مکتوب نیوزی لینڈ
نیوزی لینڈ میں شاذ و نادر ہی کوئی ایسی خبر آتی ہے جو انٹرنیشنل لیول پر دلچسپی کا باعث بنتی ہے۔ پھر بھی کچھ خبریں ایسی ہوتی ہیں جو نیوزی لینڈ میں تو اہم ہوتی ہی ہیں اور جنہیں دنیا کی اکثریت بھی دلچسپی سے پڑھتی ہے۔ ایسی چند خبریں اپنے قارئین کی خدمت میں پیش کرتا ہوں امید ہے آپ کی معلومات میں اضافہ کا باعث بنیں گی۔
ڈیم جیسیندہ آرڈرن
( Dam Jacinda Ardern)
نیوزی لینڈ کی سابق وزیر اعظم جیسنڈا آرڈرن نے نارتھ آئی لینڈ میں منعقد ہونے والی ایک چھوٹی سی نجی تقریب میں اپنے پرانے ساتھی کلارک گیفورڈ (Clarke Gayford)سے شادی کر لی ہے۔
جوڑے نے ۲۰۲۲ء میں شادی کے بندھن میں بندھنے کا ارادہ کیا تھا لیکن محترمہ آرڈرن کی حکومت کی جانب سے ملک پر عائد سخت کووڈ پابندیوں کے دوران اسے منسوخ کر دیا گیا۔
محترمہ آرڈرن نے درجنوں مہمانوں سے پانچ منٹ کی شادی کی تقریر کی۔یہ جوڑا ایک دہائی سے ایک ساتھ ہے اور ان کی ایک پانچ سالہ بیٹی نیوی (Neve)بھی ہے۔
شادی دارالحکومت ویلنگٹن سے تقریباً ۳۱۰؍کلومیٹر (۱۹۰ میل) شمال میں شمالی جزیرے کے مشرقی ساحل پر کریگی رینج وائنری میں ہاکس بے (Craggy Range Winery in Hawke‘s Bay) میں ہوئی۔
۴۳؍ سالہ محترمہ آرڈرن نے پانچ سال سے زائد عرصے ۔ تک نیوزی لینڈ کی وزیر اعظم کے طور پر خدمات انجام دیں۔ موصوفہ جنوری ۲۰۲۳ء میں عوامی عہدے سے یہ کہتے ہوئے مستعفی ہوئیں کہ اب مجھ میں اس ذمہ داری کو اٹھانے کی مزید ہمت نہیں ہے۔
انہوں نے اپنے طرز قیادت کی وجہ سے بین الاقوامی سطح پر ایک خاص پہچان حاصل کی، خاص طور پر ۲۰۱۹ء میں کرائسٹ چرچ میں دو مساجد میں ہونے والی ہلاکت خیز فائرنگ کے معاملے کو جس انداز سے انہوں نے انجام تک پہنچایا اسے اکثر دنیا نے سراہا۔
تورانگا وائی وائی میں ماؤری بادشاہ کینگی ٹوہٹییا( Kiingi Tuuheitia) کی کال پر عظیم احتجاجی اجلاس
ماؤری نیوزی لینڈ کے مقامی لوگ ہیں جو ایک ہزار سال سے زیادہ عرصے سے نیوزی لینڈ یا آوتیا رووا (Aotearoa) میں رہ رہے ہیں۔ اکتوبر ۲۰۲۳ءمیں الیکشن کے بعد نئی مخلوط حکومت نے ماؤری زبان اور سو سالہ پرانے ماؤری معاہدہ میں تبدیلیاں کرنے کا فیصلہ کیا۔ اس پر کچھ سرکاری محکموں نے ماؤری زبان کی جگہ اپنے انگریزی ناموں کو واپس لکھنے کا انتخاب کیا۔ ماؤری قوم کے لوگ ان تبدیلیوں کی وجہ سے بہت ناراض ہو گئے ہیں۔کیونکہ انہوں نے سالہا سال کی کوششوں کے بعد ماؤری زبان کو منظور کروایا تھا۔ انہوں نے اپنے بادشاہ سے اس غیر ضروری اور ناجائز تبدیلیوں کے خلاف پورے ملک کے ماؤری قبائل کی میٹنگ بلانے کی درخواست کی۔
۲۰؍جنوری کو ماؤری بادشاہ کینگی ٹوہٹییا کی طرف سے ایک بہت بڑی میٹنگ بلائی گئی جس میں دس ہزار سے زائد لوگوں نے شرکت کی۔ یہ میٹنگ موجودہ حکومت کی پالیسیوں پر ماؤری تحفظات کا اظہار کرنے کے لیے بلائی گئی تھی۔یہ بہت اہم اور طاقت کا اظہار کرنے والی تقریب تھی۔ اس میں ماؤری چیفس نے ماؤری زبان ٹی رییو، سو سالہ وائیتانگی معاہدہ صحت اور ماحولیات (Te Reo , Te Tiriti o Waitangi, Health and Climate change) پر حکومت کی مداخلت پر اظہار خیال کیا اور حکومت کو باز رہنے کی تلقین کی۔ ہزاروں افراد ٹورنگاوائی مارائے پر ایک بڑے پیمانے پر اجلاس کے لیے آئے جس کے لیے میزبان کو فورکورٹ کے تین داخلی راستے کھولنے کی ضرورت پڑی۔
ہر داخلی راستے پر لوگوں کا استقبال ماؤری طریق کے مطابق ہوا۔اس عمل میں لوگوں کو جمع ہونے میں تقریباً آدھا گھنٹہ مزید لگا۔بہت سے لوگوں کو بڑی اسکرینوں پر ماؤری چیفس کی تقاریر دیکھنے کے لیے باہر ایک اضافی مارکی میں بٹھایا گیا۔
Kiingi Tuuheitiaنے ہجوم سے خطاب کیا۔ بادشاہ نے کہا، ’’ یہاں آکر، ہم نے ایک مضبوط پیغام بھیجا ہے اور اسے پوری دنیا میں سنا گیا ہے،‘‘ بادشاہ نے کہا’’اب ہمارا وقت ہے۔لوگ ہمیں دیکھ رہے ہیں،‘‘ بادشاہ نے کہا، اسے پوری دنیا سے قومی اجلاس (ہوئی) کے بارے میں کالیں آئی تھیں۔ ’’ معاہدہ لکھا ہوا ہے۔ بس یہی ہے،‘‘ انہوں نے حکومت کے معاہدے کے اصولوں کے بل کے حوالے سے کہا کہ ’’میں جو چاہتا ہوں وہ یہ ہے کہ معاہدہ قانون میں شامل ہو۔ اس میں کوئی تبدیلی نہ ہو۔معاہدے کو سمجھنے کے لیے عدالتوں کی طرف مت دیکھو، مارائے کو دیکھو۔‘‘
اس نے نوجوانوں کی آواز کا حوالہ دیا۔ ’’آپ کی آواز اہمیت رکھتی ہے۔ سب سے بہتر احتجاج جو ہم ابھی کر سکتے ہیں وہ ہے ماؤری بنیں۔ ‘‘ہمیں اس دن کو اتحاد قائم کرنے کے لیے استعمال کرنا چاہیے۔ ہمیں پہلے متحد ہونے کی ضرورت ہے پھر ہم فیصلہ کریں گے کہ کیا کرنا ہے۔ ’’تقاریر جاری ہیں، ہم ختم نہیں ہوئے،‘‘ کینگی توہیتیا نے رتنا قبیلہ اور ویتنگی معاہدہ کے بارے میں بات کرتے ہوئے کہا کہ شاہی انتظامیہ کو نائی تاہو (قبیلہ) کی طرف جانا چاہیے اور مشرقی علاقے کا رخ کرنا چاہیے۔ سامعین نے اسےبہت سراہا۔ ( قارئین کے علم کے لیے عرض ہے کہ نائی تاہو قبیلہ بہت بڑا، طاقتور اور امیر قبیلہ ہے۔ حالات کی نزاکت کے باعث اس موقع پر نائی تاہو قبیلے نے بادشاہ کے ساتھ مل کر احتجاج میں حصہ لیا۔ )
’’ہمارے حل کے لیے اپنے لوگوں کے لیے تبدیلیاں لانے کی ضرورت ہے، نوکریاں، رہائش، تعلیم … یہ مسائل سیاست سے بڑے ہیں۔ ابھی اور بھی میٹنگ کرنا ہے۔‘‘ ’’آج صرف پہلا دن ہے، امید پر قائم رہو، ہم پر یقین رکھو … جیسا کہ ہم آگے بڑھنے کا راستہ تلاش کرتے ہیں۔‘‘
پینی ہنرے (Henare) سابق وزیر دفاع اور لیبر پارٹی کے ایم پی نے کہا۔ حکومت کو ماؤری اپوزیشن کرنے پر مزید واضح مظاہروں کی توقع رکھنی چاہیے۔
سابق تے پتی ماؤری صدر (Te Pāti Māori president) توکورورینگی مورگن (Tukoroirangi Morgan) نے ریڈیو نیوزی لینڈ کو بتایا۔’’ ہمارے لوگ اس حکومت کو یہ پیغام بھیجنے کی کوشش میں اپنے قافلے میں جمع ہوں گے کہ نسل پرستانہ پالیسیاں مکمل طور پر ناقابل قبول ہیں، اور ان کی مکمل اور مکمل طور پر تردید اور مخالفت کی جانی چاہیے۔ احترام، مساوات اور انصاف جیسی قدریں ہیں. جو ہم کرسٹوفر لکسن (وزیر اعظم نیوزی لینڈ) سے کہہ رہے ہیں وہ یہ ہے کہ، ہم ماؤری کبھی بھی بزدلی نہیں دکھائیں گے۔ ہم یہاں ہزاروں کی تعداد میں ہیں۔‘‘
مسٹر مورگن نے کہا کہ یہ ایسی میٹنگ نہیں تھی جس میں وزیر اعظم کو شرکت کرنےکی اجازت ملتی،( کچھ ہفتے پہلے وزیر اعظم کرسٹوفر لکسن نے بادشاہ کی بلائی ہوئی میٹنگ میں شامل ہونے کی اجازت مانگی تھی جسے بادشاہ نے نامنظور کر دیا)۔
اس اجلاس میں حکومت کی طرف سے تین سرکردہ نمائندوں نے شرکت کی۔ حکومت کے ان تین نمائندوں کے لیے یہ تاریخی اجلاس (ہوئی) کوئی خوش آئند ماحول نہیں تھا جنہوں نے شرکت کی وہ مندرجہ ذیل شخصیات تھیں : ماؤری ڈیویلپمنٹ منسٹر تاما پوٹاکا(Tama Potaka,)، ماؤری امور کی سلیکٹ کمیٹی کے چیئرمین ڈین بیڈوئس (Dan Bidois) اور کمیٹی کی نائب صدر خاتون ریما نکھلے(Rima Nakhle)۔
تینوں قومی ممبران پارلیمنٹ کو قبیلوں(iwi) کے راہنماؤں اور مقامی ماؤری حقوق کے ماہرین کی بات سننی پڑی۔ ارائے ( وہرینوئی )کے سامنے صحن میں دعویٰ کیا کہ مخلوط حکومت ’’سفید بالادستی کی عالمی تحریک کا حصہ تھی جبکہ کچھ نے احتجاج اور یہاں تک کہ علیحدگی کی دھمکی بھی دی۔
ماؤری ڈیویلپمنٹ منسٹر تاما پوٹاکا (Tama Potaka) نے کہا کہ وہ سفید فام بالادستی کے دعوے سے حیران ہیں اور ان کا خیال ہے کہ ’’اس میٹنگ میں اتحاد کو قائم کرنے پر مکمل توجہ تھی۔‘‘
۲۰؍جنوری کی میٹنگ (Hui) ایک منفرد میٹنگ تھی، جسے ماؤری شاہی انتظامیہ (Kiingitanga) نے بلایا تھا۔ تقریباً ۲۰ سالوں میں تورانگا وائی وائی مارائے (Tūrangawaewae Marae) میں یہ سب سے بڑا ہجوم تھا۔ بادشاہ کے خطاب سے پہلے، سامعین نے قومی شناخت، معاہدہ وائیتانگی، ماؤری خودمختاری اور نوجوانوں کی آواز کو بڑھانے سمیت موضوعات پر کئی تقاریر سنیں اور مختلف ورکشاپ میں شرکت کی۔
بادشاہ کنگی توہیتیا(Kiingi Tūheitia)نے ہجوم سے کہا کہ انہیں آج کی میٹنگ اور اس میں ہونے والی تقاریر (kōrero) پر فخر ہونا چاہیے۔ اب اگلی میٹنگ ( دوسرے بڑے ماؤری قبیلہ) رتنا ا ور ویتنگی (Waitangi) میں ہو گی۔
ماؤری انتظامیہ نے اعلان کیا ہے کہ ایسے کئی احتجاج اس وقت تک جاری رہیں گے جب تک کہ حکومت ماؤری حقوق کے خلاف قدم اٹھانے سے باز نہیں آ جاتی۔ اور اس کے لیے ہم ہر قسم کی قربانی دینے کے لیے تیار ہیں۔