نماز باجماعت اور اس میں صف بندی کی حکمت
اسلام کی مثال ہم یوں دے سکتے ہیں کہ جیسے باپ اپنے حقوقِ ابوت کو چاہتا ہے اسی طرح وہ چاہتا ہے کہ اولاد میں ایک دوسرے کے ساتھ ہمدردی ہو۔ وہ نہیں چاہتا کہ ایک دوسرے کو مارے۔ اسلام بھی جہاں یہ چاہتا ہے کہ خدا تعالیٰ کا کوئی شریک نہ ہو وہاں اس کا یہ بھی منشاء ہے کہ نوع انسان میں مودّت اور وحدت ہو۔
نماز میں جو جماعت کا زیادہ ثواب رکھا ہے اس میں یہی غرض ہے کہ وحدت پیدا ہوتی ہے۔ اور پھر اس وحدت کو عملی رنگ میں لانے کی یہاں تک ہدایت اور تاکید ہے کہ باہم پاؤں بھی مساوی ہوں اور صف سیدھی ہو اور ایک دوسرے سے ملے ہوئے ہوں۔ اس سے مطلب یہ ہے کہ گویا ایک ہی انسان کا حکم رکھیں اور ایک کے انوار دوسرے میں سرایت کر سکیں وہ تمیز جس سے خودی اور خود غرضی پیدا ہوتی ہے نہ رہے۔یہ خوب یاد رکھو کہ انسان میں یہ قوت ہے کہ وہ دوسرے کے انوار کو جذب کرتا ہے۔ پھر اسی وحدت کے لئے حکم ہے کہ روزانہ نمازیں محلّہ کی مسجد میں اور ہفتہ کے بعد شہر کی مسجد میں اور پھر سال کے بعد عیدگاہ میں جمع ہوں اور کُل زمین کے مسلمان سال میں ایک مرتبہ بیت اللہ میں اکٹھے ہوں۔ ان تمام احکام کی غرض وہی وحدت ہے۔
(لیکچر لدھیانہ، روحانی خزائن جلد ۲۰صفحہ۲۸۱-۲۸۲)