ہماری جماعت کو چاہیے کہ وہ تہجد کی نماز کو لازم کر لیں
… ہم یہ کہتے ہیں کہ جو خدا تعالےٰ کے حضور تضرع اور زاری کرتا ہے اور اس کے حدود و احکام کو عظمت کی نگاہ سے دیکھتا ہے اور اس کے جلال سے ہیبت زدہ ہوکر اپنی اصلاح کرتا ہے وہ خدا کے فضل سے ضرور حصہ لےگا۔ اس لئے ہماری جماعت کو چاہیئے کہ وہ تہجد کی نماز کو لازم کر لیں۔ جو زیادہ نہیں وہ دو ہی رکعت پڑھ لے کیونکہ اس کو دعا کرنے کا موقع بہر حال مل جائے گا۔ اس وقت کی دعاؤں میں ایک خاص تاثیر ہوتی ہے کیونکہ وہ سچے درد اور جوش سے نکلتی ہیں۔ جب تک ایک خاص سوز اور درد دل میں نہ ہو۔ اس وقت تک ایک شخص خواب راحت سے بیدار کب ہو سکتا ہے؟ پس اس وقت کا اٹھنا ہی ایک درد دل پیدا کر دیتا ہے جس سے دعا میں رقت اور اضطراب کی کیفیت پیدا ہوجاتی ہے۔ اور یہی اضطراب اور اضطرار قبولیت دعا کا موجب ہو جاتے ہیں۔ لیکن اگر اٹھنے میں سستی اور غفلت سے کام لیتا ہے تو ظاہر ہے کہ وہ درد اورسوز دل میں نہیں کیونکہ نیند تو غم کو دور کر دیتی ہے لیکن جبکہ نیند سے بیدار ہوتا ہے تو معلوم ہوا کہ کوئی درد اور غم نیند سے بھی بڑھ کر ہے جو بیدار کر رہا ہے۔
(ملفوظات جلد۳صفحہ ۲۴۵، ایڈیشن ۱۹۸۴ء)
وہ دعا جو معرفت کے بعد اور فضل کے ذریعہ سے پیدا ہوتی ہے وہ اَور رنگ اورکیفیت رکھتی ہے۔ وہ فناکرنے والی چیز ہے۔ وہ گداز کرنے والی آگ ہے۔وہ رحمت کو کھینچنے والی ایک مقناطیسی کشش ہے۔ وہ موت ہے پر آخر کو زندہ کرتی ہے۔وہ ایک تند سیل ہے پر آخر کو کشتی بن جاتی ہے۔ ہرایک بگڑی ہوئی بات اس سے بن جاتی ہےاور ہرایک زہر آخر اس سے تریاق ہوجاتاہے۔
مبارک وہ قیدی جو دعا کرتے ہیں۔ تھکتے نہیں کیونکہ ایک دن رہائی پائیں گے۔ مبارک وہ اندھے جو دعاؤں میں سُست نہیں ہوتے کیونکہ ایک دن دیکھنے لگیں گے۔ مبارک وہ جو قبروں میں پڑے ہوئے دعاؤں کے ساتھ خدا کی مدد چاہتے ہیں کیونکہ ایک دن قبروں سے باہر نکالے جائیں گے۔مبارک تم جب کہ دعا کرنے میں کبھی ماندہ نہیں ہوتے اور تمہاری روح دعا کے لئے پگھلتی اور تمہاری آنکھ آنسو بہاتی اور تمہارے سینہ میں ایک آگ پیدا کر دیتی ہے اور تمہیں تنہائی کا ذوق اُٹھانے کے لئے اندھیری کوٹھڑیوں اور سنسان جنگلوں میں لے جاتی ہے اور تمہیں بے تاب اور دیوانہ اور ازخود رفتہ بنا دیتی ہے کیونکہ آخر تم پر فضل کیا جاوے گا۔
(لیکچر سیالکوٹ، روحانی خزائن جلد ۲۰ صفحہ۲۲۲-۲۲۳)