صلح کاری اعلیٰ درجہ کا ایک خُلق ہے
(انتخاب از خطبہ جمعہ حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ ۱۸؍اگست ۲۰۱۷ء)
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے اپنی کتاب ’اسلامی اصول کی فلاسفی‘، میں ترک شر کی قسموں کا ذکر فرمایا اور یہ ذکر فرماتے ہوئے ایک قسم آپ نے یہ بیان فرمائی یعنی کہ شر کو کس طرح ترک کیا جا سکتا ہے۔ کس طرح کیا جانا چاہئے اور کس طرح ترک ہوتا ہے اور مختلف طریقوں میں سے ایک یہ ہے کہ ’’دوسرے کو ظلم کی راہ سے بدنی آزار نہ پہنچانا اور بےشر ہونا اور صلح کاری کی زندگی بسر کرنا۔‘‘ ایک قسم ترک شرک کی یہ ہے۔ بالکل ایسی زندگی گزارنا کہ کسی بھی قسم کا ظلم کسی پر نہ کرنا۔ کسی کو نقصان نہ پہنچانا بلکہ خالص بالکل مکمل طور پر بےشر ہو جانا اور صلح کی بنیاد ڈالنا، صلح سے زندگی گزارنا۔ آپس میں محبت اور پیار کو بڑھانا یہ ضروری ہے۔ اس بارے میں آپؑ مزید فرماتے ہیں۔ ’’پس بلا شبہ صلح کاری اعلیٰ درجہ کا ایک خُلق ہے اور انسانیت کے لئے ازبس ضروری۔ اور اس خلق کے مناسب حال طبعی قوّت جو بچے میں ہوتی ہے جس کی تعدیل سے یہ خُلق بنتا ہے اُلفت یعنی خُوگرفتگی ہے‘‘۔ فرماتے ہیں۔ ’’یہ تو ظاہر ہے کہ انسان صرف طبعی حالت میں یعنی اس حالت میں کہ جب انسان عقل سے بے بہرہ ہو صلح کے مضمون کو نہیں سمجھ سکتا اور نہ جنگجوئی کے مضمون کو سمجھ سکتا ہے۔ یہ خُلق جو ہے یہ بچوں میں پیدا ہوتا ہے۔ صلح کرنا، صلح کی طرف قدم بڑھانا فطرت کا حصہ ہے۔ بچے جو ہیں وہ فوری طور پر بھول جاتے ہیں اور صلح کی طرف بڑھتے ہیں۔ آپؑ فرماتے ہیں کہ انسان اس طبعی حالت کو اسی وقت سمجھ سکتا ہے جب عقل بھی ہو۔ اگر عقل نہیں ہے توانسان صلح کے مضمون کو سمجھ نہیں سکتا اور اسی طرح نہ جنگجوئی کے مضمون کو سمجھ سکتا ہے۔ کس وقت صلح کرنی اور کس وقت کن حالات میں جنگ ہونی ہے۔ فرمایا کہ’’پس اس وقت جو ایک عادت موافقت کی اس میں پائی جاتی ہے وہ صلح کاری کی عادت کی ایک جڑھ ہے۔ لیکن چونکہ وہ عقل اور تدبر اور خاص ارادے سے اختیار نہیں کی جاتی اس لئے خُلق میں داخل نہیں ہوتی بلکہ خُلق میں تب داخل ہو گی کہ جب انسان بالارادہ اپنے تئیں بے شر بنا کر صلح کاری کے خُلق کو اپنے محل پر استعمال کرے۔‘‘ اگر عقل نہیں ہے انسان میں یا طاقت نہیں ہے اُس وقت یا بچے کی حالت ہے تو وہ ایک اعلیٰ خُلق نہیں ہے۔ اعلیٰ خُلق تبھی بنے گا جب سارے حالات کا جائزہ لے اور پھر انسان ارادہ کر کے اور کوشش کر کے پھر صلح کی بنیاد کو ڈالے اور اس کو اپنے محل پہ استعمال کرے۔ یا اگر بعض دفعہ ملکوں میں یا قوموں میں جنگ کی صورت پیش آ جاتی ہے اس وقت وہ فیصلے کرتے ہیں۔ لیکن انصاف سے دُور ہو کر نہیں، عقل سے ہٹ کر نہیں بلکہ موقع اور محل کے حساب سے اور سوچ سمجھ کر یہ فیصلے ہوتے ہیں۔ صلح کاری کی بنیاد بھی صحیح محل پہ ہو، صحیح موقع پر ہو تو یہ ایک اعلیٰ خُلق تبھی بنتا ہے۔ فرمایا کہ ’’جب انسان بالارادہ اپنے تئیں بے شر بنا کر صلح کاری کے خُلق کو اپنے محل پر استعمال کرے اور بے محل استعمال کرنے سے مجتنب رہے۔ اس میں اللہ جلّ شانہٗ یہ تعلیم فرماتا ہے وَاَصْلِحُوْا ذَاتَ بَیْنِکُمْ۔(الانفال:2) کہ اپنے درمیان اصلاح کرو۔ وَالصُّلۡحُ خَیۡرٌ۔ (النساء:129)صلح بہرحال بہتر ہے۔ وَاِنْ جَنَحُوْا لِلسَّلْمِ فَاجْنَحْ لَھا (الانفال:62)کہ اگر وہ صلح کے لئے جھک جائیں تو تُو بھی ان کے لئے صلح کے لئے جھک جا۔ اگر دشمن صلح کے لئے جھک جائے یا دوسرا فریق صلح کی طرف مائل ہو تو پھر صلح کرو۔وَاِنۡ جَنَحُوۡا لِلسَّلۡمِ فَاجۡنَحۡ لَہَا (الانفال:62)۔ پھراللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ وَعِبَادُ الرَّحْمٰنِ الَّذِیۡنَ یَمْشُوْنَ عَلَی الْاَرْضِ ھَوْنًا۔(الفرقان:64) کہ اور رحمان کے بندے وہ ہیں جو زمین پر فروتنی کے ساتھ، عاجزی کے ساتھ چلتے ہیں۔ پھر اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ وَاِذَا مَرُّوۡا بِاللَّغۡوِ مَرُّوۡا کِرَامًا (الفرقان:73) اور جب وہ لغویات کے پاس سے گزرتے ہیں تو وقار کے ساتھ گزرتے ہیں۔ پھر آپ نے یہ آیت QUOTE کی کہاِدۡفَعۡ بِالَّتِیۡ ہِیَ اَحۡسَنُ فَاِذَا الَّذِیۡ بَیۡنَکَ وَبَیۡنَہٗ عَدَاوَۃٌ کَاَنَّہٗ وَلِیٌّ حَمِیۡمٌ ۔ (حم السجدہ: 35) کہ ایسی چیز سے دفاع کرو جو بہترین ہو۔ اگر اس طرح احسن رنگ میں کرو گے تو تب ایسا شخص جس کے اور تیرے درمیان دشمنی ہے گویا کہ وہ گہرے دوست بن جائیں گے۔ آپؑ فرماتے ہیں کہ ’’یعنی آپس میں صلح کاری اختیار کرو۔ صلح میں خیر ہے جب وہ صلح کی طرف جھکیں تو تم بھی جھک جاؤ۔ خدا کے نیک بندے صلح کاری کے ساتھ زمین پر چلتے ہیں اور اگر کوئی لغویات کسی سے سنیں جو جنگ کا مقدمہ اور لڑائی کی ایک تمہید ہو تو بزرگانہ طور پر طرح دے کر چلے جاتے ہیں۔‘‘ اگر لغو بات سنتے ہیں جس کی وجہ سے لڑائی پیدا ہونے کا خطرہ ہو، لڑائی ہونے کا خطرہ ہو تو پھر وہ بزرگانہ طور پر اس سے بچتے ہوئے ایک طرف ہو جاتے ہیں اور فرمایا کہ’’اور ادنیٰ ادنیٰ بات پر لڑنا شروع نہیں کر دیتے۔ یعنی جب تک کوئی زیادہ تکلیف نہ پہنچے اس وقت تک ہنگامہ پردازی کو اچھا نہیں سمجھتے۔ اور صلح کاری کے محل شناسی کا یہی اصول ہے کہ ادنیٰ ادنیٰ باتوں کو خیال میں نہ لاویں اور معاف فرماویں۔ اور لغو کا لفظ جو اس آیت میں آیا ہے سو واضح ہو کہ عربی زبان میں لغو اس حرکت کو کہتے ہیں کہ مثلاً ایک شخص شرارت سے ایسی بکواس کرے یا بہ نیت ایذاء ایسا فعل اس سے صادر ہو کہ دراصل اس سے کچھ ایسا حرج اور نقصان نہیں پہنچتا۔‘‘ منہ سے فضول باتیں کر رہا ہے، بکواس کر رہا ہے یا نقصان پہنچانے کی نیت ہو جس سے زیادہ کوئی حرج بھی نہ ہوتا ہو ’’سوصلح کاری کی یہ علامت ہے کہ ایسی بیہودہ ایذا سے چشم پوشی فرماویں۔‘‘اگر کوئی ہلکا سا چھوٹا موٹا نقصان بھی پہنچانے کی کوشش کرتا ہے تو اس کو صَرفِ نظر کرو۔ چھوڑ دو اسے ’’اور بزرگانہ سیرت عمل میں لاویں۔‘‘ آپؑ فرماتے ہیں ’’اور پھر فرمایا کہ جو شخص شرارت سے کچھ یاوہ گوئی کرے تو تم نیک طریق سے صلح کاری کا اس کو جواب دو تب اس خصلت سے دشمن بھی دوست ہو جائے گا۔‘‘ (ماخوذ از اسلامی اصول کی فلاسفی، روحانی خزائن جلد 10صفحہ 348-349)
پھر ایک جگہ آپؑ فرماتے ہیں کہ ’’اس جماعت کو تیار کرنے میں غرض یہی ہے کہ زبان، کان، آنکھ اور ہر ایک عضو میں تقویٰ سرایت کر جاوے۔ تقویٰ کا نور اس کے اندر اور باہر ہو۔ اخلاق حسنہ کا اعلیٰ نمونہ ہو۔ اور بے جا غصہ اور غضب وغیرہ بالکل نہ ہوں۔‘‘ آپؑ فرماتے ہیں کہ’’مَیں نے دیکھا ہے کہ جماعت کے اکثر لوگوں میں غصہ کا نقص اب تک موجود ہے۔ تھوڑی تھوڑی سی بات پر کینہ اور بغض پیدا ہو جاتا ہے اور آپس میں لڑ جھگڑ پڑتے ہیں۔ ایسے لوگوں کا جماعت میں سے کچھ حصہ نہیں ہوتا اور میں نہیں سمجھ سکتا کہ اس میں کیا دقّت پیش آتی ہے کہ اگر کوئی گالی دے اور دوسرا چُپ رہے اور اس کا جواب نہ دے۔ ہر ایک جماعت کی اصلاح اوّل اخلاق سے شروع ہوا کرتی ہے۔ چاہئے کہ ابتداء میں صبر سے تربیت میں ترقی کرے‘‘۔ فرمایا کہ’’سب سے عمدہ ترکیب یہ ہے کہ اگر کوئی بدگوئی کرے تو اس کے لئے درد دل سے دعا کرے کہ اللہ تعالیٰ اس کی اصلاح کر دیوے اور دل میں کینے کو ہرگز نہ بڑھاوے۔‘‘ آپؑ فرماتے ہیں کہ ’’جیسے دنیا کے قانون ہیں ویسے خدا کا بھی قانون ہے۔ جب دنیا اپنے قانون کو نہیں چھوڑتی تو خدا تعالیٰ اپنے قانون کو کیسے چھوڑے۔ پس جب تک تبدیلی نہ ہو گی تب تک تمہاری قدر اس کے نزدیک کچھ نہیں۔‘‘ فرمایا ’’خدا تعالیٰ ہرگز پسندنہیں کرتا کہ حلم اور صبر اور عفو جو کہ عمدہ صفات ہیں ان کی جگہ درندگی ہو۔ اگر تم ان صفات حسنہ میں کوئی ترقی کرو گے تو بہت جلد خدا تک پہنچ جاؤ گے۔‘‘(ملفوظات جلد 7صفحہ 127-128۔ ایڈیشن 1984ء)