اطاعتِ نظامِ جماعت اور ہماری ذمہ داریاں
’’اطاعت ِنظامِ جماعت اور ہماری ذمہ داریاں ‘‘کو بہتر رنگ میں سمجھنے کے لیے ہم اس موضوع کو مندرجہ ذیل چار حصوں میں تقسیم کرسکتے ہیں۔
۱۔ اطاعت کیا ہے؟
۲۔ نظامِ جماعت کیا ہے؟
۳۔ ہماری ذمہ داریاں کیا ہیں؟
۴۔ ثمرات
۱۔ اطاعت
اب اس بات کا جائزہ لیا جائے گا کہ اطاعت کے آداب کیا ہیں۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے: …وَقَالُوۡا سَمِعۡنَا وَاَطَعۡنَا ٭۫ غُفۡرَانَکَ رَبَّنَا وَاِلَیۡکَ الۡمَصِیۡرُ۔(سورۃ البقرہ، آیت ۲۸۶)ترجمہ: …اورانہوں نے کہا کہ ہم نے سنا اور ہم نے اطاعت کی۔ تیری بخشش کے طلبگار ہیں۔ اے ہمارے ربّ! اورتیری طرف ہی لوٹ کر جانا ہے۔
اطاعت کے بارےمیں رسول کریمﷺ کا ارشاد ہے: ’’حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ آنحضرتﷺ نے فرمایا: تنگدستی اورخوشحالی اورناخوشی، حق تلفی اورترجیحی سلوک، غرض ہرحالت میں تیرے لئے حاکم وقت کے حکم کو سننا اور اس کی اطاعت کرنا واجب ہے۔ ‘‘(صحیح مسلم کتاب الامارۃ)
اسی طرح مطاع اور مطیع کے بارہ میں حدیث نبویﷺ ہے۔’’حضرت انس بن مالکؓ سے روایت ہے کہ آنحضورﷺ نے فرمایا: سنو اور اطاعت کرو۔ خواہ تم پر ایسا حبشی غلام (حاکم بنادیا جائے) جس کا سرمنقّہ کی طرح (چھوٹا)ہو۔‘‘(صحیح بخاری، کتاب الاحکام، باب السمع و الطاعۃ للامام مالم تکن معصیۃ)
اولین زمانہ اسلام میں مومنین نے اطاعتِ رسولؐ کی عظیم مثالیں قائم کیں۔ اُنہوں نے ہمیشہ آپؐ سے وفا کاسلوک رکھا اوراپنے عہداحسن رنگ میں نبھائے۔ وہ عہد کیا تھے ؟ ملاحظہ فرمائیے: ’’حضرت عبادہ بن ولید اپنے دادا کی روایت اپنے والد کی زبانی بیان کرتے ہیں کہ ہم نے آنحضرتﷺ سے سننے اوربات ماننے کی بنیاد پر بیعت کی تھی۔ سختی اور راحت اورخوشی اور ناخوشی میں خواہ ہمارے حق کا خیال نہ رکھاجائے اوراس بنیادپر کہ ہم جھگڑا نہ کریں گے۔ اس شخص کی سرداری میں جو اس کے لائق ہے اورہم سچ بات کہیں گے جہاں ہوں گے۔ اللہ کی راہ میں ہم کسی ملامت کرنے والے کی ملامت سے نہیں ڈریں گے۔‘‘(صحیح مسلم کتاب الامارہ۔ باب و جب طاعۃ الامراء فی غیر معصیۃ و تحریمھافی المعصیۃ)
اس کی وضاحت حضر ت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے اس خطاب سے بھی ہوتی ہے: ’’…اب تم اپنی ذات کے بارہ میں نہ سوچوبلکہ جماعت کے بارہ میں سوچو۔ اوراپنے ذاتی حقوق خود خوشی سے چھوڑو اور جماعتی حقوق کی ادائیگی کی کوشش کرو۔ یہاں وہی مضمون ہے کہ اعلیٰ چیز کے لئے ادنیٰ چیز کو قربان کرو۔ پھر جو ہمارا عہدیداریا امیر مقررہوگیا اب اس کی اطاعت تمہارا فرض ہے۔ اس کی اطاعت کریں اوریہ سوال نہ اُٹھائیں کہ یہ کیوں بنایاگیا۔ بعض دفعہ یہ ہوتا ہے کہ برادریاں لعن طعن کرتی ہیں کہ ہمارے خاندان کے، اس کے ساتھ یہ یہ مسئلے تھے اور تم اس کی اطاعت کررہے ہو۔‘‘(الفضل۲۳؍دسمبر۲۰۰۳ء)
۲۔ نظامِ جماعت
نظامِ جماعت، درحقیقت وہ نظام ہے جو دربارِ رسالتﷺ سے وابستہ اور آپؐ کے عاشق صادق، غلام، حضرت مرزاغلام احمد قادیانی علیہ السلام نے سنتِ نبویﷺ کے عین مطابق قائم فرمایا اورخلافت کی برکت سے اس نظام کا سلسلہ، خلیفہ وقت کے ذریعہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور اُن کے ذریعہ خاتم النبیین حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم سے جاملتا ہے۔ اور یہ بات تو روزِ روشن کی طرح عیاں ہے اورہماری روحوں میں اُتری ہوئی ہے کہ حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی حیثیت سب انسانوں سے اعلیٰ وارفع اور آپ کامقام اللہ تعالیٰ کے انتہائی قرب میں ہے۔
خاتم النبیین حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے اللہ تعالیٰ سے ہر معاملہ میں براہ راست ہدایات پائیں۔ اس میں روحانی، معاشی، معاشرتی اورمدنی ہدایات بھی شامل ہیں۔ ان ہدایات کی روشنی میں، جوقرآن کریم میں ہمیشہ کے لیے درج کردی گئی ہیں، جو نظام سامنے آتا ہے وہ پھولوں کے ایک خوبصورت اور مہکتے ہوئے گلدستہ کی مانند ہے۔ الٰہی نظام ہونے کی وجہ سے اس نظام کا ہر ایک پہلو، دوسرے پہلو سے جڑا ہوا ہے۔
روحانی ترقی کے لیے بھی یہ ضروری ہے کہ معاشی، معاشرتی اور مدنی حقوق و فرائض سے کماحقہ عہدہ برآ ہوا جائے۔ اسی طرح معاشی، معاشرتی اورمدنی نظام کو کامیاب کرنے کے لیے بھی یہ ضروری قرار دیا گیا کہ اُن میں روحانیت کو پوری طرح مدِنظر رکھا جائے۔ یعنی یہ تمام کڑیاں آپس میں ملنے کے بعد ہی ایک بنیادی اسلامی ڈھانچہ قائم کرسکتی ہیں۔
اس انتہائی اہم موضوع کی اہمیت سمجھنے اور اس کی گہرائی میں جانے سے پہلے ضروری ہے کہ اس بات کو اچھی طرح ذہن نشین کرلیا جائے کہ رسول کریمﷺ کے احکامات کی تعمیل کرنا ہر مومن کا فرض ہے۔
قرآن کریم میں اکثر جگہ پر اللہ تعالیٰ اور اُس کے رسولؐ کی اطاعت کا واضح حکم دیا گیا ہے۔ مثلاً:قُلۡ اَطِیۡعُوا اللّٰہَ وَالرَّسُوۡلَ ۚ فَاِنۡ تَوَلَّوۡا فَاِنَّ اللّٰہَ لَا یُحِبُّ الۡکٰفِرِیۡنَ۔ (سورۃ اٰل عمران آیت ۳۳) ترجمہ: تُو کہہ دے اللہ کی اطاعت کرواوررسول کی۔ پس اگروہ پِھرجائیں تو یقیناً اللہ کافروں کو پسند نہیں کرتا۔نیز اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:مُطَاعٍ ثَمَّ اَمِیْنٍ۔(سورۃ التکویر، آیت ۲۲) ترجمہ: بہت واجب الاطاعت (جو) وہاں(یعنی صاحبِ عرش کے حضور) امین بھی ہے۔
اسی طرح اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: وَمَاۤ اَرۡسَلۡنَا مِنۡ رَّسُوۡلٍ اِلَّا لِیُطَاعَ بِاِذۡنِ اللّٰہِ ؕ وَلَوۡ اَنَّہُمۡ اِذۡ ظَّلَمُوۡۤا اَنۡفُسَہُمۡ جَآءُوۡکَ فَاسۡتَغۡفَرُوا اللّٰہَ وَاسۡتَغۡفَرَ لَہُمُ الرَّسُوۡلُ لَوَجَدُوا اللّٰہَ تَوَّابًا رَّحِیۡمًا(سورۃ النساء، آیت ۶۵) ترجمہ: اورہم نے کوئی رسُول نہیں بھیجامگر اس لیے کہ اللہ کے حکم سے اس کی اطاعت کی جائے۔ اوراگراس وقت جب انہوں نے اپنی جانوں پر ظلم کیا وہ تیرے پاس حاضر ہوتے اوراللہ سے بخشش طلب کرتے اوررسول بھی ان کے لیے بخشش مانگتا تو وہ ضروراللہ کو بہت توبہ قبول کرنے والا (اور) بارباررحم کرنے والا پاتے۔
اطاعت ِنظامِ جماعت کی پابندی کی بنیادی وجوہات
جس طرح رسول کریمﷺ کے احکامات کی تعمیل کرنا ہر مومن کا فرض ہے، اسی طرح آپؐ کے مقررکردہ جانشینوں کے احکامات کی تعمیل کرنا بھی ہر مومن کا فرض ہے۔ اس کی مثال ہمیں خلافت ِراشدہ کے دور میں نظر آتی ہے۔ جب ہر مسلمان، خلیفہ وقت کے سامنے اپنی گردن اُسی طرح جھکادیتاتھا جیسے وہ حضرت رسول کریمﷺ کے سامنے جھکاتا تھا۔
خلافت راشدہ کے بعدبوجوہ، مسلمان نظامِ خلافت سے محروم ہوگئے۔ لیکن چونکہ اسلام کی حقانیت نے پوری دُنیا پر غلبہ حاصل کرنا تھالہٰذا قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ نے اسلام کی نشأۃ ثانیہ کا مشروط وعدہ یوں فرمایا:وَعَدَ اللّٰہُ الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا مِنۡکُمۡ وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ لَیَسۡتَخۡلِفَنَّہُمۡ فِی الۡاَرۡضِ کَمَا اسۡتَخۡلَفَ الَّذِیۡنَ مِنۡ قَبۡلِہِمۡ ۪ وَلَیُمَکِّنَنَّ لَہُمۡ دِیۡنَہُمُ الَّذِی ارۡتَضٰی لَہُمۡ وَلَیُبَدِّلَنَّہُمۡ مِّنۡۢ بَعۡدِ خَوۡفِہِمۡ اَمۡنًا ؕ یَعۡبُدُوۡنَنِیۡ لَا یُشۡرِکُوۡنَ بِیۡ شَیۡئًا ؕ وَمَنۡ کَفَرَ بَعۡدَ ذٰلِکَ فَاُولٰٓئِکَ ہُمُ الۡفٰسِقُوۡنَ(سورۃ النور: آیت ۵۶) ترجمہ: تم میں سے جولوگ ایمان لائے اورنیک اعمال بجالائے اُن سے اللہ نے پختہ وعدہ کیا ہے کہ اُنہیں ضرور زمین میں خلیفہ بنائے گاجیسا کہ اُس نے اُن سے پہلے لوگوں کو خلیفہ بنایا اوراُن کے لیے اُن کے دین کو، جواُس نے اُن کے لیے پسند کیا، ضرورتمکنت عطا کرے گااوراُن کی خوف کی حالت کے بعد ضروراُنہیں امن کی حالت میں بدل دے گا۔ وہ میری عبادت کریں گے۔ میرے ساتھ کسی کو شریک نہیں ٹھہرائیں گے۔ اور جو اُس کے بعد بھی ناشکری کرے تو یہی وہ لوگ ہیں جو نافرمان ہیں۔
بلاشک و شبہ خلافت احمدیہ ہی مندرجہ بالا الٰہی وعدہ کی سچائی کا ثبوت ہے۔ لہٰذاخلافت کی اہمیت کو سمجھنا اوراس کی اطاعت کرنا بھی ہراحمدی کا فرض ہے۔
حضرت رسول کریمﷺ کو الٰہی منشا ء کے تحت اپنے غلام اور عاشق صادق کی آمد کی خبر تھی لہٰذا آپؐ نے چودہ سو سال پہلے ہی حضرت مسیح موعودعلیہ السلام کی اطاعت کو فرض قرار دیا۔’’حضرت ابن عمرؓ بیان کرتے ہیں کہ میں نے آنحضرتﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سُنا۔ جس نے اللہ تعالیٰ کی اطاعت سے اپنا ہاتھ کھینچاوہ اللہ تعالیٰ سے (قیامت کے دن) اس حالت میں ملے گا کہ نہ اُس کے پاس کوئی دلیل ہوگی نہ عذر۔ اورجو شخص اس حالت میں مرا کہ اس نے امام وقت کی بیعت نہیں کی تھی تو وہ جاہلیت اور گمراہی کی موت مرا۔‘‘(صحیح مسلم کتاب الامارۃ باب الامربلزوم الجماعتہ عندظہورالفتن)
حضرت مسیح موعود مرزاغلام احمد قادیانی علیہ السلام نے الٰہی حکم کے ماتحت خلافت حقہ اسلامیہ کے جاری رہنے کی پیشگوئی فرمائی۔ آپؑ نے فرمایا کہ’’…تمہارے لئے دوسری قدرت کابھی دیکھنا ضروری ہے اور اس کا آنا تمہارے لئے بہتر ہے کیونکہ وہ دائمی ہے جس کا سِلسلہ قیامت تک منقطع نہیں ہوگا۔… ‘‘(رسالہ الوصیت، روحانی خزائن جلد ۲۰صفحہ ۳۰۵)
نظامِ خلافت کی اہمیت حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے واضح کرتے ہوئے فرمایا:’’بے شک مَیں نبی نہیں ہوں۔ لیکن مَیں نبوت کے قدموں پر اور اس کی جگہ پر کھڑا ہوں۔ ہر وہ شخص جو میری اطاعت سے باہر ہوتا ہے، وہ یقیناً نبی کی اطاعت سے باہر ہوتا ہے۔ …میری اطاعت اور فرمانبرداری میں خداتعالیٰ کی اطاعت اورفرمانبرداری ہے۔‘‘(الفضل ۴؍ستمبر ۱۹۳۷ء)یہ وہ نظامِ خلافت ہے جس کو ہم نظامِ جماعت بھی کہتے ہیں۔ یعنی مومنوں کا ایک ایسا گروہ جو اللہ اور اُس کے رسولﷺ کی اطاعت میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام پر ایمان لایا اور اب اُن کے جانشینوں کو اللہ تعالیٰ کے مقرر کردہ سردار سمجھ کر اُن کی پوری طرح اطاعت کرتا ہے۔
اس عقیدہ (جس کو تفصیل سے دوسری بے شمار کتب و مضامین میں ثابت کیا جاچکا ہے) کہ خلافتِ احمدیہ ہی روئے زمین پر اللہ تعالیٰ کی نمائندگی کا افضل حق رکھتی ہے یہ سمجھنا مشکل نہیں کہ نظامِ جماعت، جس کے سربراہ خلیفۂ وقت ہیں، کی پابندی کس قدر ضروری ہے۔ یہ وہی نظام ہے جس کا مقابلہ دُنیا کی بڑی بڑی حکومتیں مل کربھی نہیں کرسکتیں۔
۳۔ ہماری ذمہ داریاں
بطور احمدی ہمارا سب سے پہلا فرض ہے کہ خلیفہ وقت سے براہِ راست رابطہ قائم رکھیں اوراس رابطہ کو اپنی نسلوں میں جاری کریں۔اس کا سب سے بہترین طریقہ یہ ہے کہ اُن تمام پروگراموں میں حتی المقدور کوشش کرکے شامل ہوں جن میں خلیفہ وقت موجود ہو۔ مثلاً خطبہ ونمازجمعہ، پنج وقتہ نماز، نمازعیدین، جلسے، اجتماعات اور کلاسز وغیرہ۔ الحمدللہ ایم ٹی اے انٹرنیشنل اور دیگر جماعتی ذرائع ابلاغ کی بدولت ہمیں یہ سہولت بھی حاصل ہوگئی ہے کہ وسائل کی کمی اورمجبوری کی بنا پر اگر ہم بذاتِ خود مندرجہ بالا پروگراموں میں شامل نہ ہوسکیں تو کم از کم اپنے گھر بیٹھے اُن کا نظارہ کرسکتے ہیں اور خلیفہ وقت کی تمام ہدایات واحکامات کو براہ راست سن کر، اُن پر بلاتاخیر عمل کرنے کی کوشش کرسکتے ہیں۔
ہمارا فرض ہونا چاہیے کہ پوری کوشش کرکے خلیفہٴ وقت سے ملیں اور اپنے دُکھ سُکھ بتائیں۔ رابطہ کا دوسرا سب سے اہم ذریعہ خط و کتابت ہے۔ خلیفہ وقت کو باقاعدگی سے خط لکھنا نہایت ضروری ہے۔ اس سے ہمارا تعلق خلافت سے مضبوط اور ہماری زندگیاں بابرکت ہوتی ہیں۔ کوشش کرنی چاہیے کہ ہر معاملہ میں یا کم از کم ہر اہم معاملہ میں، مثلاً تعلیم، شادی، عائلی مسائل اور کاروبار وغیرہ کے معاملات میں خلیفہ وقت سے مشورہ ضرور کیا جائے اور جو مشورہ بھی ملے اُس پر لازماً عمل بھی کیا جائے۔
خلافت احمدیہ کی برکت سے احمدی مسلمانوں کی ایک اپنی تہذیب اور ایک اپنا تمدن ہے۔ یہی تہذیب و تمدن ہے جو اسلام نے ہمیں بتایا ہے۔ اسی رہن سہن کی بدولت دُنیا کا کوئی مخالف، کوئی حکومت اور کوئی معاشرہ، جماعتِ احمدیہ کے کردار پر انگلی نہیں اُٹھا سکتا۔ اورہم ! صرف اور صرف خلافت اور نظامِ جماعت کی وجہ سے اس کردار کے حامل ہیں۔
آج کے بدلتے ہوئے عالمی سیاسی اورحربی حالات میں، دُنیا کئی حصوں میں بٹ چکی ہے۔ طاقتور میڈیا اور سائنسی ٹیکنالوجی کی بدولت صحیح کو غلط اور غلط کو صحیح قراردینا کوئی مشکل نہیں رہا۔ بے شمارنوجوانوں کو جہاد کی اصلی روح سے عاری کرکے اپنے ناپاک ارادوں کی تکمیل کے لیے زندہ بم بنادیا جاتا اور پھر اِنہی خودکش بمباروں کو ہیروکے طورپر پیش کیا جاتارہا ہے۔ ہم احمدیوں پر اللہ تعالیٰ کا یہ کتنا عظیم احسان ہے کہ نظامِ خلافت اور نظامِ جماعت کی بدولت، اُس نے ہمیں حقیقی روشنی دکھائی اور ہمارے لیے حق وباطل واضح کردیا۔
یہ ہماری ذمہ داری ہونی چاہیے کہ ہم ہر اُس معاملہ پر، جس پر خلیفہٴ وقت نے رائے یا فیصلہ دے دیا ہو اُس کی تائید کریں۔ اور قطعی طور پر یہ کوشش نہ کریں کہ اُس فیصلہ کو معذرت خواہانہ انداز میں پیش کریں۔ نظامِ جماعت جو بھی فیصلہ کرے اُس کی حمایت ڈنکے کی چوٹ پر کرنی چاہیے۔ اور اس بات کی قطعاً پروا نہیں ہونی چاہیے کہ اس کے نتیجہ میں غیرلوگ ہمیں کس نظر سے دیکھتے ہیں۔
اسی طرح شادی بیاہ، مرگ و پیدائش وغیرہ کے معاملات بھی ہیں اور یہ مواقع بڑے نازک ہوتے ہیں۔ شادی بیاہ پر اگر کسی کو اُس کی غلطی کی طرف توجہ دلائی جائے تو وہ ناراض ہوجاتا ہے کہ آپ سے ہماری خوشی نہیں دیکھی گئی۔ اسی طرح کسی کی وفات اُس کے عزیزوں کے لیے بڑے دُکھ کا مقام ہوتا ہے اس دکھ کی حالت میں، یا فوت شدہ کی محبت میں بعض غلطیاں ہوجاتی ہیں۔ مثلاًکچھ لوگ قبروں پر پھول چڑھاتے ہیں۔ نظامِ جماعت کی بدولت ایسے لوگوں کو بڑی آسانی سے سمجھایا جاسکتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کے فضل سے دُنیا کے ہرکونے پر بسنے والا احمدی بھی نظامِ جماعت کا احترام کرتا ہے اور نظامِ جماعت کی طرف سے کسی معاملہ کے بارہ میں توجہ دِلائی جائے تو اُس کی اصلاح کی پوری کوشش کرتا ہے۔
ہمیں اس بات کے لیے بھی ہمیشہ دُعا کرتے رہنا چاہیے کہ ہم نظام کو قائم رکھیں اور اُس سے وابستہ رہیں۔ اس سلسلہ میں حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے نصیحت کرتے ہوئے فرمایا: ’’جس طرح وہی شاخ پھل لاسکتی ہے جو درخت کے ساتھ ہو۔ وہ کٹی ہوئی شاخ پھل پیدا نہیں کرسکتی جو درخت سے جدا ہو۔ اسی طرح وہی شخص سلسلہ کامفید کام کرسکتا ہے۔ جو اپنے آپ کو امام سے وابستہ رکھتا ہے۔ اگر کوئی شخص امام کے ساتھ اپنے آپ کو وابستہ نہ رکھے۔ تو خواہ وہ دُنیا بھر کے علوم جانتا ہو۔ وہ اتنا بھی کام نہیں کرسکے گا، جتنا بکری کا بکروٹہ کام کرسکتا ہے۔ پس مَیں جماعت کو نصیحت کرتا ہوں کہ اُسے اپنی تنظیم کرنی چاہئے۔‘‘(خطبہ جمعہ فرمودہ یکم نومبر ۱۹۴۶ء بحوالہ الفضل ۲۰؍نومبر۱۹۴۶ء)
نظامِ خلافت کو فعال رکھنے اور اس کی ترقی کے لیے خلیفۂ وقت، اُن تمام ملکوں میں جہاں احمدی ہیں، اپنے نمائندگان کا تقرر کرتا ہے۔ یہ نمائندہ، امیر، صدر، مربی، صدرمجلس خدام الاحمدیہ، صدرمجلس انصار اللہ، صدرلجنہ اماء اللہ یا کوئی دوسرا عہدیدار ہوسکتا ہے۔ یہ عہدیدار، نظامِ جماعت کا حصہ ہیں اور اِن کے ذمہ بڑے ہی اہم امور ہوتے ہیں۔ چونکہ نظامِ جماعت، دُنیا کے ہر احمدی کے ساتھ براہِ راست خاص تعلق رکھتا ہے لہٰذا خلیفہ وقت کے مذکورہ نمائندے احمدیوں کی دینی و دُنیاوی بہتری اور فلاح وبہبوداور اپنی مدد کے لیے صوبوں، ضلعوں، شہروں، قصبوں اور دیہات میں، ذیلی نمائندے نامزد کردیتے ہیں۔ان تقرریو ں کے وقت عموماً مقامی احباب کی رائے اورمشورہ (جو وہ الیکشن کی صورت میں دیتے ہیں)کو بھی مدِنظر رکھاجاتا ہے۔
یہ تمام عہدیدار عمومی طورپر خلیفہ وقت اور احمدیوں کے درمیان ایک پُل کی حیثیت سے کام کرتے ہیں۔درحقیقت یہ لوگ خلیفہ وقت کے خادم ہونے کے ساتھ ساتھ عام احمدیوں کے بھی خادم ہوتے ہیں اور اُن کی ضروریات احسن رنگ میں پوری کرتے ہیں۔ ان نمائندگان کی اطاعت کرنا بھی اُسی طرح فرض ہے جس طرح خود خلیفہ وقت کی۔
اگر کسی وجہ سے ہم کسی بھی عہدیدارکے حکم یا فیصلہ سے متفق نہ ہوں تو ہمارے لیے ضروری ہے کہ ہم ایسی صورت میں بھی اپنے عہدیدارکے حکم پر عمل کریں تاہم ہمیں پورا اختیار ہے کہ مذکورہ عہدیدار سے سینئر عہدیدار یا حسبِ ضرورت مرکزی عہدیدار کے علم میں وہ بات لائیں۔ اس طرح ہم کسی بڑے سے بڑے عہدیدارکے فیصلہ سے متاثر ہونے کی صورت میں بھی دربارِ خلافت سے اپنا حق حاصل کرسکتے ہیں۔
بطور احمدی ہماری یہ ذمہ داری ہے کہ ہم سے جب بھی مشورہ مانگا جائے تو پوری ایمانداری سے صحیح مشورہ دیں۔ اور اگر وہ مشورہ قواعد کے مطابق مسترد کردیا جائے تو اس پر ناراضگی کا اظہار مت کریں اور جو بھی مشترکہ فیصلہ ہوجائے، چاہے وہ ہماری خواہش کے برعکس ہی کیوں نہ ہو، اس پر پوری ایمانداری سے عمل کریں اور اُس کو کامیاب کرنے کے لیے ایڑی چوٹی کا زورلگائیں۔
بعض دفعہ نظامِ جماعت کے تحت کیے گئے بعض امور کی ایک ایسے شخص کو سمجھ نہیں آسکتی جو اُن امور کے تمام پہلوؤں اور حالات کو نہ جانتا ہو۔ کئی سال پرانی بات ہے کہ ایک شخص نے یہ شکوہ کیا کہ جماعت میں بھی خواتین کے ساتھ برابری کا سلوک نہیں کیا جاتا۔ جب میں نے وضاحت چاہی تو اُنہوں نے کہا کہ ربوہ پاکستان سے چھپنے والے خواتین کے رسالہ مصباح کے ایڈیٹر اور مینیجر مرد ہیں۔ کیا کوئی عورت بھی اس کام کو کرنے کی اہل نہیں تھی؟ میں نے اُنہیں سمجھایا کہ آپ کو معلوم ہے کہ پاکستان میں جماعت کے لٹریچر پر کتنی پابندیاں ہیں؟ احمدی اخباروں اور رسالوں پر بلامبالغہ سینکڑوں کی تعداد میں کیس ہوچکے ہیں۔ اور پولیس اکثر معصوم ایڈیٹروں، مینیجروں اورکارکنان کو گرفتار کرکے جیل میں بندکردیتی ہے۔ ہمیں اُن اسیران پر فخر ہے اور وہ خود بھی اس اسیری پر فخر کرتے ہیں۔ لیکن اگر کسی ایسی جیل میں کسی احمدی خاتون ایڈیٹر یا مینیجر کو گرفتار کرکے لے جایا جائے تو کیا یہ ہماری غیرت کے لیے ایک بہت بڑا امتحان نہیں ہوگا؟ خصوصاً اس صورت میں کہ پاکستان میں کسی بھی عورت کے لیے سب سے غیرمحفوظ ترین جگہ پاکستانی تھانہ ہے۔ میری بات اُن کی سمجھ میں بہت اچھی طرح آگئی اور انہوں نے اپنی بات پر باقاعدہ شرمندگی کا اظہار کیا۔
اس بات سے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ بعض دفعہ کچھ چیزیں ہمارے علم میں نہیں ہوتیں یا اُن کے کچھ پہلو نظرانداز ہوجاتے ہیں، لہٰذا ہم بشری غلطی کی بنا پر اپنی رائے بڑی جلدی دے دیتے ہیں۔ ہماری یہ ذمہ داری ہونی چاہیے کہ اس سے پرہیز کریں۔
اطاعت کے ساتھ ساتھ یہ بھی ضروری ہے کہ مطاع کے بارےمیں ہمیشہ اچھی، پاکیزہ اور نیک بات کرنی چاہیے۔ قرآن کریم میں ارشاد ہے:طَاعَۃٌ وَّقَوۡلٌ مَّعۡرُوۡفٌ ۟ فَاِذَا عَزَمَ الۡاَمۡرُ ۟ فَلَوۡ صَدَقُوا اللّٰہَ لَکَانَ خَیۡرًا لَّہُمۡ۔(سورت محمد، آیت ۲۲) ترجمہ: اطاعت اورمعروف بات چاہے۔ پس اب جبکہ یہ امر مستحکم ہوچکا ہے اگر وہ اللہ کے ساتھ مخلص رہتے تو ضرور ان کے لئے بہتر ہوتا۔
اس آیت کے پہلے حصہ سے ایک سبق ہم یہ بھی سیکھ سکتے ہیں کہ اطاعت بھی بشاشت کے ساتھ، خوشی سے کرنی چاہیے۔ اور جو بھی حکم ہواس کو درست سمجھ کر، اُس کی تعمیل کرنی چاہیے۔ ایسا قول و فعل نہیں ہونا چاہیے کہ اگرچہ ہدایت درست نہیں ہے لیکن اس پر عمل کرنے پر مجبور ہوں۔
جیسا کہ پہلے ثابت کیا جاچکا ہے کہ بعض باتیں، لاعلمی کی بنا پر ہر شخص کی سمجھ میں نہیں آسکتیں، لہٰذا اگر کسی بات کی سمجھ نہ آئے تو بجائے اُس پر تنقید کرنے کے، خاموش رہنا بہتر ہے۔ کیونکہ ہماری تمام اطاعت اور فرمانبرداری محض خوشنودیٔ باری تعالیٰ کے لیے ہوتی ہے۔ چنانچہ اُسی کے حکم کے تحت ہمیں نظامِ خلافت، نظامِ جماعت، عہدیداران اور کارکنان کے بارہ میں نہایت اعلیٰ درجہ کا حسنِ ظن رکھنا چاہیے اور کبھی بھی، حتیٰ کہ مذاق میں بھی ایسی کوئی بات مُنہ سے نہیں نکالنی چاہیے جو مقامِ ادب کے خلاف ہو۔
اگر ہم معیاری اطاعت کا نمونہ دکھائیں گے تو اللہ تعالیٰ سے اُس کا عظیم اجر بھی پائیں گے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: تِلۡکَ حُدُوۡدُ اللّٰہِ ؕ وَمَنۡ یُّطِعِ اللّٰہَ وَرَسُوۡلَہٗ یُدۡخِلۡہُ جَنّٰتٍ تَجۡرِیۡ مِنۡ تَحۡتِہَا الۡاَنۡہٰرُ خٰلِدِیۡنَ فِیۡہَا ؕ وَذٰلِکَ الۡفَوۡزُ الۡعَظِیۡمُ۔(سورۃ النساء، آیت ۱۴)ترجمہ: یہ اللہ کی (قائم کردہ) حدود ہیں۔ اورجو اللہ کی اطاعت کرے اور اس کے رسول کی تو وہ اُسے ایسی جنتوں میں داخل کرے گا جن کے دامن میں نہریں بہتی ہوں گی وہ ان میں ایک لمبے عرصہ تک رہنے والے ہوں گے اور یہ بہت بڑی کامیابی ہے۔
یعنی جنتوں میں رہنا ایک بہت بڑی کامیابی ہے اور اُس کی کنجی اللہ تعالیٰ نے اطاعت بیان فرمائی ہے۔ یہ ہماری نہایت ہی خوش بختی اور خوشی قسمتی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ہمیں نظامِ خلافت اور نظامِ جماعت عطا فرما کر یہ کُنجی حاصل کرنے کا موقع مرحمت فرمایا ہے۔ بیشمار لوگ اس موقع کے انتظار میں دُنیا سے گزر گئے اور بے شمار لوگ اپنی بدقسمتی سے اس نظام کو سمجھ ہی نہ سکے۔ احمدیوں کے لیے یہ نظامِ خلافت اور نظامِ جماعت تو رضائے باری تعالیٰ حاصل کرنے اور اُس کے نتیجے میں حاصل ہونے والے پھل حاصل کرنے کا بہترین اور بیش قیمت موقع ہے۔
نظامِ جماعت ہمیں ہمیشہ قرآنِ کریم کے اس ارشاد کے بارے میں یاددہانی کرواتا رہتا ہے کہ یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡۤا اَطِیۡعُوا اللّٰہَ وَاَطِیۡعُوا الرَّسُوۡلَ وَاُولِی الۡاَمۡرِ مِنۡکُمۡ ۚ فَاِنۡ تَنَازَعۡتُمۡ فِیۡ شَیۡءٍ فَرُدُّوۡہُ اِلَی اللّٰہِ وَالرَّسُوۡلِ اِنۡ کُنۡتُمۡ تُؤۡمِنُوۡنَ بِاللّٰہِ وَالۡیَوۡمِ الۡاٰخِرِ ؕ ذٰلِکَ خَیۡرٌ وَّاَحۡسَنُ تَاۡوِیۡلًا۔(سورت النساء، آیت ۶۰)ترجمہ: اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو! اللہ کی اطاعت کرو اور رسول کی اطاعت کرو اوراپنے حکام کی بھی۔ اوراگر تم کسی معاملہ میں (اُولُوالامرسے) اختلاف کرو تو ایسے معاملے اللہ اوررسول کی طرف لَوٹا دیا کرواگر (فی الحقیقت) تم اللہ پر اوریومِ آخر پر ایمان لانے والے ہو۔ یہ بہت بہتر (طریق) ہے اورانجام کے لحاظ سے بہت اچھا ہے۔
اس آیت میں حکام کی اصطلاح میں ملکی اور شہری حُکام شامل ہیں، جو مسلمان بھی ہوسکتے ہیں اور غیر مسلم بھی۔ یعنی اگر ہم کسی ایسے ملک میں رہ رہے ہیں جہاں اسلامی طرزِ حکومت نہیں ہے تو ہمارا فرض ہے کہ اپنے ملکی حکام کی ہر بات پر عمل کریں اور تمام قوانین کی پابندی کریں۔ تاہم ایسے احکامات، جو قرآنی تعلیم کی خلاف ورزی پر مجبور کریں، اُن پر عمل کرنا فرض نہیں ہے۔ اور ایسی صورت میں ہجرت کرنا فرض ہوجاتا ہے۔ مثلاًً اگر کوئی حکومت کلمہ، نماز، روزہ جیسے بنیادی اراکین کی ادائیگی پر پابندگی لگادے تو مومن کا فرض ہے کہ ایسے ملک کی طرف ہجرت کرجائے، جہاں وہ آزادی سے ان اراکین کی بجاآوری کرسکے۔
جب ہم حکام کی تعریف کو مزید واضح کرتے ہیں تو یہ بات بھی مدِنظر رکھیں کہ حکام دُنیاوی بھی ہوسکتے ہیں اور دِینی بھی۔ مثلاًرسول اللہﷺ کے مقررکردہ سرداروں کی اطاعت کرنا بھی اُسی طرح فرض تھا (اور ہے) جس طرح خود رسول کریمﷺ کی اطاعت کرنا۔ اور مزید یہ کہ اُن سرداروں کے مقرر کردہ نمائندوں کی حیثیت بھی دراصل رسول کریمﷺ کے مقررکردہ براہِ راست نمائندہ جیسی ہی ہوگی اور اُس کی اطاعت بھی اُسی طرح فرض ہوگی۔
غیرازجماعت مسلمانوں کی حالت
اس کے مقابل، ہم اگر اس بات کا جائزہ لیں کہ نظامِ جماعت کی مخالفت کرنے والوں کا کیا حال ہے تو ایک احمدی کی نظامِ جماعت سے محبت میں مزیداضافہ ہوجاتاہے۔ وہ لوگ جو حضرت خلیفۃ المسیح الاوّل رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی خلافت کی اطاعت طوعاً و کرہاً کرتے رہے اور خلافتِ ثانیہ میں نظامِ جماعت سے کٹ گئے، وہ آج کہاں ہیں؟ کون سی ترقی ہے جو اُنہوں نے کی ہے؟ اِنہی جیسے لوگوں کے لیے قرآن کریم میں ارشاد ہواہے: وَیَقُوۡلُوۡنَ طَاعَۃٌ ۫ فَاِذَا بَرَزُوۡا مِنۡ عِنۡدِکَ بَیَّتَ طَآئِفَۃٌ مِّنۡہُمۡ غَیۡرَ الَّذِیۡ تَقُوۡلُ ؕ وَاللّٰہُ یَکۡتُبُ مَا یُبَیِّتُوۡنَ ۚ فَاَعۡرِضۡ عَنۡہُمۡ وَتَوَکَّلۡ عَلَی اللّٰہِ ؕ وَکَفٰی بِاللّٰہِ وَکِیۡلًا۔(سورۃ النّسآء آیت ۸۲)ترجمہ: اور وہ (محض منہ سے) ’’اطاعت‘‘ کہتے ہیں! پھر جب وہ تجھ سے الگ ہوتے ہیں تو اُن میں سے ایک گروہ ایسی باتیں کرتے ہوئے رات گذارتا ہے جو اُس سے مختلف ہیں جوتُو کہتا ہے۔ اوراللہ ان کی رات کی باتوں کو احاطۂ تحریر میں لے آتا ہے۔ پس ان سے اِعراض کراوراللہ پر توکّل کر اوراللہ کارساز کے طورپر کافی ہے۔
لاہوری گروپ نے خلافت اولیٰ اور ثانیہ میں، نظامِ جماعت کے خلاف کونسا اقدام تھا جو نہیں اُٹھایا تھا؟ خلیفہ وقت کے سامنے اطاعت کا دَم بھرنے والے راتوں کو سازشیں کرتے تھے، لیکن آج وہ کہاں ہیں؟ اُن کے نام بھی اگر ڈھونڈنے ہوں تو نظامِ جماعت کے ریکارڈ میں ہی مِلیں گے۔…نشانِ عبرت…
مسلمانوں کے دوسرے فرقوں کے جن لوگوں نے احمدیہ نظامِ خلافت کے تحت آنے سے انکار کیا ہے، اُن کا حال بھی سب کے سامنے ہے۔ دربارِ خلافت نے فرمادیاکہ جہاد کے نام پر جنگیں نہ کرو ! شکست کھائو گے۔ …ان جنگوں کا کیا نتیجہ نکلا؟ پے در پے شکست …
نظامِ خلافت کا انکار کرنے والوں کی اخلاقی حالت بھی سب کے سامنے ہے۔ ان کے اکثر رقص و موسیقی کے پروگرام، تلاوت، حمد اور نعت سے شروع ہوتے ہیں۔ پراگندہ ذہن، کوئی راہنمانہیں، کسی گروپ نے کہہ دیا تو معصوم لوگوں کو بم سے اُڑادیا، کسی جاہل مُلّا نے کہہ دیا تو مسجد کو مقتل بنادیا،کبھی جنت کے لالچ میں، تدفین کرنے والوں کو دفن کردیا۔ یہ سب کیوں ہے؟ صرف اور صرف نظامِ خلافت کی ڈھال سے باہر ہونے کی وجہ سے۔ اللہ کے فضل سے دُنیا بھر کے احمدی، کسی بھی مسئلہ کے بارہ میں صرف اور صرف نظامِ جماعت کے فتویٰ پر عمل کرتے ہیں اور یہ فتویٰ ہمیشہ خلافت احمدیہ کی راہنمائی میں جاری ہوتا ہے۔ جو کہ قرآنی احکامات کے مطابق قائم ہے۔
لیکن جو لوگ خود کو اسلامی نظام سے بالا سمجھتے ہیں ان لوگوں کا انجام بھی اللہ تعالیٰ نے ہمیں بتادیا ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:وَمَنۡ یَّعۡصِ اللّٰہَ وَرَسُوۡلَہٗ وَیَتَعَدَّ حُدُوۡدَہٗ یُدۡخِلۡہُ نَارًا خَالِدًا فِیۡہَا ۪ وَلَہٗ عَذَابٌ مُّہِیۡنٌ۔(سورۃ النساء، آیت ۱۵)ترجمہ: اورجو اللہ اوراس کے رسول کی نافرمانی کرے اوراس کی حدود سے تجاوز کرے تو وہ اسے ایک آگ میں ڈالے گا جس میں وہ ایک لمبے عرصہ تک رہنے والا ہوگا اور اس کے لئےرُسواکردینے والا عذاب (مقدر) ہے۔
۴۔ ثمرات
اطاعت کرنے کے نتیجے میں اللہ تعالیٰ بےشمار انعام واکرام سے نوازتا ہے۔ ان میں سے بعض اسی دُنیا میں مل جاتے ہیں اور بعض دوسری دُنیا میں۔ جبکہ بعض ہردوزندگیوں میں۔ اس کی ایک مثال ہمیں حضرت ابوبکرصدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی شخصیت میں ملتی ہے۔ آپؓ نے یہ علم پاتے ہی کہ رسول کریمﷺ کو نبوت عطا ہوئی ہے، بغیر کوئی سوال کیے، بغیر کوئی بحث کیے، بغیر کسی حیل وحجت کے، دربارِ رسالت میں اپنا سرتسلیم خم کردیا اور تمام زندگی رسول کریمﷺ کے ہر ارشاد کی تعمیل میں سبقت حاصل کی۔ اس کے نتیجے میں ہم دیکھتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے آپؓ کو اُسی دربارِ رسالت میں رسول کریمﷺ کا جانشیں مقررکردیا اور پوری عرب قوم آپ کے سامنے سرنگوں ہوگئی۔
اُنہی کے نقش قدم پر چلتے ہوئے حضرت حکیم مولوی نورالدین رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے، حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے دہن مبارک سے نکلے ہوئے ایک فقرہ کے عوض اپنا آبائی گھر ہمیشہ کے لیے بھلا دیا اور اطاعت کی ایک عظیم مثال قائم کردی۔ اُس کا نتیجہ یہ نکلا کہ تاقیامت اُن کا نام زندہ ہوگیا۔ نظامِ خلافت اور نظامِ جماعت جو ان شاء اللہ قیامت تک قائم رہے گا، کا جب بھی ذکر ہوگا تو اُس ذکر کا آغاز حضرت حکیم مولوی نورالدین رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے ہوگا۔
اللہ تعالیٰ نے اطاعت کرنے والوں کے لیے کیا ہی عظیم اجر رکھا ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:وَمَنۡ یُّطِعِ اللّٰہَ وَالرَّسُوۡلَ فَاُولٰٓئِکَ مَعَ الَّذِیۡنَ اَنۡعَمَ اللّٰہُ عَلَیۡہِمۡ مِّنَ النَّبِیّٖنَ وَالصِّدِّیۡقِیۡنَ وَالشُّہَدَآءِ وَالصّٰلِحِیۡنَ ۚ وَحَسُنَ اُولٰٓئِکَ رَفِیۡقًا (سورۃ النساء آیت نمبر۷۰)ترجمہ: اورجوبھی اللہ کی اوراِس رسول کی اطاعت کرے تویہی وہ لوگ ہیں جواُن لوگوں کے ساتھ ہوں گے جن پر اللہ نے انعام کیا ہے (یعنی) نبیوں میں سے، صدیقوں میں سے، شہیدوں میں سے اورصالحین میں سے۔ اوریہ بہت ہی اچھے ساتھی ہیں۔
حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے اطاعت کے وسیع مضمون کو نہایت اعلیٰ انداز سے اور جامع الفاظ میں یوں بیان فرمایا: ’’…جیسا کہ میں نے کہاکہ بہت زیادہ محبت ہو تو اس وجہ سے ٹھوکر لگتی ہے۔ بعض دفعہ اس طرح ہوتا ہے کہ بچہ کو سزا ملی ہے تو اس سے محبت کی وجہ سے مغلوب ہوجاتے ہیں۔ بچہ کی محبت غالب آجاتی ہے اور نظامِ جماعت کے خلاف ماں باپ اُٹھ کھڑے ہوتے ہیں، بہن بھائی ایک دوسرے کی محبت غالب آنے کی وجہ سے نظام کے فیصلوں پر اعتراض کرنے لگ جاتے ہیں۔ اس طرح بعض دوسرے رشتے بھی ہیں۔ تو بہرحال محبت اورغضب کی وجہ سے یعنی ان دونوں میں شدّت کی وجہ سے یہ برائیاں عموماً پیداہوتی ہیں۔
پس ہر احمدی کو یہ بھی ہر وقت ذہن میں رکھنا چاہئے کہ جب بھی ایسے معاملات ہوں، اونچ نیچ ہوجاتی ہے، نظامِ جماعت سے بھی غلطیاں ہوسکتی ہیں، قضاء سے بھی غلطیاں ہوسکتی ہیں، لیکن ہمیشہ ٹھنڈے دِل سے، ان فیصلوں کو تسلیم کرنا چاہئے۔ اگر کوئی اپیل کا حق ہے تو ٹھیک، نہیں تو جو فیصلہ ہواہے اس کو ماننا چاہئے۔ کوئی رشتہ، کوئی تعلق، نظامِ جماعت اورنظامِ خلافت اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور اللہ تعالیٰ کی محبت پر غالب نہیں آنا چاہئے۔ نہیں تو یہ عہد کہ، ہم دین کودنیاپر مقدم رکھیں گے، یہ دعوے کھوکھلے ہیں۔ پس اگر اس دعوے کو سچا ثابت کرنا ہے تو ہر تعلق کو خالصتاً للہ بنانا ہے۔ اپنی عبادتوں کے بھی حق اداکرنے ہیں۔ ایک دوسرے کے حقوق بھی ادا کرنے ہیں اور نظام کا بھی احترام کرنا ہے۔ تو پھر ان دعائوں کے وارث بنیں گے جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے اپنے ماننے والوں کے لئے کیں اوراُن توقعات پر پورا اتریں گے جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے اپنے ماننے والوں سے رکھی ہیں۔ ‘‘(خطبہ جمعہ فرمودہ ۲؍ستمبر ۲۰۰۵ءبمقام بیت الرشید، ہمبرگ، جرمنی مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل ۲۳؍ستمبر ۲۰۰۵ء)
اللہ تعالیٰ کے حضور دُعا ہے کہ وہ ہمیں ہمیشہ اللہ تعالیٰ، اُس کے رسول حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم، حضرت مسیح موعود علیہ السلام، خلافتِ احمدیہ اور نظامِ جماعت کی فرمانبرداری کی توفیق دیتا رہے اور ہماری نسلوں کو خلافت احمدیہ کا سَچا، سُچا غلام اور عاشق بنائے۔آمین!