خیال جس کا عبادت ہے میری نظروں میں
میں ایک قامتِ زیبا کے خواب دیکھتا ہوں
اوراس کے عشق میں عالم خراب دیکھتا ہوں
ہے چاندنی سی منور جبین ناز اس کی
وہ مسکراتا سا چہرہ گلاب دیکھتا ہوں
خیال جس کا عبادت ہے میری نظروں میں
وجود اس کا مجسم ثواب دیکھتا ہوں
نہیں ہے بادہ و جام و سبو کی کچھ حاجت
تری نگاہ کو پیارے شراب دیکھتا ہوں
دکھا کے حُسنِ ازل جو بنادے دیوانہ
اک ایسی روئے منور پہ تاب دیکھتا ہوں
جو دل کے تاروں کو چُھو لے وہ ساز ربانی
عجب سروں سے مزیّن رُباب دیکھتا ہوں
ہے آسمان سے اُترا ہر ایک لفظ اس کا
پہنچ رہا ہے جو گھر گھر خطاب دیکھتا ہوں
ہر اک قدم ہے ترقی کی سمت اس کا رواں
حسد سے دشمنِ حق کو کباب دیکھتا ہوں
ہزار فتنہ اُٹھائیں وہ لاکھ چڑھ دوڑیں
مخالفوں کی یہ خوشیاں سراب دیکھتا ہوں
انہیں ہے طاقت و کثرت پہ اپنی ناز بہت
میں اس کی اور فقط اس کی جناب دیکھتا ہوں
دہک رہے ہیں جو ہر سمت نفرتوں کے الاؤ
جو تم کہو میں یہ اُس کا عتاب دیکھتا ہوں
(تنویر احمد ناصر ۔ قادیان)