متفرق مضامین

مستقل طور پر تو سرزمین فلسطین عِبَادِیَ الصّٰلِحُوۡنَ کے ہاتھوں میں رہنی ہے (قسط دوم۔ آخری)

وَلَقَدۡ کَتَبۡنَا فِی الزَّبُوۡرِ مِنۡۢ بَعۡدِ الذِّکۡرِ اَنَّ الۡاَرۡضَ یَرِثُھَا عِبَادِیَ الصّٰلِحُوۡنَ ۔ اِنَّ فِیۡ ہٰذَا لَبَلٰغًا لِّقَوۡمٍ عٰبِدِیۡنَ۔ وَمَاۤ اَرۡسَلۡنٰکَ اِلَّا رَحۡمَۃً لِّلۡعٰلَمِیۡنَ (الانبیاء:تا۱۰۶۔۱۰۸)اور ہم نے زبور میں کچھ نصیحتیں کرنے کے بعد یہ لکھ چھوڑا ہے کہ ارضِ (مقدس) کے وارث میرے نیک بندے ہوں گے۔

حلّ لُغَات

بَلَاغٌ۔بَلَاغٌ کے معنے ہیں اَلْاِنْتِھَاءُ اِلی اَقْصَی الْمَقْصَدِ وَالْمُنْتَھٰی اپنے مقصد اور مدعا کی انتہائی حد تک پہنچنا۔ نیز اس کے معنے ہیں اَلتَّبْلِیْغُ پہنچانا ، اسی طرح اس کے معنے اَلْکِفَایَۃُ کے بھی ہیں یعنی کافی ہونا۔ (مفردات)

تفسیر

فرماتا ہے ہم نے زبور میں کچھ شرائط بیان کرنے کے بعد یہ بات لکھ چھوڑی ہے کہ ارضِ مقدس کے وارث ہمارے نیک بندے ہوں گے۔اس میں عبادت گذار بندوں کے لیے ایک پیغام ہے اور ہم نے تجھ کوساری دنیا کی طرف رحمت بنا کر بھیجا ہے۔ مطلب یہ ہے کہ بائبل میں جو یہ پیشگوئی تھی کہ صرف خدا کے نیک بندے ارضِ مقدس میں رہیں گے، اس سے کوئی اس وقت دھوکا نہ کھائے جبکہ بنی اسرائیل اس ملک پر غالب آ جائیں گے۔ کیونکہ اس پیشگوئی میں اس طرف بھی اشارہ تھا کہ اگر کوئی وقفہ پڑا تو پھر خدا کے بندے اس ملک پر غالب آ جائیں گے اس لیے فرماتا ہے کہ عبادت گذار بندوں کے لیے اس میں ایک پیغام ہے یعنی مسلمانوں کو تُو ہوشیار کر دے کہ ایک وقت ایسا آئے گا کہ پھر بنی اسرائیل اس پر قابض ہو جائیں گے۔ اس لیے یہاں عابدین کا لفظ داؤدؑ کی پیشگوئی کی طرف اشارہ کرنے کے لیے استعمال کیا اور بتایا کہ میرے بندوں کو کہہ دے کہ ہوشیار ہو جاؤ۔ اگر کسی وقت تم نے میرے عباد بننے میں کمزوری دکھائی تو پھر الله تعالیٰ یہودیوں کو اس ملک میں واپس لے آئے گا لیکن مسلمانوں کو چاہیے کہ پھر عبادت گذار بن جائیں۔ اس کے نتیجہ میں وہ پھر غالب آ جائیں گے اور ان کو یہ بھی یاد رکھنا چاہیے کہ رسول کریمﷺ سب زمانوں کے لیے رحمت ہیں اور رسول کریمؐ کا زمانہ اس وقت ختم نہیں ہو جاتا جب بنی اسرائیل فلسطین پر قابض ہوں بلکہ اس کے بعد بھی وہ زمانہ ہے جس کے لیے رسول اللهﷺ رحمت ہیں۔ پس مایوس نہیں ہونا چاہیے، جب دوبارہ رحمتِ الٰہی جوش میں آجائے گی مسلمان دوبارہ فلسطین میں غالب آ جائیں گے۔

اس آیت میں زبور کی جس پیشگوئی کی طرف اشارہ کیا گیا ہے اس کا ذکر زبور باب۳۷ میں آتا ہے اس میں لکھا ہے۔’’ تُو بد کرداروں کے سبب سے بیزار نہ ہو اور بدی کرنے والوں پر رشک نہ کر کیونکہ وہ گھاس کی طرح جلد کاٹ ڈالے جائیں گے اور سبزہ کی طرح مُرجھا جائیں گے۔ خداوند پر توکّل کر اور نیکی کر ملک میں آباد رہ اور اس کی وفاداری سے پرورش پا خداوند میں مسرور رہ۔ اور وہ تیرے دل کی مرادیں پوری کرے گا۔ اپنی راہ خداوند پر چھوڑ دے اور اس پر توکّل کر وہی سب کچھ کرے گا۔ وہ تیری راست بازی کو نور کی طرح اور تیرے حق کو دوپہر کی طرح روشن کرے گا۔ خداوند میں مطمئن رہ اور صبر سے اس کی آس رکھ اس آدمی کے سبب سے جو اپنی راہ میں کامیاب ہوتا اور بُرے منصوبوں کو انجام دیتا ہے بیزار نہ ہو۔ قہر سے باز آ اور غضب کو چھوڑ دے، بیزار نہ ہو۔ اس سے بُرائی ہی نکلتی ہے کیونکہ بدکردار کاٹ ڈالے جائیں گے۔ لیکن جن کو خداوند کی آس ہے ملک کے وارث ہوں گے۔ کیونکہ تھوڑی دیر میں شریر نابود ہو جائے گا تُو اس کی جگہ کو غور سے دیکھے گا۔ پر وہ نہ ہو گا لیکن حلیم ملک کے وارث ہوں گے اور سلامتی کی فراوانی سے شادمان رہیں گے۔‘‘ (زبور۔ باب۳۷، آیت۱تا۱۱)

اسی طرح زبور باب ۳۷، آیت ۲۹ میں لکھا ہے۔ ’’صادق زمین کے وارث ہوں گے اور اس میں ہمیشہ بسے رہیں گے۔‘‘

مگر یہ یاد رکھنا چاہیے کہ یہ وعدہ ارضِ مقدس کے متعلق بنی اسرائیل سے کیا گیا تھا۔ یہ کوئی غیرمشروط وعدہ نہیں تھا بلکہ اس کے ساتھ نیکی اور تقویٰ اور صلاحیت کی شرط لگائی گئی تھی اور انہیں کھلے طور پر بتا دیا گیا تھا کہ اگر تم نے شرارتوں پر کمر باندھ لی اور بدکرداریوں کو اپنا شیوہ بنا لیا تو یہ ملک تم سے چھین لیا جائے گا۔ چنانچہ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے انہیں انتباہ کرتے ہوئے فرمایا کہ اگر تم میں سرکشی پیدا ہو گئی تو’’جیسے تمہارے ساتھ بھلائی کرنے اور تم کو بڑھانے سے خداوند خوشنود ہوا،ایسے ہی تم کو فنا کرانے اور ہلاک کر ڈالنے سے خداوند خوشنود ہوگا ۔اور تم اس ملک سے اُکھاڑ دیئے جاؤ گے۔ جہاں تُو اس پر قبضہ کرنے کو جا رہا ہے۔ اور خداوند تجھ کو زمین کے ایک سرے سے دوسرے سرے تک تمام قوموں میں پراگندہ کرے گا۔ وہاں تُو لکڑی اور پتھر کے اور معبودوں کی جن کو تُو یا تیرے باپ دادے جانتے بھی نہیں پرستش کرے گا۔ ‘‘(استثناء۔ باب۲۸: آیت۶۴،۶۳)

مگر اس کے ساتھ ہی الله تعالیٰ نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کو یہ بھی خبر دے دی کہ اس عذاب کے بعد بنی اسرائیل نے اپنے اندر تبدیلی پیدا کی تو ان پر پھر رحم کیا جائے گا۔ چنانچہ فرمایا: ’’خداوند تیرا خدا تیری اسیری کو پلٹ کر تجھ پر رحم کرے گا اور پھر کر تجھ کو سب قوموں میں سے جن میں خداوند تیرے خدا نے تجھ کو پراگندہ کیا ہو جمع کرے گا، اگر تیرے آوارہ گروہ دنیا کے انتہائی حصوں میں بھی ہوں تو وہاں سے بھی خداوند تیرا خدا تجھ کو جمع کر کے لے آئے گا۔‘‘ (استثناء۔ باب۳۰: آیت۴،۳)

گویا حضرت موسیٰ علیہ السلام کے ذریعہ بنی اسرائیل کو یہ خبر دی گئی تھی کہ جب تمہاری شرارتیں بڑھ گئیں تو یہ ملک تم سے چھین لیا جائے گا۔ مگر اس کے کچھ عرصہ بعد الله تعالیٰ تم پر رحم کرے گا اور یہ زمین پھر تمہارے سپرد کر دی جائے گی۔ مگر اس کے بعد پھر دوبارہ ایک تباہی کی خبر دی گئی اور بتایا گیا کہ یہود پھر سرکش ہو جائیں گے اور پھر ان پر عذابِ الٰہی نازل ہو گا اور وہ اس ملک سے نکال دیے جائیں گے۔ چنانچہ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے اس کی بھی پیشگوئی کی۔ اور فرمایا کہ’’انہوں نے اجنبی معبودوں کے باعث غیرت اور مکروہات سے اسے غصہ دلایا… خداوند نے یہ دیکھ کر ان سے نفرت کی کیونکہ اس کے بیٹوں اور بیٹیوں نے اسے غصہ دلایا (اس جگہ تمام یہودی مردوں اور عورتوں کو خدا تعالیٰ کے بیٹے اور بیٹیاں قرار دیا گیا ہے)تب اس نے کہا۔ مَیں اپنا منہ ان سے چھپا لوں گا۔ اور دیکھوں گا کہ ان کا انجام کیسا ہو گا کیونکہ وہ گردن کش نسل اور بے وفا اولاد ہیں… مَیں ان پر آفتوں کا ڈھیر لگاؤں گا اور اپنے تیروں کو ان پر ختم کروں گا، وہ بھوک کے مارے گھل جائیں گے اور شدید حرارت اور سخت ہلاکت کا لقمہ بن جائیں گے اور مَیں ان پر درندوں کے دانت اور زمین پر کے سرکنے والے کیڑوں کا زہر چھوڑدوں گا باہر وہ تلوار سے مریں گے اور کوٹھڑیوں کے اندر خوف سے جواں مرد اور کنواریاں دودھ پیتے بچے اور پکے بال والے، سب یوں ہی ہلاک ہوں گے۔‘‘ (استثناء۔ باب۳۲: آیت۱۶تا ۲۵)

غرض حضرت موسیٰ علیہ السلام کے ذریعہ بنی اسرائیل کو دو تباہیوں کی خبر دی گئی تھی اور بتایا گیا تھا کہ اس ملک پر تمہارا قبضہ دائمی نہیں ہو گا بلکہ پہلے تمہارا قبضہ ہو گا اور پھر تم نکالے جاؤ گے۔پھر تمہارا قبضہ ہوگا اور پھر تم نکالے جاؤ گے۔ الله تعالیٰ کا یہ کلام کس شان اور عظمت سے پورا ہوا اس کی تفصیل سورۂ بنی اسرائیل کے مطالعہ سے معلوم ہو سکتی ہے الله تعالیٰ اس میں فرماتا ہے۔ وَقَضَیۡنَاۤ اِلٰی بَنِیۡۤ اِسۡرَآءِیۡلَ فِی الۡکِتٰبِ لَتُفۡسِدُنَّ فِی الۡاَرۡضِ مَرَّتَیۡنِ وَلَتَعۡلُنَّ عُلُوًّا کَبِیۡرًا ۔ فَاِذَا جَآءَ وَعۡدُ اُوۡلٰٮھُمَا بَعَثۡنَا عَلَیۡکُمۡ عِبَادًا لَّنَاۤ اُولِیۡ بَاۡسٍ شَدِیۡدٍ فَجَاسُوۡا خِلٰلَ الدِّیَارِ وَکَانَ وَعۡدًا مَّفۡعُوۡلًا۔ ثُمَّ رَدَدۡنَا لَکُمُ الۡکَرَّۃَ عَلَیۡھِمۡ وَاَمۡدَدۡنٰکُمۡ بِاَمۡوَالٍ وَّبَنِیۡنَ وَجَعَلۡنٰکُمۡ اَکۡثَرَ نَفِیۡرًا (بنی اسرائیل:۵تا۷) یعنی ہم نے تورات میں بنی اسرائیل کو یہ بات کھول کر پہنچا دی تھی کہ تم یقینًا اس ملک میں دو دفعہ فساد کرو گے۔ اور یقینًا تم بڑی سرکشی اختیار کرو گے چنانچہ جب ان دو دفعہ کے فسادات میں سے پہلی دفعہ کا وعدہ پورا ہونے کا وقت آیا تو ہم نے اپنے بعض بندوں کو تمہاری سرکوبی کے لیے تم پر کھڑا کر دیا۔ جو سخت جنگجو تھے اور وہ تمہارے گھروں کے اندر جا گھسے اور یہ وعدہ بہرحال پورا ہوکر رہنے والا تھا۔ پھر ہم نے تمہاری طرف دوبارہ دشمن پر حملہ کرنے کی طاقت کو لَوٹا دیا۔ اور ہم نے مالوں اور بیٹوں کے ذریعہ سے تمہاری مدد کی اور ہم نےتمہیں جتھے کے لحاظ سے پہلے سے بھی زیادہ مضبوط کر دیا۔

پھرفرماتاہے۔فَاِذَا جَآءَ وَعۡدُ الۡاٰخِرَۃِ لِیَسُوۡٓءٗا وُجُوۡھَکُمۡ وَلِیَدۡخُلُوا الۡمَسۡجِدَ کَمَا دَخَلُوۡہُ اَوَّلَ مَرَّۃٍ وَّلِیُتَبِّرُوۡا مَا عَلَوۡا تَتۡبِیۡرًا ۔ عَسٰی رَبُّکُمۡ اَنۡ یَّرۡحَمَکُمۡ وَاِنۡ عُدۡتُّمۡ عُدۡنَا م وَجَعَلۡنَا جَھَنَّمَ لِلۡکٰفِرِیۡنَ حَصِیۡرًا (بنی اسرائیل: ۹،۸) جب دوسری بار والا وعدہ پورا ہونے کا وقت آ گیا۔ تاکہ وہ دشمن منہ خوب کالے کریں۔ اور تمہارے معزز لوگوں سے ناپسندیدہ معاملہ کریں اور اسی طرح، مسجد میں داخل ہوں جس طرح وہ اس مسجد میں پہلی بار داخل ہوئے تھے اور جس چیز پر غلبہ پائیں اسے بالکل تباہ و برباد کر دیں تو ہم نے اپنی اس پیشگوئی کو بھی پورا کر دیا مگر اب بھی کچھ بعید نہیں کہ تمہارا ربّ تم پر رحم کر دے۔ لیکن اگر تم پھر اپنے اس رویہ کی طرف لَوٹے تو ہم بھی اپنے عذاب کی طرف لَوٹیں گے۔ اور یقینًا ہم نے جہنم کو کافروں کے لیے قید خانہ بنایا ہے۔

ان آیات سے ظاہر ہے کہ خدا تعالیٰ کا یہ وعدہ تھا کہ فلسطین کا ملک خدا تعالیٰ کے نیک بندوں کو ملے گا اور چونکہ پہلے یہود سے یہ وعدہ کیا گیا۔ اس لیے ان کو یہ ملک ملا۔ مگر ملک دیتے وقت خدا تعالیٰ نے کچھ شرائط بھی عائد کر دیں۔ اور فرمایا کہ کچھ عرصہ کے بعد تمہاری شرارتوں کی وجہ سے ہم یہ ملک تم سے چھین لیں گے۔ چنانچہ فرمایا فَاِذَا جَآءَ وَعۡدُ اُوۡلٰٮھُمَا بَعَثۡنَا عَلَیۡکُمۡ عِبَادًا لَّنَاۤ اُولِیۡ بَاۡسٍ شَدِیۡدٍ فَجَاسُوۡا خِلٰلَ الدِّیَارِ، جب ان دوبار کے فسادوں میں سے پہلی بار کا وعدہ پورا ہونے کا وقت آ ئے گا تو ہم اپنے حکم کے ساتھ ایک قوم کو مقرر کریں گے۔ جو بڑی فوجی طاقت رکھتی ہو گی اور وہ فلسطین کے تمام شہروں میں گھس جائے گی اور تمہاری حکومت کو تباہ کر دے گی مگر ثُمَّ رَدَدۡنَا لَکُمُ الۡکَرَّۃَ عَلَیۡھِمۡ کچھ مدت کے بعد یہ ملک ہم تم کو واپس دے دیں گے اور تمہاری طاقت اور قوت کو بحال کر دیں گے۔ وَاَمۡدَدۡنٰکُمۡ بِاَمۡوَالٍ وَّبَنِیۡنَ وَجَعَلۡنٰکُمۡ اَکۡثَرَ نَفِیۡرًا اور ہم تم کو مال بھی دیں گے اور بیٹے بھی دیں گے اور تمہیں تعداد میں بھی بہت بڑھا دیں گے لیکن پھر ایک وقت کے بعد ہم دوبارہ یہ ملک تم سے چھین لیں گے، چنانچہ فرمایا فَاِذَا جَآءَ وَعۡدُ الۡاٰخِرَۃِ لِیَسُوۡٓءٗا وُجُوۡھَکُمۡ وَلِیَدۡخُلُوا الۡمَسۡجِدَ کَمَا دَخَلُوۡہُ اَوَّلَ مَرَّۃٍ وَّلِیُتَبِّرُوۡا مَا عَلَوۡا تَتۡبِیۡرًا۔ جب وہ دوسرا وعدہ پورا ہونے کا وقت آئے گا تو اس لیے کہ وہ لوگ جن کو عارضی طور ہم یہ ملک دینے والے ہیں وہ تمہارے منہ خوب کالے کریں اور جس طرح پہلی دفعہ انہوں نے تمہاری عبادت گاہ کی بے حرمتی کی تھی اسی طرح اس دفعہ بھی اس کو ذلیل کریں۔ یہ دشمن پھر تمہارے ملک میں جا گھسے گا۔ اور تمہاری عبادت گاہ کو ذلیل کرے گا۔ اور جس جس علاقہ میں جائے گا، تباہی مچاتا چلا جائے گا۔ مگر فرمایا! عَسٰی رَبُّکُمْ اَنْ یَّرْحَمَکُمْ۔کچھ بعید نہیں کہ اب بھی تمہاراربّ تم پر رحم کر دے یعنی اس کے بعد پھر ہم یہ فیصلہ کریں گے۔ کہ یہ ملک واپس دے دیا جائے مگر یہاں یہ نہیں فرمایا کہ وہ یہودیوں کو دیا جائے گا بلکہ فرمایا عَسٰی رَبُّکُمْ اَنْ یَّرْحَمَکُمْ۔خدا تم پر رحم کرے گا یعنی اس بدنامی کو دُور کردے گا۔ جو تمہاری دنیا میں ہوئی۔ وَاِنۡ عُدۡتُّمۡ عُدۡنَا اور اگر تم اپنی شرارتوں سے پھر بھی باز نہ آئے تو ہم بھی اپنی اسی سنّت کی طرف لَوٹیں گے۔ اور پھر یہ ملک تم سے چھین لیں گے۔ وَجَعَلۡنَا جَھَنَّمَ لِلۡکٰفِرِیۡنَ حَصِیۡرًا اور جہنم کو ہم تمہارے لیے قید خانہ بنا دیں گے یعنی پھر تم اس ملک میں واپس نہیں آ سکو گے۔

چنانچہ دیکھ لو خدا تعالیٰ نے کہا تھا کہ یہ ملک کچھ عرصہ تمہارے پاس رہے گا مگر اس کے بعد چھینا جائے گا۔ چنانچہ بابلی فوجیں آئیں اور انہوں نے عبادت گاہیں بھی تباہ کیں، شہر بھی تباہ کیے اور سارے ملک پر قبضہ کر لیا اور قریبًا ڈیڑھ سو سال تک حکومت کی۔(۲ سلاطین۔ باب۲۴: آیت ۱۰تا۱۷، ۲ تواریخ۔ باب۳۶: آیت۲۱،۲۰، جیوش انسائیکلوپیڈیا زیرِ لفظNebuchadnezzar) اس کے بعد وہ حکومت بدل گئی اور پھر یہودی اپنے ملک پر قابض ہو گئے۔

پھر مسیحؑ کے بعد رومی لوگوں نے اس ملک پر حملہ کیا اور اس کو تباہ و برباد کر دیا اسی طرح مسجد کو تباہ کیا اور اس کے اندر سؤر کی قربانی کی اور اس پر ان کا لمبے عرصہ تک قبضہ رہا۔ لیکن آخر رومی بادشاہ عیسائی ہو گیا۔

اس لیے یہاں یہ نہیں فرمایا تھا کہ یہودیوں کو یہ ملک واپس کیا جائے گا بلکہ فرمایا تھا کہ پھر ہم تم پر رحم کریں گے۔ یعنی تمہاری وہ بے عزتی دُور ہو جائے گی ۔ چنانچہ جب رومی بادشاہ عیسائی ہو گیا تو پھر وہ موسیٰ علیہ السلام کو بھی ماننے لگ گیا۔ داؤدؑ کو بھی ماننے لگ گیا۔ اسی طرح باقی جس قدر انبیاء تھے ان کو بھی ماننے لگ گیا تھا۔ وہ عیسیٰ علیہ السلام کو ماننے والا لیکن حضرت عیسیٰ علیہ السلام بھی چونکہ موسوی سلسلے سے تعلق رکھتے تھے۔ عیسائی بادشاہت یہودی نبیوں کا ادب کرتی تھی۔ تورات کا ادب کرتی تھی۔ بلکہ تورات کو بھی اپنی مقدس کتاب سمجھتی تھی گویا خدا کا رحم ہو گیا۔ مگر فرماتا ہے۔ اِنۡ عُدۡتُّمۡ عُدۡنَا اگر اس کے بعد تم لوگ پھر بگڑے اور شرارتیں کیں تو پھر ہم تمہارے ہاتھ سے یہ بادشاہت نکال دیں گے۔ یعنی پھر مسلمان آ جائیں گے اور ان کے قبضہ میں یہ ملک چلا جائے گا اور وہ عِبَادِیَ الصَّالِحُوْنَ بنیں گےاور تمہارے لیے پھر جہنم پیدا ہو جائے گا ، جس میں تم ہمیشہ جلتے رہو گے۔

اس تفصیل سے معلوم ہو سکتا ہے اس جگہ مندرجہ ذیل امور بیان کیے گئے ہیں۔

۱۔ یہ ملک یہود سے چھین کر ایک اور قوم کو دے دیا جائے گا۔

۲۔ کچھ عرصہ کے بعد پھر یہ ملک یہود کو واپس مل جائے گا۔

۳۔ کچھ عرصہ کے بعد یہ پھر ان سے چھین لیا جائے گا۔

۴۔ اس کے بعد یہ ملک پھر واپس کیا جائے گا۔ مگر یہود کے ہاتھ نہیں آئے گا۔ بلکہ موسوی سلسلہ کے ماننے والوں یعنی عیسائیوں کے ہاتھ میں چلا جائے گا۔

۵۔ اگر پھر شرارت کی گئی (اب اس میں عیسائی بھی شامل ہو گئے کیونکہ وہ بھی یہودیوں کا ایک گروہ تھے) تو پھر یہ زمین ان سے چھین لی جائے گی اور ایک اور قوم کو دے دی جائے گی یعنی مسلمانوں کو مگر اس جگہ یہ نہیں فرمایا کہ وہ مسجد میں داخل ہو کر اس کی ہتک کریں گے۔ اس لیے کہ مسلمانوں کے نزدیک بھی حضرت موسیٰ علیہ السلام اور ان کے تمام ماتحت انبیاء مقدس تھے۔ مگر ان کی جگہیں بھی مقدس تھیں۔ اس لیے مسلمان ان کی مسجدوں میں وہ خرابیاں نہیں کر سکتے تھے جو بابلیوں اور رومیوں نے کیں۔

یہ عجیب لطیفہ اور قوموں کی ناشکری کی مثال ہے کہ بابلیوں نے یہودیوں کے ملک کو تباہ کیا اور ان کی مسجد کو ذلیل کیا۔ یوروپین مصنف کتابیں لکھتے ہیں تو بابلیوں کو کوئی گالی نہیں دیتا کوئی ان کو برا بھلا نہیں کہتا۔ کوئی ان پر الزام نہیں لگاتا۔ رومیوں نے اس ملک کو لیا اور اس مسجد میں خنزیر کی قربانیاں کیں عیسائی رومی تاریخ پر کتابیں لکھتے ہیں۔ گبن نے بھی ’’دی ڈیکلائن اینڈ فال آف دی رومن ایمپائر‘‘History of the Decline and Fall of the Roman Empire لکھی ہے ۔ مگر سب کتابوں کو دیکھ لو وہ کہتے ہیں رومن ایمپائر جیسی اچھی ایمپائر کوئی نہیں (انسائیکلو پیڈیا برٹینیکا زیرِ لفظ Roman Empire) حالانکہ انہوں نے ان کی مسجد کو گندہ کیا مگر وہ قوم جس نے ان کی مسجد کو گندہ نہیں کیا اس کو گالیاں دی جاتی ہیں۔

حضرت عمر رضی الله عنہ کے زمانہ میں فلسطین فتح ہوا اَور جس وقت آپؓ یروشلم گئے تو یروشلم کے پادریوں نے باہر نکل کر شہر کی کنجیاں آپؓ کے حوالے کیں اور کہا کہ آپؓ اب ہمارے بادشاہ ہیں۔ آپؓ مسجد میں آکر دو نفل پڑھ لیں تاکہ آپؓ کو تسلی ہو جائے کہ آپ ؓنے ہماری مقدس جگہ میں جو آپؓ کی بھی مقدس جگہ ہے نماز پڑھ لی ہے۔ حضرت عمر رضی الله عنہ نے کہا مَیں تمہاری مسجد میں اس لیے نماز نہیں پڑھتا کہ مَیں ان کا خلیفہ ہوں کل کو یہ مسلمان اس مسجد کو چھین لیں گے اور کہیں گے کہ یہ ہماری مقدس جگہ ہے۔ اس لیے باہر ہی نماز پڑھوں گا تاکہ تمہاری مسجد نہ چھینی جائے۔

پس ایک وہ تھے جنہوں نے وہاں خنزیر کی قربانی کی اور یورپ کا منہ اس کی تعریف کرتے ہوئے خشک ہوتا ہے اور ایک وہ تھا جس نے ان کی مسجد میں دو نفل پڑھنے سے بھی انکار کیا۔ کہ کہیں مسلمان کسی وقت یہ مسجد نہ چھین لیں ۔ اور اس کو رات دن گالیاں دی جاتی ہیں۔ کتنی ناشکرگذار اور بے حیا قوم ہے۔

اب مسلمانوں کے پاس فلسطین آ جانے کے بعد سوال ہو سکتا ہے کہ یہ ملک یہودیوں کے ہاتھ بھی نہ رہا اور عیسوی سلسلے کے پاس بھی نہ رہا۔ یہ کیا معمہ ہے؟ لیکن اگر غور کیا جائے تو یہ اعتراض نہیں پڑتا اس لیے کہ بعض دفعہ جب کسی بات پر جھگڑا ہوتا ہے اور وراثت کے کئی دعوے دار بن جاتے ہیں تو سچے وارث کہتے ہیں کہ ہم ان کے وارث ہیں اور ان کے حق میں فیصلہ کر دیا جاتا ہے یہی صورت اس جگہ واقعہ ہوئی ہے۔ خدا ملک دینے والا تھا۔ خدا کے سامنے مقدمہ پیش ہوا کہ موسیٰؑ اور داؤدؑ کے وارث یہ مسلمان ہیں۔ یا موسیٰؑ اور داؤدؑ کے وارث یہ یہودی اور عیسائی ہیں۔ تو کورٹ نے ڈگری دی کہ اب موسیٰؑ اور داؤدؑ کے وارث مسلمان ہیں۔ چنانچہ ڈگری سے ان کو ورثہ مل گیا۔

پھر آگے چل کر فرماتا ہے کہ فَاِذَا جَآءَ وَعۡدُ الۡاٰخِرَۃِ جِئْنَا بِکُمْ لَفِیْفًا (بنی اسرائیل:۱۰۵) پھر اس کے بعد ایک اور وقت آئے گا۔ کہ یہودیوں کو دنیا کے اطراف سے اکٹھا کر کے فلسطین میں لا کر بسا دیا جائے گا چنانچہ وہ وقت اب آیا ہے۔ جب کہ یہودی اس جگہ پر قبضہ کیے ہوئے ہیں۔

کراچی اور لاہور میں مَیں جب بھی گیا ہوں مسلمان مجھ سے پوچھتے رہے ہیں کہ یہ تو خدائی وعدہ تھا کہ یہ سرزمین مسلمانوں کے ہاتھ میں رہے گی۔ پھر یہودیوں کو کیسے مل گئی؟ مَیں نے کہا کہاں وعدہ تھا۔ قرآن میں تو لکھا ہے کہ پھر یہودی بسائے جائیں گے۔ کہنے لگے۔ اچھا جی یہ تو ہم نے کبھی نہیں سنا۔ مَیں نے کہا تمہیں قرآن پڑھانے والا کوئی ہے ہی نہیں تم نے سننا کہاں سے ہے۔ میری تفسیر پڑھو تو اس میں لکھا ہوا موجود ہے۔

تو یہ جو وعدہ تھا کہ پھر یہودی ارض کنعان میں آجائیں گے، قرآن میں لکھا ہوا موجود ہے سورۂ بنی اسرائیل رکوع۱۲ میں یہ لکھا ہوا ہے۔ کہ فَاِذَا جَآءَ وَعۡدُ الۡاٰخِرَۃِ جِئْنَا بِکُمْ لَفِیْفًا۔ جب وہ آخری زمانہ کا وعدہ آئے گا تو پھر ہم تم کو اکٹھا کرکے اس جگہ پر لے آئیں گے۔

اس جگہ وَعۡدُ الۡاٰخِرَۃِ سے مراد مسلمانوں کے دوسرے عذاب کا وعدہ ہے اور بتایا ہے کہ مسلمانوں پر جب یہ عذاب آئے گا اور دوسری دفعہ ارضِ مقدس ان کے ہاتھ سے نکل جائے گی ۔اس وقت الله تعالیٰ پھر یہود کو اس ملک میں واپس لے آئے گا اس جگہ بعض لوگ اعتراض کرتے ہوئے کہا کرتے ہیں کہ یہود کے آنے کی وجہ سے اسلام منسوخ ہو گیا۔ گویا ان کے نزدیک اسلام کےمنسوخ ہونے کی یہ علامت ہے کہ عِبَادِیَ الصَّالِحُوْنَ نے اس پر قبضہ کرنا تھا، جب مسلمان وہاں سے نکال دیئے گئے تو معلوم ہوا کہ مسلمان عِبَادِیَ الصَّالِحُوْنَ نہیں رہے، یہ اعتراض زیادہ تر بہائی قوم کرتی ہے۔ لیکن عجیب بات ہے کہ یہی پیشگوئی تورات میں موجود ہے یہی پیشگوئی قرآن میں موجود ہے اور اس پیشگوئی کے ہوتے ہوئے اس ملک کو بابلیوں نے سو سال رکھا مگر اس وقت یہودی مذہب بہائیوں کے نزدیک منسوخ نہیں ہوا۔ ٹائٹس کے زمانہ سے لے کر سو دو سو بلکہ تین سو سال تک فلسطین روم کے مشرکوں کے ماتحت رہا، وہ عیسائیوں کے قبضہ میں نہیں تھا۔ یہودیوں کے قبضہ میں نہیں تھا۔ مسجد میں سؤر کی قربانی کی جاتی تھی۔ اور پھر بھی یہودیت کو سچا سمجھا جاتا تھا لیکن یہودیوں کے آنے پر نو سال کے اندر اندر اسلام منسوخ ہو گیا کیسی پاگل پن والی اور دشمنی کی بات ہے اگر واقعہ میں کسی غیر قوم کے اندر آ جانے سے کوئی پیشگوئی باطل ہو جاتی ہے اور عارضی قبضہ بھی مستقل قبضہ کہلاتا ہے تو تم نے سو سال پیچھے ایک دفعہ قبضہ دیکھا ہے تین سو سال دوسری دفعہ کافروں کا قبضہ دیکھا ہے، اس وقت یہودیت کو تم منسوخ نہیں کہتے اس وقت کی عیسائیت کو تم منسوخ نہیں کہتے لیکن اسلام کے ساتھ تمہاری عداوت اتنی ہے کہ اسلام میں نو سال کے بعد ہی تم اس قبضہ کو منسوخی کی علامت قرار دیتے ہو جب اتنا قبضہ ہو جائے جتنا یہودیت اور عیسائیت کے زمانہ میں رہا تب تو کسی کا حق بھی ہو سکتا ہے کہ کہے لو جی اسلام کے ہاتھ سے یہ ملک نکل گیا لیکن جب تک اتنا قبضہ چھوڑ اس کا دسواں حصہ بھی نہیں ہوا تو اس پر اعتراض کرنا محض عداوت نہیں تو اور کیا ہے۔

پھر عجیب بات یہ ہے کہ اعتراض کرنے والے بہائی ہیں جن کا اپنا وہی حال ہے جیسے ہمارے ہاں مثل مشہور ہے کہ نہ آگا نہ پیچھاوہ اسلام پر اعتراض کرتے ہیں۔ حالانکہ مکہ مسلمانوں کے پاس ہے مدینہ مسلمانوں کے پاس ہے اور یہ دو اہم اسلامی مراکز ہیں۔ ہم ان سے کہتے ہیں ’’چھاج بولے تو بولے چھلنی کیا بولے جس میں نو سو سوراخ۔‘‘ تمہارا کیا حق ہے کہ تم اسلام پر اعتراض کرو تمہارے پاس تو ایک چپہ زمین بھی نہیں جس کو تم اپنا مرکز قرار دے سکو۔ اسلام کا مکہ بھی موجود ہے اور اسلام کا مدینہ بھی موجود ہے۔ وہ تو ایک زائد انعام تھا۔ وہ ملک اگر عارضی طور پر چلا گیا تو کیا اعتراض ہے؟

بہائیت۱۸۴۴ء سے شروع ہے اور اب ۱۹۵۸ء ہے اس کے معنے یہ ہیں کہ ان کے مذہب کو قائم ہوئے ایک سو چودہ سال ہوگئے اور ایک سو چودہ سال میں ایک گاؤں بھی تو انہوں نے مقدس نہیں بنایا۔ وہ کہہ سکتے ہیں کہ ہمیں حکومت حاصل نہیں ۔لیکن سوال یہ ہے کہ ہمارے پاس بھی تو حکومت نہیں ہم نے تو چند سال میں ربوہ بنا لیا پہلے قادیان بنا ہوا تھا، اب ربوہ بنا ہوا ہے۔ یہاں ہم آتے ہیںنمازیں پڑھتے ہیں اکٹھے رہتے ہیں پھر فلسطین میں بھی کرمل پہاڑ کی چوٹی پر ایک پورا گاؤں احمدیوں کا ہے جس کا نام کبابیرؔہے بہائی بھی تو بتائیں کہ دنیا میں ان کا کوئی مکان ہے یا دنیا میں کسی جگہ پر وہ اکٹھے ہوتے ہیں؟ لیکن اسلام پر صرف نو سال کے قبضے کی وجہ سے ان کے بغض نکلتے ہیں اور کہتے ہیں کہ اسلام ختم ہو گیا اور اپنی حالت یہ ہے کہ عکہ کو مرکز قرار دیا ہوا ہے اور کہتے ہیں کہ حدیثوں میں بھی پیشگوئیاں تھیں کہ عکہ ان کے پاس ہو گا اور تورات میں بھی پیشگوئیاں تھیں مگر اب عکہ میں بہائیوں کا نام و نشان بھی نہیں ہے اور ان کے لیڈر شوقی افندی جو عکہ کی بجائے سال کا اکثر حصہ سوئٹزرلینڈ میں گزارا کیے وہ بھی وفات پا چکے ہیں اور ان کے بعد ابھی تک بہائیوں کا کوئی قائمقام لیڈر بھی تجویز نہیں ہوا۔ پھر اعتراض کرتے چلے جاتے ہیں اور کئی جاہل ان کے اعتراضوں سے مرغوب ہو جاتے ہیں۔

غرض بابلیوں کے آنے اور رومیوں کے عارضی طور پر وہاں آ جانے کو جس کا عرصہ ایک دفعہ ایک سو سال اور دوسری دفعہ قریبًا تین سو سال کا تھا۔ اگر موسیؑ اور داؤدؑ کے پیغام کے منسوخ ہونے کی علامت نہیں قرار دیا گیا تو اس وقت یہود کا عارضی طور پر قبضہ جس میں صرف چند سال گذرے ہیں اسلام کے منسوخ ہونے کی علامت کس طرح قرار دیا جا سکتا ہے بلکہ یہ تو اس کے صادق ہونے کی علامت ہے۔ جب اس نے خود یہ پیشگوئی کی ہوئی تھی کہ ایک دفعہ مسلمانوں کو نکالا جائے گا اور یہودی واپس آئیں گے تو یہودیوں کا واپس آنا اسلام کے منسوخ ہونے کی علامت نہیں۔ اسلام کے سچا ہونے کی علامت ہے۔ کیونکہ جو کچھ قرآن نے کہا تھا وہ پورا ہو گیا۔ باقی رہا یہ کہ پھر عِبَادِیَ الصَّالِحُوْنَ کے ہاتھ میں کس طرح رہا؟ سو اس کا جواب یہ ہے کہ عارضی طور پر قبضہ پہلے بھی دو دفعہ نکل چکا ہے۔ اور عارضی طور پر اب بھی نکلا ہے اور جب ہم کہتے ہیں ’’عارضی طور پر‘‘ تو لازمًا اس کے معنے یہ ہیں کہ پھر مسلمان فلسطین میں جائیں گے اور بادشاہ ہوں گے اور لازمًا اس کے یہ معنے ہیں کہ پھر یہودی وہاں سے نکالے جائیں گے اور لازمًا اس کے یہ معنے ہیں کہ یہ سارا نظام جس کو یو۔این۔او کی مدد سے اور امریکہ کی مدد سے قائم کیا جا رہا ہے الله تعالیٰ مسلمانوں کو توفیق دے گا کہ وہ اس کی اینٹ سے اینٹ بجا دیں گے اور پھر اس جگہ پر لا کر مسلمانوں کو بسائیں۔

دیکھو حدیثوں میں بھی یہ پیشگوئی آتی ہے، حدیثوں میں یہ ذکر ہے کہ فلسطین کے علاقہ میں اسلامی لشکر آئے گا اور یہودی اس سے بھاگ کر پتھروں کے پیچھے چھپ جائیں گے اور جب کوئی مسلمان سپاہی کسی پتھر کے پاس سے گذرے گا تو وہ پتھر کہے گا کہ اَے مسلمان خدا کے سپاہی میرے پیچھے ایک یہودی کافر چھپا ہوا ہے اس کو مار۔ (بخاری۔ کتاب الجھاد والسیر، باب قتال الیھود)

جب رسول کریم صلی الله علیہ وسلم نے یہ بات فرمائی تھی اس وقت کسی یہودی کا فلسطین میں نام و نشان بھی نہیں تھا۔ پس اس حدیث سے صاف پتہ لگتا ہے کہ رسول کریم صلی الله علیہ وسلم پیشگوئی فرماتے ہیں کہ ایک وقت میں یہودی اس ملک پر قابض ہوں گے مگر پھرخدا مسلمانوں کو غلبہ دے گا اور اسلامی لشکر اس ملک میں داخل ہوں گے اور یہودیوں کو چن چن کے چٹانوں کے پیچھے ماریں گے۔پس عارضی مَیں اس لیے کہتا ہوں کہ اَنَّ الۡاَرۡضَ یَرِثُھَا عِبَادِیَ الصّٰلِحُوۡنَ کا حکم موجود ہےمستقل طور پر تو فلسطین عِبَادِیَ الصّٰلِحُوۡنَ کے ہاتھ میں رہنی ہے۔سو خدا تعالیٰ کے عِبَادِیَ الصّٰلِحُوۡنَ محمد صلی الله علیہ وسلم کی امّت کے لوگ لازمًا اس ملک میں جائیں گے۔ نہ امریکہ کے ایٹم بم کچھ کر سکتے ہیں نہ ایچ بم کچھ کر سکتے ہیں۔ نہ روس کی مدد کچھ کر سکتی ہے یہ خدا کی تقدیر ہے، یہ تو ہو کر رہنی ہے چاہے دنیا کتنا زور لگا لے۔

اس جگہ پر ایک اعتراض کیا جا سکتا ہے اور وہ اعتراض یہ ہے کہ یہاں وَعۡدُ الۡاٰخِرَۃِ فرمایا ہے اور تم کہتے ہو کہ وَعۡدُ الۡاٰخِرَۃِ سے مراد آخری زمانہ ہے۔ مگر سورۂ بنی اسرائیل کی پہلی آیات میں بھی تو ایک وَعۡدُ الۡاٰخِرَۃِ کا ذکر ہے جس میں رومیوں کے حملہ کا ذکر ہے تو کیوں نہ یہ سمجھا جائے کہ یہ جِئْنَا بِکُمْ لَفِیْفًا (بنی اسرائیل:۱۰۵) رومیوں کے حملہ کے متعلق ہے؟

اس کا جواب یہ ہے کہ یہ وہ وَعۡدُ الۡاٰخِرَۃِ نہیں ہو سکتا اس لیے کہ اس صورت میں وَعۡدُ الۡاٰخِرَۃِ کوعذاب کا قائمقام قرار دیا ہے اور اس صورت میں وَعۡدُ الۡاٰخِرَۃِ کو انعام کا قائمقام قرار دیا ہے۔ یہ کس طرح ہو سکتا ہے کہ عذاب کی پیشگوئی کو انعام سمجھ لیا جائے۔ اس جگہ تو فرمایا ہے کہ جب دوسری دفعہ والا وعدہ پورا ہونے کا وقت آئے گا تو تم کو تباہ کر دیا جائے گا اور اس آیت میں ذکر ہے کہ جب وَعۡدُ الۡاٰخِرَۃِ آئے گا تو پھر تم کو لاکے اس ملک میں بسا دیا جائے گا اس سے صاف پتہ لگتا ہے کہ یہ وَعۡدُ الۡاٰخِرَۃِ اور ہے اور وہ وَعۡدُ الۡاٰخِرَۃِ اور ہے۔ وہاں وَعۡدُ الۡاٰخِرَۃِ سے مراد ہے موسوی سلسلہ کی پیشگوئی کی آخری کڑی اور یہاں وَعۡدُ الۡاٰخِرَۃِ سے مراد یہ ہے کہ آخری زمانہ یا محمد رسول الله صلی الله علیہ وسلم کے زمانے کی پیشگوئی۔ پس یہ الفاظ گو ملتے ہیں لیکن دونوں کی عبارت صاف بتا رہی ہے کہ یہ اور وعدہ ہے اور وہ اور وعدہ ہے۔ وہ وعدہ عذاب کا ہے اور یہ وعدہ انعام کا ہے۔ اور انعام کا قائمقام عذاب کا وعدہ نہیں ہو سکتا۔‘‘(تفسیر کبیر۔ جلد۸صفحہ۱۰۵تا ۱۱۵)

الله تعالیٰ ہمیں حضورِ انور ایّدہ الله تعالیٰ کے ارشاد کی تعمیل میں اس تفسیر کو پڑھنے، سمجھنے اور اس سے استفادہ کی بھرپور توفیق عطا فرمائے۔ اسی طرح آپ جو مظلوم فلسطینیوں کے لیے دعاؤں کی متواتر تحریک فرما رہے ہیں اس کا بھی ہم حق ادا کرنے والے ہوں۔ الله تعالیٰ کرے کہ ہم احمدی ،جنہوں نے اس زمانے کے امام کو مانا ہے اور اس کی بیعت میں شامل ہوئے ہیں،اپنے اعمال کی اصلاح بھی کرنے والے ہوں اور حقوق الله اور حقوق العباد کی ادائیگی کی صورت الله تعالیٰ ہمیں ہی وہ عباد الصالحین بنا دے جو ارضِ مقدس کے وارث ہوں ۔

(مرسلہ:قمر احمد ظفر۔ نمائندہ الفضل انٹرنیشنل)

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button