خطبہ جمعہ بطرز سوال و جواب فرمودہ ۲۷؍ جنوری ۲۰۲۳ء بمقام مسجد مبارک، اسلام آباد، ٹلفورڈ (سرے) یوکے)
سوال نمبر۱: حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزنے خطبہ کے عنوان کی بابت کیابیان فرمایا؟
جواب:فرمایا:آج صحابہؓ کے ذکر میں سے ہی کچھ بیان کروں گا۔
سوال نمبر۲:حضورانورایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے حضرت ابولبابہؓ کےحوالہ سےکونسی روایات بیان فرمائیں؟
جواب: فرمایا:علامہ ابن عبدالْبَر اپنی تصنیف الاستیعاب میں لکھتے ہیں کہ حضرت عبداللہ بن عباسؓ قرآن مجید کی آیت وَ اٰخَرُوْنَ اعْتَرَفُوْا بِذُنُوْبِهِمْ خَلَطُوْا عَمَلًا صَالِحًا وَّ اٰخَرَ سَیِّئًا (سورةالتوبہ:۱۰۲)کہ’’اور کچھ دوسرے ہیں جنہوں نے اپنے گناہوں کا اعتراف کیا انہوں نے اچھے اعمال اور دوسرے بداعمال ملا جلا لیے‘‘میں فرماتے ہیں کہ یہ آیت ابولُبَابَہاور ان کے ساتھ سات آٹھ یا نو آدمیوں کے بارے میں نازل ہوئی۔ یہ حضرات غزوہ تبوک سے پیچھے رہ گئے تھے۔ بعد میں شرمسار ہوئے اور خدا کے حضور توبہ کی اور اپنے آپ کو ستونوں کے ساتھ باندھ لیا۔ ان کا اچھا عمل توبہ اور ان کا بُرا عمل جہاد سے پیچھے رہنا تھا۔ مُجَمِّع بن جَارِیہسے روایت ہے کہ حضرت خَنْسَاء بنتِ خِدَام حضرت اُنیس بن قَتَادہؓ کی زوجیت میں تھیں جب آپؓ غزوہ احد کے دن شہید ہوئے۔ پھر حضرت خَنْسَاء بنتِ خِدَامؓ کے والد نے آپ کی شادی مُزَینَہ قبیلہ کے ایک آدمی سے کی جسے آپ ناپسند کرتی تھیں۔ حضرت خَنْسَاءؓ رسول اللہﷺکی خدمت میں حاضر ہوئیں تو آپﷺ نے ان کا نکاح فسخ کر دیا تو حضرت خَنْسَاءؓ سے حضرت ابولُبَابَہ نے شادی کی جس سے حضرت سَائِب بن ابولُبَابَہ پیدا ہوئے۔عبدالجبار بن وَرْد سے روایت ہے کہ مَیں نے ابن ابی مُلَیکَہسے سنا، وہ فرماتے تھے کہ عبداللہ بن ابی یزید کا کہنا ہے کہ حضرت ابولُبَابَہؓ ہمارے پاس سے گزرے ہم ان کے ساتھ تھے یہاں تک کہ وہ اپنے گھر میں گئے ان کے ساتھ ہم بھی گھر میں داخل ہوئے۔ ہم نے دیکھا کہ ایک شخص پھٹے پرانے کپڑے میں بیٹھا ہے۔ مَیں نے اُس سے سنا وہ کہتا تھا کہ میں نے رسول اللہﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ جو شخص قرآن کو خوش آواز سے نہ پڑھے وہ ہم میں سے نہیں ہے۔
سوال نمبر۳: حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزنے سریہ حمزہ بن عبدالمطلب اورپہلالواءباندھنےکی بابت کیا روایت بیان فرمائی؟
جواب: فرمایا: ربیع الاول دو ہجری کو آنحضرتﷺ نے تیس شتر سوار مہاجرین کا ایک دستہ اپنے چچا حضرت حمزہ بن عبدالمطلبؓ کی قیادت میں مدینہ سے مشرق کی جانب سیف البحر علاقہ عِیص کی طرف روانہ فرمایا۔ حضرت حمزہؓ اور ان کے ساتھی جلدی جلدی وہاں پہنچے تو کیا دیکھتے ہیں کہ مکہ کا رئیسِ اعظم ابو جہل تین سو سواروں کا ایک لشکر لیے ان کے استقبال کو موجود ہے۔ دونوں فوجیں ایک دوسرے کے مقابلے میں صف آرائی کرنے لگ گئیں اور لڑائی شروع ہونے والی ہی تھی کہ اس علاقے کے رئیس مَجْدِی بن عَمرو اَلْجُہَنِّی ے جو دونوں فریقوں کے ساتھ تعلق رکھتا تھا درمیان میں پڑ کر بیچ بچاؤ کروایا اور لڑائی ہوتے ہوتے رک گئی۔ یہ مہم سریہ حمزہ بن عبدالمطلب کے نام سے مشہور ہے۔حضرت ابومَرْثَدؓ بھی اس سریہ میں شامل تھے۔ روایت میں ذکر ہے کہ نبی کریمﷺنے سب سے پہلا لواء، جھنڈا حضرت حمزہؓ کو باندھا تھا اور اس سریہ میں حضرت حمزہؓ کا یہ جھنڈا حضرت ابو مَرْثَدؓ اٹھائے ہوئے تھے۔
سوال نمبر۴: حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزنے جنگِ جسراورحضرت سلیط بن قیسؓ کی شہادت کی بابت کیابیان فرمایا؟
جواب: فرمایا: تیرہ ہجری میں جبکہ بعض کے مطابق چودہ ہجری کے آغاز میں حضرت عمرؓ کے دورِ خلافت میں جنگِ جسر کا واقعہ پیش آیا۔ یہ جنگ مسلمانوں اور فارسیوں کے درمیان موجودہ عراق کے علاقے میں لڑی گئی۔ اس جنگ میں مسلمانوں کے سپہ سالار حضرت ابو عُبَید بن مسعود ثَقْفِیؓتھے اس لیے اس جنگ کو جنگِ جِسْرَ ابِی عُبَیدبھی کہتے ہیں۔ اس جنگ کے مزید نام ہیں جنگِ مَرْوَحَہجو دریائے فرات کے مغربی کنارے پر واقع ایک جگہ کا نام ہے۔ جنگ قُسُّ النَّاطِفْ۔یہ بھی دریائے فرات کے مشرقی کنارے پر کوفہ کے قریب ایک جگہ کا نام ہے۔اس جنگ میں دو ہزار ایرانی تہ تیغ ہوئے جبکہ بعض روایات کے مطابق چھ ہزار ایرانی مارے گئے۔ مسلمانوں کی طرف سے بعض روایات کے مطابق اس جنگ میں اٹھارہ سو مسلمان شہید ہوئے جبکہ بعض کے مطابق چار ہزار مسلمان شہید ہوئے جن میں ستر انصار اور بائیس مہاجرین بھی شامل تھے۔ ان شہداء میں حضرت سَلِیطبن قیسؓ بھی شامل تھے۔ بعض کے نزدیک اس معرکہ میں سب سے آخر میں شہید ہونے والے حضرت سَلِیط بن قیسؓ تھے۔
سوال نمبر۵:حضورانورایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے حضرت رفاعہ بن رافعؓ کےقبول اسلام کےحوالہ سےکیا روایت بیان فرمائی؟
جواب: فرمایا:مُعَاذ بنِ رِفَاعَہ اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ وہ حضرت رِفَاعَہ بن رَافِع اور ان کے خالہ زاد بھائی حضرت معاذ بن عَفْراءؓ نکلے اور مکہ مکرمہ پہنچے جب دونوں ثَنِیہ پہاڑی سے نیچے اترے تو انہوں نے ایک شخص کو درخت کے نیچےبیٹھے دیکھا۔ راوی کے مطابق یہ واقعہ چھ انصاریوں کے نکلنے سے پہلے کا ہے یعنی بیعت عقبہ اولیٰ سے پہلے کا واقعہ ہے۔ کہتے ہیں کہ جب ہم نے، اُس شخص کو دیکھا تو وہ آنحضرتﷺ تھے۔ تو ہم نے کہا کہ اس شخص کے پاس چلتے ہیں اور اپنا سامان اس کے پاس رکھوا دیتے ہیں یہاں تک کہ بیت اللہ کا طواف کر آئیں۔ کہتے ہیں کہ ہم نے آپﷺ کو جاہلیت کے رواج کے مطابق سلام کیا مگر آپؐ نے اسلامی طریق کے مطابق سلام کا جواب دیا اور ہم کہتے ہیں کہ ہم نبی کے بارے میں سن تو چکے تھے کہ مکہ میں کسی نے دعویٰ کیا ہے مگر ہم نے آپؐ کو نہ پہچانا۔ ہم نے آپﷺ سے پوچھا کہ آپ کون ہیں؟ آپؐ نے کہا کہ نیچے اتر آؤ۔ پس ہم نیچے اتر آئے اور آپؐ سے پوچھا کہ وہ شخص کہاں ہے جو نبوت کا دعویدار ہے اور وہ کہتا ہے جو بھی وہ کہتا ہے یعنی جو بھی اس کا دعویٰ ہے وہ اپنے دعویٰ کے متعلق کہتا ہے۔ آپﷺ نے فرمایا وہ مَیں ہی ہوں۔ پھر کہتے ہیں میں نے کہا کہ مجھے اسلام کے بارے میں بتائیں تو آپﷺ نے ہمیں اسلام کے بارے میں بتایا اور پوچھا کہ آسمانوں اور زمین اور پہاڑوں کو کس نے پیدا کیا ہے؟ ہم نے کہا انہیں اللہ تعالیٰ نے پیدا کیا ہے۔ آپﷺ نے پوچھا کہ تمہیں کس نے پید اکیا ہے؟ ہم نے کہا کہ اللہ تعالیٰ نے۔ آپﷺ نے پوچھا یہ بت کس نے پیدا کیے ہیں جن کی تم عبادت کرتے ہو؟ ہم نے کہا یہ ہم نے خود بنائے ہیں۔ آپﷺ نے پوچھا پھر پیدا کرنے والا عبادت کا زیادہ حق دار ہے یا وہ جن کو پیدا کیا گیا ہے۔ پھر تو تم زیادہ حقدار ہو کہ تمہاری عبادت کی جائے کیونکہ تم بتوں کے پیدا کرنے والے ہو اور پھر آپ نے فرمایا کہ میں اللہ کی عبادت اور اس کی گواہی کی طرف بلاتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور یہ کہ مَیں اللہ کا رسول ہوں اور آپس میں صلہ رحمی کرنے اور دشمنی کو چھوڑ دینے کی طرف بلاتا ہوں جو لوگوں کے ظلم کی وجہ سے ہو۔ ہم نے کہا کہ نہیں اللہ کی قسم! جس چیز کی طرف آپؐ بلاتے ہیں اگر جھوٹی ہوئی تو بھی یہ عمدہ باتیں ہیں اور اَحسن اخلاق ہیں۔ آپؐ ہماری سواری کو سنبھالیں یہاں تک کہ ہم طواف کر آئیں۔مُعَاذ بن عَفْرَاء آپﷺ کے پاس ہی بیٹھے رہے۔رِفَاعَہ بن رَافِع کہتے ہیں پس میں بیت اللہ کا طواف کرنے گیا۔ میں نے سات تیر نکالے اور ایک تیر آپﷺ کے لیے مقرر کر لیا جو اُن کا طریقہ تھا۔ دل کی تسلی کے لیے یہ تیروں سے شگون لیا کرتے تھے۔ کہتے ہیں پھر بیت اللہ کی طرف متوجہ ہوئے اور دعا مانگی۔ اے اللہ! محمد (ﷺ) جس چیز کی طرف بلاتے ہیں اگر وہ حق ہے تو ساتوں بار انہی کا تیر نکال۔ میں نے سات بار قرعہ ڈالا اور ساتوں بار آپؐ کا ہی تیر نکلا۔ میں زور سے بولا۔ اَشْھَدُ اَنْ لَّااِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ وَاَنَّ مُحَمَّدًا رَّسُوْلُ اللّٰہ۔ پس لوگ میرے پاس جمع ہو گئے اور کہنے لگے یہ شخص مجنون ہے، صابی ہو گیا ہے۔ میں نے کہا بلکہ مومن آدمی ہے۔ یعنی جس کی تم باتیں کر رہے ہو وہ تو مجنون ہے، صابی ہے لیکن میں نے کہا نہیں بلکہ مجھے تو لگتا ہے مومن آدمی ہے۔ پھر میں مکہ کے بالائی علاقے میں آ گیا۔ پس جب مُعاذ نے مجھے دیکھا تو کہا رِفَاعَہ ایسے نورانی چہرے کے ساتھ آ رہا ہے جیساکہ جاتے وقت نہ تھا۔ یعنی کلمہ پڑھنے سے پہلے وہ نورانی چہرہ نہیں تھا جیساکہ اب ہے۔ پس میں آیا اور اسلام قبول کیا۔ رسول اللہﷺ نے ہمیں سورۂ یوسف اور اِقْرَأْ بِاسْمِ رَبِّكَ الَّذِی خَلَقَ پڑھائی۔ پھر ہم واپس آ گئے۔
سوال نمبر۶: حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے آنحضورﷺ کے ایک بدوی کو نماز سکھانے کے حوالہ سے کیا روایت بیان فرمائی؟
جواب: فرمایا:حضرت رِفَاعَہ بن رَافِعؓکہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ ایک دن مسجد میں بیٹھے ہوئے تھے ہم بھی آپؐ کے ساتھ تھے۔ اسی دوران ایک شخص آپؐ کے پاس آیا جو بدوی لگ رہا تھا۔ اس نے آکر نماز پڑھی اور بہت ہلکی پڑھی۔ پھر مڑا اور نبی کریمﷺ کو سلام کیا تو نبی کریمﷺ نے فرمایا تم پر بھی سلام ہو۔ واپس جاؤ پھر سے نماز پڑھو کیونکہ تم نے نماز نہیں پڑھی۔ وہ پھر گیا اور نماز پڑھی۔ پھر وہ آیا اور آکر اس نے آپؐ کو سلام کیا۔ آپؐ نے پھر فرمایا تم پر بھی سلامتی ہو اور فرمایا کہ واپس جاؤ پھر سے نماز پڑھو کیونکہ تم نے نماز نہیں پڑھی۔اس طرح اس نے دو بار یا تین بار کیا۔ ہر بار وہ نبی کریمﷺ کے پاس آ کر آپؐ کو سلام کرتا اور آپؐ فرماتے تم پر بھی سلام ہو۔واپس جاؤ پھر سے نماز پڑھو کیونکہ تم نے نماز نہیں پڑھی۔ تو لوگ ڈرے اور ان پر یہ بات گراں گزری کہ جس نے ہلکی نماز پڑھی ہے اس نے نماز ہی نہیں پڑھی۔ وہاں جو لوگ، صحابہ ارد گرد بیٹھے ہوئے تھے ان کو بڑا خوف محسوس ہوا کہ اس کا مطلب ہے کہ ہلکی نمازیں تو پھر نماز ہی نہیں ہے۔ ہمیں بھی اس لحاظ سے اپنا جائزہ لینا چاہیے۔آخر اس آدمی نے عرض کیا کہ ہمیں پڑھ کر دکھا دیں اور مجھے سکھا دیں۔میں انسان ہی تو ہوں میں صحیح بھی کرتا ہوں اور مجھ سے غلطی بھی ہو جاتی ہے تو آپؐ نے فرمایا ٹھیک ہے جب تم نماز کے لیے کھڑے ہونے کا ارادہ کرو تو پہلے وضو کرو جیسے اللہ نے تمہیں وضو کرنے کا حکم دیا ہے۔ پھر اگر تمہیں کچھ قرآن یاد ہو تو اسے پڑھو ورنہ اَلْحَمْدُ لِلّٰهِ، اَللّٰهُ اَكْبَر اور لَا إِلٰهَ إِلَّا اللّٰهکہو۔ پھر رکوع میں جاؤ اور خوب اطمینان سے رکوع کرو۔ اس کے بعد بالکل سیدھے کھڑے ہو جاؤ۔ پھر سجدہ کرو اور خوب اعتدال سے سجدہ کرو۔ پھر بیٹھو اور خوب اطمینان سے بیٹھو پھر اٹھو۔ جب تم نے ایسا کر لیا تو تمہاری نماز پوری ہو گئی اور اگر تم نے اس میں کچھ کمی کی تو تم نے اتنی ہی اپنی نماز میں سے کمی کی۔ حضرت رِفَاعَہ بن رَافِعؓ سے روایت ہے کہ وہ نبی کریمﷺ کے پاس بیٹھےہوئے تھے تو آپؐ نے فرمایا کہ کسی کی نماز مکمل نہیں ہوتی یہاں تک کہ وہ پوری طرح وضو کرے جیسے اللہ تعالیٰ نے اس کو حکم دیا ہے۔اپنے چہرے اور دونوں ہاتھوں کو کہنیوں تک دھوئے اور اپنے سر کا مسح کرے اور اپنے دونوں پاؤں ٹخنوں تک دھوئے۔