کیا اللہ تعالیٰ سب کچھ کرنے پر قادر ہے؟
غیراحمدی مفہوم اور دہریوں کے اعتراضات
قرآنِ کریم میں آیت إِنَّ اللّٰہَ عَلیٰ کُلِّ شَیْءٍ قَدِیْرٌ (یقیناً اللہ ہر چیز پر قادر ہے) متعدد مرتبہ آئی ہےجس کا ترجمہ عام طور پر یہ کیا جاتا ہے کہ اللہ ہر چیز پر قادر ہے یعنی وہ سب کچھ کرسکتا ہے۔ اس مفہوم کو لے کر جہاں دہریہ لوگ یہ سوال کرتے ہیں کہ کیا خدا جھوٹ بول سکتا ہے یا پھر یہ کہ کیا وہ کوئی ایسی چٹان بنا سکتا ہے جسے وہ خود بھی نہ اٹھاسکے، وہاں غیراحمدی حضرات اس سے استدلال کرتے ہوئے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے جسمانی رفع کے متعلق کہتے ہیں کہ چونکہ اللہ ہر چیز پر قادر ہے اس لیے وہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو زندہ جسم سمیت آسمان پر اٹھا سکتا ہے۔اُن کے ذہنوں میں خدا کے قادر مطلق ہونے کا تصور یہ ہے کہ اس کے ہاں نہ کوئی قاعدہ ہے نہ قانون۔نہ کوئی اصول ہے نہ ضابطہ۔ گویا وہ ایک ایسا مطلق العنان حاکم ہے جو اپنے ہی بنائے ہوئے قوانین کی بالکل بھی پروا نہیں کرتا اور جب چاہے ان کی خلاف ورزی کرتا رہتا ہے۔لیکن حیرت کی بات ہے کہ اللہ تعالیٰ کو ہر چیز پر قادر ماننے والے یہ بات تسلیم کرنے کے لیےہرگز تیار نہیں کہ اللہ تعالیٰ اب کسی انسان کو نبی بنا کر بھیج سکتا ہے یا کم از کم اس پر وحی نازل کرسکتا ہے۔گویا اللہ تعالیٰ کی قدرت کا اختیار بھی نعوذ باللہ ان لوگوں کے ہاتھ میں ہے کہ جو قدرت یہ چاہیں اسے دے دیں اور جو نہ چاہیں وہ اُس سے چھین لیں۔جیسے میر تقی میر نے لکھاکہ
ناحق ہم مجبوروں پہ یہ تہمت ہے مختاری کی
چاہتے ہیں سو آپ کریں ہیں ہم کو عبث بدنام کیا
گویا ان کا خدا تو نعوذباللہ بس نام کا ہی عَلیٰ کُلِّ شَیْءٍ قَدِیْرٌ ہے۔ وہ کرتا صرف وہی ہے جو یہ اس سے کروانا چاہتے ہیں۔
لفظ شئ کا اصل مطلب
اب ہم اس آیت إِنَّ اللّٰہَ عَلیٰ کُلِّ شَیْئءٍ قَدِیْرٌ کو سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں۔اس آیت میں لفظ شَیْئ کا ترجمہ عام طور پر ’’چیز‘‘ کیا جاتا ہے جو درست نہیں ہے۔ امام راغبؒ اس لفظ کے متعلق لکھتے ہیں کہ ’’یہ اصل میں شَاءَکا مصدر ہے اور جب اللہ تعالیٰ کے متعلق شے کا لفظ استعمال ہو تو یہ بمعنی شَاءٍ یعنی اسم فاعل کے ہوتا ہے‘‘۔
سیّدنا حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ اس لفظ شَیْئٌکی تفسیر میں فرماتے ہیں:شَیْئٌ:۔ شَاءَکا مصدر ہے عربی میں مصدر کبھی بمعنی اسم مفعول بھی استعمال ہوتا ہے اور شَیْئ کا لفظ انہی معنوں میں ہے اور اس کے معنے ہیں چاہی ہوئی بات نیز اس کے معنی ہیں مَایَصِحُّ اَنْ یُعْلَمَ وَیُخْبَرَعَنْہُ۔ وہ امر یا بات جس کے متعلق خبر دی جا سکے (اقرب) شَیْئ کا ترجمہ امر۔ بات وغیرہ کیا جاتا ہے۔ مگر شَیْئ کے مکمل معنے ہیں وہ چیز جسے کوئی فاعل چاہے یا جس کا وہ ارادہ کرے۔ ان معنوں کو واضح کرنے کے لیے خطوط میں بعض الفاظ بڑھا دیے گئے ہیں۔ جب تک ان معنوں کو مدنظر نہ رکھا جائے ناواقفوں کو دھوکا لگ جاتا ہے حتی کہ بعض لوگ کہہ دیتے ہیں کیا خدا چوری پر قادر ہے مرنے پر قادر ہے حالانکہ خدا تعالیٰ چوری اور مرنے کو پسند نہیں کرتا اور نہیں چاہتا کیونکہ یہ امور اس کی ذات کے لیے نقص ہیں خوبیاں نہیں۔(تفسیر کبیر جلد اول صفحہ۱۹۹)
دہریوں کے مذکورہ بالا اعتراضات کے متعلق حضورؓ فرماتے ہیں:اِنَّ اللّٰہَ عَلیٰ کُلِ شَیْءٍ قَدِیْر پر بعض لوگ یہ اعتراض کرتے ہیں کہ کیا خدا تعالیٰ مرنے پر بھی قادر ہے یا کیا خدا تعالیٰ جھوٹ بولنے پر بھی قادر ہے یہ اعتراض بالکل بےسوچے سمجھے کیا گیا ہے کیونکہ قدیر کا لفظ تو قدرت اور طاقت کے کمال پر دلالت کرتا ہے پھر کیا مرنا اور جھوٹ بولنا قدرت اور طاقت کی علامتیں ہیں کہ اس آیت سے یہ نتیجہ نکالا جائے کہ خدا تعالیٰ مرنے پر اور جھوٹ بولنے پر بھی قادر ہے یہ تو ایسا ہی اعتراض ہے جیسے کوئی کہے کہ فلاں شخص بڑا بہادر ہے تو دوسرا اعتراض کرے کہ کیا وہ ایسا بہادر ہے کہ چور سے ڈر کر بھاگ بھی سکتا ہے؟ ایسے معترض کو کونسا شخص عقلمندوں میں شمار کرے گا دوسرے یہ بھی یاد رہے کہ اللہ تعالیٰ نے ایسے معترضین کو خاموش کرنے کے لیے عَلیٰ کُلِّ شَیْءٍ کے الفاظ استعمال کیے ہیں اور شَیْئ کے معنی چاہی ہوئی چیز کے ہوتے ہیں پس اس آیت کے معنی یہ ہیں کہ ہر اس چیز پر قادر ہے جس کا وہ ارادہ کر لے ان الفاظ سے وہ اعتراض کلی طو رپر باطل ہو جاتا ہے کیونکہ خدا تعالیٰ موت اور جھوٹ کا ارادہ نہیں کرتا کیونکہ یہ قدرت نہیں بلکہ ضعف اور کمزوری کی علامت ہے۔ (تفسیر کبیر جلد اول صفحہ۲۰۲)
جن آیات میں یہ جملہ اِنَّ اللّٰہَ عَلیٰ کُلِ شَیْءٍ قَدِیْرآیا ہے ان پر غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ یہاں لفظ شَیْء کسی چاہی ہوئی بات کے معنوں میں استعمال ہوا ہے۔
يَكَادُ الْبَرْقُ يَخْطَفُ اَبْصَارَهُمْؕ كُلَّمَآ اَضَآءَ لَهُمْ مَّشَوْا فِيْهِۙ وَاِذَآ اَظْلَمَ عَلَيْهِمْ قَامُوْاؕ وَلَوْ شَآءَ اللّٰهُ لَذَهَبَ بِسَمْعِهِمْ وَاَبْصَارِهِمْؕ اِنَّ اللّٰهَ عَلٰى كُلِّ شَىْءٍ قَدِيْرٌ(البقرۃ:۲۱)قریب ہے کہ بجلی ان کی بینائی اچک لے۔ جب کبھی وہ اُن (کو راہ دکھانے) کے لیے چمکتی ہے وہ اس میں (کچھ) چلتے ہیں۔ اور جب وہ ان پر اندھیرا کر دیتی ہے تو ٹھہر جاتے ہیں۔ اور اگر اللہ چاہے تو ان کی شنوائی بھی لے جائے اور ان کی بینائی بھی۔ یقیناً اللہ ہر چیز پر جسے وہ چاہے دائمی قدرت رکھتا ہے۔
لِلّٰهِ مَا فِىْ السَّمٰوٰتِ وَمَا فِىْ الْاَرْضِؕ وَاِنْ تُبْدُوْا مَا فِىْۤ اَنْفُسِكُمْ اَوْ تُخْفُوْهُ يُحَاسِبْكُمْ بِهِ اللّٰهُؕ فَيَغْفِرُ لِمَنْ يَّشَآءُ وَيُعَذِّبُ مَنْ يَّشَآءُؕ وَاللّٰهُ عَلٰى كُلِّ شَىْءٍ قَدِيْرٌ (البقرۃ:۲۸۵)اللہ ہی کا ہے جو آسمانوں میں ہے اور جو زمین میں ہے۔ اور خواہ تم اُسے ظاہر کرو جو تمہارے دلوں میں ہے یا اسے چھپاؤ، اللہ اس کے بارہ میں تمہارا محاسبہ کرے گا۔ پس جسے وہ چاہے گا بخش دے گا اور جسے چاہے گا عذاب دے گا۔ اور اللہ ہر چیز پر جسے وہ چاہے دائمی قدرت رکھتا ہے۔
قُلِ اللّٰہُمَّ مٰلِکَ الۡمُلۡکِ تُؤۡتِی الۡمُلۡکَ مَنۡ تَشَآءُ وَتَنۡزِعُ الۡمُلۡکَ مِمَّنۡ تَشَآءُ ۫ وَتُعِزُّ مَنۡ تَشَآءُ وَتُذِلُّ مَنۡ تَشَآءُ ؕ بِیَدِکَ الۡخَیۡرُ ؕ اِنَّکَ عَلٰی کُلِّ شَیۡءٍ قَدِیۡرٌ (آل عمران:۲۷)تُو کہہ دے اے میرے اللہ! سلطنت کے مالک! تُو جسے چاہے فرمانروائی عطا کرتا ہے اور جس سے چاہے فرمانروائی چھین لیتا ہے۔ اور تُو جسے چاہے عزت بخشتا ہے اور جسے چاہے ذلیل کر دیتا ہے۔ خیر تیرے ہی ہاتھ میں ہے۔ یقیناً تُو ہر چیز پر جسے تُو چاہے دائمی قدرت رکھتا ہے۔
لَـقَدْ كَفَرَ الَّذِيْنَ قَالُوْۤا اِنَّ اللّٰهَ هُوَ الْمَسِيْحُ ابْنُ مَرْيَمَؕ قُلْ فَمَنْ يَّمْلِكُ مِنَ اللّٰهِ شَيْـًٔـا اِنْ اَرَادَ اَنْ يُّهْلِكَ الْمَسِيْحَ ابْنَ مَرْيَمَ وَاُمَّهٗ وَمَنْ فِىْ الْاَرْضِ جَمِيْعًاؕ وَلِلّٰهِ مُلْكُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ وَمَا بَيْنَهُمَاؕ يَخْلُقُ مَا يَشَآءُؕ وَاللّٰهُ عَلٰى كُلِّ شَىْءٍ قَدِيْرٌ (المائدۃ:۱۸)یقیناً ان لوگوں نے کفر کیا جنہوں نے کہا کہ یقیناً اللہ ہی مسیح ابنِ مریم ہے۔ تُو کہہ دے کہ کون ہے جو اللہ کے مقابل پر کچھ بھی اختیار رکھتا ہے، اگر وہ فیصلہ کرے کہ مسیح ابنِ مریم کو اور اس کی ماں کو اور جو کچھ زمین میں ہے سب کو نابود کرے۔ اور آسمانوں اور زمین کی بادشاہت اللہ ہی کی ہے اور اُس کی بھی جو اُن دونوں کے درمیان ہے۔ وہ جو چاہے پیدا کرتا ہے اور اللہ ہر چیز پر جسے وہ چاہے دائمی قدرت رکھتا ہے۔
شَاءَ اور اَرَادَ
اللہ تعالیٰ کے چاہنے کو شَاءَ کے علاوہ لفظ اَرَادَ کے ساتھ بھی بیان کیا گیا ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ جس بات کا ارادہ کرتا ہے وہی کرتا ہے۔ یعنی اللہ تعالیٰ کا ہر فعل اس کے ارادہ کے ساتھ وابستہ ہے۔ وہ نہ تو غیرارادی طور پر کوئی کام کرتا ہے نہ کسی مجبوری کے تحت۔اور وہ ایسا کوئی کام نہیں کرتا جس کا وہ ارادہ نہ کرے۔
تِلۡکَ الرُّسُلُ فَضَّلۡنَا بَعۡضَہُمۡ عَلٰی بَعۡضٍ ۘ مِنۡہُمۡ مَّنۡ کَلَّمَ اللّٰہُ وَرَفَعَ بَعۡضَہُمۡ دَرَجٰتٍ ؕ وَاٰتَیۡنَا عِیۡسَی ابۡنَ مَرۡیَمَ الۡبَیِّنٰتِ وَاَیَّدۡنٰہُ بِرُوۡحِ الۡقُدُسِ ؕ وَلَوۡ شَآءَ اللّٰہُ مَا اقۡتَتَلَ الَّذِیۡنَ مِنۡۢ بَعۡدِھِمۡ مِّنۡۢ بَعۡدِ مَا جَآءَتۡہُمُ الۡبَیِّنٰتُ وَلٰکِنِ اخۡتَلَفُوۡا فَمِنۡہُمۡ مَّنۡ اٰمَنَ وَمِنۡہُمۡ مَّنۡ کَفَرَ ؕ وَلَوۡ شَآءَ اللّٰہُ مَا اقۡتَتَلُوۡا ۟ وَلٰکِنَّ اللّٰہَ یَفۡعَلُ مَا یُرِیۡدُ (البقرۃ:۲۵۴)یہ وہ رسول ہیں جِن میں سے بعض کو ہم نے بعض (دوسروں) پر فضیلت دی۔ بعض ان میں سے وہ ہیں جن سے اللہ نے (رُوبرو) کلام کیا۔ اور ان میں سے بعض کو (بعض دوسروں سے) درجات میں بلند کیا۔ اور ہم نے عیسیٰ ابن مریم کو کھلی کھلی نشانیاں دیں اور روح القدس سے اس کی تائید کی۔ اور اگر اللہ چاہتا تو وہ لوگ جو اُن کے بعد آئے آپس میں قتل و غارت نہ کرتے، بعد اِس کے کہ ان کے پاس کھلی کھلی نشانیاں آچکی تھیں۔ لیکن انہوں نے (باہم) اختلاف کیے۔ پس اُن ہی میں سے تھے جو ایمان لائے اور وہ بھی تھے جنہوں نے کفر کیا۔ اور اگر اللہ چاہتا تو وہ باہم قتل و غارت نہ کرتے۔ لیکن اللہ جو چاہتا ہے وہی کرتا ہے۔
یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡۤا اَوۡفُوۡا بِالۡعُقُوۡدِ ۬ؕ اُحِلَّتۡ لَکُمۡ بَہِیۡمَۃُ الۡاَنۡعَامِ اِلَّا مَا یُتۡلٰی عَلَیۡکُمۡ غَیۡرَ مُحِلِّی الصَّیۡدِ وَاَنۡتُمۡ حُرُمٌ ؕ اِنَّ اللّٰہَ یَحۡکُمُ مَا یُرِیۡدُ (المائدۃ:۲)اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو! عہدوں کو پورا کرو۔ تمہارے لیے مویشی چوپائے حلال قرار دیئے گئے سوائے اس کے جو تم پر پڑھا جاتا ہے۔ مگر شکار کو حلال قرار دینے والے نہ ہو جانا جبکہ تم اِحرام کی حالت میں ہو۔ یقیناً اللہ وہی فیصلہ کرتا ہے جو وہ چاہتا ہے۔
خٰلِدِیۡنَ فِیۡہَا مَا دَامَتِ السَّمٰوٰتُ وَالۡاَرۡضُ اِلَّا مَا شَآءَ رَبُّکَ ؕ اِنَّ رَبَّکَ فَعَّالٌ لِّمَا یُرِیۡدُ (ھود:۱۰۸)وہ اس میں رہنے والے ہیں جب تک کہ آسمان اور زمین باقی ہیں سوائے اس کے جو تیرا ربّ چاہے۔ یقیناً تیرا ربّ جس چیز کا ارادہ کرے اسے ضرور کرکے رہتا ہے۔
اِنَّ اللّٰہَ یُدۡخِلُ الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ جَنّٰتٍ تَجۡرِیۡ مِنۡ تَحۡتِہَا الۡاَنۡہٰرُ ؕ اِنَّ اللّٰہَ یَفۡعَلُ مَا یُرِیۡدُ(الحج:۱۵) یقیناً اللہ اُنہیں جو ایمان لائے اور نیک اعمال بجا لائے ایسی جنتوں میں داخل کرے گا جن کے دامن میں نہریں بہتی ہیں۔ یقیناً اللہ جو چاہتا ہے کرتا ہے۔
فَعَّالٌ لِّمَا یُرِیۡدُ(البروج:۱۷)جو چاہتا ہے اُسے ضرور کرکے رہتا ہے۔
اور یہ بھی واضح کردیا گیا کہ کوئی بھی ایسا نہیں جو اسے اس کے ارادہ کے مطابق کرنے سے روکنے کا اختیار رکھتا ہو۔
…قُلۡ فَمَنۡ یَّمۡلِکُ لَکُمۡ مِّنَ اللّٰہِ شَیۡئًا اِنۡ اَرَادَ بِکُمۡ ضَرًّا اَوۡ اَرَادَ بِکُمۡ نَفۡعًا…(الفتح:۱۲)تُو کہہ دے کہ کون ہے جو اللہ کے مقابل پر کچھ بھی تمہارے حق میں اختیار رکھتا ہو، اگر وہ تمہیں تکلیف پہنچانے کا ارادہ یا فائدہ پہنچانے کا ارادہ کرے۔
مندرجہ ذیل دو آیات میں اللہ تعالیٰ نے کسی چیز کے متعلق اپنے ارادہ کو اس طرح بیان فرمایا ہے:
اِنَّمَا قَوۡلُنَا لِشَیۡءٍ اِذَاۤ اَرَدۡنٰہُ اَنۡ نَّقُوۡلَ لَہٗ کُنۡ فَیَکُوۡنُ (النحل:۴۱)کسی چیز کے لیے ہمارا محض یہ قول ہوتا ہے جب ہم اس کا ارادہ کرتے ہیں کہ ہم اُسے کہتے ہیں کہ’’ہو جا‘‘ تو وہ ہونے لگتی ہے اور ہو کر رہتی ہے۔
اِنَّمَاۤ اَمۡرُہٗۤ اِذَاۤ اَرَادَ شَیۡئًا اَنۡ یَّقُوۡلَ لَہٗ کُنۡ فَیَکُوۡنُ (یٰس:۸۳)اُس کا صرف یہ حکم کافی ہے جب وہ کسی چیز کا ارادہ کرے کہ وہ اُسے کہتا ہے ’’ہوجا‘‘، پس وہ ہونے لگتی ہے اور ہو کر رہتی ہے۔
ایک اَور اہم پہلو
اس بات کا ایک اَور اہم پہلو یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے پہلے سے صادر کیے ہوئے فیصلوں کے خلاف کوئی کام نہیں کرتا۔وہ عالم الغیب حکیم و خبیر خدا ہے۔ لہٰذا وہ ایسا کوئی قانون نہیں بناتا جسے بعد میں منسوخ کرنا پڑے۔ چنانچہ مندرجہ ذیل آیات میں بیان کیا گیا ہے کہ اگر اللہ تعالیٰ کی طرف سے پہلے سے ایک قانون جاری نہ کیا گیا ہوتا تو اللہ تعالیٰ یوں کردیتا۔
وَمَا كَانَ النَّاسُ اِلَّاۤ اُمَّةً وَّاحِدَةً فَاخْتَلَفُوْاؕ وَلَوْلَا كَلِمَةٌ سَبَقَتْ مِنْ رَّبِّكَ لَـقُضِىَ بَيْنَهُمْ فِيْمَا فِيْهِ يَخْتَلِفُوْنَ (یونس:۲۰)اور تمام انسان نہیں تھے مگر ایک ہی امت۔ پھر انہوں نے اختلاف شروع کر دیا۔ اور اگر تیرے ربّ کی طرف سے (قضاءو قدر کا) فرمان صادر نہ ہو چکا ہوتا تو اُن کے درمیان اس کا فیصلہ نپٹا دیا جاتا جس میں وہ اختلاف کیا کرتے تھے۔
وَلَقَدْ اٰتَيْنَا مُوْسَى الْكِتٰبَ فَاخْتُلِفَ فِيْهِؕ وَ لَوْلَا كَلِمَةٌ سَبَقَتْ مِنْ رَّبِّكَ لَقُضِىَ بَيْنَهُمْؕ وَاِنَّهُمْ لَفِىْ شَكٍّ مِّنْهُ مُرِيْبٍ(ھود:۱۱۱) اور ہم نے یقیناً موسیٰ کو بھی کتاب دی تھی تو اس میں بھی اختلاف کیا گیا۔ اور اگر تیرے ربّ کی طرف سے پہلے ہی ایک فرمان گزر نہ چکا ہوتا تو ضرور ان کے درمیان فیصلہ چکا دیا جاتا۔ اور وہ یقیناً اس کے متعلق ایک بے چین کرنے والے شک میں مبتلا ہیں۔
وَلَوْلَا كَلِمَةٌ سَبَقَتْ مِنْ رَّبِّكَ لَــكَانَ لِزَامًا وَّاَجَلٌ مُّسَمًّى (طٰہٰ:۱۳۰)اور اگر تیرے ربّ کی طرف سے ایک قول اور ایک مقررہ میعاد طے نہ ہوچکے ہوتے تو وہ ایک چمٹ رہنے والا (عذاب) بن جاتا۔
وَلَقَدْ سَبَقَتْ كَلِمَتُنَا لِعِبَادِنَا الْمُرْسَلِيْنَ ۖۚاِنَّهُمْ لَهُمُ الْمَنْصُوْرُوْنَ (الصافات:۱۷۲-۱۷۳) اور بلاشبہ ہمارے بھیجے ہوئے بندوں کے حق میں ہمارا (یہ) فرمان گزر چکا ہے۔(کہ) یقیناً وہی ہیں جنہیں نصرت عطا کی جائے گی۔ اور یقیناً ہمارا لشکر ہی ضرور غالب آنے والا ہے۔
وَمَا تَفَرَّقُوۡۤا اِلَّا مِنۡۢ بَعۡدِ مَا جَآءَھُمُ الۡعِلۡمُ بَغۡیًۢا بَیۡنَہُمۡ ؕ وَلَوۡلَا کَلِمَۃٌ سَبَقَتۡ مِنۡ رَّبِّکَ اِلٰۤی اَجَلٍ مُّسَمًّی لَّقُضِیَ بَیۡنَہُمۡ ؕ وَاِنَّ الَّذِیۡنَ اُوۡرِثُوا الۡکِتٰبَ مِنۡۢ بَعۡدِھِمۡ لَفِیۡ شَکٍّ مِّنۡہُ مُرِیۡبٍ (الشوریٰ:۱۵)اور اُنہوں نے تفرقہ نہیں کیا مگر ایک دوسرے کے خلاف بغاوت کرتے ہوئے بعد اِس کے کہ اُن کے پاس علم آ چکا تھا اور اگر تیرے ربّ کا یہ فرمان معین مدت تک کے لیے جاری نہ ہو چکا ہوتا تو ضرور اُن کے درمیان فیصلہ چکا دیا جاتا اور یقیناً وہ لوگ جنہیں اُن کے بعد کتاب کا وارث بنایا گیا اس کے متعلق ایک بے چین کردینے والے شک میں پڑے ہوئے ہیں۔
وَلَوْلَاۤ اَنْ كَتَبَ اللّٰهُ عَلَيْهِمُ الْجَـلَاۤءَ لَعَذَّبَهُمْ فِىْ الدُّنْيَاؕ وَلَهُمْ فِىْ الْاٰخِرَةِ عَذَابُ النَّارِ(الحشر:۴)اور اگر اللہ نے اُن کےلیے جلاوطنی مقدّر نہ کر رکھی ہوتی تو انہیں اسی دنیا میں عذاب دیتا جبکہ آخرت میں اُن کےلیے (بہرحال) آگ کا عذاب (مقدر) ہے۔
وَيَسْتَعْجِلُوْنَكَ بِالْعَذَابِؕ وَلَوْلَاۤ اَجَلٌ مُّسَمًّى لَّجَآءَهُمُ الْعَذَابُ وَلَيَاْتِيَنَّهُمْ بَغْتَةً وَّهُمْ لَا يَشْعُرُوْنَ (العنکبوت:۵۴)اور وہ تجھ سے جلد عذاب لانے کا مطالبہ کرتے ہیں۔ اور اگر معیّن مدت مقرر نہ ہوتی تو ضرور ان کے پاس عذاب آجاتا اور وہ ان کے پاس یقیناً (اس طرح) اچانک آئے گا کہ وہ (اس کا) کوئی شعور نہ کرسکیں گے۔
خود پر عائد فرض
قرآن مجید سے ہمیں یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے خود اپنے نفس پر کچھ باتیں فرض کررکھی ہیں جیسا کہ فرمایا:قُلۡ لِّمَنۡ مَّا فِی السَّمٰوٰتِ وَالۡاَرۡضِ ؕ قُلۡ لِّلّٰہِ ؕ کَتَبَ عَلٰی نَفۡسِہِ الرَّحۡمَۃَ ؕ لَیَجۡمَعَنَّکُمۡ اِلٰی یَوۡمِ الۡقِیٰمَۃِ لَا رَیۡبَ فِیۡہِ ؕ اَلَّذِیۡنَ خَسِرُوۡۤا اَنۡفُسَہُمۡ فَہُمۡ لَا یُؤۡمِنُوۡنَ(الانعام:۱۳)پوچھ کہ کس کا ہے جو آسمانوں اور زمین میں ہے؟ کہہ دے کہ اللہ ہی کا ہے۔ اس نے اپنے اوپر رحمت فرض کر رکھی ہے۔ وہ ضرور تمہیں قیامت کے دن تک اکٹھا کرتا چلا جائے گا جس میں کوئی شک نہیں۔ وہ لوگ جنہوں نے اپنے آپ کو گھاٹے میں ڈالا پس وہ تو ایمان نہیں لائیں گے۔
وَاِذَا جَآءَکَ الَّذِیۡنَ یُؤۡمِنُوۡنَ بِاٰیٰتِنَا فَقُلۡ سَلٰمٌ عَلَیۡکُمۡ کَتَبَ رَبُّکُمۡ عَلٰی نَفۡسِہِ الرَّحۡمَۃَ ۙ اَنَّہٗ مَنۡ عَمِلَ مِنۡکُمۡ سُوۡٓءًۢا بِجَہَالَۃٍ ثُمَّ تَابَ مِنۡۢ بَعۡدِہٖ وَاَصۡلَحَ فَاَنَّہٗ غَفُوۡرٌ رَّحِیۡمٌ(الانعام:۵۵)اور جب تیرے پاس وہ لوگ آئیں جو ہماری آیات پر ایمان لاتے ہیں تو (ان سے) کہا کر تم پر سلام ہو۔ (تمہارے لیے) تمہارے ربّ نے اپنے اوپر رحمت فرض کردی ہے۔ (یعنی) یہ کہ تم میں سے جو کوئی جہالت سے بدی کا ارتکاب کرے پھر اس کے بعد توبہ کرلے اور اصلاح کرلے تو (یاد رکھے کہ) وہ (یعنی اللہ) یقیناً بہت بخشنے والا (اور) بار بار رحم کرنے والا ہے۔
صاف ظاہر ہے کہ جس بات کو اللہ نے خود اپنے اوپر فرض کردیا ہے اس کی وہ خلاف ورزی ہرگز نہیں کرے گا ورنہ اس کا اعتبار جاتا رہے گا۔
یہی بات ایک حدیث میں بیان کی گئی ہے:قَالَ جَابِرَ بْنَ عَبْدِ اللَّهِ،لَقِيَنِي رَسُولُ اللّٰهِ ﷺ فَقَالَ لِي ’’ يَا جَابِرُ مَا لِي أَرَاكَ مُنْكَسِرًا ‘‘ . قُلْتُ يَا رَسُولَ اللّٰهِ اسْتُشْهِدَ أَبِي قُتِلَ يَوْمَ أُحُدٍ وَتَرَكَ عِيَالًا وَدَيْنًا قَالَ ’’ أَفَلاَ أُبَشِّرُكَ بِمَا لَقِيَ اللّٰهُ بِهِ أَبَاكِ‘‘ ۔قَالَ قُلْتُ بَلَى يَا رَسُولَ اللّٰهِ۔ قَالَ ’’ مَا كَلَّمَ اللّٰهُ أَحَدًا قَطُّ إِلَّا مِنْ وَرَاءِ حِجَابٍ وَأَحْيَا أَبَاكَ فَكَلَّمَهُ كِفَاحًا فَقَالَ يَا عَبْدِي تَمَنَّ عَلَىَّ أُعْطِكَ ۔ قَالَ يَا رَبِّ تُحْيِيْنِي فَأُقْتَلَ فِيْكَ ثَانِيةً ۔ قَالَ الرَّبُّ عَزَّ وَجَلَّ إِنَّهُ قَدْ سَبَقَ مِنِّي أَنَّهُمْ إِلَيْهَا لَا يُرْجَعُوْنَ ‘‘ جابر بن عبداللہ ؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ مجھے ملے اور فرمایا کہ اے جابر! تم بجھے بجھے کیوں نظر آرہے ہو۔ میں نے کہا یارسول اللہ ﷺ میرے باپ جنگ احد میں شہید ہوگئے اور بہت سی اولاد اور قرض چھوڑ گئے ہیں۔ آپؐ نے فرمایا میں تمہیں بشارت دیتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ نے کسی سے بھی پردے کے پیچھے کے سوا کلام نہیں کیا اور تیرے باپ کو زندہ کیا اور آمنے سامنے کلام کرتے ہوئے کہا کہ اے بندے !مجھ سے کسی چیز کی آرزو کر تو میں تمہیں عطا کروں گا۔ اس نے کہا کہ اے رب! مجھے زندہ کر اور پھر میں دوسری مرتبہ تیری راہ میں قتل کیا جاؤں۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ میری طرف سے یہ بات جاری ہوچکی ہے کہ مرنے والے دوبارہ واپس نہیں کیے جائیں گے۔(جامع ترمذی۔کتاب التفسیر باب تفسیرسورۃ آل عمران)
حاصل کلام
اس حدیث سے بھی یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے قانون کی خلاف ورزی نہیں کرتا اور پیشکش کےباوجود اپنے بندہ کی اس بات کو ردّ کردیا جو قوانین الٰہی سے متضاد و مخالف تھی۔ اگرچہ امام ترمذی ؒ نے اس حدیث کو روایت و سند کے اعتبار سے حسن غریب کے درجہ میں رکھا ہے لیکن درایت کے اعتبار سے قرآن مجید کے عین مطابق ہونے کے باعث یہ حدیث بالکل صحیح اور درست معلوم ہوتی ہے۔ واللہ اعلم بالصواب!اس سے یہ بات بھی واضح ہوجاتی ہے کہ غیراحمدی علماء کا آیت اِنَّ اللّٰہَ عَلیٰ کُلِّ شَیْءٍ قَدِیْر کا مفہوم نہ صرف قرآن و حدیث کے خلاف ہے بلکہ دہریوں کے اعتراضات کا بھی موجب بنتا ہے جن کے وہ خود بھی جواب نہیں دے سکتے۔