والا خائن کہلاتاہے جس کا مطلب یہ ہے کہ ایسا شخص جس پر اعتماد کیا جائے اور وہ اعتماد کو ٹھیس پہنچائے۔
پھر قرآن کریم میں خَآئِنَۃُ الْاَعْیُنِکا لفظ بھی استعمال ہواہے جس کا مطلب یہ ہے کہ ایسی چیز پر گہری نظر ڈالنا جس کو دیکھنے کی اجازت نہیں ہے۔ یاجان بوجھ کر ایسی چیزکو دیکھنا جس کو دیکھنے کی اجازت نہ ہو۔ اور یہ آنکھ کی خیانت کہلاتی ہے۔
گزشتہ جمعہ کے خطبہ میں مَیں نے پردے کے بارہ میں کہا تھاتو بعض خواتین کو یہ شکوہ پیدا ہوا کہ ہمارے بارے میں بہت کچھ کہہ دیا مردوں کو کچھ نہیں کہا گیاکیونکہ پردے کے بارہ میں مردوں کو بھی کہنا چاہئے۔ میرے خیال میں تو خواتین کا شکوہ غلط ہے کیونکہ غض بصر کے بارہ میں مَیں نے کھل کر بات کی تھی۔ اور بڑی وضاحت سے بتایاتھااور مختلف حوالوں سے مردوں کو بھی اس طرف توجہ دلائی تھی اور سمجھایا تھا۔ تو آج کے لئے مَیں نے خیانت کا عنوان چنا تو سورۃ المومن کی یہ آیت نظر سے گزری جس کا تھوڑا سا حصہ مَیں نے بتایا تھا۔ تو مجھے خیال آیا کہ آنکھ کی خیانت کے حوالہ سے بھی دوبارہ مختصرا ً بتا دوں کہ مردوں اور عورتوں دونوں کو غض بصر کا حکم ہے اور چونکہ مردوں کو زیادہ دیکھنے کی عادت ہوتی ہے اس لئے ان کو بہرحال غض بصر سے زیادہ کام لینا چاہئے۔ اور اس میں واضح طور پر منع ہے کہ آزادی سے ایک دوسرے کو دیکھیں۔ کیونکہ مردوں اور عورتوں دونوں کے لئے منع ہے کہ جو نامحرم رشتے ہیں ان کو دیکھا جائے۔ اور اگر وہ اس طرح کرتے ہیں تو یہ بات بھی آنکھ کی خیانت کے زمرے میں آتی ہے۔
اب مَیں اس آیت کی طرف آتاہوں جو مَیں نے ابھی تلاوت کی۔ اللہ تعالیٰ فرماتاہے کہ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول نے تمہیں جو تعلیم دی ہے، جو احکامات دئے ہیں، اللہ تعالیٰ نے اپنے لئے جو حقوق معین کئے ہیں، ان کی ادائیگی میں اگر خیانت کرو گے تو پھر تم آپس میں بھی اپنی امانتوں کو ادا کرنے کے معاملہ میں خیانت سے کام لو گے۔ لوگوں کی امانتوں کو لوٹانے اور ان کے حقوق ادا کرنے کے بارہ میں بھی خیانت کرنے والے بن جاؤ گے، حقوق ادا نہیں کروگے۔ اس لئے ہر دو قسم کے حقوق یعنی خداتعالیٰ کے اور بندوں کے حقو ق ادا کرنے کے لئے تمہیں صاف ستھرا اور کھرا ہونا ہوگا۔ پھر اس میں یہ بھی فرمایا کہ اللہ تعالیٰ کے حقوق کی ادائیگی تم پر فرض ہے۔ جب تم نے یہ عہد کرلیا کہ مَیں مسلمان ہوتاہوں، ایمان لاتا ہوں، تمام حکموں پر جو اللہ تعالیٰ نے ادا کرنے کا حکم دیاہے ان کو پورا کرنے کی کوشش کرتاہوں تو وہ توکرنے ہیں اور یاد رکھیں کہ اگر یہ احکامات سچے دل سے بجا نہیں لائیں گے تو معاشرے کے جو حقوق وفرائض ہیں وہ بھی صحیح طرح ادا نہیں ہوں گے۔ اور پھر معاشرے میں ایک دوسرے کا اعتماد بھی حاصل نہیں ہوگا کیونکہ جب تم خیانت کرو گے تو دوسرے بھی خیانت کریں گے اور معاشرے کا امن، چین اور سکون کبھی قائم نہیں ہوسکے گا۔
جب انسان کے روز مرہ کے معاملات میں دنیا داری شامل ہوجائے اور جب یہ خیال پیدا ہوجائے کہ جھوٹ، فریب اور دھوکے کے بغیر مَیں اپنے کاروبارمیں یاکام میں کامیاب نہیں ہو سکتا۔ تو پھر انسان اپنے ارد گرد ایسا گروہ بنا لیتاہے جو غلط قماش کے لوگوں کا ہوتاہے تاکہ بوقت ضرورت ایک دوسرے کے کام آسکیں۔ چنانچہ دیکھیں آج کل دنیاداروں میں ہرجگہ یہی چیزہے۔ ایسے لوگوں میں جب کوئی شخص غلط کام کرتاہے توصرف اپنے سردار کے پاس، اپنے سربراہ کے پاس آتاہے۔ یا ہمارے ملکوں میں زمیندارہ رواج ہے وڈیروں کے پاس چلے جاتے ہیں تا کہ وہ ان کو قانون سے بچائیں۔ اور پھر یہ لوگ ان کو قانون سے بچانے کے لئے ایڑی چوٹی کا زور لگا رہے ہوتے ہیں۔ بڑی بڑی سفارشیں کروائی جاتی ہیں۔ اور جو بے چارے شریف آدمی ہوں، جن کی غلطی نہ بھی ہو اور کوشش یہ ہوتی ہے کہ ان کو پھنسا دیا جائے اور غلط قسم کے لوگوں کو بچا لیاجائے۔ رشوتیں دی جاتی ہیں کہ ہمارا آدمی بچ جائے چاہے بے گناہ آدمی کو سزا ہوجائے۔ حالانکہ حکم تو یہ ہے کہ اگر کوئی چورہے، بے ایمان ہے تو تم نے کوئی سفارش نہیں کرنی۔ آنحضرتﷺ کی یہ بات پیش نظر نہیں رکھتے جب ایک عورت کی سفارش کی گئی چوری کے الزام میں تو آنحضرتﷺ نے فرمایاکہ تم سے پہلی امتیں اسی لئے تباہ ہوئیں کہ وہ اپنے چھوٹوں کو سزا دیا کرتی تھیں اور بڑوں کو بچا لیا کرتی تھیں۔ تو فرمایاکہ اگر میری بیٹی فاطمہ بھی چوری کرتی تو مَیں اس کا بھی ہاتھ کاٹ دیتا۔ تویہ ہے اسوہ امانت کو صحیح طورپر ادا کرنے کا اور خیانت سے بچنے کا۔ اور یہی تعلیم ہے جس کو لے کر جماعت احمدیہ کھڑی ہوئی ہے۔ پس ہراحمدی کا فرض ہے کہ اس معاشرہ میں بڑا پھونک پھونک کر قدم رکھے۔ ہم نے معاشرہ کی برائیوں سے اپنے آپ کو بچانا بھی ہے اور اپنے اندر امانت ادا کرنے کے حکم کو جاری اور قائم بھی رکھناہے۔ اور قرآن کریم کے اس حکم کو پیش نظر بھی رکھناہے کہ وَلَا تُجَادِلْ عَنِ الَّذِیْنَ یَخْتَانُوْنَ اَنْفُسَھُمْ۔ اِنَّ اللّٰہَ لَا یُحِبُّ مَنْ کَانَ خَوَّانًا اَثِیْمًا(النساء:۱۰۸)۔ اور لوگوں کی طرف سے بحث نہ کر جو اپنے نفسوں سے خیانت کرتے ہیں۔ یقیناً اللہ سخت خیانت کرنے والے گنہگار کو پسند نہیں کرتا۔