خلاصہ خطبہ جمعہ

جنگ اُحدمیں صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم کی بہادری اور جاں نثاری کا تذکرہ نیز مسلمانوں کو امّتِ واحدہ بننےکی تلقین:خلاصہ خطبہ جمعہ فرمودہ ۱۹؍جنوری۲۰۲۴ء

٭… جنگ ا ُحد میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی شہادت کی خبر پر مدینہ کے مسلمان میدان جنگ پہنچےاوراللہ کا نام لے کر دشمن کی صفوں میں گھس گئے

٭…حضرت طلحہ بن عبید اللہؓ  آپؐ کو اپنے کاندھوں پر بٹھا کر چٹان کے اوپر لے گئے۔آپؐ نے اُسی وقت فرمایا کہ ان پر جنت واجب ہوگئی

٭… آپؐ نے فرمایا کہ وہ قوم کیسے کامیاب ہوسکتی ہے جس نے اپنے نبی کو زخمی کیااور اس کا رباعی دانت توڑڈالاجبکہ وہ اُنہیں اللہ تعالیٰ کی طرف بُلاتا ہے

٭…فلسطین کے مظلومین کے لیے دعا کی مکرّر تحریک

٭… حضرت مصلح موعود ؓکے نواسے سیّدمولوداحمد صاحب اور آکمید اگ محمد صاحب صدر جماعت مہدی آباد برکینا فاسو کا ذکر خیر اور نمازہ جنازہ غائب

خلاصہ خطبہ جمعہ سیّدنا امیر المومنین حضرت مرزا مسرور احمدخلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ ۱۹؍جنوری۲۰۲۴ء بمطابق ۱۹؍ صلح ۱۴۰۳؍ہجری شمسی بمقام مسجد مبارک،اسلام آباد،ٹلفورڈ(سرے)، یوکے

اميرالمومنين حضرت خليفةالمسيح الخامس ايدہ اللہ تعاليٰ بنصرہ العزيز نے مورخہ ۱۹؍جنوری ۲۰۲۴ء کو مسجد مبارک، اسلام آباد، ٹلفورڈ، يوکے ميں خطبہ جمعہ ارشاد فرمايا جو مسلم ٹيلي وژن احمديہ کے توسّط سے پوري دنيا ميں نشرکيا گيا۔جمعہ کي اذان دينےکي سعادت مولانا فیروز عالم صاحب کے حصے ميں آئي۔

تشہد، تعوذ اور سورۃ الفاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا :جنگ احد کےضمن میں مزید بیان کروں گا۔ جب ابن قمئہ نے یہ سمجھا کہ اُس نےآنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو شہید کردیا ہے اور اُس نے منادی کر دی کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم شہید ہو گئے ہیں اور یہ بھی کہا جاتا ہے کہ منادی کرنے والا شیطان تھا جوجُعَیل بن سُراقہ کی شکل میں تھا۔اس بارے میں کئی قول ہیں کہ اعلان کس نے کیا تھا۔

حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ نے سیرت خاتم النبیینؐ میں لکھا ہے کہ اس وقت مسلمان تین حصوں میں منقسم تھے۔ایک گروہ وہ تھا جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی شہادت کی خبر سن کر میدان سے بھاگ گیا تھا ان میں حضرت عثمان بن عفان ؓبھی شامل تھے مگرقرآن شریف میں ذکر آتا ہے کہ اُس وقت کے خاص حالات اور لوگوں کے دلی ایمان اور اخلاص کو مد نظر رکھتے ہوئے اللہ تعالیٰ نے اُنہیں معاف فرما دیا۔ ان لوگوں میں سے بعض مدینہ تک جا پہنچےجس کی وجہ سے وہاں بھی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خیالی شہادت اور لشکر اسلام کی ہزیمت کی خبر پہنچ گئی اورتمام شہر میں ایک کہرام مچ گیا۔مسلمان مرد عورتیں بچے بوڑھے اُحد کی طرف روانہ ہوئے اوربعض دوڑتے ہوئے میدان جنگ میں پہنچے اور اللہ کا نام لے کر دشمن کی صفوں میں گھس گئے۔دوسرے گروہ میں وہ لوگ تھے جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی شہادت کی خبر سن کر لڑنے کو بیکار سمجھتے تھے اور ایک طرف ہٹ کر سَرنِگوں ہو کر بیٹھ گئے تھے۔تیسرا گروہ وہ تھا جو برابر لڑ رہا تھا۔ان میں سے کچھ تو وہ لوگ تھے جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اِردگِردجمع تھے اور بے نظیر جاںنثاری کے جوہر دکھا رہے تھے۔

لوگوں کو جُوں جُوں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے زندہ موجود ہونے کا پتا لگتاجاتا تھا دیوانوں کی طرح لڑتے بھڑتے آپؐ کے گِرد جمع ہوتے جاتے تھے۔

جان نثاروں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کےجسم مبارک کو اپنے بدنوں سے چھپا لیا مگر پھر بھی جب کبھی حملہ کی رَو اُٹھتی تو یہ چند گنتی کے آدمی اِدھراُدھر دھکیل دیے جاتے تھے اور ایسی حالت میں بعض اوقات آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم قریباً اکیلے ہی رہ جاتے تھے۔ کسی ایسے ہی موقع پر حضرت سعد بن ابی وقاصؓ کے مشرک بھائی عتبہ بن ابی وقاص کا ایک پتھرآپؐ کے چہرہ مبارک پر لگا جس سے آپؐ کا ایک دانت ٹوٹ گیا اور ہونٹ بھی زخمی ہوا۔ ایک اور پتھر جو عبداللہ بن شہاب نے پھینکا تھا اُس نے آپؐ کی پیشانی کو زخمی کیا اور تھوڑی دیر کے بعد تیسرا پتھر جوابن قمئہ نے پھینکا تھا آپؐ کے رخسار مبارک پر آ کر لگا جس سے آپؐ کے مغفریعنی خود کی دو کڑیاں آپؐ کی رخسار میں چبھ کر رہ گئیں۔

سعد بن ابی وقاصؓ کو اپنے بھائی عتبہ کے اس فعل پر اس قدر غصہ تھا کہ وہ کہا کرتے تھے کہ مجھے کبھی کسی دشمن کے قتل کے لیے اتنا جوش نہیں آیا جتنا مجھے اُحد کے دن عتبہ کے قتل کا جوش تھا۔

حضرت مصلح موعودؓ دوسری جنگ عظیم کے وقت فرماتے ہیں کہ اگر انگریزقوم سچے دل سے توحید پر قائم ہوکرمجھ سے دعا کی درخواست کریں تو اسے فتح حاصل ہوگی۔ یہ خدا تعالیٰ کی پیشگوئیوں، اُس کے کلام اور میری رویاؤں کہ عین مطابق ہے۔ حضرت مسیح موعودعلیہ السلام نے اس قوم کے لیے بہت دعائیں کی ہیں مگر ان قوموں نے خدا تعالیٰ کے تخت پر ایک بندے کو بٹھایا ہوا ہے اس لیے خدا تعالیٰ ان کو ابتلاؤں میں ڈال رہا ہے یعنی حضرت عیسیٰؑ  کو خدا کا بیٹا بنایا ہوا ہے۔جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کےلیےبھی یہی قانون تھا کہ خدا تعالیٰ دعا قبول کرنے کےلیے تیار ہو اور کسی نشان کے ذریعہ آپؐ کی عزت قائم کرنا چاہے تو وہ ضرور قبول کر لیتا ہے تو میرے لیےیا کسی اور کےلیےاس کے خلاف کیونکر کر سکتا ہے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو پکڑنے کےلیے ایران کے بادشاہ نے ارادہ کیا تھا مگر

ابھی صرف یمن کے گورنر کے آدمی پیغام لے کر پہنچے تھے کہ آپؐ نے اُن سے فرمایا کہ جاؤ اپنے آقا سے کہہ دو کہ ہم نہیں آتے تمہارے خدا کو ہمارے خدا نے مار دیا۔

اللہ تعالیٰ نے اُس بادشاہ کے لڑکے کو تحریک کی اور اُس نے اپنے باپ کو مار دیا۔ مگر اُحد کی جنگ میں آپؐ زخمی ہو گئے اورصحابہؓ نے خیال کرلیا کہ آپؐ شہید ہوگئے۔اب کوئی کہے کہ اللہ تعالیٰ نے آپؐ کی خاطر ایران کے بادشاہ کو اتنی دُور مَروا دیا تو اُس نے اُحد کے میدان میں ایسا کیوں ہونے دیا۔یہ اعتراض درست نہیں کیونکہ یہ اللہ تعالیٰ کی مصلحت ہوتی ہے کہ بعض مواقع پر وہ تھوڑی سی بات پہ پکڑ لیتا ہے اور بعض دفعہ کسی مصلحت کےتحت ڈھیل دیتا ہے تا انسان کی بے بسی اور بے سروسامانی ظاہر ہو۔

آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو زندہ سلامت موجود پانے پر مختلف روایات ہیں۔

حضرت ابو عبیدہؓ کہتے ہیں کہ میں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کوآپؐ کی آنکھوں کی وجہ سے پہچانا جو روشن اور منور نظر آ رہی تھی۔

مسلمانوں کو جیسے جیسے اطلاع ملتی گئی سب آپؐ کی طرف آئے۔جب سب مسلمانوں نےآپؐ کو دیکھ کر پہچان لیا تو وہ ا ٓپؐ کے گِردپروانوں کی طرح جمع ہو گئے۔حضرت مرزا بشیر احمد صاحب ؓ نے لکھا ہے کہ جب قریش ذرا پیچھے ہٹ گئے اور جو مسلمان میدان میں موجود تھے وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو پہچان کرآپؐ کے گِرد جمع ہو گئے توآپؐ اپنے ان صحابہؓ  کی جمعیت میں آہستہ آہستہ پہاڑ کے اوپر چڑھ کر ایک محفوظ درّہ میں پہنچ گئے۔راستے میں مکہ کے ایک رئیس ابی بن خلف کی نظر آپؐ پر پڑی اور وہ بغض و عداوت میں اندھا ہو کر یہ الفاظ پکارتے ہوئے آپؐ کی طرف بھاگا کہ لَا نَجَوْتُ اِنْ نَجَا۔اگر محمد صلی اللہ علیہ وسلم بچ کے نکل گیا تو گویا میں تو نہ بچا۔ صحابہ نے اُسے روکنا چاہا مگر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔ اسے چھوڑ دو اور میرے قریب آنےدو۔اور جب وہ آپؐ پر حملہ کرنے کے خیال سے

آپؐ کے قریب پہنچا توآپؐ نے ایک نیزہ لے کر اُس پر ایک وار کیا جس سے وہ چکر کھا کر زمین پر گِرا اور پھر اُٹھ کر چیختا چلاتا ہوا واپس بھاگ گیا اورگو بظاہر زخم زیادہ نہیں تھا مگر مکہ پہنچنے سے پہلے وہ پیوند خاک ہوگیا۔

جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم درّہ میں پہنچ گئے تو قریش کے ایک دستے نے خالد بن ولید کی کمان میں پہاڑپر چڑھ کر حملہ کرنا چاہا لیکن آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم سے حضرت عمرؓ نے چند مہاجرین کو ساتھ لے کر اس کا مقابلہ کیا اور اسے پسپاکر دیا۔

ایک روایت میں آتا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے چٹان کے اوپر جانے کا ارادہ کیا تو سَر مبارک کے زخم سے خون نکل جانے اور کمزوری کی وجہ سے طاقت نہ تھی۔یہ دیکھ کرحضرت طلحہ بن عبید اللہؓ  آپؐ کو اپنے کاندھوں پر بٹھا کر چٹان کے اوپر لے گئے۔آپؐ نے اُسی وقت فرمایا کہ ان پر جنت واجب ہوگئی۔

حضرت عائشہؓ  فرماتی ہیں کہ حضرت ابوبکرؓ جب یوم اُحد کا تذکرہ کرتے تو فرماتے وہ دن سارے کا سارا طلحہ ؓکا تھا۔

آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے رخسار مبارک میں خَود کی دو کڑیاں دھنس چکی تھیں جنہیں حضرت ابو عبیدہ بن جراح ؓنے ناپسند کیا کہ ان کڑیوں کو ہاتھ سے کھینچ کر نکالیں تاکہ ا ٓپؐ کو کوئی تکلیف نہ پہنچے۔لہٰذا اُنہوں نے ان کڑیوں کو اپنے منہ سے نکالنے کی کوشش کی اور اس میں ان کے سامنے کی جگہ کے دو دانت ٹوٹ گئے لیکن وہ سامنے کے ٹوٹے ہوئے دانتوں والے لوگوں میں سب سے زیادہ خوبصورت تھے۔

غزوہ اُحد میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو جو زخم لگے اس حوالے سے بخاری کی روایت ہے کہ حضرت سہل بن سعدؓ نے کہا کہ اللہ کی قسم میں خوب جانتا ہوں کہ حضرت فاطمہؓ زخم دھو رہی تھیں اور حضرت علیؓ ڈھال میں سے پانی ڈال رہے تھے۔حضرت فاطمہؓ نے دیکھا کہ پانی خون کو اور نکال رہا ہے تو انہوں نے بوری کا ایک ٹکڑا جلاکراُس کے ساتھ چپکا دیا جس سے خون رک گیا۔آپؐ نے فرمایا کہ وہ قوم کیسے کامیاب ہوسکتی ہے جس نے اپنے نبی کو زخمی کیااور اس کا رباعی دانت توڑڈالاجبکہ وہ اُنہیں اللہ تعالیٰ کی طرف بُلاتا ہے۔ انشاءاللہ باقی آئندہ

حضور انور نےفلسطین کے لیے دعا کی تحریک کرتے ہوئے فرمایا کہ اب مسلمان ملکوں کا یہ حال ہو گیا ہےکہ وہ بجائے اس کے کہ اکٹھے ہو کے فلسطین کو بچانے کی فکر کریں خود مسلمانوں نے لڑنا شروع کر دیا ہے

اور پاکستان اور ایران میں بھی چپقلش شروع ہو گئی ہے۔ایک دوسرے پر بم بھی مارے انہوں نے۔یہ خطرناک صورتحال پیدا ہو رہی ہے۔ اللہ تعالیٰ ہی مسلمان ملکوں کوعقل اور سمجھ عطا فرمائے۔ان کےلیے بھی دعا کریں کہ

اللہ تعالیٰ حقیقت میں ان کو اپنا مقصد سمجھنے کی توفیق دے اور ایک امت واحدہ بننے والے ہوں۔

حضور انور نے آخر میں حضرت مصلح موعود ؓاور حضرت سیّدہ اُمّ طاہر صاحبہ کے نواسے اور صاحبزادی امۃ الحکیم صاحبہ اور سیّد داؤد مظفر شاہ صاحب کے بیٹے سیّدمولود احمد صاحب اور آکمید اگ محمد صاحب صدر جماعت مہدی آباد اور ڈوری ریجن برکینا فاسو کی وفات پر ان کا ذکر خیر اور جماعتی خدمات کا تذکرہ فرمایا اوربعد نماز جمعہ ان کے نماز جنازہ غائب پڑھانے کا اعلان بھی فرمایا۔

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button