منظوم کلام حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام
اِک زمانہ تھا کہ میرا نام بھی مستور تھا
قادیاں بھی تھی نہاں ایسی کہ گویا زیرِ غار
کوئی بھی واقف نہ تھا مجھ سے نہ میرا مُعتقد
لیکن اب دیکھو کہ چرچا کِس قدر ہے ہر کنار
اُس زمانہ میں خدا نے دی تھی شُہرت کی خبر
جو کہ اب پوری ہوئی بعد از مُرورِ روزگار
کھول کر دیکھو براہیں جو کہ ہے میری کتاب
اِس میں ہے یہ پیشگوئی پڑھ لو اُس کو ایک بار
اب ذرہ سوچو کہ کیا یہ آدمی کا کام ہے
اِس قدر امرِ نہاں پر کس بشر کو اِقتدار
قُدرتِ رحمان و مکرِ آدمی میں فرق ہے
جو نہ سمجھے وہ غبی از فرق تاپا ہے حمار
سوچ لو اے سوچنے والو کہ اب بھی وقت ہے
راہِ حرماں چھوڑ دو رحمت کے ہو اُمیدوار
سوچ لو یہ ہاتھ کس کا تھا کہ میرے ساتھ تھا
کس کے فرماں سے میں مقصد پا گیا اور تم ہو خوار
یہ بھی کچھ ایماں ہے یارو ہم کو سمجھائے کوئی
جس کا ہر میداں میں پھل حرماں ہے اور ذِلّت کی مار
غُل مچاتے ہیں کہ یہ کافر ہے اور دجّال ہے
میں تو خود رکھتا ہُوں اُن کے دیں سے اور ایماں سے عار
گر یہی دیں ہے جو ہے ان کی خصائل سے عیاں
مَیں تو اِک کوڑی کو بھی لیتا نہیں ہوں زینہار
(درثمین صفحہ ۱۵۶)