ہمیں کھل کر اسلام کا پیغام پہنچانا چاہئے
(انتخاب از خطبہ جمعہ حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ ۲۱؍ اپریل ۲۰۱۷ء)
اللہ تعالیٰ کا یہ فضل و احسان ہم پر ہے کہ ہم نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو مانا ہے۔ آپ کی بیعت میں شامل ہوئے ہیں۔ اس بات کو جہاں ہمیں اپنے ایمانوں میں بڑھنے کا ذریعہ ہونا چاہئے کیونکہ اگر ماننے کے بعد ہم اپنے ایمان اور یقین میں نہیں بڑھتے تو اس ماننے کا کوئی فائدہ نہیں۔ وہاں بغیر کسی احساس کمتری کے اور بزدلی کے احساس کے ہمیں کھل کر اسلام کا پیغام پہنچانا چاہئے۔
بعض نوجوانوں میں بعض دفعہ یہ خیال پیدا ہو جاتا ہے لڑکوں اور لڑکیوں دونوں میں کہ مسلمانوں کی جو حالت ہے اور جو فتنہ اور فساد ان کی طرف منسوب کیا جاتا ہے اس لحاظ سے اس وجہ سے اسلام کے بارے میں زیادہ بات نہ کریں۔ گو اکثریت اللہ تعالیٰ کے فضل سے بڑی ایکٹو (active) ہے اور جو لیف لیٹنگ (leafleting) وغیرہ کی رپورٹس آتی ہیں اس میں اظہار ہوتا ہے کہ کافی حصہ لیا گیا ہے لیکن ایک ایسی تعداد بھی ہے جو کسی نہ کسی لحاظ سے بعض دفعہ احساس کمتری کا شکار ہو جاتی ہے۔ مسلمان کہلانا تو ہے کیونکہ مسلمان ہیں لیکن اس کا زیادہ اظہار نہیں کرتے جس طرح ہونا چاہئے۔ حالانکہ دوسرے مسلمانوں کے عمل سے تو ہمیں مزید جرأت پیدا ہونی چاہئے کہ اسلام کی حقیقی تصویر دنیا کو دکھائیں اور بتائیں کہ جو اس وقت مسلمانوں کی حالت ہے یہ اسلام کی سچائی کی دلیل ہے۔ کیونکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے پیشگوئی فرمائی تھی کہ ایک زمانہ آئے گا جب مسلمانوں میں بگاڑ پیدا ہو گا، فتنہ و فساد ہو گا، نام نہاد علماء اس کے ذمہ دار ہوں گے۔ (الجامع لشعب الایمان للبیہقی جزء 3حدیث 1763مطبوعہ مکتبۃ الرشدناشرون 2004ء)۔ مسلمانوں پر دنیاداری غالب ہو جائے گی۔ اور اس وقت مسیح موعود اور مہدی معہود کا ظہور ہو گا اور وہ اسلام کی حقیقی تصویر دنیا کے سامنے پیش کرے گا۔ اسلام کے حقیقی پیغام کو وہ دنیا میں پھیلائے گا۔ اور ہم احمدی وہ ہیں جو اس مسیح موعود کے ماننے والے ہیں اور حقیقی اسلامی تعلیم جس کے خوبصورت انداز حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ہمیں دکھائے اور سکھائے ان پر عمل کرنے والے ہیں۔ پس کسی احساس کمتری کی ضرورت نہیں ہے۔
اسی طرح بعض لوگ ان مغربی ممالک میں آ کر دنیاداری کے ماحول کے زیر اثر دنیا کے ماحول میں زیادہ ڈوب گئے ہیں اور زبانی تو دین کو دنیا پر مقدم رکھنے کا عہد کرتے ہیں لیکن حقیقت میں عمل اس سے مختلف ہیں۔ ہمارے احمدی یہاں کے لوگوں سے ملنے جلنے اور بہتر اخلاق غیروں کو دکھانے میں تو بہت بہتر ہیں۔ لیکن عبادت اور اللہ تعالیٰ کا حق ادا کرنے کے وہ معیار نہیں ہیں جو ایک احمدی کے ہونے چاہئیں۔ اسی طرح آپس کے تعلقات کے معیار میں بھی کمی ہے۔ عہدیداروں کے لوگوں کے ساتھ عزت و احترام سے پیش آنے میں بھی کمی ہے۔ مختلف جگہوں پر شکایتیں آتی ہیں۔ اور لوگوں کا عہدیداروں کے لئے دل میں عزت کے جذبات رکھنے کے معیار کو بہتر کرنے کے لئے بھی ضرورت ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام جس جماعت کو قائم کرنے آئے تھے وہ صرف اعتقادی اصلاح کرنے والی نہیں تھی بلکہ ہر سطح اور ہر لحاظ سے عملی اصلاح کرنے والی جماعت تھی۔ پس اس لحاظ سے ہم میں سے ہر ایک کو اپنے جائزے لینے چاہئیں کہ ہم اس کے حصول کے لئے کوشش کر رہے ہیں یا نہیں؟
جرمنی میں جوں جوں مسجدیں بن رہی ہیں اور جماعتیں قائم ہو رہی ہیں جماعت کا تعارف بڑھ رہا ہے اور اس کے ساتھ ہی ہم پر دنیا کی تنقیدی نظر بھی بڑھتی جائے گی۔ یہ قدرتی بات ہے کہ جب ہماری تعداد بڑھے گی تو دنیا سے تعارف بھی ہوگا اور جب دنیا سے تعارف ہو گا تو تنقیدی نظر بھی بڑھے گی اور بڑھتی جا رہی ہے۔ پس یہ چیز ہم سے مطالبہ کرتی ہے کہ ہم میں سے ہر ایک اپنی عملی حالتوں کے معیار کو بڑھائے اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی بیعت کے مقصد کو پورا کرے۔
مَیں ہمیشہ کہتا ہوں اور پھر یاد دہانی کرواتا ہوں کہ کم ازکم ۹۹۔۹ فیصد احمدیوں کو ان ملکوں میں آ کر آباد ہونے کی اجازت ملنا ان کی کسی ذاتی خوبی کی وجہ سے نہیں ہے بلکہ احمدیت کی وجہ سے ہے اور اس لحاظ سے یہاں آ کر آباد ہونے والا ہر احمدی احمدیت کا خاموش مبلغ بھی ہے۔ اللہ تعالیٰ کے فضل سے یہاں کے اکثر احمدیوں کے اچھے نمونے اور اچھے تعلقات کی وجہ سے لوگوں پر جماعت کا اچھا اثر ہے جس کا اظہار مختلف موقعوں پر ہو جاتا ہے۔
گزشتہ چند دنوں میں یہاں مختلف شہروں میں مسجدوں کے افتتاح اور مسجدوں کی بنیاد رکھنے کے پروگرام ہوئے، ان کا موقع ملا اور وہاں مقامی لوگوں کی شمولیت اور لوگوں کا جماعت کے بارے میں جو اظہار خیال تھا، جو اپنے خیالات انہوں نے پیش کئے اور انتظامیہ اور مقامی سیاستدانوں کے بھی جو خیالات تھے جس کا انہوں نے اظہار کیا وہ اس بات کی تصدیق کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے مقامی احمدیوں کا مقامی لوگوں پر اچھا اثر ہے۔ لیکن مجھے یہ بھی احساس ہوا کہ اسلام کی حقیقی تعلیم کا جس طرح تعارف لوگوں میں ہونا چاہئے تھا اس طرح نہیں ہے۔ کیونکہ جب میں ان موقعوں پر اسلام کی تعلیم کے حوالے سے باتیں کرتا ہوں یا جب بھی میں نے ان لوگوں سے باتیں کیں بہت سے لوگوں نے یہی کہا کہ اسلام کی اس حقیقی تعلیم کا ہمیں نہیں پتا تھا، ہمیں علم نہیں تھا۔ سب لوگوں نے برملا اس بات کا اظہار کیا کہ اسلام کی خوبصورت تعلیم کے یہ پہلو تو ہم سے چھپے ہوئے تھے۔ ہمارے ذہنوں میں تو اسلام کا وہی تصور ہے جو میڈیا ہمیں دکھاتا ہے۔ یہ بھی انہوں نے اظہار کیا کہ بیشک بعض احمدی ہمارے واقف ہیں اور ان کی دعوت پر ہم یہاں آ تو گئے ہیں لیکن ہمارے ذہنوں میں تحفظات تھے۔ کسی کا ذاتی تعلق پیدا ہونا اور تعلق رکھنا ایک بالکل مختلف چیز ہے اور جماعتی طور پر کسی کو فنکشن میں بلانا اور لے کر آنا اور جماعت کے حوالے سے بات کرنا بالکل اور چیز بن جاتی ہے۔ لوگ سمجھتے ہیں کہ ٹھیک ہے یہ میرا دوست ہے جو انفرادی طور پر اچھا ہو گا لیکن پتا نہیں بحیثیت جماعت ان کی کیا حالت ہے اور ان لوگوں کے کیسے خیالات ہیں۔ یہ بھی کہیں شدت پسند تو نہیں ہیں؟ اس لئے ان لوگوں کے ذہنوں میں تحفّظات تھے۔ یہ عمومی تأثر اور ایسے تحفّظات مَیں نے دنیا کے ہر ملک کے غیر مسلموں میں دیکھے ہیں کہ پتا نہیں اگر ہم مسلمانوں کے اس فنکشن میں گئے تو کیا ہو گا؟ شاید دہشتگردی کا سامنا کرنا پڑے۔ لیکن یہ بھی انہوں نے کہا کہ آپ کے فنکشن میں شامل ہو کر ہمیں پتا چلا کہ ہماری سوچیں بالکل غلط تھیں اور آپ کی باتیں سن کر ہمیں پتا چلا۔ یہ مجھے انہوں نے کہا اور مختلف جگہوں پر اپنے خیالات کا اظہار کیا کہ یہ باتیں سن کر ہمیں پتا لگا کہ اسلام ایک پُرامن اور محبت کرنے والا مذہب ہے، محبت پھیلانے والا مذہب ہے۔ اور چند لوگوں کے عملوں کو اسلام کی طرف منسوب نہیں کرنا چاہئے۔ یہاں بھی مختلف فنکشنز پر اور دنیا میں اَور جگہ بھی ایسے لوگ ملتے ہیں جیسا کہ مَیں نے کہا اور یہ اظہار کرتے ہیں، یہاں بھی ان دنوں میں بعض لوگوں نے اظہار کیا کہ آپ کی باتیں سن کر ہمارے اسلام کے متعلق صرف شبہات ہی دور نہیں ہوئے، جو شبہات یا تحفظات تھے صرف وہی دور نہیں ہوئے بلکہ اگر ہمیں کبھی کسی مذہب کی طرف آنے کی طرف توجہ پیدا ہوئی تو جماعت احمدیہ مسلمہ کی طرف ہی آئیں گے۔