انصار اللہ: خلافت کے سلطانِ نصیر
تقریر برموقع سالانہ اجتماع مجلس انصار اللہ بھارت ۲۰۲۳ء
(ایچ شمس الدین۔ قائد تربیت مجلس انصار اللہ بھارت)
وَقُلۡ رَّبِّ اَدۡخِلۡنِیۡ مُدۡخَلَ صِدۡقٍ وَّاَخۡرِجۡنِیۡ مُخۡرَجَ صِدۡقٍ وَّاجۡعَلۡ لِّیۡ مِنۡ لَّدُنۡکَ سُلۡطٰنًا نَّصِیۡرًا(بنی اسرائیل:۸۱)
تاریخ کا سرسری مطالعہ کرنےوالوں سے بھی یہ بات پوشیدہ نہیں ہےکہ ہر دور میں اللہ تعالیٰ نےانبیاء و مرسلین کو مخلصین کی جماعت عطا فرمائی ہے۔ اس سلسلہ میں قرآن کریم نے حضرت عیسیٰؑ کے متبعین یعنی حواریوں کے متعلق فرمایا ہے کہ انہوں نے ہمیشہ نَحْنُ أَنْصَارُ اللّٰهِ کا نعرہ لگاکر آپ کا ساتھ دیا گو انجیل اس حقیقت سے ناآشنا محض ہے۔ لیکن بقول بائبل ہمارے پیارے آقا حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ تو دس ہزارقدسیوں کے ساتھ آئے۔اور یہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم رسول مقبول ﷺ کےدست و بازوبن کراپنی عملی زندگی سے آپؐ کےسلطان نصیر ہونے کا ثبوت نہ صرف عہدِنبویؐ میں دیابلکہ خلفائے راشدین کے دور میں بھی صحابۂ رسولؐ کے عدیم المثال اعمال قابل رشک بھی ہیں اور قابل تقلید بھی۔
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام فرماتے ہیں : خود آنحضرت ﷺ نے اس کی شہادت دی اور کہا اللّٰہ اللّٰہ فی اصحابی۔گویا بشریّت کا چولہ اُتار کر مظہر اﷲ ہو گئے تھے اور ان کی حالت فرشتوں کی سی ہو گئی تھی جو يَفْعَلُوْنَ مَا يُؤْمَرُونَ (التحریم : ۷) کے مصداق ہیں۔ ٹھیک ایسی ہی حالت صحابہؓ کی ہوگئی تھی۔ ان کے دلی ارادے اور نفسانی جذبات بالکل دُور ہو گئے تھے۔ ان کا اپنا کچھ رہا ہی نہیں۔نہ کوئی خواہش تھی نہ آرزو۔ بجز اس کے کہ اﷲ تعالیٰ راضی ہو۔(ملفوظات جلد ۴ صفحہ ۵۹۵، ایڈیشن ۱۹۸۸ء)
ہاں ! سچ ہے؛
کَانُوْا لِخَیْرِ الرُّسُلِ کَالْأعْضَاءِ
وہ خیر الرسلؐ کے لیے بمنزلۂ اعضاء کے تھے۔ (سِرّ الخلافۃ، روحانی خزائن جلد۸صفحہ ۳۹۷)
نبی اکرم ﷺ کی دعا وَاجۡعَلۡ لِّیۡ مِنۡ لَّدُنۡکَ سُلۡطٰنًا نَّصِیۡرًاکی تشریح میں حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ فرماتے ہیں : ہر صدی میں مجدد سلطان نصیر بن کر آتے رہے۔ سُلۡطٰنًا نَّصِیۡرًاکو ایک عظیم الشان سلطان نصیر کے طور پر لیا جائے جیسا کہ اس موقع پر عین سجتی ہے یہی بات یعنی بہت بڑا مددگار بھی مجھے عطا فرما جو میرے مقاصد کو آگے بڑھانے میں میرا مددگار ثابت ہو اور غلبہ کی طاقت رکھتا ہو۔پس یہ پیشگوئی حضرت مسیح موعودؑ کے ظہور کے ساتھ تعلق رکھنے والی ہے۔ (ماخوذ از ازترجمۃالقرآن کلاس نمبر۱۴۷، بتاریخ ۱۳؍اگست ۱۹۹۶ء)
چنانچہ حضرت مسیح موعودؑ فرماتے ہیں :
یہ سراسر فضل و احساں ہے کہ میں آیا پسند
ورنہ درگہ میں تری کچھ کم نہ تھے خدمت گزار
رسول مقبول ﷺ کے اس عظیم الشان سلطان نصیر کی خدمات کوبارگاہ ایزدی میں اس قدر مقبولیت حاصل ہوئی کہ آپؑ کو امتی نبی کے لقب سے نوازا گیا۔ اور آپ نے اسلام کو پھر سے زندہ کیا۔ یہاں تک کہ آپ سے براہ راست بیعت کا شرف پانے والوں نے صحابہؓ کا مرتبہ حاصل کیا۔
تاریخ احمدیت متعددایسے جاں نثاراصحاب احمد کے ایمان افروز تذکرہ سے مزین ہے جنہوں نے حضورعلیہ السلام کی کامل اتباع میں نحن انصاراللّٰہ کا عہدکرتے ہوئے سلطان نصیر بننےکےدرخشندہ باب رقم کیے، حضرت چودھری سر محمد ظفر اللہ خان صاحبؓ بھی ان ہی خوش نصیبوں میں شمار ہوتے ہیں۔
آپ کی بیعت کی کیفیت کے تذکرہ میں حضرت خلیفۃالمسیح الرابعؒ فرماتے ہیں : ایک دفعہ بی بی سی ون کے نمائندے نےانٹر ویولیتے ہوئے اچانک آپ سے سوال کیا کہ آپ کی زندگی کا سب سے بڑا واقعہ کیا ہے؟ بے تکلف سوچنے کے لیے ذرہ بھی تردد نہ کرتے ہوئے آپ نے فوراً یہ جواب دیا کہ میری زندگی کا سب سے بڑا واقعہ وہ تھا جب میں اپنی والدہ کے ساتھ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام کی خدمت میں حاضر ہوا ۔آپ کے مبارک چہرہ پر نظر ڈالی اور آپ کے ہاتھ میں اپنا ہاتھ تھمادیا۔ اس دن کے بعد پھر آپ نے وہ ہاتھ کبھی واپس نہیں لیا مسلسل ہاتھ تھمائے رکھا۔ (ماخوذ از خطبہ جمعہ ۶؍ ستمبر ۱۹۸۵ء)
آپ کے سیرت نگار بتاتے ہیں کہ ایک مرتبہ حضرت چودھری محمد ظفراللہ خان صاحبؓ سے کسی نے پوچھا کہ آپ کی ترقیات اور کامیابیوں کا کیا راز ہے؟ تو آپؓ نے بے ساختہ جواب دیا:
Because through all my life, I was obedient to Khilafat.
یعنی میری کامیابیوں کی وجہ یہ ہے کہ میں تمام زندگی خلافت کا مکمل مطیع اور فرمانبردار رہا ہوں۔اور آپ کی بانوے۹۲سالہ زندگی کا ہر لمحہ خلافت کاسلطان نصیر ہونے میں ہی گزراہے۔اس سلسلہ میں واقعی آپ نے جان، مال، وقت اور عزت کی قربانی دےکر رہتی دنیا تک خلافت کا سلطان نصیر ہونے کا انمول اور انمٹ نقشہ احمدیوں کے سامنے پیش فرمایا ہے۔
ہم میں سے ہر ایک اس بات سے بخوبی واقف ہےکہ آپ کو چار خلفائے عظام کو قریب سے دیکھنے اور ان کی براہ راست ہدایات پر عمل کرنے کی سعادت نصیب ہوئی ۔
حضرت مولوی نعمت اللہ خان صاحب ؓکو افغانستان میں ظالمانہ فیصلہ کر کے سنگسار کردیاگیا۔اس واقعہ شہادت کے بعد حضرت چودھری محمد ظفر اللہ خان صاحبؓ نے حضرت مصلح موعودؓ کی خدمت میں خط لکھا کہ حضرت مولوی نعمت اللہ خان صاحب کی شہادت سے جو جگہ خالی ہوئی ہے مجھے موقع دیں کہ اس جگہ کو پُر کروں اور دین کا پیغام پہنچاتے ہوئے قربانی پیش کروں۔ (خالد دسمبر ۱۹۸۵ء صفحہ۱۸۱)
سرفروشی کی تمنا اب ہمارے دل میں ہے
دیکھنا ہے زور کتنا بازوئے قاتل میں ہے
آپؓ کی مالی قربانی بھی خلافت کا سلطان نصیر ہونے کا نہ صرف عجیب نظارہ پیش کرتی ہے بلکہ آپ کوبجاطورپرقول نبوی ﷺ کی روشنی میںقابل رشک وجود بھی بنادیتی ہے۔
چنانچہ تاریخ بتاتی ہے کہ۱۹۶۵ء کی بات ہے جب لندن میں مشن ہاؤس بنانے کے لیے جماعت کے پاس مالی وسعت نہیں تھی۔ کسی کمپنی نےمطلوبہ رقم مبلغ سوا لاکھ پاؤنڈ بطور قرض دینے کا وعدہ تو کیا لیکن عین وقت پر انکار کردیا۔اس کی اطلاع ملنےپر حضرت ظفر اللہ خان صاحبؓ نےامام مسجد فضل سے فرمایا: اگر میں پیسہ کا انتظام کروں تو کیسا رہےگا۔ حضرت خلیفۃ المسیح الثالثؒ سے منظوری لے کراگلے روز ہی معاہدہ تیار کرکے آپ کے پاس پہنچا تو آپؓ نےاس کا مطالعہ کرکے فرمایا کہ میں نے ساری رات اس بارے میں سوچا۔ دل سے آواز آئی کہ ظفراللہ خان، تجھے اللہ نے یہ مالی کشائش دی تھی تو کون سے معاہدے لکھ کر دی تھی، کہ تُو معاہدے کر کے اسی کی راہ میں دے رہا ہے۔ لہٰذا میں نے فیصلہ کیا ہے کہ میں یہ ساری رقم بطور عطیے کے دوں گا اور کچھ بھی واپس نہ لوں گا۔ شرط یہ ہے کہ میری زندگی میں کسی کو معلوم نہ ہو کہ یہ رقم میں نے دی ہے۔ (ماخوذ از محمد ظفر اللہ خان- چند یادیں ) یہ بھی قابل ذکر ہے کہ آپ اس کے چند سال پہلے تک اقوام متحدہ یعنی یو این او کی جنرل اسمبلی کے صدر تھے۔
اسی طرح حضرت چودھری صاحب خلیفۂ وقت کا جوبھی کام ہو خواہ ادنیٰ سے ادنیٰ کام ہی کیوں نہ ہو اس کو بجا لانا اپنے لیےنہ صرف موجب ثواب بلکہ موجب فخر بھی سمجھتے تھے۔ چنانچہ حضرت مصلح موعودؓ کےسفر یورپ میں آپ بھی ساتھ تھے۔ یورپ میں سامان اٹھانے کے لیے قلی نہیں ہوتے۔ اس لیے حضورؓ کا سامان خود اُٹھاتے تھے۔(ماخوذ از ماہنامہ خالد ربوہ)
اس وقت آپؒ انٹر نیشنل کورٹ آف جسٹس کے جج کے عہدے پر متمکن تھے۔ پھر آپ اس کے عالمی صدر بھی بنے۔ اس کے چند سال بعد کا ایک دلچسپ واقعہ خلیفۂ وقت کےہر حکم کی بروقت بجاآوری کا ایک منفرد اور عدیم المثال نمونہ پیش کرتا ہے۔ حضرت خلیفۃ المسیح الثالثؒ نے آپ کو کسی مضمون کا انگریزی ترجمہ کرنے کا ارشاد فرمایاتو آپ اسی وقت کاغذ قلم لے کر کام شروع کرنے لگے۔ اس پر امام مسجد فضل محترم مولانا بی اے رفیق خان صاحب نے آپ کو کہا کہ آپ کل اس کا ترجمہ شروع کرلیں۔ اس پر آپ نے فرمایا کہ نہیں ! کام ابھی شروع کر دیتے ہیں خواہ ختم کل ہی ہو۔ (ماخوذ از چند خوشگوار یادیں)
حضرت چودھری سر محمد ظفر اللہ خان صاحبؓ کی اعلیٰ دنیوی عہدوں سے ریٹائرمنٹ کےبعد حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ سے ملاقات کا دن اور وقت طے ہوا۔ ایک روز،حضورؒ سے ملاقات کے لیے جاتے ہوئے گاڑی کا ٹائر پنکچر ہوگیااور گاڑی کو قریبی ورکشاپ لے گئے … حضرت چودھری صاحب کو حضورؒ سے ملاقات کی اتنی تڑپ تھی اور فکر تھا کہ کہیں میں لیٹ نہ ہو جاؤں…تھوڑی دیر میں آپ غائب۔دیکھا تو خلافت کےوہ شیدائی، خلیفۂ وقت سے ملنے کی تڑپ میں لاری اڈہ کی طرف اس بے تابی سے جا رہے ہیں کہ لاری میں ہی سہی میں بروقت دربار خلافت میں حاضری دے سکوں۔ (ماخوذ ازروزنامہ الفضل انٹر نیشنل ۲۷؍مئی ۲۰۲۰ء)
خلافت کے اس عاشق صادق کو خلفاء نے کبھی میرا بیٹا کہہ کر،کبھی میری زبان کے لقب سے، کبھی کلمۃ اللہ کے نام سے یاد فرمایا ہے۔
الغرض :
وَا اَسَفًا عَلیٰ فِرَاقِ قَوْمٍ
ھُمُ الْمَصَابِیْحُ وَ الْحُصُوْنُ
وَالْمُدْنُ وَالْمُزْنُ وَالرَّوَاسِی
وَالْخَیْرُ وَ الْاَمْنُ وَالسَّکُوْنُ
ہائے افسوس ان لوگوں کی جدائی پر جو روشن چراغ تھے اور ہمت کے قلعے تھے۔وہ شہر تھے اور بادل تھے اور پہاڑ تھے۔ خیر و برکت تھے، امن تھے اور سکون تھے۔(الطبقات الكبري – الامام الشعرانى، أبو المواهب عبد الوهاب بن أحمد بن علي بن الشعراني الأنصاري)
خلافت احمدیہ کی سو سالہ تاریخ گواہ ہے کہ خلیفۂ وقت کو اللہ تعالیٰ ہر دور میں ظفر اللہ خان جیسے ہزاروں سلطان نصیر عطا فرماتا رہا ہے۔
چنانچہ اسی کی طرف ہمیں ترغیب دلاتے ہوئے حضرت مصلح موعو دؓ فرماتے ہیں : اس وقت اسلام کی کشتی بھنور میں ہے اور اس کو سلامتی کے ساتھ کنارے تک پہنچانا ہمارا کام ہے… تمہارے بعد بڑے بڑے فلاسفر پیدا ہوں گے، بڑے بڑے علماء پیدا ہوں گے، بڑے بڑے صوفیاء پیدا ہوں گے، بڑے بڑے بادشاہ آئیں گے مگر یاد رکھو! خدا تعالیٰ نے جو شرف تمہیں عطا فرمایا ہے بعد میں آنے والوں کو وہ میسر نہیں آسکتا۔ جیسے عالم اسلام میں بڑے بڑے بادشاہ گذرے ہیں مگر جو مرتبہ رسول اللہ ﷺ کے ایک چھوٹے سے چھوٹے صحابی کو بھی ملا وہ ان بادشاہوں کو نصیب نہیں ہوا … پس خدمتِ دین کے اس اہم موقعہ کو جو تمہیں صدیوں کے بعد نصیب ہوا ہے ضائع مت کرو اور اپنے گھروں کو خدا تعالیٰ کی برکتوں سے بھرلو۔ (انوار العلوم جلد ۲۶صفحہ ۵۱۹)
ہم ایک لحاظ سے بڑے خوش نصیب ہیں کہ ہم ایسے دور میں پیدا ہوئے ہیں جس کی نسبت اِذَا الْجَنَّةُ اُزْلِفَتْ(التکویر:۱۴)کی پیشگوئی ہے۔ چنانچہ حضرت مصلح موعودؓ فرماتے ہیں: اس آیت کے ایک یہ معنے بھی ہو سکتے ہیں کہ جنت کے حصول کے لیے اس زمانہ کی قربانیاں نسبتاً آسان ہوں گی جہاد بند ہو گااور اس طرح جانی قربانی کے مواقع پیش نہیں آئیں گے صرف مالی قربانی کر کے یا وقت کی قربانی کر کے یا جذ بات و احساسات کی قربانی کر کے وہ جنت کو حاصل کر سکیںگے پہلا زمانہ وہ تھا جب اَلْجَنَّۃُ تَحْتَ ظِلَالِ السُّیُوْفِ (بخاری کتاب الجہادباب الجنة تحت بارقة السیوف) کا سبق مومنوں کے سامنے دُہرایا جاتا تھا مگر اِس زمانہ میں تلوار کا جہاد اللہ تعالیٰ کی حکمت کے ماتحت بند ہے۔ اس لیے اب وہ تکالیف برداشت نہیں کرنی پڑتیں جو پہلے زمانوں میں برداشت کرنی پڑتی تھیں اب جہاد بالسیف کے بغیر ہی مالی قربانیوں میں حصہ لے کر جنت مل سکتی ہے۔(تفسیرکبیرجلد ۱۱صفحہ ۳۳۷سورہ التکویر)
دکھلاؤ پھر صحابہ سا جوش و خروش تم
دنیا پہ اپنی قوتِ بازو عیاں کرو
خلافت کے سلطان نصیر بننے کے لیے خالی جذبات اور دعاوی کافی نہیںہیں بلکہ عمل کی ضرورت ہے۔ یعنی خلیفۂ وقت کے ہراشارے کو حکم سمجھ کر بجالانا ہے۔حضرت مصلح موعودؓ فرماتے ہیں:بیشک جماعت میں خلافت کی عظمت، اس کا احترام اور اس کا ادب موجود ہے مگر وہ جذباتی ہے عملی نہیں۔ میں یہ تسلیم کرتا ہوں کہ جو محبت جماعت احمدیہ کو اپنے امام سے اِس وقت ہے اِس کی مثال کسی اور جگہ ملنا ممکن نہیں مگر باوجود اِس کے مَیں یہ کہنے سے نہیں رُک سکتا کہ وہ جذباتی ہے عملی نہیں۔ ایسے کم لوگ ہیں جو اِس محبت کو اِس طرح محسوس کریں کہ جو لفظ بھی خلیفہ کے منہ سے نکلے وہ عمل کئے بغیر نہیں چھوڑنا۔ (خطاباتِ شوریٰ جلد دوم صفحہ ۱۷)
حضور انور ایدہ اللہ سے کسی نے پوچھا کہ ہم کس طرح حضور انور کے سلطان نصیر بن سکتے ہیں؟
حضور نے فرمایا : خلیفۂ وقت کا اگر سلطان نصیر بننا ہے تو دعاؤں کے بغیر نہیں بنا جا سکتا۔ اور دعاؤں کےلیے، سب سے زیادہ اللہ تعالیٰ کا قرب پانے کےلیے نفل ہیں۔فرائض تو آپ لوگ ادا کرتے ہی ہیں۔اگر نہیں ادا کریں گے تو پھر ایک مسلمان کی جو ایک بنیادی Category ہے اس میں بھی نہیں آتے۔ لیکن فرائض ادا کرنے کے بعد جو نوافل ہیں وہ اصل چیز ہیں جو آپ لوگوں کو اللہ تعالیٰ کا قرب بھی دلائیں گے۔اور خدمت کے موقعے بھی زیادہ میسر آئیں گے۔اور ان میں برکت بھی پڑے گی۔اور خلیفۂ وقت کے سلطان نصیر بننے کی بھی توفیق ملے گی۔( الفضل انٹرنیشنل ۱۰؍ ستمبر ۲۰۲۱ء)
حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں کہ ’’ہماری جماعت کے لیے اسی بات کی ضرورت ہے کہ ان کا ایمان بڑھے۔ خداتعالیٰ پر سچا یقین اور معرفت پیدا ہو۔ نیک اعمال میں سستی اور کسل نہ ہو کیونکہ اگر سستی ہو تو پھر وضو کرنا بھی ایک مصیبت معلوم ہوتا ہے چہ جائیکہ وہ تہجد پڑھے۔‘‘ (ملفوظات جلد چہارم صفحہ۴۳۹، ایڈیشن ۱۹۸۴ء)
اس سلسلہ میں حضور انور ایدہ اللہ فرماتے ہیں : یہ جبر کرکے بستر سے اٹھنا اور مسجد باجماعت نماز کے لیے جانا، اپنے کام کا حرج کرکے نمازوں کی طرف توجہ کرنا۔ یہی چیز ہے جو ثواب کمانے کا ذریعہ بنتی ہے۔(خطبہ جمعہ ۱۴؍ جنوری ۲۰۰۵ء)
الغرض نمازوں میں التزام خلافت کے سلطان نصیر بننے کی شرط اول ہے۔ اگر یہ حساب صحیح رہاتو آنحضور ﷺ نے بھی خوش خبری دی ہے کہ وہ ضرور جنت میں جائےگا۔ چونکہ قرآن کریم نے خلافت اور جنت کے لیےایک جیسی شرائط مقرر فرمائی ہیں نیز آدم کو خلیفہ بناکر جنت کی سربراہی عطا فرمائی تھی۔ لہٰذا نماز میں سستی کرنے والے کا خلافت کے لیے سلطان نصیر ہونےکا دعویٰ بے کار ہے۔
ہو جس کی تم تلاش میں وہ دلکشی نماز ہے
کہا حضور نے ہمیں کہ زندگی نماز ہے
پھر حضور انور ایدہ اللہ نے ہمیں نفلی روزے رکھنے کی بھی تحریک فرمائی تھی۔ حضرت مسیح موعودؑ کو کسی معمر بزرگ نے بحالت کشف بتایا تھا کہ کسی قدر روزے انوار سماوی کی پیشوائی کے لیے رکھنا سنت خاندان نبوت ہے۔ اورآپ نے اس کو قبولیت دعا کا ایک بہترین ذریعہ بھی قرار دیا ہے۔واقعی خوش نصیب ہے وہ احمدی جس کو حضور انور کی مبارک تحریک پر لبیک کہتے ہوئے حضرت اقدس مسیح الزمانؑ کے اس نسخہ کو اپنانے کی توفیق مل رہی ہے۔
اسی طرح ہمارے پیارے حضور ایدہ اللہ نے روزانہ تلاوت قرآن کا بھی تاکیدی ارشاد فرمایا ہے یہاں تک کہ حضور نے فرمایا کہ دعاؤں کی قبولیت کے لیے بھی قرآن کریم کا سیکھنا، پڑھنا، یاد کرنا ضروری ہے۔(خطبہ جمعہ ۲۱؍ اکتوبر ۲۰۰۵ء)
خلافت کاسلطان نصیر ہمیشہ مِمَّا رَزَقۡنٰہُمۡ یُنۡفِقُوۡنَکی عملی تفسیربننے کی کوشش میں خداتعالیٰ کی طرف سے عطاہونے والے مال ودولت کو اس کی راہ میں بےدریخ خرچ کرنے میں کبھی بھی پس وپیش نہیں کرتا بلکہ ’گھر والوں کےلیے خدااوراس کےرسولؐ کا نام ہی کافی ہے‘کی صدا بلندکرتاہوا اپناتمام اثاثہ راہ خدامیں اس کے فرستادے کے قدموں میں لا ڈالنے کو سعادت جانتا ہے۔
عصر حاضر میں مالی قربانی کی اہمیت پر روشنی ڈالتے ہوئے حضرت ام المومنینؓ فرماتی ہیں : مالی قربانی بھی جانی قربانی سے درجہ میں کم نہیں ہے۔ بلکہ اکثر دیکھا گیا ہے کہ لوگ جان کو قربان کرنا مال کو قربان کرنے سے زیادہ آسان خیال کرتے ہیں۔ چنانچہ مشہور شعر ہے کہ
گر جاں طلبی مضائقہ نیست
جو زر طلبی سُخن دریں است
یعنی چمڑی جائے دمڑی نہ جائے۔(ماخوذ از روزنامہ الفضل قادیان مورخہ ۷؍ نومبر ۱۹۴۶ء)
سیدنا حضرت امیر المومنین اید ہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں : ’’زکوٰۃ کی ادائیگی کے بارے میں بعض سوال ہوتے ہیں۔ یہ بنیادی حکم ہے۔ جن پر زکوٰۃ واجب ہے ان کو ضرور ادا کرنی چاہئے اور اس میں بھی کافی گنجائش ہے۔ بعض لوگوں کی رقمیں کئی کئی سال بنکوں میں پڑی رہتی ہیں اور ایک سال کے بعد بھی اگر رقم جمع ہے تو اس پہ بھی زکوٰۃ دینی چاہئے۔ پھر عورتوں کے زیورات ہیں ان پر زکوٰۃ دینی چاہئے۔ جو کم از کم شرح ہے اس کے مطابق ان زیورات پہ زکوٰۃ ہونی چاہئے۔ پھر بعض زمینداروں پر زکوٰۃ واجب ہوتی ہے ان کو اپنی زکوٰۃ اداکرنی چاہئے۔ تو یہ ایک بنیاد ی حکم ہے اس پر بہرحال توجہ دینے کی ضرورت ہے۔‘‘ (خطبہ جمعہ ۳۱؍ مارچ ۲۰۰۶ء)
ہر صاحب نصاب کے لیے یہ بھی ضروری ہے کہ زکوٰۃ کی رقم خلیفۂ وقت کی زیر نگرانی جاری مرکزی بیت المال میں جمع کرے۔ از خود زکوٰۃ کی رقم تقسیم کرنا خلاف احکام شریعت ہے۔
پاس ہو مال تو دو اس سے زکوٰۃ و صدقہ
فکرِ مسکیں رہے تم کو غمِ ایام نہ ہو
ہمارے پیارے آقا حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ نےجماعت احمدیہ عالمگیر کو یہ ٹارگٹ دیا ہے کہ کمانے والے احمدیوں میں سے کم از کم ۵۰؍ فیصد احمدی الوصیت کے آسمانی نظام میں شامل ہوں ! اس کی وجہ کیا ہے؟
حضرات ! سیدنا حضرت مسیح موعودؑ نے اپنے متّبعین کی روحانی ترقی کے لیے الوصیت کے بابرکت نظام کا اعلان فرماتے ہوئے رسالہ الوصیت کے بالکل ابتدائی سطور میں ہی تحریر فرمایا ہے: میں نے مناسب سمجھا کہ اپنے دوستوں اور اُن تمام لوگوں کے لیے جو میرے کلام سے فائدہ اُٹھانا چاہیں چند نصائح لکھوں۔(الوصیت، روحانی خزائن جلد۲۰ صفحہ۳۰۱)
ان کلمات طیبّہ سے صاف معلوم ہوتا ہے حضرت اقدسؑ نےنظامِ وصیت صرف ان لوگوں کے سامنے پیش فرمایا ہے جواپنے آپ کو حضورؑکے دوستوںمیں شامل سمجھتے ہوں یا پھرکم از کم آپ کے پاک کلام سے فائدہ اٹھانے کی خواہش رکھتے ہوں۔ اس لیےاگر کوئی دوست دونوں جہاں میں حضرت اقدس کی رفاقت کا متمنی ہےتو اس کے لیے لازم ہے کہ الوصیت کے نظام میں بلا توقف شامل ہو اوراپنی صحیح آمدنی بتاکرشرح کے مطابق حصہ آمداورحصہ جائیداد ادا کرتا رہے۔ بصورت دیگرحضرت مسیح موعودؑ کےمذکورہ الفاظ کی روشنی میںایسے لوگوں کو بقول غالب صرف یہی کہہ سکتے ہیں کہ
دل کے خوش رکھنے کو غالبؔ یہ خیال اچھا ہے!
اگر کسی احمدی کو الوصیت کے نظام میں شامل ہونے کی توفیق نہیں ملی ہے تو اس کے لیے ہر ماہ آمدنی کے مطابق بشرح ۱۶/۱ چندہ دینا ضروری ہے۔کیونکہ حضرت مسیح موعودؑ نےنادہندگان چندہ کے متعلق واضح الفاظ میں فرمایا ہے کہ ایسے شخص کا نام اپنے رجسٹر سے خارج کردیا جائےگا۔ (ماخوذ ازمالی نظام )
اب اسی گلشن میں لوگو راحت و آرام ہے
وقت ہے جلد آؤ اے آوارگانِ دشتِ خار
اسی طرح حضور انور اید ہ اللہ تعالیٰ، تربیت اولاد اور رشتہ ناطہ کے معاملات میں بھی سنجیدگی سے اپنا رول نبھانے کی بھی ہم سے بار بار نصیحت اور ہدایت فرماتے رہتے ہیں۔
ایک احمدی خاتون کا تذکرہ کرتے ہوئے حضرت خلیفةالمسیح الرابعؒ فرماتے ہیں: کسی جگہ احمدیوں پر حملہ ہونے کی خبر ملنے پر اس خاتون نے اپنے بچوں کو بہترین کپڑے پہنائے جو عید یا شادی بیاہ کے موقع پر پہنے جاتے ہیں۔ پھر اس نے سویاں پکائیں … اور بچوں کو خوب سجا بنا کر اور خوب اچھی خوراک دے کر ماں نے کہا، بچو! اب حملہ ہونے والا ہے۔ تم میرے چار جوان بچے ہو۔ تم میں سے اگر ایک بھی پیٹھ دکھا کر زندہ واپس آیا تو میں اس کو کبھی اپنا دودھ نہیں بخشوں گی۔ (ماخوذ از خطبات طاہر، جلد۲ صفحہ۸۱)
کیا ہم انصار اس خاتون کی طرح بھی اپنی ایمانی غیرت دکھاتے ہوئے حضور انور کی ہدایت پر کم از کم نماز، روزہ، تلاوت قرآن، چندہ جات کی ادائیگی اور گھریلو ذمہ داریاں کما حقہٗ ادا نہیں کریں گے؟
بعض لوگ کسی تلخ تجربہ کی بنا پر مسجد سے ہی منہ موڑتے ہیں، بعض اوقات نماز سے بھی دست بردار ہوجاتے ہیں۔ لیکن آقائے نامدار حضرت محمد عربیﷺ کی طرف ذرا نظر دوڑائیںتو عقل دنگ رہ جاتی ہے کہ میرے آقا ؐ بچپن سےہی والد ماجد کے پیارومحبت سے محروم تھے۔ ۶؍ سال کی عمر میں والدہ مہربان کا سایہ بھی سر سےاٹھ گیا۔پھر ۲؍ سال بعد آپ کے دادا جان جن کی زیر کفالت آپ تھے، اس دارِ فانی سے کوچ کر گئے۔ اپنی زندگی میں ہی دو پیاری ازدواج مطہرات کی بھی وفات ہوگئی۔ بعض روایات کے مطابق آپ کو اپنے ۶؍ بچوںکے جنازہ کو لحد میں اتارنےکی بھی نوبت آئی۔ ان میں سے ۳؍ بیٹےکم سنی میں ہی وفات پاگئے تھے۔ بڑی بیٹی حضرت زینب کو ان کے سسرال والوں نے انتہائی ظالمانہ طریق پراذیتیں دیںکہ آپؓ کو نیزہ مارکر زمین پر گرا دیا۔آپ حاملہ تھیں، حمل ساقط ہوگیا۔اسی طرح نبی اکرم ﷺکی زندگی میںہی دو بیٹیاں مطلقہ ہوکر گھرواپس آگئی تھیں۔آپ کی زندگی میں عین جوانی میںہی یہ تینوںبیٹیاں یکے بعد دیگرے وفات پاگئیں۔ ان درد مندانہ واقعات کےسننے سے ہی ہرسخت سے سخت انسان کا دل بھی کانپ اٹھےگااوروہ مایوسی کا شکار ہوجائے گا۔ لیکن ہمارےپیارے آقا نےان سارے واقعات کے باوجود اپنے مولیٰ کو ہمیشہ رحمٰن یعنی بے انتہا رحم کرنے والا اور رحیم یعنی بار بار رحم کرنے ولا ہی کہہ کر پکارا ہے۔
یہ قصص ہی عجیب و غریب ہیں!
حضرت مصلح موعودؓ فرماتے ہیں : مَیں جماعت کےدوستوں کو آگاہ کر دینا چاہتا ہوں کہ جماعت ایک نازک ترین دَور میں سے گزرنے والی ہے۔ اِس لیے اپنے ایمانوں کی فکر کرو۔کسی شخص کا یہ سمجھ لینا کہ دس پندرہ سال کی قربانی نے اُس کے ایمان کو محفوظ کر دیا ہے اُس کے نفس کا دھوکا ہے۔ جب تک عزرائیل ایمان والی جان لے کر نہیں جاتا، جب تک ایمان والی جان ایمان کی حالت میں ہی عزرائیل کے ہاتھ میں نہیں چلی جاتی اُس وقت تک ہم کسی کو محفوظ نہیں کہہ سکتے خواہ وہ شخص کتنی بڑی قربانیاں کر چکا ہو۔ اگر وہ اس مرحلہ میں پیچھے رہ گیا تو اُس کی ساری قربانیاں باطل ہو جائیں گی اور وہ سب سے زیادہ ذلیل انسان ہو گا۔ کیونکہ چھت پر چڑھ کر گرنے والا انسان دوسروں سے زیادہ ذلت کا مستحق ہوتاہے۔ (الفضل ۶؍ستمبر ۱۹۴۵ء)
آخر میں حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایّد ہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی ایک نصیحت پر میں اپنی تقریر ختم کرتا ہوں۔ فرماتے ہیں :ایک بہت بڑی تعداد اللہ کے فضل سے خلافت سے وفا اور اخلاص کا تعلق رکھتی ہے۔لیکن یاد رکھیں یہ ریزولیوشنز، یہ خط، یہ وفاؤں کے دعوے تب سچے سمجھے جائیں گے…جب آپ ان دعووں کو اپنی زندگیوں کا حصہ بنا لیں۔یہ کہ وقتی جوش کے تحت نعرہ لگا لیا اور جب مستقل قربانیوں کا وقت آئے…تو سامنے سو سو مسائل کے پہاڑ کھڑے ہو جائیں۔پس اگر یہ دعویٰ کیا ہے کہ آپ کو خدا تعالیٰ کی خاطر خلافت سے محبت ہے تو پھر… خلیفۂ وقت کی طرف سے تقویٰ پر قائم رہنے کی جو تلقین کی جاتی ہے…اس پر عمل کریں…تو پھر تمہاری کامیابیاں ہیں۔ ورنہ پھر کھوکھلے دعوے ہیں کہ ہم یہ کر دیں گے اور ہم وہ کر دیں گےہم آگے بھی لڑیں گے اور پیچھے بھی لڑیں گے۔ (خطبہ جمعہ فرمودہ یکم جولائی ۲۰۰۵ء)
خلافت کے سلطان نصیر بننےکےمتمنی مجھ سے اور آپ میں سے ہرایک سےجو اس دعاکے وردکوحرزجاں بناتاہے؛
اللہ ہمیشہ یہ خلافت رہے قائم
احمدؑ کی جماعت میں یہ نعمت رہے قائم
ہاں ہاں ہم میں سے ہر ایک سے خلیفۃ المسیح کچھ یوں مخاطب ہیں :
اے میری الفت کے طالب!
یہ میرے دل کا نقشہ ہے
اب اپنے نفس کو دیکھ لے تُو
وہ ان باتوں میں کیسا ہے
وَآخِرُ دَعْوَانَا أَنِ الْحَمْدُ لِلّٰهِ رَبِّ الْعَالَمِيْنَ