کامیابی کی راہیں انہیں پر کھولی جاتی ہیں جو صبر کرتے ہیں
خدا تعالیٰ کی انزال رحمت اور روحانی برکت کے بخشنے کے لئے بڑے عظیم الشان دو طریقے ہیں۔ (۱) اوّل یہ کہ کوئی مصیبت اور غم و اندوہ نازل کرکے صبر کرنے والوں پر بخشش اور رحمت کے دروازے کھولے جیسا کہ اُس نے خود فرمایا ہے: وَبَشِّرِ الصّٰبِرِیۡنَ۔ الَّذِیۡنَ اِذَاۤ اَصَابَتۡہُمۡ مُّصِیۡبَۃٌ ۙ قَالُوۡۤا اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّاۤ اِلَیۡہِ رٰجِعُوۡنَ۔ اُولٰٓئِکَ عَلَیۡہِمۡ صَلَوٰتٌ مِّنۡ رَّبِّہِمۡ وَرَحۡمَۃٌ ۟ وَاُولٰٓئِکَ ہُمُ الۡمُہۡتَدُوۡنَ(البقرہ:۱۵۶تا۱۵۸)یعنی ہمارا یہی قانون قُدرت ہے کہ ہم مومنوں پر طرح طرح کی مصیبتیں ڈالا کرتے ہیں اور صبر کرنے والوں پر ہماری رحمت نازل ہوتی ہے اور کامیابی کی راہیںانہیں پر کھولی جاتی ہیں جو صبر کرتے ہیں۔
(سبز اشتہار، روحانی خزائن جلد ۲ صفحہ ۴۶۱-۴۶۲، حاشیہ)
وَلَنَبۡلُوَنَّکُمۡ بِشَیۡءٍ مِّنَ الۡخَوۡفِ وَالۡجُوۡعِ وَنَقۡصٍ مِّنَ الۡاَمۡوَالِ وَالۡاَنۡفُسِ وَالثَّمَرٰتِ ؕ وَبَشِّرِ الصّٰبِرِیۡنَ ۔ الَّذِیۡنَ اِذَاۤ اَصَابَتۡہُمۡ مُّصِیۡبَۃٌ ۙ قَالُوۡۤا اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّاۤ اِلَیۡہِ رٰجِعُوۡنَ ۔ اُولٰٓئِکَ عَلَیۡہِمۡ صَلَوٰتٌ مِّنۡ رَّبِّہِمۡ وَرَحۡمَۃٌ ۟ وَاُولٰٓئِکَ ہُمُ الۡمُہۡتَدُوۡنَ (البقرہ:۱۵۶-۱۵۸) اے مومنو! ہم تمہیں اس طرح پر آزماتے رہیں گے کہ کبھی کوئی خوفناک حالت تم پر طاری ہوگی اور کبھی فقر و فاقہ تمہارے شامل حال ہوگا اور کبھی تمہارا مالی نقصان ہوگا اور کبھی جانوں پر آفت آئے گی اور کبھی اپنی محنتوں میں ناکام رہو گے اور حسب المراد نتیجے کوششوں کے نہیں نکلیں گے اور کبھی تمہاری پیاری اولاد مرے گی۔ پس ان لوگوں کو خوشخبری ہو کہ جب ان کو کوئی مصیبت پہنچے تو وہ کہتے ہیں کہ ہم خدا کی چیزیں اور اس کی امانتیں اور اس کے مملوک ہیں۔ پس حق یہی ہے کہ جس کی امانت ہے اس کی طرف رجوع کرے۔ یہی لوگ ہیں جن پر خدا کی رحمتیں ہیں اور یہی لوگ ہیں جو خدا کی راہ کو پاگئے۔
غرض اس خُلق کا نام صبر اور رضا بر رضائے الٰہی ہے۔ اور ایک طور سے اس خلق کا نام عدل بھی ہے کیونکہ جبکہ خداتعالیٰ انسان کی تمام زندگی میں اس کی مرضی کے موافق کام کرتا ہے اور نیز ہزار ہا باتیں اس کی مرضی کے موافق ظہور میں لاتا ہے اور انسان کی خواہش کے مطابق اس قدر نعمتیں اس کو دے رکھی ہیں کہ انسان شمار نہیں کر سکتا تو پھر یہ شرط انصاف نہیں کہ اگر وہ کبھی اپنی مرضی بھی منوانا چاہے تو انسان منحرف ہو اور اس کی رضا کے ساتھ راضی نہ ہو اور چون وچرا کرے یا بے دین اور بے راہ ہو جائے۔
(اسلامی اصول کی فلاسفی ، روحانی خزائن جلد ۱۰ صفحہ ۳۶۲)