مسلمانوں کو اپنی نمائندہ آواز مقرر کرنے کے لیے ٹھوس کوشش کرنا ہو گی
مظلومینِ فلسطین کے لیے دعاؤں کی تحریک
(۲۴؍ نومبر ۲۰۲۳ء، اسلام آباد، ٹلفورڈ) امیرالمومنین حضرت مرزا مسرور احمد خلیفۃ المسیح الخامس ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے اپنے خطبہ جمعہ فرمودہ ۲۴؍نومبر۲۰۲۳ء میں فلسطینیوں کے لیے دعاؤں کی تحریک فرمائی۔ حضورِ انور نے فرمایا: فلسطینیوں کے لیے بھی دعائیں کرتے رہیں۔ اللہ تعالیٰ انہیں اس ظلم سے نجات دے جو ان پر ہو رہا ہے۔ کہتے ہیں کہ اب چند دن کے لیے جنگ بندی ہے تاکہ ضروریاتِ زندگی کی مدد پہنچ سکے۔ لیکن اس کے بعد پھر کیا ہو گا؟ ان کو مدد پہنچا کے پھر ماریں گے؟ اسرائیل کی حکومت کے ارادے تو خطرناک لگتے ہیں کیونکہ ان کی حکومت کے ایک خاص مشیر نے کل پرسوں یہ اعلان کیا ہے کہ اگر اس جنگ بندی کے بعد پھر فوری جنگ نہ شروع کی گئی تو مَیں حکومت سے نکل جاؤں گا۔ تو اس قسم کی تو ان کی سوچیں ہیں۔
حضورِ انور نے بڑی طاقتوں کی طرف سے انصاف کے فقدان اور اس کے خطرناک نتائج کی طرف توجہ دلاتے ہوئے فرمایا کہ بڑی طاقتیں بظاہر ہمدردی کی باتیں تو کرتی ہیں لیکن انصاف نہیں کرنا چاہتیں۔ اور اس معاملے میں سنجیدہ ہی نہیں ہیں۔ ان کو یہ علم نہیں، سمجھتے ہیں کہ (یہ جنگ) وہیں تک محدود رہے گی لیکن ان کے جو عقل مند ہیں وہ کہنے بھی لگ گئے ہیں کہ یہ جنگ صرف ان علاقوں میں محدود نہیں رہے گی بلکہ باہر بھی پھیلے گی اور ان کے ملکوں تک بھی پہنچ جائے گی۔
حضورِانور نے دنیائے اسلام کی ایک نمائندہ آواز مقرر کرنے کی اہمیت پر زور دیتے ہوئے فرمایا: مسلمان حکومتیں اب کچھ بولنا شروع ہوئی ہیں جس طرح سنا ہے کہ سعودی بادشاہ نے بھی کہا ہے کہ مسلمانوں کی ایک آواز ہونی چاہیے تو ایک آواز بنانا پڑے گی۔ اس کے لیے ٹھوس کوشش کرنی پڑے گی۔ اگر یہ احساس پیدا ہوا ہے تو اللہ تعالیٰ ان کو اس احساس کو عملی جامہ پہنانے کی بھی توفیق عطا فرمائے۔
بہرحال دعاؤں کی طرف بہت توجہ دیں۔
اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ تمام احمدیوں کو اپنے امام کے اس ارشاد کی روشنی میں دعاؤں کا حق ادا کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور دنیا اپنے خالق کو پہچانتے ہوئے ممکنہ بڑی تباہی سے بچ جائے۔ آمین۔