خطاب حضور انور

خطاب برموقع تقریب تقسیم اسناد جا معہ احمدیہ برطانیہ ۲۰۲۳ء

اللہ تعالیٰ آپ سب کو خلافت کا سلطان نصیر بنائے اور آپ ایک پاک نمونہ بن کر دنیا میں انقلاب پیدا کرنے والے ہوں

ہمیشہ یاد رکھیں کہ جس مقصد کے لیے جامعہ میں داخل ہوئے تھے اس کو حاصل کرنے کی آپ نے ہمیشہ کوشش کرنی ہے

علم کو وسیع کرنا ہر طالب علم کا کام ہے اور ہر مربی کا کام ہے

ایک اچھے مربی اور مبلغ کو تو ہمیشہ یہ جائزہ لیتے رہنا چاہیے تھا کہ کیا ہم اپنا مقصد حاصل کرنے کے حصول کی طرف جا رہے ہیں یا اس کو کچھ حد تک حاصل کیا ہے یا اس کے لیے کوشش کر رہے ہیں؟ کیا ہماری عبادتوں کے معیار بلند ہوئے ہیں؟ کیا ہمارے علمی معیار بلند ہوئے ہیں؟ کیا ہمارے اخلاقی معیار بلند ہوئے ہیں؟

حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی یہ نصائح اور راہنمائی ’زرّیں ہدایات (برائے مبلغین)‘ کے نام سے کتابی صورت میں بھی چھپ چکی ہیں۔ اسے ہر مربی کو اور مبلغ کو ضرور اپنے پاس رکھنا چاہیے اور اس کا مطالعہ کر کے اپنے لیے اس میں سے نوٹس بنانے چاہئیں اور ان نوٹس کو پھر جب دیکھتے رہیں گے، اس میں سے بہت ساری باتیں خلاصہ نکال کے جب آپ پوائنٹس بنا کے اپنے پاس رکھیں گے اور اس کو دیکھتے رہیں گے تو اپنی حالت کی بہتری کی طرف بھی توجہ رہے گی اور آپ کو یاددہانی بھی ہوتی رہے گی

ہم نے دنیا میں انقلاب پیدا کرنا ہے، دنیا کو اپنے پیچھے چلانا ہے۔ دنیا کوصحیح اسلامی تعلیم سے آگاہ کرنا ہے اس لیے اپنوں کی تربیت کے لیے بھی اور

غیروں میں اسلام کا صحیح پیغام پہنچانے کے لیے بھی ایک مربی اور مبلغ کا باوقار ہونا بہت ضروری ہے

آپ کے کوئی لیکچر دینے پر یا کوئی کام کرنے پر دوسروں کو حق ہے وہ تعریف کریں اور اگر وہ تعریف کریں اور آپ کے سامنے کریں تو زیادہ سے زیادہ استغفار کی طرف توجہ ہونی چاہیے۔ استغفار کریں کہ اللہ تعالیٰ ہر قسم کے کبر سے ہمیں محفوظ رکھے اور اس وجہ سے روحانیت میں ہماری ترقی کی بجائے کہیں تنزل نہ شروع ہو جائے

نوجوانوں کو جماعتی قواعد کا بھی علم ہو اور جماعتی روایات کا بھی علم ہو اور ان کو پتا ہو کہ ہم نے کس طرح آگے نظامِ جماعت کو سنبھالنا ہے۔ یہ ٹریننگ دینا بھی مربیان کا کام ہے

حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ کے ارشادات کی روشنی میں ایک کامیاب مبلغ کی خوبیاں

جامعہ احمدیہ برطانیہ سے 2019ءسے2022ءتک فارغ التحصیل ہونے والے مبلّغینِ سلسلہ کی تقریبِ تقسیمِ اسناد سے سیدنا امیر المومنین حضرت مرزا مسرور احمدخلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزکا بصیرت افروز اور دلنشیں تاریخی خطاب فرمودہ مورخہ13؍مئی 2023ء بروز ہفتہ بمقام جامعہ احمدیہ Haslemere، ہمپشئر، یوکے

(خطاب کا یہ متن ادارہ الفضل اپنی ذمہ داری پر شائع کر رہا ہے)

أَشْھَدُ أَنْ لَّا إِلٰہَ إِلَّا اللّٰہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِيْکَ لَہٗ وَأَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ۔

أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّيْطٰنِ الرَّجِيْمِ۔ بِسۡمِ اللّٰہِ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ﴿۱﴾

اَلۡحَمۡدُلِلّٰہِ رَبِّ الۡعٰلَمِیۡنَ ۙ﴿۲﴾ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ ۙ﴿۳﴾ مٰلِکِ یَوۡمِ الدِّیۡنِ ؕ﴿۴﴾إِیَّاکَ نَعۡبُدُ وَ إِیَّاکَ نَسۡتَعِیۡنُ ؕ﴿۵﴾

اِہۡدِنَا الصِّرَاطَ الۡمُسۡتَقِیۡمَ ۙ﴿۶﴾ صِرَاطَ الَّذِیۡنَ أَنۡعَمۡتَ عَلَیۡہِمۡ ۬ۙ غَیۡرِ الۡمَغۡضُوۡبِ عَلَیۡہِمۡ وَ لَا الضَّآلِّیۡنَ﴿۷﴾

الحمد للہ کہ چند سالوں کے وقفہ کے بعد

جامعہ احمدیہ یوکے کی کانووکیشن

آج منعقد ہو رہی ہے۔ اس عرصے میں جہاں جو فارمل (formal)فنکشن تھے کانووکیشن وغیرہ یا دوسری کلاسیں وغیرہ وہ منعقد نہیں ہوئیں، وہاں جامعہ کے طلبہ سے جو میری انفرادی طور پر ملاقات ہوا کرتی تھی وہ بھی باقاعدہ نہیں رہی۔ اس لیے بہت سارے طلبہ جو پچھلے تین چار سال میں فارغ ہوئے ہیں یا آج کل جو جامعہ میں ہیں ان کو چہروں سے میں شاید نہیں پہچانتا یا نہیں پہچان سکا اور ماسک کی وجہ سے بالکل نہیں۔ بعضوں کے میں نے ماسک اتار کے بھی دیکھے۔ اس ذاتی تعارف کا بھی ایک فائدہ ہوتاہے۔ ان کے چہرے بھی پھر یاد رہتے ہیں۔ ان کی رپورٹس کے بعد ان کے کام بھی یاد رہتے ہیں اور اگر توجہ دلانی ہو تو وہ بھی دلائی جاتی ہے۔ بہرحال اللہ تعالیٰ کا فضل ہے کہ یہ وبا تقریباً ختم ہے اور اب دوبارہ معمول کی زندگی واپس آ رہی ہے۔ جو پرانی activitiesتھیں، جو پروگرام تھے وہ ان شاءاللہ دوبارہ شروع ہو جائیں گے۔

ہمیشہ یاد رکھیں کہ جس مقصد کے لیے جامعہ میں داخل ہوئے تھے اس کو حاصل کرنے کی آپ نے ہمیشہ کوشش کرنی ہے۔

اس مقصد کی کچھ تربیت لے کر آپ جامعہ سے نکلے ہیں، یہ نہیں کہ وہ مقصد حاصل کر لیا۔ آپ کو رستے دکھائے گئے ہیں کہ یہ یہ راستے ہیں اس مقصد کو حاصل کرنے کے لیے جو ایک واقفِ زندگی اور مربی اور مبلغ کاہونا چاہیے۔ پس اس بات کو ہمیشہ یاد رکھیں۔

اب آپ کی ذمہ داریاں بڑھ گئی ہیں اور اس مقصد کو حاصل کرنے کے لیے آپ نے اب خود محنت کرنی ہے۔

پہلے آپ اساتذہ سے مدد لے لیتے تھے یا امتحان دیے جاتے تھے تو وہ صرف اس لیے کہ آپ کو یہ بتایا جائے کہ یہ یہ باتیں ہیں جن کی طرف تمہیں توجہ دینی چاہیے لیکن وہ بھی محدود ہوتی ہیں۔

علم کو وسیع کرنا ہر طالب علم کا کام ہے اور ہر مربی کا کام ہے۔

اس کے لیے ذاتی مطالعہ بھی ضروری ہے اور میدان عمل میں آ کر یہ ذاتی مطالعہ زیادہ بہتر ہو جانا چاہیے۔ بعض مربیان چند سال یا کچھ عرصہ سے میدان عمل میں ہیں۔ اس عرصے میں

ایک اچھے مربی اور مبلغ کو تو ہمیشہ یہ جائزہ لیتے رہنا چاہیے تھا کہ کیا ہم اپنا مقصد حاصل کرنے کے حصول کی طرف جا رہے ہیں یا اس کو کچھ حد تک حاصل کیا ہے یا اس کے لیے کوشش کر رہے ہیں؟ کیا ہماری عبادتوں کے معیار بلند ہوئے ہیں؟ کیا ہمارے علمی معیار بلند ہوئے ہیں؟ کیا ہمارے اخلاقی معیار بلند ہوئے ہیں؟

طالب علمی کے زمانے میں ایک اَور سوچ ہوتی ہے اور جب میدان عمل میں انسان آ جاتا ہے تو بالکل اَور سوچ ہوتی ہے۔ اس وقت پھر مربی اور مبلغ کو لوگ دیکھ رہے ہوتے ہیں، جائزہ لے رہے ہوتے ہیں کہ اس کے عمل کیسے ہیں؟ اس کا علم کیسا ہے؟ اس کی عبادتوں کے معیار کیسے ہیں؟ پس یہ باتیں ہمیشہ یاد رکھیں کہ اب آپ لوگوں کے لیے ایک نمونہ ہیں یا لوگ یہ توقع رکھتے ہیں کہ ہمارے مربیان ہمارے لیے نمونہ ہوں۔ اور اس لحاظ سے پھر اپنے اندر تبدیلیاں پیدا کرنے کی ضرورت ہے جو ایک مربی کو کرنی چاہئیں۔ جب آپ یہ جائزہ لیں گے تو یہ جائزہ ایک مربی کو اعلیٰ معیار کے حصول کی طرف لے کے جائے گا۔ آپ کی یہ کوشش ہو گی کہ میں نے ان باتوں کے یہ اعلیٰ معیار حاصل کرنے ہیں۔ اسی طرح

جو نئے مربیان نکل رہے ہیں ان کو بھی یہ باتیں سامنے رکھنی چاہئیں تبھی وہ اپنے وقف کے مقصد کو حاصل کر سکیں گے۔

جامعہ کے سات سال تو جیسا کہ میں نے کہا مختلف علوم کے حصول کا راستہ دکھانے کے لیے ہیں۔ ان کو حاصل کرنا، ان سے صحیح فائدہ اٹھانا اب میدان عمل میں آ کر ہر ایک کی ذاتی کوشش پر منحصر ہے۔ کامیاب مربی اور مبلغ وہی ہیں جو ان باتوں کے حصول کے لیے مسلسل کوشش کرتے ہیں۔ پس اب آپ کی ذمہ داریاں بہت بڑھ گئی ہیں۔ اس لحاظ سے مستقل اپنے جائزے لیتے رہیں اور دیکھیں کہاں ہمارے قدم رکے ہیں، کہاں روکیں پیدا ہوئی ہیں، کہاں ہم نے اپنی اصلاح کرنی ہے، کہاں بہتری پیدا کرنے کی کوشش کرنی ہے۔

بہرحال

اس وقت میں حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی مختلف اوقات میں مربیان کو جو نصائح ہیں، ان کے حوالے سے کچھ باتیں کہوں گا۔

حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اپنے طویل دَورِ خلافت میں جہاں جماعت کے انتظامی نظام کو منظم کیا علاوہ روحانی ترقیات اور تبلیغی کاموں کے اور اشاعت دین کے وہاں مربیان کے نظام کی بھی احسن رنگ میں راہنمائی فرمائی۔ انہیں بھی منظم فرمایا اور جامعہ کے طلبہ کو بھی، مربیان کو بھی مختلف وقتوں میں نصائح فرمائیں جو ایسی نصائح ہیں کہ اگر مربیان و مبلغین ان پر عمل کریں تو ایک انقلاب لانے کا ذریعہ بن سکتے ہیں۔ آپ کی یہ نصائح پرانے مربیان بلکہ ان صحابہ کو بھی تھیں جنہوں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا زمانہ گزارا۔ جب ان کو مربی اور مبلغ کے طور پر بھیجا تو آپ نے انہیں عمومی طور پر یہ نصائح فرمائیں۔

حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی یہ نصائح اور راہنمائی ’زرّیں ہدایات(برائے مبلغین)‘ کے نام سےکتابی صورت میں بھی چھپ چکی ہیں۔ اسے ہر مربی کو اور مبلغ کو ضرور اپنے پاس رکھنا چاہیے اور اس کا مطالعہ کر کے اپنے لیے اس میں سے نوٹس بنانے چاہئیں اور اس میں سے بہت ساری باتیں خلاصہ نکال کے جب آپ پوائنٹس بنا کے اپنے پاس رکھیں گے اور اس کو پھر دیکھتے رہیں گے تو اپنی حالت کی بہتری کی طرف بھی توجہ رہے گی اور یاددہانی بھی آپ کو ہوتی رہے گی۔

پس اس کو بھی ضرور دیکھیں۔ بہرحال اس وقت میں خلاصةً بعض اہم نکات کی طرف توجہ دلا دیتا ہوں۔ یہ نکات ہر مربی کو اپنے سامنے رکھنے چاہئیں۔ پہلی بات یہ کہ

مربی اور مبلغ بے غرض ہو۔(ماخوذ از زریں ہدایات (برائے مبلغین) جلد اوّل صفحہ 69)

اگر بے غرض ہو گا، ذاتی اغراض نہیں ہوں گی تو اس سے اپنوں کی تربیت میں بھی مدد ملتی رہے گی اور تبلیغ کے میدان میں بھی مدد ملتی رہے گی۔ہمارے بہت سے بزرگ مبلغین نے، مربیان نے اس پر عمل کیا تو اس طرح نہ صرف پرانے زمانے کے بلکہ اس زمانے میں بھی ان کے تبلیغ کے میدان وسیع تر ہوتے چلے گئے۔ گذشتہ دنوں منور خورشید صاحب کی وفات ہوئی تو میں نے ان کی مثال دی تھی کہ کس طرح وہ بے غرض ہو کر ہر ایک سے رابطہ رکھتے تھے۔ اپنوں اور غیروں سے ان کے تعلقات تھے اور اس کے لیے انہوں نے بڑی قربانیاں بھی کیں جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ جہاں جہاں بھی وہ رہے انہوں نے جماعتیں بھی قائم کیں اور بیعتیں بھی حاصل کیں۔ پس ان کے پروگراموں کے جو تجربات ہیں اور کس طرح انہوں نے اپنے کام کیے اور کس طرح ہم نے اپنے حالات کے مطابق اپنے کاموں کو بہتر بنانا ہے اس بات سے ہمیشہ فائدہ اٹھائیں لیکن بنیادی بات یہ ہے کہ بے غرض ہو کر بے نفس ہو کر کام کرنا ہے۔

پھر یہ بھی ضروری ہے کہ

مربی اور مبلغ میں دلیری ہونی چاہیے، بہادری ہونی چاہیے۔

(ماخوذ از زریں ہدایات (برائے مبلغین) جلد اوّل صفحہ 70)

تربیتی امور میں بھی اور تبلیغ میں بھی صحیح اسلامی نقطہ نظر بغیر کسی خوف کے بیان کرنا چاہیے۔ یہ نہیں کہ مصلحت میں آ کے خاموش ہو گئے یا اس طرح بیان کر دیا جو واضح نہ ہو، اپنی جان بچانے کی کوشش کی۔ اس طرح نہیں بلکہ دلیری اور بہادری سے اپنا نقطہ نظر بیان کریں۔

آج کل معاشرے میں بہت سی برائیاں ہیں ان کو حکمت سے اور جرأت سے بیان کرنا اور اصلاح کی کوشش کرنا ہر مربی کا کام ہے۔

بعض دفعہ بعض باتیں بیان کرتے ہوئے ہم جھجکتے ہیں کہ لوگ کیا کہیں گے۔ کہیں غلط بات نہ نکل جائے۔ لوگوں پہ بد اثر نہ ہوجائے۔ اگر آپ کی approachصحیح ہے، اگر آپ حکمت سے کام لے رہے ہیں تو وہی باتیں جو بظاہر کہنی بڑی مشکل ہیں اگر آپ اس طرح کہیں جو براہِ راست کسی پہ حملہ ہوتا ہو تو اس کا منفی اثر نکل سکتا ہے لیکن اگر حکمت سے سمجھایا جائے، جائزہ لیاجائے اور پھر بات کی جائے تو اس کا مثبت اثر ہوتا ہے۔ پس بات جرأت سے بیان کرنی ہے اور حکمت سے بیان کرنی ہے۔ کسی قسم کا خوف نہیں ہونا چاہیے۔

پھر یہ بات بھی ہر مربی اور مبلغ کے لیے بہت ضروری ہے کہ

اپنوں اور غیروں کے لیے اس میں ہمدردی کا جذبہ ہو۔

(ماخوذ از زریں ہدایات (برائے مبلغین) جلد اوّل صفحہ74)

ان کے درد کو محسوس کرے اور جب ایسی ہمدردی لوگوں کو نظر آتی ہے تو اس شخص سے ایک ذاتی تعلق پیدا ہوتا ہے اور پھر تربیتی امور میں بھی آسانی پیدا ہو جاتی ہے اور تبلیغی امور میں بھی آسانی پیدا ہوتی ہے۔

پھر یہ بات بھی یاد رکھیں کہ

دنیاوی علوم کی بھی ہر مربی کو واقفیت ہونی چاہیے۔

(ماخوذ از زریں ہدایات (برائے مبلغین) جلد اوّل صفحہ75)

یہ نہیں کہ صرف دینی علوم حاصل کرتے رہیں۔ دنیاوی کتب بھی پڑھیں۔ اخبار پڑھیں۔ بعض آرٹیکل آتے ہیں وہ پڑھیں۔ حالات حاضرہ کی صورتحال کا بھی علم ہونا چاہیے اور پھر اگر لوگوں کی اصلاح کے لیے ان باتوں کو سامنے رکھ کر کچھ کہنا پڑے تو ان باتوں کو سامنے رکھ کے جب آپ کہیں گے اور جب یہ اگلے کو علم ہوگا کہ اس کو حالاتِ حاضرہ کا بھی علم ہے، اس کو موجودہ زمانے کی باتوں کا بھی علم ہے تو پھر اس کا مثبت اثر ہوتا ہے۔ پھر آپ کی بات لوگوں پہ اثر کرتی ہے۔

پھر یہ بات بھی مربیان کے لیے بڑی اہم ہے کہ ان کو

اپنی ظاہری صفائی کا بھی خیال رکھنا چاہیے۔

(ماخوذ از زریں ہدایات (برائے مبلغین) جلد اوّل صفحہ76)

اور لباس بھی ان کا باوقار ہونا چاہیے۔ یہ نہیں کہ کھلنڈروں کی طرح ہو۔ اب طالب علمی کا زمانہ گزر گیا، میدانِ عمل میں آ گئے یا آنے والے ہیں تو آپ کے لباس ایسے ہوں جو باوقار ہوں۔ جب آپ کو بہتر صفائی کی طرف بھی خیال ہو گا، لباس بھی باوقار ہو گا، تو اس سے جہاں اپنی عمومی حالت کو پُروقار رکھنے کی طرف توجہ پیدا ہوگی وہاں دوسروں پر بھی اس کا اچھا اثر پڑتا ہے۔ بعض لوگ سمجھتے ہیں کہ مثلاً تبلیغ کرنے کے لیے ان لوگوں میں گھل مل جانے کے لیے ویسا ہونا ضروری ہے۔ ہاں ان کی باتیں سنیں، ان کی باتوں کو ان کے انداز میں ایک رکھ رکھاؤ کے ساتھ بیان ضرور کریں لیکن ان جیسی حرکتیں کرنا، یہ غلط ہے۔

ہم نے دنیا میں انقلاب پیدا کرنا ہے، دنیا کو اپنے پیچھے چلانا ہے۔ دنیا کوصحیح اسلامی تعلیم سے آگاہ کرنا ہے اس لیے اپنوں کی تربیت کے لیے بھی اور غیروں میں اسلام کا صحیح پیغام پہنچانے کے لیے بھی ایک مربی اور مبلغ کا باوقار ہونا بہت ضروری ہے

اور اس کا اثر ظاہری حالت سے بھی پڑتا ہے۔ جب آپ کی ظاہری حالت اچھی ہو گی تو خود بھی یہ احساس رہے گا کہ میری کچھ حدود ہیں۔ ان حدود کے اندر میں نے رہنا ہے۔ پس اس بات کا خیال رکھیں۔

پھر یہ بھی بہت ضروری بات ہے کہ

قناعت کی عادت ڈالیں۔

(ماخوذ از زریں ہدایات (برائے مبلغین) جلد اوّل صفحہ77)

اپنے ذاتی اخراجات اپنی آمد کے مطابق کرنے کی کوشش کریں۔ بہت کم الاؤنس ملتا ہے۔ اس کم سے کم الاؤنس میں گزارہ کرنے کی کوشش کریں۔ ہاں اگر اللہ تعالیٰ فضل فرما دیتا ہے، مختلف ذرائع سے کوئی آمد ہو جاتی ہے تو یہ اللہ کا فضل ہے۔ والدین اگر خیال رکھتے ہیں تو یہ بھی ان کی مہربانی ہے اور اللہ کا فضل ہے لیکن کوئی امید نہیں رکھنی چاہیے۔ کوشش یہ کریں کہ ہم نے اپنی حدود میں رہنا ہے۔ اپنی آمد کے مطابق اپنے اخراجات کرنے ہیں اور یہی بات اپنے بیوی بچوں کے ذہنوں میں بھی ڈال دیں تو پھر ہی آپ کے گھروں کی زندگی بھی پُرسکون ہوگی۔

اور اسی طرح

جماعتی اموال کو بھی بڑی احتیاط سے خرچ کرنے کی طرف توجہ ہونی چاہیے۔

جہاں ذاتی طور پر قناعت پیدا ہو وہاں جماعتی اموال کو بھی احسن رنگ میں خرچ کرنے کی طرف توجہ پیدا ہو ۔ اس سے ایک خاموش اثر افرادِ جماعت پر آپ ڈال رہے ہوں گے کہ یہ جماعتی اموال کی حفاظت کرنے والے ہیں اور ہمیں اس طرف توجہ دلانے والے ہیں اور جب یہ ہو گا تو پھر آپ کی ہربات کا اثر افراد جماعت پر ہوگا۔

پھر یہ بھی بہت ضروری بات ہے کہ

خود پسندی اور خود ستائی نہ ہو۔

(ماخوذ از زریں ہدایات (برائے مبلغین) جلد اوّل صفحہ78)

کوئی بات آپ کریں، کوئی لیکچر دیں ،کوئی تقریر کریں ،کوئی کام ایسا کریں جو لوگوں کے فائدے کے لیے ہو اور ان کو پسند آئے تو پھر اس کو اپنے لیے فخر کا ذریعہ نہ بنا لیں۔ کسی قسم کی فخر و مباہات نہیں ہونی چاہیے۔ کسی قسم کی خود پسندی نہیں ہونی چاہیے۔ لوگوں کے سامنے لوگوں کی باتیں سن کے پھر اَور بھی زیادہ اپنے آپ کے اظہار کرنے کے لیے اپنی تعریف نہ کریں، نہ یہ خواہش کریں کہ لوگ میری تعریف کریں۔ نہ کسی رپورٹ میں اس قسم کا اظہار ہو کہ میرے اس کام سے یہ فائدہ ہو گیا۔ ہاں اللہ تعالیٰ کے فضلوں کا ذکر ضرور کریں کہ یہ کام اس طرح ہوا اور اللہ تعالیٰ نے فضل فرمایا اور لوگوں پہ اس کا اثر ہوا ورنہ ہم کیا چیز ہیں۔ اگر دوسرے تعریف کرتے ہیں تو ہاں

دوسروں کو حق ہے وہ تعریف کریں اور اگر وہ تعریف کریں اور آپ کے سامنے کریں تو زیادہ سے زیادہ استغفار کی طرف توجہ ہونی چاہیے۔ استغفار کریں کہ اللہ تعالیٰ ہر قسم کے کبر سے ہمیں محفوظ رکھے اور اس وجہ سے ترقی کی بجائے کہیں ہماری روحانیت میں تنزل نہ شروع ہو جائے۔

پھر ایک یہ بھی بہت اہم بات ہے کہ

عبادت کی پابندی ہو۔ تہجد کی پابندی ہو۔

(ماخوذ از زریں ہدایات (برائے مبلغین) جلد اوّل صفحہ79)

ایک مربی اور مبلغ سے یہ امید کی جاتی ہے کہ وہ باقاعدہ تہجد پڑھنے والا ہو۔ جیسا بھی وقت ہے، جیسے بھی حالات ہیں

سوائے اشد مجبوری کے کوشش یہ ہو کہ عام طور پر تہجد پڑھیں۔ نوافل کی طرف توجہ ہو۔ نماز باجماعت کی انتہائی پابندی ہو۔

بعض دفعہ بعض جماعتیں یہ اعتراض کر دیتی ہیں کہ مربی صاحب نے مسجد نہیں کھولی۔ ہم نماز پڑھنے آئے تو مسجد بند تھی یا نماز سینٹر بند تھا۔ یہ اعتراض کبھی کسی مربی پر نہیں ہونا چاہیے۔ اگر کسی جماعتی کام سے باہر نہیں گئے ہوئے تو جب بھی آپ وہاںموجود ہیں اپنا نماز سینٹر اور مسجد نماز کے لیے کھلی ہونی چاہیےیا کبھی یہ احساس نہ ہو۔ بعض دفعہ یہ بھی شکایت آ جاتی ہے کہ فجر کی نماز پہ مربی صاحب نہیں آئے گو ان کے عذر ہوتے ہیں کہ جی فلاں بیماری تھی یا فلاں وجہ تھی لیکن کبھی کبھار ایسا ہونا تو کوئی بات نہیں لیکن عادتاً ایسا ہو جانا پھر جماعت کے افراد پر بداثر ڈالتا ہے۔

ہمیشہ یہ احساس رہنا چاہیے کہ دعاؤں اور عبادت کے بغیر ہم کچھ نہیں۔

(ماخوذ از زریں ہدایات (برائے مبلغین) جلد اوّل صفحہ80)

اور ہمارے جو کام بھی ہیں وہ دعاؤں کے ذریعہ سے ہی ہونے ہیں اور یہی جماعتی ترقی کا ذریعہ ہے۔ یہی تربیت اور تبلیغ کا ذریعہ ہے۔

اللہ تعالیٰ کے فضلوں کو جذب کیے بغیر ہم کچھ نہیں کر سکتے اور اللہ تعالیٰ کے فضل کو جذب کرنے کے لیے عبادت بہت ضروری ہے۔

دعاؤں کی طرف توجہ بہت ضروری ہے۔ ذکر الٰہی بہت ضروری ہے۔ اس طرف سب کو توجہ رکھنی چاہیے۔

پھر یہ بھی مبلغ اور مربی کی خصوصیت ہونی چاہیے کہ اس میں

انتظامی قابلیت بھی ہو۔

(ماخوذ از زریں ہدایات (برائے مبلغین) جلد اوّل صفحہ80)

صرف اپنے دینی مسائل کو حل کرنے کا ملکہ نہ ہو بلکہ انتظامی قابلیت بھی ہو۔

جماعتی قواعد کا بھی پتا ہو۔ جماعتی قواعد خود پڑھیں تو سمجھ آئے گی۔

جہاں سمجھ نہیں آتی وہاں بالا عہدیداروں سے پوچھیں۔ اور

جماعتی روایات کا بھی علم ہونا چاہیے۔

اس کے لیے خلفاء کی تقریریں، خطبات، مضامین وغیرہ پڑھیں، اس سے بہت سارا علم ہو جاتا ہے تبھی افراد جماعت کی آپ صحیح راہنمائی کر سکتے ہیں اور یہ بھی کوشش ہو کہ افرادِ جماعت میں سے خاص طور پر نوجوانوں میں سے ایسے افراد کو آپ نے چننا ہے اور ان کی تربیت کرنی ہے جن میں انتظامی معاملات سیکھنے کی صلاحیت ہے۔ پھر ان کی جماعتی روایات اور قواعد کے مطابق تربیت کریں تا کہ جماعت کو کام کرنے والے آئندہ نسل میں میسر آتے رہیں۔ یہ بہت ضروری چیز ہے۔ اگر اپنے عہدیدار صحیح ٹریننگ نہیں بھی دے رہے تو مربیان ایسے نوجوانوں کو اپنے ساتھ لگا کر صحیح تربیت کر سکتے ہیں تا کہ

نوجوانوں کو جماعتی قواعد کا بھی علم ہو اور جماعتی روایات کا بھی علم ہو اور ان کو پتا ہو کہ ہم نے کس طرح آگے نظامِ جماعت کو سنبھالنا ہے۔ یہ ٹریننگ دینا بھی مربیان کا کام ہے۔

یہ بات بھی ہمیشہ مربی اور مبلغ کو سامنے رکھنی چاہیے کہ آج کل کے ماحول میں جو غلط باتیں راہ پا رہی ہیں، ان کے اپنے جو دنیا دار لوگ ہیں وہ بھی اس پہ اظہار خیال کرتے ہیں اور فکر کا اظہار کرتے ہیں۔ بعض لوگ ایسے ہیں دنیاوی رجحان رکھنے والے ہیں جو آپ کی دینی دلیل سے قائل نہیں ہوتے، آپ کی باتوں سے قائل نہیں ہوتے۔ کہتے ہیں تمہیں کیا پتا دنیا میں یہ ہو رہا ہے، یہ ہو رہا ہے۔ ان کو ان دنیا داروں کی دلیلوں سے سمجھائیں کہ خود یہ لوگ اب بعض باتوں کو تسلیم کر رہے ہیں کہ یہ غلط ہے۔ سکولوں میں بچوں کو، چھوٹے بچوں کو یہ تعلیم دی جاتی ہے اس کے بارے میں خود ان کے اپنے لوگ آواز اٹھانے لگ گئے ہیں۔ عورتوں کے حقوق ہیں ان کے بارے میں ان کے اپنے لوگ آواز اٹھانے لگ گئے ہیں۔ mixed gathering ہے ان کے بارے میں لوگ آواز اٹھانے لگ گئے ہیں۔ شراب کا استعمال ہے اس کے بارے میں اب نئے مضمون آنے لگ گئے ہیں کہ پہلے یہ کہتے تھے کہ جی ہفتے میں ایک دفعہ پی لو تو کوئی ہرج نہیں۔ اب گذشتہ دنوں ایک آرٹیکل آیا تھا۔ میڈیکلی(medically) یہ بھی انہوں نے ایک ریسرچ میں ثابت کیا کہ مکمل طور پر شراب کو ترک کرنا چاہیے کیونکہ یہ نقصان پہنچاتی ہے۔ تو بہت ساری باتیں ہیں جن کا علم آپ کو ہوتا ہے اس لیے دنیاوی طور پر بھی اس لحاظ سے اپنے علم کو بڑھانے کی کوشش کریں گے تو یہ تبلیغ اور تربیت کے لیےآپ کو فائدہ دے گی۔ یہ بات میں نے پہلے بھی کہی ہے کہ اپنی علمی حالت کو بہتر کرنے کی کوشش کرتے رہیں۔ یہ کبھی خیال نہ لائیں کہ میرا دینی علم بہت ہے اور میں ہر بات کا جواب دے سکتا ہوں۔

جہاں دنیاوی علم کو بڑھانے کی کوشش کریں وہاں دینی علم کو بھی بڑھاتے چلے جائیں۔

میں نے پہلے بھی کہا ہے۔ یہ دینی علم کے حاصل کرنے کی کوئی حد نہیں ہے۔ علم تو حدیث میں آیا ہے کہ قبر تک حاصل کرتے چلے جاؤ۔(تفسیر روح البیان جزء 5 صفحہ 275 تفسیر سورۃ الکہف مطبوعہ دار الکتب العلمیۃ بیروت 2018ء) پس علم کو بڑھانے کی ہمیشہ کوشش کرتے رہنا چاہیے۔

پھر علم کو بڑھانے کے ساتھ ساتھ نئے اعتراضات جو اسلام پر ہوتے ہیں، اعتراضات تو پرانے ہی ہیں لیکن مختلف رنگوں میں، مختلف طریقوں سے دجالی چالوں کی وجہ سے ان کو پیش کیا جاتا ہے۔ ان کے جواب دینے کی کوشش بھی ہر ایک کو کرنی چاہیے۔(ماخوذ از زریں ہدایات (برائے مبلغین) جلد اوّل صفحہ81) اس کے لیے تیاری کرنی چاہیے۔ قرآن کریم کی تعلیم کے مطابق ان کے جواب تیار کریں۔ دعا کر کے ان کے جواب دینے کی کوشش کریں۔ دوسروں سے معلومات لے کر ان کے جواب دینے کی کوشش کریں۔ مختلف قسم کی کتابیں پڑھ کے ان کے جواب دینے کی کوشش کریں۔ بہرحال

علم کو ہر لحاظ سے بڑھانے کی کوشش ہر ایک کو کرنی چاہیے تاکہ معترضین کے اعتراضات کے جواب آپ خود دے سکیں۔

یہ نہیں کہ خاموشی سے بیٹھ گئے۔ تبلیغ کے میدان میں یہ بات بھی یاد رکھنی چاہیے کہ کس شخص سے، کس دلیل سے بات کرنی ہے۔ ہر ایک سے ایک اصول سے بات نہیں کی جا سکتی۔ پہلے اس کی بیماری کو پکڑ کر پھر تبلیغ کرنی چاہیے۔ جو شخص مذہب کو ہی نہیں مانتا اس کو باقی مذاہب پر اسلام کی برتری بتانے سے کیا فائدہ حاصل ہو گا۔ کہتا ہے جو بھی مذہب ہو مجھے اس سے کیا؟ پہلے اس کو مذہب کی اہمیت کاقائل کرنا ہو گا۔ اسی طرح جوشخص خدا تعالیٰ کی ہستی کا قائل نہیں پہلے اسے عقلی اور علمی دلائل سے خدا تعالیٰ کی ہستی کا قائل کرنا ہو گا۔ بہرحال میدان عمل میں جو تجربات ہوں، جو مشکلات ہوں ان کے حل کرنے کے لیے علمی اور عقلی دلائل تلاش کرنے اور خود دعا کر کے پھر اس بارے میں محنت کرنا بھی ایک مربی کا کام ہے۔

پھر یہ بھی یاد رکھیں کہ

دوسروں کے لیے قربانی کا مادہ بھی مربی میں بہت زیادہ ہونا چاہیے۔

(ماخوذ از زریں ہدایات (برائے مبلغین) جلد اوّل صفحہ89)

یہ عمل دوسروں کو آپ کے قریب لائے گا اور آپ کی باتوں میں تاثیر پیدا کرے گا۔ جب یہ پتہ ہو کہ مربی ہمارے لیے کس طرح درد، ہمدردی کا درد جیسا پہلے بیان ہو گیا رکھتا ہے تو صرف ہمدردی نہیں بلکہ اب ہمدردی کو آگے چلانے کے لیے یہاں قربانی کی بات ہے۔ قربانی بھی کرنی ہو گی۔

پھر یہ بات بھی یاد رکھیں کہ

تبلیغ کے مواقع آپ نے خود تلاش کرنے ہیں۔

بعض کہہ دیتے ہیں کہ یہاں تو تبلیغ کے مواقع نہیں۔ لوگ ہماری بات نہیں سنتے۔ ہم کس طرح تبلیغ کریں۔ اپنے ماحول کے مطابق دیکھیں کہ کس طرح تبلیغ کرنی ہے۔ بعض دفعہ انفرادی طور پر تعلق بنا کر تبلیغ کی جاتی ہے۔ بعض دفعہ مختلف موضوعات پر سیمینار منعقد کر کے جماعتی نظام کے تحت تبلیغ کے رستے کھولے جاتے ہیں۔ بعض دفعہ بعض اسلامی تعلیم کے مطابق دنیاوی مسائل کے حل کے لیے مختلف پمفلٹ بنا کے بھی تقسیم کیے جاسکتے ہیں۔ چھوٹے چھوٹے بروشرز (brochures)جو لوگوں کے سامنے جب آئیں گے تو پھر وہ غور کریں گے کہ یہ حل پیش کرنے والے کون لوگ ہیں؟ اس سے پھر آگے رستے کھلتے چلے جائیں گے۔ مختلف لوگ جن کو تبلیغ کا شوق ہے وہ بہت سے طریق اختیار کرتے ہیں۔ اسی طرح سوشل میڈیا ہے، اس پر اسلام کی خوبصورت تعلیم کے بارے میں چھوٹےچھوٹے اقتباسات لکھ کر بعض لوگ ڈال دیتے ہیں۔ وہ بھی تبلیغ کا ایک ذریعہ ہے۔ بہرحال مختلف راستے ہیں جو خود تلاش کریں۔ کن رستوں سے ہم لوگوں تک پہنچ سکتے ہیں۔ کس طرح ہم تبلیغ کے کام کو سرانجام دے سکتے ہیں۔ کس طرح ہم اسلام کے پیغام کو لوگوں کے کانوں تک پہنچا سکتے ہیں۔ آواز دینا ہمارا کام ہے۔

’’جس کی فطرت نیک ہے وہ آئے گا انجام کار‘‘

(براہین احمدیہ حصہ پنجم، روحانی خزائن جلد 21 صفحہ 137)

جماعت کی اخلاقی اور علمی ترقی اور اس کے معیار کو بلند کرنا بھی مربی کی ذمہ داری ہے۔

اس بارے میں بھی جائزہ لے کراور متعلقہ سیکرٹریان کو مسلسل توجہ دلاکر مربی کو اپنا کردار ادا کرنا چاہیے اور سب سے بڑھ کر جیسا کہ میں نے پہلے بھی ذکر کیا کہ

دعا کی طرف خاص توجہ دیں۔

ہمارے کام اپنی طرف سے جو وسائل میسر ہیں ان کو استعمال کر کے اور ہمارے پاس جو علم ہے اس کو استعمال کر کے اور ہمارے سے جو کوئی کوششیں ہو سکتی ہیں ان کو بروئے کار لا کر، اس کے بعد پھر دعا کے ذریعہ سے اللہ تعالیٰ کے آگے جھکتے ہوئے ان کے بہتر نتائج کی دعا کریں۔

اللہ تعالیٰ سے اگر اس طرح ہم مانگیں گے تو یقیناً ہمارے کاموں میں برکت پڑے گی۔ اللہ تعالیٰ ہمارے ہر کام میں برکت ڈالے۔ آپ کو میدان عمل میں بھی کامیابیاں عطا فرمائے۔

جہاں جہاں جس جس مربی کو لگایا گیا ہے اللہ تعالیٰ اس کو وہاں بہتر رنگ میں، احسن رنگ میں خدمت دین کی توفیق عطا فرمائے اور آپ سب کو خلافت کا سلطانِ نصیر بنائے اور حقیقت میں آپ وہ بن جائیں جو اللہ تعالیٰ ایک واقفِ زندگی سے چاہتا ہے، جس کی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام نے خواہش کی اور جو ایک پاک نمونہ بن کر دنیا میں انقلاب پیدا کرنے والے ہوں۔ اللہ تعالیٰ آپ سب کو اس کی توفیق عطا فرمائے۔ دعا کر لیں۔

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button