محترمہ صاحبزادی سیّدہ امۃ القدوس بیگم صاحبہ
۲۴؍اگست ۲۰۲۳ء کی دو پہر یہ دکھ بھری اور افسوس ناک خبر فضا میں گشت کر رہی تھی کہ سیده بیگم صاحبہ جو صاحبزاہ مرزاوسیم احمد صاحب مرحوم سابق ناظر اعلیٰ و امیر مقامی قادیان تھیں ہم سب کو داغ مفارقت دے کرر حلت فرما گئیں۔اناللہ وانا الیہ راجعون۔
بُلانے والا ہے سب سے پیارا اسی پہ اے دل تُو جاں فدا کر
یہ غم میں لپٹی ہوئی خبر بھارت کے تمام باسیوں مرد و زن پر بجلی کی طرح گری اور یہ نہایت تکلیف دہ اور عظیم سانحہ سے کم نہ تھی۔ قادیان اور سارے بھارت میں آپ کی پہچان حضرت آپا جان کے نام سے تھی۔ چھوٹا بڑا ہر کوئی ہی آپ کو آپا جان کے نام سے جانتا تھا۔ حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ نے ارشاد فرمایا تھاکہ قادیان میںحضرت مسیح موعودؑ کے خاندان کا کوئی فرد ہونا چاہیے۔ آپ نےحضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ کی بہو اور خاندان حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا فرد ہونے کےناطے اس ارشاد پر مکمل طور پرعمل کیا۔ہم سفر کی مستقل جدائی کے بعد تنہا زندگی بسر کرنا کس قدر کٹھن اور دشوار گزار مرحلہ تھا لیکن آپ نے اس وقت کوبڑے حوصلے سےگزارا۔ آپ کے تمام بچے بیرونِ ملک مقیم تھےاور آپ کی رہائش کے لیے تمام تر سہولتیں ہر کسی کے پاس موجود تھیں لیکن آپ کو حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ کے ارشاد کا پاس تھا۔اطاعت ضروری تھی چنانچہ قادیان میں رہائش کو تر جیح دی۔ اپنی بیماری کے آخری دنوں میں حضرت امیر المومنین خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی باقاعدہ اجازت سے ربوہ میں اپنی بیٹیوں کے ساتھ کچھ وقت گزارا۔ وفات کے بعد قادیان بہشتی مقبرہ میں آپ کی تدفین چار دیواری میں اپنے شوہر کے پہلو میں عمل میں آئی۔ آپ کی نماز جنازہ مولانا محمد کریم الدین صاحب شاہد(صدر،صدرانجمن احمدیہ قادیان) نے پڑھائی اور تدفین کے بعد دعا بھی کرائی۔
تقسیم ملک کے بعد سنگین اور نامساعد حالات میں ۱۹۵۵ء میں صدر لجنہ اماءاللہ بھارت ہونے کی اہم ذمہ داری کو کمال خوبی سے ادا کرتے ہوئے بھارت کی تمام شہری اور دیہاتی جماعتوں میں لجنات کی مجالس کو از سرنو قائم کیا۔ ان کی تعلیم و تربیت اور تنظیم نَو کا کام کوئی معمولی کام نہیں تھا بلکہ ’’ جوئے شیر لانے ‘‘کا مصداق تھا۔ آپ کی ان خدمات کا عرصہ ۴۶؍سال پر محیط ہے۔
بھارت ایک وسیع و عریض ملک ہے۔دور دراز کے علاقوں پر پھیلا ہوا ہے۔ کشمیر سے کنیا کماری تک کی ساری جماعتوں میں لجنہ کی مجالس کو کور کیا۔ مجالس کے قیام کے لیے عندالضرورت جماعتوں میں ہنگامی دورے بھی کیے۔ان کی تعلیم و تربیت اور تنظیم نو کے فرائض کو نہایت خوش اسلوبی سے سر انجام دیا۔ لجنہ اماء اللہ بھارت کی ترقیات میں آپ کی بھرپور کاوشوں کا ہاتھ شامل ہے۔
ہندوستان کی درجنوں احمدیہ مساجد کے افتتاح کے موقع پر اپنے شوہر کے ساتھ شانہ بہ شانہ رہیں۔ آپ اپنے خاوندکے ساتھ آخری سفر جنوبی ہند کی ریاست کیرالہ میں نصف درجن سے زائد احمدیہ مساجد کے افتتاح کے موقع پر بھی موجود تھیں۔ یہ آپ کی زندگی کا آخری سفر رہا۔خاکسار کے شوہر کی درخواست پر دوران سفر خاکسار کے غریب خانہ پر ناشتہ کی دعوت پر وفد کے ہمراہ تشریف لائیں۔یہ ہماری فیملی کے لیے انتہائی خوشی کی گھڑی تھی۔ ایسا محسوس ہو تا ہے کہ جیسے کل ہی کی بات ہو۔ میرے اور میری دونوں بیٹیوں کے ساتھ وقت گزارا اور کہنے لگیں یہ بہت خوشگوار جگہ ہے۔مجھے بہت سکون اور آرام مل رہا ہے۔یہاں سے جانے کو جی نہیں چاہتا لیکن سلسلہ کے کام ہیں، جانا ضروری ہے۔ اس موقع پر آپ نے ہمیں اپنے ساتھ تصاویر بنوانے کی اجازت بھی دی جو آج بھی ہمارے پاس محفوظ ہیں۔ یہ ہمارے لیے انمول تحفہ ہیں۔
آپ انفرادی طور پر بھی ایک کامیاب اور ذمہ دار خاتون تھیں۔ کب، کیسے، کس سے، کس طرح بات کرنی ہے خوب اچھی طرح جانتی تھیں۔ حکمتِ عملی سے بخوبی معاملات کو نپٹالیتیں۔ جلسہ سالانہ قادیان کے موقع پر ذاتی طور پر حضرت مسیح موعودعلیہ السلام کے مہمانوں کی دیکھ بھال کرتی تھیں۔ہر طرح سے ان کا خیال رکھتیںاور ہر ایک سے پیار، محبت اور شفقت سے پیش آتیں۔ آپ نے اپنے شوہر سے زندگی بھروفا کا رشتہ نبھایا اور ان کی جدائی کے صدمے کوبہت صبر سے برداشت کیا۔ درویشانِ قادیان کے ساتھ درویشانہ زندگی گزارنے کو ترجیح دی اور ہمیشہ صبر و تحمل سے کام لیا۔ ہر سُکھ دُکھ میں ساتھ نبھایا۔ راضی برضا رہیں۔ ’’راضی ہیں ہم اسی میں جس میں تیری رضاہو‘‘ ہمیشہ پیش نظر رہا۔ اپنے شوہر کے فرائض منصبی کی ادائیگی میں بھر پور اور غیرمعمولی تعاون کیا۔ بھارت کے تبلیغی و تربیتی دوروں میں بھی ہمیشہ اپنےشوہر کے ساتھ رہیں۔ ایک طرف شوہر کے فرائض منصبی،جن میں تبلیغ اسلام اور احباب جماعت کی تعلیم و تربیت اور بہبود شامل تھی اوردوسری طرف لجنات کی تعلیم و تربیت کے حوالے سے آپ کی اپنی ذمہ داریاں تھیں۔
درویشان قادیان کی ہر خوشی اور غم میں برابر شریک رہیں۔ درویشان قادیان کی بے شمار بچیوں کی شادیوں پر بنفس نفیس شرکت فرماتیں۔ ان نوخیز دلہنوں کے سروں پر شفقت، محبت اور پیار سے ہاتھ پھیر کر اپنی بیٹیوں کی طرح دعاؤں سے رخصت کرتیں جیسے وہ خود دلہن کی ماں ہوں اور اکثر یہ بھی دیکھا اور سنا گیا ہے کہ کسی کے علم میں لائے بنا ان دلہنوں کو اپنے طور پر تحفہ و تحائف بھی پیش کرتیں۔
یتیم بچیوں کا خاص خیال رکھتیں۔ان کو یہ احساس نہیں ہونے دیتی تھیں کہ وہ یتیم اور بے سہارا ہیں۔بے یار و مددگار بچیوں کی مدد گار تھیں۔بلاشبہ وہ اہلِ قادیان کے لیے ایک شفیق ماںکا مقام رکھتی تھیں۔آپ کے ملک اور بیرونِ ملک بالخصوص قادیان میں بہت سے چاہنے والے ہیں جنہوں نے آپ کی صحبت سے فیض پایا وہ آپ کی سیر ت و سوانح پر بہت کچھ لکھیں گے ۔ فی الوقت خاکسار نے ایک ادنیٰ اور معمولی سی کوشش کی ہےکہ آپ کے متعلق کچھ قلمبند کر سکوں۔
حضرت امیر المو منین ایدہ اللہ تعالیٰ نے آپ کے حوالے سے ایک مکمل خطبہ جمعہ ارشاد فرمایا جس میں فرمایاکہ’’خوش قسمت ہوتے ہیں وہ لوگ جن کی صرف نیک یادیں ہوتی ہیں، جو نافع الناس ہوتے ہیں، جو دین کو دنیا پر مقدم کرنے کا عملی نمونہ ہوتے ہیں، جو اللہ اور اس کے رسولؐ کے حکموں پر عمل کرنے کی کوشش کرنے والے ہوتے ہیں، جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بیعت کا حق ادا کرنے کی کوشش کرنے والے ہوتے ہیں، جو خلافتِ احمدیہ سے حقیقی وفا رکھنے والے ہوتے ہیں، جو حقوق العباد کی ادائیگی کی حتی المقدور کوشش کرنے والے ہوتے ہیں، جو اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے کی ہمہ وقت کوشش کرنے والے ہوتے ہیں، جن کے لیے ہر زبان سے صرف تعریفی کلمات ہی نکلتے ہیں اور یوں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد کے مطابق ان پر جنت واجب ہو جاتی ہے۔(صحیح البخاری کتاب الجنائز باب ثناء الناس علی المیت حدیث 1367)‘‘(خطبہ جمعہ فرمودہ ۱۵؍ستمبر ۲۰۲۳ء مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل۶؍اکتوبر۲۰۲۳ء)
اللہ تعالیٰ مرحومہ کو غریق رحمت کرے اور جنت الفردوس میں ارفع و اعلیٰ مقام عطا فرما ئے اور مرحومہ کی تینوں صاحبزادیوں امۃ الرؤف، امۃالکریم کوکب،امۃالعلیم اور بیٹے صاحبزادہ مرزا کلیم احمد سلّمہم اللّٰہ کو صبر جمیل عطافرمائے۔ آمین ثم آمین
موت اُس کی ہےجس پر زمانہ کرے افسوس
یوں تو دُنیا میں سبھی آئےہیں مرنےکےلیے