متفرق شعراء

’آگ ہے پر آگ سے وہ سب بچائے جائیں گے‘

آگ کے جب ہر طرف شعلے اڑائے جائیں گے

زد میں اس کی مشرق و مغرب بھی لائے جائیں گے

آگ کے بھڑکانے والے خود جلائے جائیں گے

’’آگ ہے پر آگ سے وہ سب بچائے جائیں گے

جو کہ رکھتے ہیں خدائے ذوالعجائب سے پیار‘‘

ایک مدت تک رہا واحد خدا خاموش ہے

اور عالم مبتلائے نان و ناؤ نوش ہے

چھوڑ دے غفلت اگر تو عاقل و با ہوش ہے

’’آسماں پر اِن دنوں قہرِ خدا کا جوش ہے

کیا نہیں تم میں سے کوئی بھی رشید و ہونہار‘‘

ان دنوں منڈلا رہی دنیا پہ مہلک رات ہے

اس تباہی میں فقط انساں کا اپنا ہاتھ ہے

ایک ظالم ہر طرح سے دوسرے کے ساتھ ہے

’’یہ خوشی کی بات ہے سب کام اُس کے ہاتھ ہے

وہ جو ہے دھیما غضب میں اور ہے آمُرزگار‘‘

کیوں نہیں ڈرتے بلا سے، تم کوئی آہن نہیں

جو خدا کو چھوڑ کر پکڑو، کوئی دامن نہیں

کوئی ملجا، کوئی ماوٰی، امن کا مسکن نہیں

’’بے خدا اِس وقت دنیا میں کوئی مامَن نہیں

یا اگر ممکن ہو اب سے سوچ لو راہِ فرار‘‘

دو بجھا ہر ایک چنگاری مگر کچھ رحم ہو

چھوڑ دو فطرت یہ اب ناری مگر کچھ رحم ہو

چھوڑ دو ہر اک سیہ کاری مگر کچھ رحم ہو

’’وقت ہے توبہ کرو جلدی مگر کچھ رحم ہو

سست کیوں بیٹھے ہو جیسے کوئی پی کر کوکنار‘‘

چاہیے گر امن تو پھر صاحبِ انصاف ہوں

دنیا والوں سے کہو اپنے خدا سے صاف ہوں

ظاہر و باطن میں مثلِ آئنہ شفاف ہوں

’’اس میں کیا خوبی کہ پڑ کر آگ میں پھر صاف ہوں

خوش نصیبی ہو اگر اب سے کرو دِل کی سنوار‘‘

(ط۔م۔طاہر)

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button