خطبہ جمعہ بطرز سوال و جواب فرمودہ ۳؍ فروری۲۰۲۳ء بمقام مسجد مبارک، اسلام آباد، ٹلفورڈ (سرے) یوکے)
سوال نمبر۱: حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نےخطبہ کےعنوان کی بابت کیابیان فرمایا؟
جواب:فرمایا:حضرت مسیح موعودؑ نے ہمیں قرآن کریم کی عظمت و اہمیت، مقام و مرتبہ کے متعلق اپنے ارشادات اور تصنیفات میں جو عرفان بیان فرمایا ہے اور عطا فرمایا ہے وہ میں آج بیان کروں گا۔
سوال نمبر۲:حضورانورایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نےپاکستان میں علماءکی مخالفت کےحوالہ سےکیابیان فرمایا؟
جواب:فرمایا:اس زمانے میں اللہ تعالیٰ نے آنحضرتﷺ کے غلامِ صادقؑ کو قرآن کریم کی اشاعت کے لیے بھیجا ہے، قرآن کریم کی حفاظت کے لیے بھیجا ہے۔ آپؑ کو وہ معارف سکھائے ہیں جو لوگوں سے پوشیدہ تھے۔ آپؑ کے ذریعے قرآن کریم کے فیض کا ایک چشمہ جاری فرمایا ہے۔ آپؑ تو آئے ہی قرآن کریم کی حکومت کو دنیا میں قائم کرنے کے لیے ہیں۔ لیکن بدقسمتی سے نام نہاد علماء نے آپؑ کے دعوے کی ابتدا سے ہی آپؑ کی مخالفت اپنا مقصد بنایا ہوا ہے اور کوئی دلیل اور عقل کی بات سننا نہیں چاہتے اور عوام الناس کو بھی گمراہ کر رہے ہیں۔ خود تو علم و معرفت سے نابلد ہیں لیکن جس کو خدا تعالیٰ نے اس کام کے لیے بھیجا ہے اس کے راستے میں روکیں کھڑی کرنے کی کوشش کرتے رہتے ہیں اور اسے یہ لوگ قرآن کریم کی خدمت سمجھتے ہیں۔پاکستان میں وقتاً فوقتاً ان علماء کو ابال اٹھتا رہتا ہے اور ان کے ساتھ پھر بعض سستی شہرت حاصل کرنے والے سیاستدان اور سرکاری اہلکار بھی مل جاتے ہیں اور احمدیوں کو مختلف بہانوں سے ظلموں کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔ گذشتہ کچھ عرصےسے پھر یہ لوگ احمدیوں پر تحریف اور توہینِ قرآن کے من گھڑت مقدمے بنانے کی کوشش میں لگے ہوئے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ان کے شر سے بچائے اور جو احمدی اس غلط اور ظالمانہ الزام میں انہوں نے پکڑے ہوئے ہیں ان کی جلد رہائی کے بھی اللہ تعالیٰ سامان پیدا فرمائے۔
سوال نمبر۳: حضورانورایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نےقرآنی تعلیم کےکامل ہونےکےحوالہ سےکیابیان فرمایا؟
جواب: فرمایا:(آپؑ)فرماتے ہیں کہ’’میرا مذہب یہی ہے کہ قرآن اپنی تعلیم میں کامل ہے اور کوئی صداقت اس سے باہر نہیں کیونکہ اللہ جلّ شانہٗ فرماتا ہے۔ وَ نَزَّلْنَا عَلَیْكَ الْكِتَابَ تِبْیَانًا لِكُلِّ شَیءٍ (النحل: ۹۰) یعنی ہم نے تیرے پر وہ کتاب اتاری ہے جس میں ہر ایک چیز کا بیان ہے اور پھر فرماتا ہے مَا فَرَّطْنَا فِی الْكِتَابِ مِنْ شَیْءٍ (الانعام: ۳۹) یعنی ہم نے اس کتاب سے کوئی چیز باہر نہیں رکھی لیکن ساتھ اس کےفرماتے ہیں کہ’’یہ بھی میرا اعتقاد ہے کہ قرآن کریم سے تمام مسائل دینیہ کا استخراج و استنباط کرنا اور اس کی مجمّلات کی تفاصیل صحیحہ پر حسب منشاء الٰہی قادر ہونا ہر ایک مجتہد اور مولوی کا کام نہیں۔‘‘ہر ایک کو اس کا ملکہ نہیں دیا گیا کہ اس کی تفصیل اور تفسیر بیان کرے اور گہرائی میں جا کر اس کے علم و عرفان کے موتیوں کو نکال کے لائے۔ فرمایا’’بلکہ یہ خاص طور پر ان کا کام ہے جو وحی الٰہی سے بطور نبوت یا بطور ولایت عظمیٰ مدد دیئے گئے ہوں۔ سو ایسے لوگوں کے لیے جو استخراج و استنباط معارف قرآنی پر بَعِلَّت غَیر مُلْہَم ہونے کے قادر نہیں ہوسکتے یہی سیدھی راہ ہے کہ وہ بغیر قصد استخراج و استنباط قرآن کے ان تمام تعلیمات کو جو سنن متوارثہ متعاملہ کے ذریعہ سے ملی ہیں بلاتامل و توقف قبول کر لیں…‘‘فرمایا’’اور جو لوگ وحی ولایت عظمیٰ کی روشنی سے منور ہیں اور اِلَّاالْمُطَہَّرُوْن کے گروہ میں داخل ہیں ان سے بلاشبہ عادت اللہ یہی ہے کہ وہ وقتاً فوقتاً دقائق مخفیہ قرآن کے ان پر کھولتا رہتا ہے…‘‘بعض لوگ کہتے ہیں حدیث جو ہے۔ لیکن اللہ تعالیٰ جب قرآن کریم کا علم اور عرفان عطا فرماتا ہے تو اس سے پتا لگتا ہے کہ آنحضرتﷺ نے قرآن کریم سے باہر کوئی بات نہیں کی۔ فرمایا:’’بلکہ احادیث صحیحہ میں مجملات و اشارات قرآن کریم کی تفصیل ہے سو اس معرفت کے پانے سے اعجاز قرآن کریم ان پر کھل جاتا ہے۔‘‘حدیثیں ہیں ان میں بعض اشارے ایسے ملتے ہیں جس سے بعض آیتوں کی تفسیر ملتی ہے،تفصیل ملتی ہے اور قرآن کریم کا مضمون ان پر مزید کھلتا ہے۔
سوال نمبر۴: حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے ہدایت کا اوّل درجہ’’قرآن کریم ہے‘‘کےحوالہ سےکیابیان فرمایا؟
جواب: فرمایا:حضرت مسیح موعودؑ فرماتے ہیں:’’میرا مذہب یہ ہے کہ تین چیزیں ہیں کہ جو تمہاری ہدایت کے لیے خدا نے تمہیں دی ہیں۔ سب سے اوّل قرآن ہے جس میں خدا کی توحید اور جلال اور عظمت کا ذکر ہے اور جس میں ان اختلافات کا فیصلہ کیا گیا ہے جو یہود اور نصاریٰ میں تھے جیساکہ یہ اختلاف اور غلطی کہ عیسیٰ بن مریم صلیب کے ذریعہ قتل کیا گیا اور وہ لعنتی ہوا اور دوسرے نبیوں کی طرح اُس کا رفع نہیں ہوا۔‘‘یعنی یہودیوں کا یہ نظریہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت عیسیٰ کو اپنے قرب سے نہیں نوازا لیکن فرمایا’’ ایک تو اس کی یہ نفی کر دی کہ حضرت عیسیٰؑ پہ جو الزام ہے وہ غلط ہے۔دوسرا فرمایا قرآن میں منع کیا گیا ہے کہ بجز خدا کے’’تم کسی چیز کی عبادت کرو، نہ انسان کی نہ حیوان کی نہ سورج کی نہ چاند کی اور نہ کسی اَور ستارہ کی اور نہ اسباب کی اور نہ اپنے نفس کی۔‘‘ہر قسم کے شرک سے قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ نے مناہی فرمائی، اس کی تلقین فرمائی اور بڑا کھل کر فرمایا’’سو تم ہوشیار رہو اور خدا کی تعلیم اور قرآن کی ہدایت کے برخلاف ایک قدم بھی نہ اٹھاؤ۔ میں تمہیں سچ سچ کہتا ہوں کہ جو شخص قرآن کے سات سو حکم میں سے ایک چھوٹے سے حکم کو بھی ٹالتا ہے وہ نجات کا دروازہ اپنے ہاتھ سے اپنے پر بند کرتا ہے حقیقی اور کامل نجات کی راہیں قرآن نے کھولیں اور باقی سب اس کے ظل تھے سو تم قرآن کو تدبّر سے پڑھواور اس سے بہت ہی پیار کرو ایسا پیار کہ تم نے کسی سے نہ کیا ہو کیونکہ جیساکہ خدا نے مجھے مخاطب کر کے الہاماً فرمایا ہے’’کہ اَلْخَیرُ کُلُّہٗ فِی الْقُرْاٰنِکہ تمام قسم کی بھلائیاں قرآن میں ہیں۔ یہی بات سچ ہے۔ افسوس ان لوگوں پر جو کسی اَور چیز کو اس پر مقدم رکھتے ہیں۔تمہاری تمام فلاح اور نجات کا سرچشمہ قرآن میں ہے کوئی بھی تمہاری ایسی دینی ضرورت نہیں جو قرآن میں نہیں پائی جاتی۔ تمہارے ایمان کا مصدق یا مکذّب قیامت کے دن قرآن ہے اور بجز قرآن کے آسمان کے نیچے اَور کوئی کتاب نہیں جو بلاواسطہ قرآن تمہیں ہدایت دے سکے…خدا نے تم پر بہت احسان کیا ہے جو قرآن جیسی کتاب تمہیں عنایت کی۔ مَیں تمہیں سچ سچ کہتا ہوں کہ وہ کتاب جو تم پر پڑھی گئی اگر عیسائیوں پر پڑھی جاتی تو وہ ہلاک نہ ہوتے اور یہ نعمت اور ہدایت جو تمہیں دی گئی اگر بجائے توریت کے یہودیوں کو دی جاتی تو بعض فرقے ان کے قیامت سے منکر نہ ہوتے پس اس نعمت کی قدر کرو جو تمہیں دی گئی۔ یہ نہایت پیاری نعمت ہے، یہ بڑی دولت ہے، اگر قرآن نہ آتا تو تمام دنیا ایک گندے مُضغہ کی طرح تھی۔‘‘ایک خون کے لوتھڑے کی طرح تھی۔’’قرآن وہ کتاب ہے جس کے مقابل پر تمام ہدایتیں ہیچ ہیں۔ ‘‘
سوال نمبر۵: حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے قرآن کریم کے’’خاتم الکتب ہونے‘‘کےحوالہ سےکیابیان فرمایا؟
جواب: فرمایا:آپؑ فرماتے ہیں کہ’’آنحضرت ﷺ خاتَم النبیین ہیں اور قرآن شریف خاتَم الکتب۔اب کوئی اَور کلمہ یا کوئی اَور نماز نہیں ہو سکتی۔ جو کچھ آنحضرت ﷺ نے فرمایا یا کرکے دکھایااور جو کچھ قرآن شریف میں ہے اُس کو چھوڑ کر نجات نہیں مل سکتی۔ جو اس کو چھوڑے گا وہ جہنم میں جاوے گا۔یہ ہمارا مذہب اور عقیدہ ہے…ہمیں اللہ تعالیٰ نے وہ نبیؐ دیا جو خاتَم المؤمنینؐ، خاتَم العارفینؐ اور خاتَم النبیینؐ ہے اور اسی طرح پر وہ کتاب اُس پرنازل کی جو جامع الکتب اور خاتم الکتب ہے۔ رسول اللہ ﷺ جو خاتَم النبیین ہیں اور آپؐ پر نبوت ختم ہو گئی۔ تو یہ نبوت اس طرح پر ختم نہیں ہوئی جیسے کوئی گلا گھونٹ کر ختم کردے۔ ایسا ختم قابل فخر نہیں ہوتا۔ بلکہ رسول اللہ ﷺ پر نبوت ختم ہونے سے یہ مراد ہے کہ طبعی طور پر آپؐ پر کمالات نبوت ختم ہو گئے۔ یعنی وہ تمام کمالات متفرقہ جو آدمؑ سے لے کر مسیح ابن مریمؑ تک نبیوں کو دئیے گئے تھے کسی کو کوئی اور کسی کو کوئی وہ سب کے سب آنحضرت ﷺ میں جمع کر دئیے گئے اور اس طرح پر طبعاً آپؐ خاتم النبیین ٹھہرے۔ اور ایسا ہی وہ جمیع تعلیمات، وصایا اور معارف جو مختلف کتابوں میں چلے آتے ہیں وہ قرآن شریف پر آ کر ختم ہو گئے اور قرآن شریف خاتَم الکتب ٹھہرا…خاتم النبیین کا لفظ جو آنحضرت ﷺ پر بولا گیا ہے بجائے خود چاہتا ہے اور بالطبع اسی لفظ میں یہ رکھا گیا ہے کہ وہ کتاب جو آنحضرت ﷺ پر نازل ہوئی ہے وہ بھی خاتم الکتب ہو اور سارے کمالات اس میں موجود ہوں اور حقیقت میں وہ کمالات اس میں موجود ہیں۔کیونکہ کلام الٰہی کے نزول کاعام قاعدہ اور اصول یہ ہے کہ جس قدر قوت قدسی اور کمال باطنی اس شخص کا ہوتا ہے جس پر کلام الٰہی نازل ہوتا ہے اسی قدر قوّت اور شوکت اس کلا م کی ہوتی ہے۔ آنحضرت ﷺ کی قوت قدسی اور کمال باطنی چونکہ اعلیٰ سے اعلیٰ درجہ کا تھا جس سے بڑھ کر کسی انسان کا نہ کبھی ہوا اور نہ آئندہ ہو گا…اس لیے قرآن شریف بھی تمام پہلی کتابوں اور صحائف سے اُس اعلیٰ مقام اور مرتبہ پر واقع ہوا ہے جہاں تک کوئی دوسرا کلام نہیں پہنچا کیونکہ آنحضرتﷺ کی استعداد اور قوت قدسی سب سے بڑھی ہوئی تھی اور تمام مقامات ِکمال آپؐ پر ختم ہوچکے تھے اور آپؐ انتہائی نقطہ پر پہنچے ہوئے تھے۔ اس مقام پر قرآن شریف جو آپؐ پر نازل ہوا کمال کو پہنچا ہوا ہے اور جیسے نبوت کے کمالات آپؐ پر ختم ہو گئے اسی طرح پر اعجاز کلام کے کمالات قرآن شریف پر ختم ہوگئے۔ آپ خاتم النبیین ٹھہرے اور آپ کی کتاب خاتم الکتب ٹھہری۔‘‘