اسلامی جمہوریہ پاکستان میں احمدیوں پر ہونے والے دردناک مظالم کی الَم انگیز داستان (ستمبر۲۰۲۳ء میں سامنےآنے والے چند تکلیف دہ واقعات سے انتخاب)
پولیس نے احمدیہ مسجد کے مینارے مسمار کر دیے
۱۶۸مراد۔ضلع بہاولنگر۔ستمبر۲۰۲۳ء: جماعت احمدیہ کے خلاف نفرت پر مبنی مہم یہاں عرصہ دراز سے جاری ہے اور روز بروز اس میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔اس گاؤں میں احمدیہ مسجد کے مینارے گرانے کی دھمکیاں بھی دی جارہی تھیں۔۶؍ستمبر کو رات ۱۱بجے مسجد پر چند شر پسندوں نے حملہ کر دیا اور مسجد کے مینارے مسمار کرنے کی کوشش کی۔ اس واقعہ سے پولیس کو آگاہ کیا گیا اور نامعلوم افرادکے خلاف ایف آئی آر درج کروائی گئی۔اس کے بعد ۱۵-۱۶؍ستمبر کی شب میونسپل کمیٹی کے ملازمین نے پولیس کی موجودگی میں میناروں کو مسمار کرنا شروع کردیا۔اس واقعہ کو ریکارڈ میں لانے کےلیے ون فائیو (15)پر کال بھی کی گئی۔پولیس نے گلیوں کی ناکہ بندی کر دی تا اس واقعہ کی کوئی ویڈیو نہ بنائی جا سکے۔
ضلع شیخوپورہ میں پولیس کی موجودگی میں احمدیہ مسجد کی بے حرمتی
ستمبر ۲۰۲۳ء: ۱۴؍ستمبر کو تحریک لبیک کے شر پسندوں نے پولیس کی موجودگی میں نارنگ منڈی ضلع شیخوپورہ میں موجود احمدیہ مسجد دارالذکر پر حملہ کر کے اس کے مینارے مسمار کر دیے۔ پولیس سے گفت و شنید کے بعد ان میناروں کو لوہے کی چادر سے ڈھانپ دیا گیا جبکہ مخالفین نے مسجد کے میناروں کو مسمار کرنے کےلیے پولیس کو درخواست دے رکھی تھی۔پولیس نے کوئی کارروائی کرنے کی بجائے خاموش تماشائی بننا زیادہ مناسب سمجھایہ مسجد ۱۹۴۲ء میں تعمیر ہوئی تھی۔ اور جماعت احمدیہ کے کارکنان نے پولیس کو بھی اس بات سے آگاہ کیا کہ یہ مسجد بدنام زمانہ آرڈیننس ۱۹۸۴ء سے بہت پہلے تعمیر کی گئی تھی۔ لیکن سب بے سود۔
بیداد پور ضلع شیخوپورہ میں احمدیہ مسجد کے مینارے مسمار
بیدادپور ورکاں۔ضلع شیخوپورہ۔۲۴؍ستمبر ۲۰۲۳ء: ۲۸؍اگست ۲۰۲۳ء کو ڈی پی او کے دفتر کے سامنے تحریک لبیک کےمذہبی شدت پسندوں کے احتجاج کے بعد پولیس خود ہی پانچ احمدیہ مساجد کی بے حرمتی کی مرتکب ہوچکی ہے۔ احتجاج میں دھمکی دی گئی تھی کہ اگر ۱۱؍ربیع الاوّل تک ضلع بھر کی احمدیہ مساجد کےمینارے مسمار نہ کیے گئے تو تحریک لبیک کے کارکن خود یہ کام کریں گے۔۲۴؍ستمبر کی شب پولیس نے احمدیہ مسجد بیدادپور ورکاں پر حملہ کرکے اس کے مینارے مسمار کر دیے۔حالانکہ یہ مسجد ۱۹۸۴ء کے بدنام زمانہ امتناع قادیانیت آرڈیننس سے بہت پہلے بنائی گئی تھی۔ باوجود اس کے کہ ہائی کورٹ کا فیصلہ موجود ہے لیکن پولیس تحریک لبیک سے خوف زدہ ہونے کی وجہ سے ایسے گھناؤنے کام کرنے پر مجبور ہے۔
پولیس نے مخالفین احمدیت کے ہاتھوں احمدیہ مسجد کے مینارے منہدم کروا دیے
نانو ڈوگر۔ضلع لاہور: شرق پور پولیس سٹیشن کے ایس ایچ اونے مقامی صدر جماعت کو فون کیا اور کہا کہ وہ ہنگامی طور پر ان سے ملنا چاہتا ہے۔ گھر آکے اس نے بتایا کہ اسے ہر صورت احمدیہ مسجد کے مینارے منہدم کرنے ہوں گے اس کے پاس اس کے سوا کوئی اَور چارا نہیں۔صدر جماعت نے اس کولاہور ہائی کورٹ کے فیصلے کے متعلق آگاہ کیا۔ اس پر اس نے کہا کہ اس نے یہ فیصلہ پڑھ رکھا ہے اور اس کے نزدیک اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ لہٰذا احمدی کسی بھی صورت اسلامی شعائر کا استعمال نہیں کر سکتے۔صدر جماعت نے کہا کہ وہ خود کوئی فیصلہ نہیں کر سکتے۔باقی احباب جماعت سے بھی مشورہ کرنا ہوگا۔ اس پر ایس ایچ او نے کہا کہ ان کے پاس صرف آدھا گھنٹہ ہے وہ سوچ بچار کر لیں۔اس کے پاس مزدور موجود ہیں اور وہ رات کی تاریکی میں ہی اس کام کو سرانجام دیں گے۔لیکن تھوڑی ہی دیر بعد ایس ایچ او تحریک لبیک کے شر پسندوں کے ساتھ مسجد کے صدر دروازے کے تالے توڑ کے مسجد میں گھس گیااور میناروں کو مسمار کرنے لگا۔ صدر جماعت نے اسے فون کرکے اسے وعدہ یاد دلایا۔لیکن اس نے نہایت بدتمیزی سے کہا کہ وہ سرکاری ملازمین سے یہ کام نہیں کروا سکتا۔ اس کے بعد تحریک لبیک کے یہ بدمعاش ختم نبوت اور تحریک لبیک زندہ باد کے نعرے لگاتے ہوئے وہاں سے رخصت ہو گئے۔
نامعلوم شرپسندوں نے احمدیہ مسجد کے محراب کو مسمار کر دیا
۵۵/۲ ایل۔اوکاڑہ۔۲۶؍ستمبر ۲۰۲۳ء: گاؤں میں مخالفین احمدیت نے احمدیہ مسجد سے محراب کو ہٹانے کا مطالبہ کیا۔ پولیس نے جماعت احمدیہ کے وفد کو بلایا اور اس مطالبے سے آگاہ کیا۔اس پر انہیں بتایا گیا کہ یہ مسجد تو پاکستان بننے سے بھی قبل تعمیر کی گئی تھی۔تاہم ۲۶؍ستمبر کی رات کچھ نامعلوم شرپسندوں نے مسجد پر حملہ کر کے اس کے محراب کو مسمار کردیا۔واضح یہ مسجد میناروں کے بغیر ہے۔
قصور میں نفرت انگیز احمدیت مخالف مہم
ستمبر ۲۰۲۳ء۔قصور: ایک لمبے عرصے سے قصور میں احمدیت مخالف مہم جاری ہے اور حالیہ دنوں میں اس میں کافی تیزی دیکھنے میں آئی ہے۔دھمکیاں،مقدمات،نعرے بازی اور دیواروں پر احمدیت مخالف تحریرات احمدیوں کی مخالفت پر انگیخت کرنے کا ایک ذریعہ ہیں۔
دیواروں پر نفرت انگیز تحریریں لکھنے کے جرم میں نامعلوم شر پسندوں کے خلاف مقدمہ بھی درج کروایا گیا ہے۔گوجرہ اوالی جھالر ضلع قصور میں ایک دیوار پر لکھا گیا کہ قادیانی بے دین ہیں۔پہلے قادیا نی اسلام میں داخل ہوں پھر اس دکان میں۔مقدمہ تو درج ہوگیا لیکن کوئی گرفتاری عمل میں نہیں آئی۔ اس مقدمے کے بعد تو مخالفت کا طوفان برپا ہوگیا ہے۔ سوشل میڈیا پر ان پولیس والوں کے خلاف بھی مہم چلائی جارہی ہے جنہوں نے مقدمہ درج کیا۔اس کے علاوہ اس مقدمے کے خلاف کوٹ رادھا کرشن بار کونسل نے ایک مذمتی قرارداد بھی منظور کی ہے۔قرارداد میں کہا گیا یہ مقدمہ مسلمانوں کے خلاف ایک سازش ہے اور اس سازش میں ملوث پولیس اہلکاروں کے خلاف بھی سخت کارروائی ہونی چاہیے۔
انتظامیہ کے زیر نگرانی احمدیہ مسجد کے مینارے منہدم کیے گئے
چک ۱۸۳ مراد۔ضلع بہاولپور۔۱۳؍ستمبر ۲۰۲۳ء: تحریک لبیک کے شرپسندوں نے اس گاؤں میں احمدیہ مسجد کے میناروں کے خلاف اُودھم مچا رکھا تھا۔ گذشتہ ایک ماہ سے وہ احمدیہ مسجد کے مینارے گرانے کے لیے سرگرم تھے۔ انہوں نے پولیس کو بھی درخواست دے رکھی تھی۔ چنانچہ اسسٹنٹ کمشنر اور ایس ایچ او نے جماعت احمدیہ کے وفد کو حاصل پور میں بلایا اور دباؤ ڈالا کہ احمدی خود ہی مسجد کے مینارے مسمار کر دیں۔ لیکن احمدیوں نے اس غیر قانونی مطالبے کو ماننے سے انکار کر دیا۔
۱۳؍ستمبر۲۰۲۳ء کو دوبارہ ڈی ایس پی نے احمدیہ وفد کو بلایا اور وہی مطالبہ دہرایا۔لیکن احمدیوں نے اس کو ماننے سے انکار کر دیا۔اس پر چوناوالہ ناکہ پر تعینات چار پولیس اہل کار گلی کی ناکہ بندی کر کے احمدیہ مسجد میں داخل ہو گئے اور بجلی اور کیمروں کو منقطع کر دیا۔اسی وقت دو غیر احمدی مسجد کی چھت پر چلے گئے اور پولیس کی موجودگی میں مسجد کے میناروں کو مسمار کر دیا۔
گجرات میں پولیس نے احمدیہ مسجد کی دیوار پر لکھے کلمے پر سیاہی پھیر دی
ضلع گجرات۔۲؍ستمبر۲۰۲۳ء: پہلے اس بات کی تفصیل گزر چکی ہے کہ کیسے چوکناوالی اور شادیوال میں پولیس نے احمدیہ مساجد میں لکھے ہوئے کلمہ پر سیاہی پھیری تھی۔بعدازاں ۲؍ستمبر کو ڈی سی او اور ڈی پی او نے جماعت احمدیہ کے وفد کو بلایا۔ وہاں پر ضلعی امن کمیٹی کے چار ارکان بھی موجود تھے۔ ڈی سی او نے احمدی وفد سے کہا کہ اسے چار مختلف مقامات کے متعلق درخواستیں موصول ہوئی ہیں۔ جن میں چوکناوالی،شادیوال،عالم گڑھ اور فتح پور شامل ہیں۔اس نے کہا کہ ان معاملات کو باہمی مشاورت سے ہی حل کر لینا چاہیے۔ امن کمیٹی کے ایک رکن نے کہا اس کو احمدی مساجد میں ہونے والے کسی بھی عمل سے کوئی مسئلہ نہیں ہے۔ اس پر احمدی وفد نے کہا کہ پولیس نے جو مساجد میں کلمہ پر سیاہی پھیری ہے اس سے ہمیں مسئلہ ہے۔ ڈی سی او نے کہا پولیس نے ایسا کچھ نہیں کیا۔ بلکہ احمدیوں نے خود ہی یہ کام کیا ہے۔ اس پر ا س کو باور کروایا گیا کہ یہ پولیس کا ہی کام ہے۔ڈی سی او نے کہا کہ اس کا کام صرف امن عامہ کا قیام ہے۔ یہ نشست بغیر کسی نتیجہ کے ختم ہو گئی۔لیکن رات گئے پولیس نے شادیوال مسجد میں لکھے کلمے کو ہتھوڑوں کی ضربوں سے توڑ دیا۔جس پر وہ پہلے ہی سیاہی پھیر چکے تھے۔
ملانوں کی گھناؤنی حرکت
کوٹلی۔آزاد جموں کشمیر۔۲۰؍ستمبر ۲۰۲۳ء: کوٹلی میں عدالتی احاطے میں ایک احمدی اشٹام فروش نے اپنے نام کی تختی بھی نصب کر رکھی ہے۔۲۵؍فروری کو ایک ملاںنے ان کو دھمکی دی تھی کہ اپنے نام سے محمد ہٹا دو ورنہ کار سرکار میں عدم تعاون کے جرم کا مقدمہ کروا دوں گا۔ اس پر ہائی کورٹ کے وکیل ان کے بھائی نے ان کو اپنے دفتر کے سامنے سٹال لگوا دیا۔ ۲۰؍ستمبر کو وہ ملاں دوبارہ وہاں آیا اور ان کے نام کی تختی سے محمد لفظ کو پھاڑ دیا اور دھمکیاں دیتا ہوا وہاں سے چلا گیا۔احمدیوں نے ایس ایس پی کو اس معاملے کا نوٹس لینے کے لیے درخواست دے دی ہے۔
احمدی اساتذہ کو کیا کچھ دیکھنا پڑتا ہے
گنڈا سنگھ والا۔ضلع فیصل آباد۔۲۰؍ستمبر۲۰۲۳ء: گذشتہ کئی سال سے دو احمدی خواتین ایک پرائیویٹ سکول میں پڑھا رہی تھیں۔سکول کے پرنسپل نے ان کے چچا سے ملاقات کی اور کہا کہ مولویوں نے اس کو کہا ہے کہ ان احمدی خواتین کو سکول سے نکالو۔ اس پر انہوں نے کہا کہ ان کی بھتیجیاں سکول نہیں آئیں گی۔ اس بات کی اطلاع سرکاری انتظامیہ کو دے دی گئی۔ لیکن یہ علم نہیں ہو سکا کہ آیا انہوں نے اس پر کوئی کارروائی کی یا نہیں۔
احمدی طالب علم پر تشدد
ضلع نارووال۔۲۱؍ستمبر۲۰۲۳ء: دو احمدی طالبعلم اور ان کی بہن اسپرائر کالج شکر گڑھ میں زیر تعلیم ہیں۔جب ان کی مذہبی شناخت ظاہر ہو گئی تو باقی طلبہ نے ہنگامہ آرائی شروع کر دی۔ ۲۱؍ستمبر کو کچھ طلبہ نے ان میں سے ایک پر حملہ کیا جس سے وہ زیادہ زخمی تو نہیں ہوئے لیکن پرنسپل نے ان کو گھر بھیج دیا اور ان کے والد سے کہا کہ ان کو اس کالج میں نہ بھیجیں تا کہ ان کی جان کو کوئی خطرہ نہ ہو۔
پولیس نے شیخوپورہ میں ایک احمدیہ مسجد کے مینارے مسمار کردیے
کلسیاں بھٹیاں۔ضلع شیخوپورہ۔۲۵؍ستمبر۲۰۲۳ء: تحریک لبیک کے مذہبی جنونیوں کی آلہ کار بنتے ہوئے پولیس نے خود کلسیاں بھٹیاں ضلع شیخوپورہ میں موجود احمدیہ مسجد کے میناروں کے بالائی حصوں کو کاٹ دیا۔حالانکہ یہ مسجد بدنام زمانہ امتناع قادیانیت آرڈیننس سے بہت پہلے بنائی گئی تھی۔ پولیس نے واضح طور پر لاہور ہائی کورٹ کے فیصلے کے برخلاف یہ گھناؤنا فعل سر انجام دیا۔
(مرتبہ: مہر محمد داؤد )