حضرت مسیح موعودعلیہ الصلوٰۃ والسلام کی پاکیزہ نمازیں۔ عشق الٰہی کا نمونہ (قسط دوم۔ آخری)
سنتیں اور نوافل گھر میں
حضرت مسیح موعودؑ فریضہ نماز کی ابتدائی سنتیں گھر میں ادا کرتے تھے۔ اور بعد کی سنتیں بھی عموماً گھر میں اور کبھی کبھی مسجد میں پڑھتے تھے۔ (سیرة المہدی جلد اول صفحہ۴)حضرت مسیح موعودؑ کامعمول شروع سے یہ تھا کہ آپ سنن اور نوافل گھر پر پڑھا کرتے تھے اور فرض نماز جماعت کے ساتھ مسجد میں پڑھا کرتے تھے۔ یہ التزام آپ کا آخر وقت تک رہا۔ البتہ جب کبھی فرض نماز کے بعد دیکھتے کہ بعض لوگ جو پیچھے سے آ کر جماعت میں شریک ہوئے ہیں اور ابھی انہوں نے نماز ختم نہیں کی اور راستہ نہیں ہے تو آپ مسجد میں سنتیں پڑھا کرتے تھے۔ یا کبھی کبھی جب مسجد میں بعد نماز تشریف رکھتے تو سنن، مسجد میں پڑھا کرتے تھے۔ (سیرت مسیح موعودؑ صفحہ۶۵)حضرت مرزا دین محمد صاحب لنگر والؓ بیان کرتے ہیں کہ’’حضرت مسیح موعودؑ مسجد میں فرض نماز ادا فرماتے۔سنتیں اور نوافل مکان پر ہی ادا فرماتے۔ (الفضل ۲؍دسمبر ۱۹۴۱ء۔شمائل احمد صفحہ۲۸)
حضرت خلیفة المسیح الاولؓ نے ایک بار فرمایا:حضرت مسیح موعودؑ کی عادت تھی کہ آپ فرض پڑھنے کے بعد فوراً اندرون خانہ چلے جاتے تھے اور ایسا ہی اکثر میں بھی کرتا ہوں اس سے بعض نادان بچوں کو بھی غالباً یہ عادت ہو گئی ہے کہ وہ فرض پڑھنے کے بعد فوراً مسجدسے چلے جاتے ہیںاور ہمارا خیال ہے کہ وہ سنتوں کی ادائیگی سے محروم ہو جاتے ہیں ان کو یاد رکھنا چاہئے کہ حضرت صاحب اندر جا کر سب سے پہلے سنتیں پڑھا کرتے تھے۔ ایسا ہی میں بھی کرتا ہوں۔ کوئی ہے جو حضرت صاحب کے اس عمل درآمد کے متعلق گواہی دے۔ اس پر حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحبؓ کھڑے ہوئے اور بآواز بلند کہا بے شک حضرت صاحب کی ہمیشہ عادت تھی کہ آپ مسجد جانے سے پہلے گھر میںسنتیں پڑھ لیا کرتے تھے اور مسجد میں جا کر فرض ادا کر کے گھر میں آتے تو فوراً سنتیں پڑھنے کھڑے ہوتے۔ اور نماز سنت پڑھ کر پھر او رکوئی کام کرتے۔ ان کے بعد حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحبؓ نے بھی یہی شہادت دی۔ اور ان کے بعد حضرت میر ناصر نواب صاحبؓ نے اور ان کے بعد صاحبزادہ میر محمد اسحاق صاحبؓ نے اور پھر حضرت اقدس کے پرانے خادم حافظ حامد علی صاحبؓ نے بھی وہی گواہی دی۔ (سیرت مسیح موعودؑ صفحہ۶۶)
نماز جمعہ
آغازمیں حضوؑر خود ہی نماز جمعہ پڑھاتے تھے۔جب آپ ۱۸۸۶ء میں چلہ کشی کے لیے ہوشیارپور تشریف لے گئےتو ایک ویران مسجد میں تین ساتھیوں کو جمعہ پڑھایا کرتے تھے۔(سیرت المہدی جلد اول روایت ۸۸ )
وقار اور اطمینان
حضرت مفتی محمد صادق صاحبؓ فرماتے ہیں: حضرت مسیح موعودؑ نماز میں جلدی نہ کرتے تھے بلکہ سکون کے ساتھ آہستگی سے رکوع اورسجدے میں جاتے او ر آہستگی کے ساتھ اٹھتے تھے۔ (الفضل ۳؍جنوری ۱۹۳۱ء ) حضرت قاضی محمد یوسف صاحبؓ فرماتے ہیں:میں نے بار ہا حضرت مسیح موعودؑ کو نماز فرض اور نماز تہجد پڑھتے ہوئے دیکھا آپ نماز نہایت اطمینان سے پڑھتے۔(سیرت المہدی جلد۳صفحہ۴۸)حضرت مولوی محمد ابراہیم صاحبؓ بقا پوری بیان کرتے ہیںکہ مسیح موعودؑ کا رکوع،قیام،قومہ،جلسہ درمیانہ تھا ہر ایک رکن میں اطمینان اور تسلی ہوتی تھی ۔(رجسٹر روایات جلد۸ صفحہ۶۷۔ الفضل انٹرنیشنل ۲۱؍جنوری ۲۰۲۰ء )
نماز تہجد ونوافل
حضرت مفتی محمد صادق صاحبؓ فرماتے ہیں: ’’نماز تہجد کے واسطے آپؑ بہت پابندی سے اٹھا کرتے تھے۔فرمایا کرتے تھے کہ تہجد کے معنے ہیں، سو کر اٹھنا، جب ایک دفعہ آدمی سو جائے اور پھر نماز کے واسطے اٹھے تو وہی اس کا وقت تہجد ہے۔عموماً آپ تہجد کے بعد سوتے نہ تھے۔ صبح کی نماز تک برابر جاگتے رہتے…‘‘(الفضل ۳؍جنوری ۱۹۳۱ء)حضرت مرزا دین محمد صاحبؓ لنگر وال فرماتے ہیں: میں اپنے بچپن سے حضرت مسیح موعودؑ کو دیکھتا آیا ہوں۔ اور سب سے پہلے میں نے آپ کو مرزا غلام مرتضیٰ صاحب کی زندگی میں دیکھا تھا۔ جبکہ میں بالکل بچہ تھا آپ کی عادت تھی کہ رات کو عشاء کے بعد جلد سو جاتے تھے۔اور پھر ایک بجے کے قریب تہجد کے لئے اٹھ کھڑے ہوتے تھے۔ اور تہجد پڑھ کر قرآن کریم کی تلاوت فرماتے رہتے تھے۔ پھرجب صبح کی اذان ہوتی تو سنتیں گھر میں پڑھ کر نماز کے لئے مسجد میں جاتے۔ اور باجماعت نماز پڑھتے۔ نماز کبھی خود کراتے کبھی میاں جان محمد کراتا۔ نماز سے آ کر تھوڑی دیر کے لئے سو جاتے۔ میں نے آپ کو مسجد میں سنت نماز پڑھتے نہیں دیکھا۔ سنت گھر پر پڑھتے تھے۔ (سیرت المہدی جلد ۳صفحہ۲۰) پھر فرماتے ہیں:میں حضرت صاحب کے پاس سوتا تھا۔ تو آپ مجھے تہجد کے لئے نہیں جگاتے تھے۔ مگر صبح کی نماز کے لئے ضرور جگاتے تھے۔اور جگاتے اس طرح تھے کہ پانی میںانگلیاں ڈبو کر اس کا ہلکا سا چھینٹا پھوار کی طرح پھینکتے تھے۔ میں نے ایک دفعہ عرض کیا کہ آپ آواز دے کر کیوں نہیں جگاتے۔ اور پانی سے کیوں جگاتے ہیں؟ اس پر فرمایا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم بھی اسی طرح کرتے تھے اور فرمایاکہ آواز دینے سے بعض اوقات آدمی دھڑک جاتا ہے۔ (سیر ت المہدی جلد ۳صفحہ۲۰)حضرت حافظ نور محمد صاحبؓ کو بالکل نوجوانی میں قادیان آنے اور حضور کی خدمت میں رہنے کا شرف حاصل ہوا۔ وہ فرماتے ہیں: اس زمانہ میں حضور کے پاس سوائے د و تین خادموں کے اور کوئی نہ ہوتا تھا پھر بعد میںآہستہ آہستہ دو دو چار چار آدمیوں کی آمدورفت شروع ہو گئی ان دِنوں میں میر ے ایک عزیز دوست حافظ نبی بخش صاحبؓ بھی جن کی عمر اس وقت دس بارہ سال کی تھی میرے ہمراہ قادیان جا یا کرتے تھے۔ رات ہوتی تو حضرت صاحب ہم سے فرماتے کہ آپ کہاں سوئیں گے۔ ہم حضور سے عرض کرتے کہ حضور ہی کے پاس سو رہیں گے۔ اور دل میں ہمارے یہ ہوتا تھا کہ حضور جب تہجد کے لئے رات کو اٹھیں گے تو ہم بھی ساتھ ہی اٹھیں گے مگر آپ اٹھ کر تہجد کی نما زپڑھ لیتے تھے اور ہم کو خبر بھی نہ ہوتی تھی۔ جب آپ اٹھتے تھے تو چراغ روشن فرماتے تھے۔ (سیر ت المہدی جلد دوم صفحہ۳۲)
مرزا اسماعیل بیگ صاحبؓ روایت کرتے ہیں: تہجد کے لئے کبھی میں خود جاگ پڑتا اور کبھی جگا لیتے تھے۔ جگانے میں آپ کا معمول یہ تھا کہ ہلا کر جگایا کرتے تھے۔ جمال بھی وہاں سویا کرتا تھا۔ اور وہ اٹھا نہیں کرتا تھا۔ تب آپ فرماتے کہ اس کے منہ پر پانی کے چھینٹے مارو مگر جب وہ یہ کہتے ہوئے سنتا تو فوراً اٹھ بیٹھتا۔ آپ دراصل یہ چاہتے تھے کہ جو کوئی آپ کے پاس رہے۔ باقاعدہ نماز پڑھے۔ اور تہجد میں بھی شریک ہونے کی عادت ڈالے۔ نماز تہجد کے بعد آپ کا معمول تھاکہ ذکر الٰہی میں مشغول رہتے۔ اور فجر کی نماز اول وقت میں مسجد میں پڑھا کرتے تھے۔ (حیات احمد صفحہ۳۴۴)
حافظ حامد علی صاحبؓ جو حضرت مسیح موعودؑ کے پرانے خادم تھے اور حضور کے پاس صرف چار روپے ماہوار اور کھانے پر ملازم تھے فرمایا کرتے تھے، ’’بسا اوقات ایسا ہوتا تھا کہ میں پہلی رات حضرت صاحب کے پاؤں دبانے کے واسطے آپ کی چارپائی پر بیٹھ جاتا تھا مگر پاؤں دباتے دباتے خود بھی اسی چارپائی پر اونگھنے لگتا تھا اور سو جاتا تھا۔ حضرت صاحب کبھی مجھے نہ جھڑکتے نہ خفا ہوتے، نہ اٹھا تے۔ بلکہ تمام رات میں وہیں سویا رہتا اور معلوم نہیں خودحضرت صاحب کس حالت میں گزار دیتے تھے مگر میں آرام سے سویا رہتا تھا۔ تہجد کے وقت حضور ایسی آہستگی اور خاموشی سے اٹھتے کہ مجھے کبھی خبر نہ ہوتی لیکن گاہے گاہے جب کہ آپ کی آواز خشو ع وخضوع کے سبب بے اختیار بلند ہوتی مجھے خبر ہو جاتی اور میں شرمندہ ہو کر اٹھتا لیکن اگر میں بے خبری میں سویا رہتا تو حضور مجھے نماز فجر کے واسطے اٹھاتے اور مسجدمیں ساتھ لےجاتے‘‘۔(الفضل ۳؍جنوری ۱۹۳۱ء)
حضرت ڈاکٹر میر محمد اسماعیل صاحبؓ فرماتے ہیںکہ ۱۸۹۵ء میں مجھے تمام ماہ رمضان قادیان میں گزارنے کا اتفاق ہو ا اور میں نے تمام مہینہ حضرت صاحب کے پیچھے نماز تہجد ادا کی۔ آپ کی یہ عادت تھی کہ وتر اول شب میں پڑھ لیتے تھے اور نماز تہجد آٹھ رکعت دو دو رکعت کر کے آخر شب میں ادا فرماتے تھے اور رکوع اور سجود میں يَا حَيُّ يَا قَيُّومُ بِرَحْمَتِكَ أَسْتَغيثُ اکثر پڑھتے تھے اور ایسی آواز سے پڑھتے تھے کہ آپ کی آواز میں سن سکتا تھا۔ نیز آپ ہمیشہ سحری نمازتہجد کے بعد کھاتے تھے۔ (سیر ت المہدی جلد ۲صفحہ۱۲)
حضرت محمد جمیل صاحبؓ فرماتے ہیں:جب طاعون کی بیماری پڑی اور حضور باغ میں قیام پذیر ہوئے تو ہم لوگ راتوں کو پہرہ دیا کرتے تھے رات کے جس حصہ میں بھی ہم لوگ حضور کے کیمپ کے پاس سے گزرتے تو آپ نماز میں ہی مصروف نظر آتے۔خدا جانے کب سوتے ہوں گے۔ ایک بار حضور لاہور تشریف لے گئے تو ہمارے ہیڈ ماسٹر مفتی محمد صادق صاحب ہماری کلاس کو بھی لاہور ساتھ لے گئے۔ ہمیں حضور کے کمرہ کے ساتھ جگہ ملی۔ حضور رات ۱۱ بجے تک مہمانوں کے ساتھ مصروف رہتے اور پھر تمام رات تہجد میں گزار دیتے۔ ہمیں جب بھی بیداری ہوتی حضور نماز پڑھتے ہی نظر آتے۔(رجسٹر روایات جلد ۶ صفحہ ۲۱۔۲۲۔الفضل انٹر نیشنل ۱۴؍فروری ۲۰۲۰ء)
محترم ڈاکٹر بشارت احمد صاحب کالڑکا ممتاز احمد بعمر ۲سال ٹائیفائیڈ میں مبتلا ہو گیا اور کسی دوا سے آرام نہ آتا تھا۔ بیعت سے پہلے بیگم کے کہنے پر حضرت مسیح موعودؑ سے دعا کرانے کے لیے قادیان چلے گئے۔ رات ۲بجے قادیان پہنچے۔ دیکھا کہ مسجد مبارک تہجد گزار لوگوں سے بھری ہوئی ہے۔ اور حضرت مسیح موعودؑ اندر نماز ادا کر رہے ہیں۔ یہ کیفیت دیکھ کر دل پر بے حد اثر ہوا۔ اور بیعت کر لی۔ اسی روز حضور کی دعا سے بیٹا بھی شفایاب ہو گیا۔(افسوس کہ ڈاکٹر صاحب بعد میں غیرمبائعین میں شامل ہو گئے) (تاریخ احمدیت لاہورصفحہ ۳۱۵)حضرت سید غلام غوث صاحبؓ بیان کرتے ہیں کہ حضور باوجود بلا ناغہ تہجد پڑھنے کے وتر ۳ رکعت عشا٫ کے ساتھ ہی ادا کر لیا کرتے تھے۔ (رجسٹر روایات جلد ۷صفحہ۴۴۰۔جلد ۱۱ صفحہ۸۵،۸۴۔ الفضل انٹر نیشنل ۲۴؍جنوری ۲۰۲۰ء)
حضرت ماسٹر نذیر حسین صاحبؓ فرماتے ہیں ایک بار جہلم جاتے ہوئے حضور میرے دادا حضرت میاں چراغ دین صاحب کے مکان مبارک منزل لاہور ٹھہرے۔ حضور کے کمرہ کے باہر دالان میں دروازے کے پاس میں بھی سو گیا۔ رات ۳ بجے جاگا تو حضور نمازپڑھ رہے تھے۔ میں بھی وضو کر کے دور فاصلہ پر نماز پڑھنے لگ گیا۔ میں نے بہت کوشش کی کہ حضور جتنا قیام یا رکوع یا سجدہ کر سکوں مگر نہ کر سکا۔ میں ۲ رکعت میں ہی سخت تھک گیا اور حضور ابھی اسی رکعت میں تھےجس میں خاکسار شامل ہؤا تھا۔ (رجسٹر روایات جلد ۷صفحہ۶۸۔۶۹؍الفضل انٹر نیشنل ۱۱؍فروری ۲۰۲۰ء) حضرت قاضی حبیب اللہؓ آف شاہدرہ لاہور ۱۸۷۱ء میں پیدا ہوئے اور ۱۹۰۰ء میں بیعت کی سعادت حاصل کی۔وہ فرماتے ہیں:حضرت مسیح موعودؑ مقدمہ کرم دین کے سلسلہ میں جہلم تشریف لے گئے میاں چراغ دین صاحب کے مکان پر تمام آنے والے دوست فروکش ہوئے اور میں بھی وہاں ہی حضور کے پاس رہا۔ رات کو میں نے مفتی محمد صادق صاحب سے عرض کیا کہ میرا بستر حضرت صاحب کے بالکل قریب کیا جائے تا کہ میں حضرت صاحب کو نفل پڑھتے ہوئے دیکھوں۔ انہوں نے حضرت صاحب کی چارپائی کے ساتھ میرا بستر بھی کروا دیا۔ دو بجے رات کے قریب میں اٹھا اور باہر وضو کرنے چلا گیا۔ وضو کر کے جب میں واپس آیا تو آگے میرے بستر پر حضور نفل پڑھ رہے تھے مگر مجھے یہ معلوم نہ ہوا کہ یہ حضور ہی ہیں۔ میں نے ایک دوست سے ذکر کیا کہ دیکھو میری جگہ پر کوئی اور دوست آکر کھڑے ہوگئے ہیں اور میں نے بڑی مشکل سے یہ جگہ لی تھی۔ تھوڑی سی دیر ہوئی تھی کہ حضرت صاحبؑ نے مجھے فرمایا:آئیے آپ اپنی جگہ پر بیٹھ جائیے۔پھر مجھے معلوم ہوا کہ یہ حضرت اقدس ہیں۔ میں نے معذرت کی مگر حضور نے مجھے پکڑ کر اس جگہ پر کھڑا کر دیا۔ (الحکم ۱۴؍اکتوبر۱۹۳۶ء صفحہ۴)حضرت حکیم دین محمد صاحبؓ بیان کرتے ہیں کہ میں نے حضور کے زمانہ میں قادیان کی کسی مسجد میں نماز تراویح با جماعت ہوتے نہیں دیکھی حضور گھر میں تہجد ادا کرتے تھے اور احباب بھی انفرادی تہجد ادا کرتے تھے۔ (رجسٹر روایات جلد ۱۳ صفحہ۶۳؍الفضل انٹر نیشنل ۱۱ فروری ۲۰۲۰ء) نواب ابراہیم علی خان صاحب مالیر کوٹلہ بیمار ہو گئے تو ان کی اہلیہ کی درخواست پر حضور ۱۸۸۴ء میں ان کی عیادت اور دعا کی غرض سے مالیر کوٹلہ تشریف لے گئے۔ان سے ملاقات کے بعدتقریبا ً۴ بجے سہ پہر حضور ایک بڑے مجمع کے ساتھ جامع مسجد گئے اور فرمایا سب لوگ دو رکعت نماز پڑھیں اور نواب صاحب کے لئے دعا کریں۔ (سیرت المہدی جلد ۲ صفحہ ۲۷) ایک دفعہ حضور بیماری کے سخت دورہ میں تہجد کے لیے اٹھے تو غش کھا کر گر پڑے۔ الہام ہوا کہ ایسی حالت میں تہجد کی بجائے لیٹے لیٹے یہ دعا پڑھ لیا کرو سُبْحَانَ اللّٰہِ وَ بِحَمْدِهٖ سُبْحَانَ اللّٰہِ الْعَظِيمِ (ذکر الٰہی از حضرت مصلح موعود صفحہ ۱۱۳)
نماز اشراق
حضرت ام المومنینؓ بیان فرماتی ہیں کہ حضرت مسیح موعودؑ نماز پنجوقتہ کے سوا عام طور پر دو قسم کے نوافل پڑھا کرتے تھے۔ ایک نماز اشراق (دو یا چار رکعت) جو آپ کبھی کبھی پڑھتے تھے اور دوسرے نماز تہجد( آٹھ رکعات) جو آپ ہمیشہ پڑھتے تھے۔ سوائے اس کے کہ آپ زیادہ بیمار ہوں۔ لیکن ایسی صورت میں بھی آپ تہجد کے وقت بستر پرلیٹے لیٹے ہی دعا مانگ لیتے تھے اور آخری عمر میں بوجہ کمزوری کے عموماً بیٹھ کرنماز تہجد ادا کرتے تھے۔ (سیرت المہدی جلد۱صفحہ۳)
حضور ؑنے ایک بار بیماری کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا کہ اس سے افاقہ ہوا تو میں گھر کے آدمیوں کو لے کر باغ تک چلا گیا اور وہاں ۱۰ رکعت اشراق کی نماز ادا کیں۔ (ملفوظات جلد ۷ صفحہ ۲۴۹ )
حضرت مائی بھولی صاحبہ ومحترمہ مائی جیونی قادر آباد نے بیان کیا کہ ’’جب حضور سیر کو ہمارے گاؤں میں آیا کرتے تھے تو ہماری کچی مسجد میں آکر نماز اشراق پڑھتے۔ ہم لوگ ساگ روٹی پیش کرتے تو حضور کبھی برا نہ مناتے اور نہ ہی کراہت کرتے بلکہ محبت سے قبول فرماتے‘‘۔ (شمائل احمد صفحہ۲۸)حضرت مولوی شیر علی صاحب ؓفرماتے ہیں کہ جب ۴ا؍پریل ۱۹۰۵ء کا زلزلہ آیا تھا۔ اس دن میں نے حضر ت صاحبؑ کو باغ میں آٹھ نو بجے صبح کے وقت نماز پڑھتے دیکھا تھا اور میں نے دیکھا کہ آپ نے بڑی لمبی نماز پڑ ھی تھی۔ (سیرت المہدی جلد اول صفحہ۲۲۳)
نماز استسقا٫
حضرت مفتی محمد صادق صاحبؓ فرماتے ہیں:حضرت مسیح موعودؑ کے زمانہ میں ایک دفعہ نماز استسقاء ہوئی تھی جس میں حضور بھی شامل ہوئے تھے اور شاید مولوی محمد احسن صاحب امام ہوئے تھے۔ لوگ اس نماز میں بہت روئے تھے۔ مجھے یاد ہے کہ اس کے بعد بہت جلد بادل آ کر بارش ہو گئی تھی بلکہ شاید اسی دن بارش ہوگئی تھی۔ (سیر ت المہدی جلد ۲صفحہ۱۰۵)
نماز کسوف
حضرت ڈاکٹر مرزایعقوب بیگ صاحبؓ لکھتے ہیں: ’’۱۸۹۴ء میں پیشگوئیوں کے مطابق چاند گرہن لگا۔ سورج گرہن لگنے کے دن قریب آئے تو میں اور میرے بھائی مرزا ایوب بیگ صاحب نے ارادہ کیا کہ اس وقت ہم قادیان میں موجود ہوں۔چنانچہ گرہن والے دن صبح کو ہم قادیان پہنچ گئے۔صبح کو حضرت اقدسؑ کے ساتھ کسوف کی نمازپڑھی۔ مولانا مولوی محمد احسن صاحب امروہوی نے یہ نماز پڑھائی تھی اور قریب تین گھنٹہ کے یہ نماز جاری رہی۔ مسجد مبارک کی چھت پر یہ نماز پڑھی گئی تھی۔ (آئینہ صدق وصفا صفحہ۴۶تا۴۸)۱۹۰۴ء میں سورج گرہن کے وقت حضرت خلیفۃ المسیح اولؓ نے نمازکسوف پڑھائی۔ (رجسٹر روایات جلد۶ صفحہ۸۔ الفضل انٹرنیشنل۱۴؍فروری ۲۰۲۰ء)
نماز عیدین
حضرت پیر سراج الحق صاحبؓ نعمانی فرماتے ہیں:نماز عیدین عام طور پر حضرت خلیفہ اولؓ پڑھایا کرتے تھے ایک بار آپ کے ارشاد پر مولوی محمد احسن صاحب نے بھی پڑھائی (الحکم ۱۴؍مئی ۱۹۱۹ء)۲؍فروری ۱۹۰۰ءکو قادیان میں عیدالفطر کے موقع پر جلسہ دعا منعقد ہوا۔ حضرت مولانانورالدین صاحبؓ نے نماز عید پڑھائی اور اس کے بعد حضور نے خطبہ ارشاد فرمایا (تاریخ احمدیت جلد ۲ صفحہ ۸۲)اسی سال ۱۱؍اپریل ۱۹۰۰ء کو عیدالاضحی تھی حضرت مولوی عبد الکریم صاحبؓ نے نماز پڑھائی اور پھر حضورؑ نے خطبہ دیا جو خطبہ الہامیہ کے عظیم نام سے موسوم ہے۔ (تاریخ احمدیت جلد ۲ صفحہ۸۳)
نماز کے فقہی مسائل میں وسعت
حضرت مفتی محمد صادق صاحبؓ فرماتے ہیں: حضرت مسیح موعودؑ نماز میں آمین بالجہر نہ کرتے تھے لیکن کرنے والوں کو روکتے بھی نہ تھے۔ رفع یدین نہ کرتے تھے لیکن کرنے والوں کو روکتے نہ تھے۔ بسم اللہ بالجہر نہ پڑھتے تھے لیکن پڑھنے والوںکو روکتے بھی نہ تھے۔ ہاتھ سینے پر باندھتے تھے لیکن نیچے باندھنے والوں کو نہ روکتے تھے۔حضرت مولوی عبدالکریم صاحبؓ جو سالہاسال تک آپ کی نماز میں پیش امام رہے اور جن کو خدا کی پاک وحی میں مسلمانوں کا لیڈر کا خطاب ملا تھا۔ ہمیشہ بسم اللہ اور آمین بالجہر کرتے اور فجر ومغرب اور عشاء میں بالجہر قنوت پڑھتے اور گاہے گاہے رفع یدین کرتے تھے۔ حضرت مسیح موعودؑ کی مسجدمیں ان امور کو موجب اختلاف نہ گردانا جاتا تھا۔ جو احباب کرتے تھے ان کو کوئی روکتا نہ تھا جو نہ کرتے تھے ان سے کوئی اصرار نہ کرتا تھا کہ ایسا ضرور کرو۔(الفضل ۳؍جنوری ۱۹۳۱ء)
حضرت میاں عبداللہ صاحب سنوریؓ فرماتے ہیں کہ اوائل میں مَیں سخت غیر مقلّد تھا۔اور رفع یدین اور آمین بالجہر کا بہت پابند تھا۔ اور حضرت صاحبؑ کی ملاقات کے بعد بھی میں نے یہ طریق مدت تک جاری رکھا عرصہ کے بعد ایک دفعہ جب میں نے آپ کے پیچھے نماز پڑھی تو نماز کے بعد آ پ نے مجھ سے مسکرا کر فرمایا: میاں عبداللہ اب تو ا س سنت پر بہت عمل ہو چکا ہے اور اشارہ رفع یدین کی طرف تھا میاں عبداللہ صاحب کہتے ہیں کہ اس دن سے میں نے رفع یدین کرنا ترک کر دیا۔ بلکہ آمین بالجہر کہنا بھی چھوڑ دیا۔ اور میاں عبداللہ صاحب بیان کرتے ہیں کہ میں نے حضرت صاحب کو کبھی رفع یدین کرتے یاآمین بالجہر کہتے نہیں سنا۔ اور نہ کبھی بسم اللہ بالجہر پڑھتے سنا ہے۔
حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ فرماتے ہیں کہ حضرت مسیح موعودؑ کا طریق عمل وہی تھا جو میاں عبداللہ صاحب نے بیان کیا لیکن ہم احمدیوں میں حضرت صاحب کے زمانہ میں بھی اور آپ کے بعد بھی یہ طریق عمل رہا ہے کہ ان باتوں میںکوئی ایک دوسرے پر گرفت نہیں کرتا۔ بعض آمین بالجہر کہتے ہیں بعض نہیں کہتے بعض رفع یدین کرتے ہیں۔ اکثر نہیں کرتے۔ بعض بسم اللہ بالجہر پڑھتے ہیں اکثر نہیں پڑھتے اور حضرت صاحب فرماتے تھے کہ دراصل یہ تمام طریق آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہیں مگر جس طریق پرآنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے کثرت کے ساتھ عمل کیا وہ وہی طریق ہے جس پر خود حضرت صاحبؑ کا عمل تھا۔ (سیرت المہدی جلد اول صفحہ۱۶۲)
حضرت مولوی شیر علی صاحبؓ فرماتے ہیں کہ حضرت مسیح موعودؑ بڑی سختی کے ساتھ اس بات پرزور دیتے تھے کہ مقتدی کو امام کے پیچھے بھی سورة فاتحہ پڑھنی ضروری ہے۔ مگر ساتھ ہی یہ بھی فرماتے تھے کہ باوجود سورة فاتحہ کو ضروری سمجھنے کے میں یہ نہیں کہتا کہ جو شخص سورة فاتحہ نہیں پڑھتا اس کی نماز نہیں ہوتی کیونکہ بہت سے بزرگ اور اولیاء اللہ ایسے گزرے ہیں جو سورة فاتحہ کی تلاوت ضروری نہیں سمجھتے تھے اور میں ان کی نمازوں کو ضائع شدہ نہیں کہتا۔ (سیرت المہدی جلد ۲صفحہ۴۸)پہلے عام طور پر حضورؑ کے امام نماز عید میں ۵ اور ۳ تکبیریں کہتے تھے ایک بار مولوی محمد احسن صاحب نے پوچھا کہ بخاری میں ۷ اور ۵ تکبیروں کا ذکر ہے ایسے کر لوں تو فرمایا: کیا مضائقہ ہے۔ اس سال سے یہی طریق رائج ہو گیا۔ (روایت پیر سراج الحق صاحب الحکم ۱۴؍مئی ۱۹۱۹ء )
خلوت کی عبادتیں
حضرت مفتی محمد صادق صاحبؓ فرماتے ہیں: نماز تہجد کی خلوت کے علاوہ دن کے وقت بھی عموماً ایک وقت بالکل علیحدگی میں عبادت میں گزارتے تھے۔ آپ کی رہائش کے کمرے کے ساتھ چھوٹا سا کمرہ بیت الدعاء کا ہے۔اسے اندر سے بند کر کے دو گھنٹہ کے قریب بالکل علیحدگی میں مصروف عبادت رہا کرتے تھے۔ایام سفر میں بھی آپ کے واسطے کوئی چھوٹا سا کمرہ خلوت کے واسطے بالکل الگ کر دیا جاتا۔ مقدمہ کرم الدین کے زمانہ میں جب کہ کئی ماہ تک گورداسپور میں قیام رہا، اس وقت جو مکان کرایہ پرلیا ہوا تھا اس کے دروازے سے داخل ہوتے ہی بائیں طرف ایک چھوٹا سا کمرہ اس غرض کے واسطے الگ کر دیا تھا جس میں حضور عموماً ۱۰بجے سے ۱۲ بجے تک روزانہ بالکل علیحدگی میںمصروف بہ عبادت ودعا رہتے تھے۔ ابتدائی زمانہ میں جب کہ ہنوز کچھ شہرت آپ کی نہ تھی اورآدمیوں کی کچھ آمدورفت نہ تھی، اس وقت آپ عموماً تلاش خلوت میںباہر جنگل میں چلے جایا کرتے اور علیحدگی میں بیٹھ کر عبادت الٰہی کرتے۔(الفضل ۳؍جنوری ۱۹۳۱ء)
حضرت شیخ یعقوب علی صاحبؓ فرماتے ہیں آپ خواہ سفر میں ہوں یا حضر میں۔ دعا کے لیے ایک مخصوص جگہ بنالیا کرتے تھے۔اور وہ بیت الدعا کہلاتا تھا۔ میں جہاں جہاں حضرت کے ساتھ گیا ہوں میں نے دیکھا ہے کہ آپ نے دعا کے لیے ایک الگ جگہ ضرور مخصوص فرمائی اور اپنے روزانہ پروگرام میں یہ بات ہمیشہ داخل رکھی ہے کہ ایک وقت دعا کے لیے الگ کر لیا۔قادیان میں ابتداءً تو آپ اپنے اس چوبارہ میں ہی دعاؤں میںمصروف رہتے تھے۔ جو آپ کے قیام کے لئے مخصوص تھا۔ پھر مسجد اس مقصد کے لئے مخصوص ہو گئی۔ جب اللہ تعالیٰ کی مشیت ازلی نے مسجد کو بھی عام عبادت گاہ بنا دیا۔ اور تخلیہ میسر نہ رہا تو آپ نے گھر میں ایک بیت الدعا بنا یا۔ جب زلزلہ آیا اور حضور کچھ عرصہ کے لئے باغ میں تشریف لے گئے تو وہاں بھی ایک چبوترہ اس غرض کے لئے تعمیر کرالیا۔ گورداسپور مقدمات کے سلسلہ میں آپ کو کچھ عرصہ کے لئے رہنا پڑا تو وہاں بھی بیت الدعا کا اہتمام تھا۔ غرض حضرت کی زندگی کا یہ دستور العمل بہت نمایاں ہے آپ دعا کے لئے ایک الگ جگہ رکھتے تھے بلکہ آخری حصہ عمر میں تو آپ بعض اوقات فرماتےکہ بہت کچھ لکھا گیا اور ہرطرح اتمام حجت کیا۔ اب جی چاہتا ہے کہ میں صرف دعائیں کیا کروں۔ دعائوں کے ساتھ آپ کوایک خاص مناسبت تھی۔بلکہ دعائیں ہی آپ کی زندگی تھیں۔چلتے پھرتے اٹھتے بیٹھتے آپ کی روح دعا کی طرف متوجہ رہتی تھی۔ہر مشکل کی کلید آپ دعاکو یقین کرتے تھے اور جماعت میں یہی جذبہ او ر روح آپ پیدا کرنا چاہتے تھے کہ دعاؤں کی عادت ڈالیں۔(سیرت حضرت مسیح موعودؑ صفحہ۵۰۴-۵۰۵)
بیت الدعا ٫کی تعمیر
سیدنا حضرت مسیح موعودؑ کو بچپن ہی سے ذکر الٰہی اور دعا سے جوعشق اور شغف تھا وہ اب آخری سالوں میں بڑھتا جا رہا تھا۔ چنانچہ اب آپ اکثر فرمایا کرتے کہ اب دعوت الی اللہ اور تصنیف کا کام تو ہم اپنی طرف سے کر چکے ہیں اب ہمیں باقی ایام میں دعا میں مصروف ہونا چاہئے کہ اللہ تعالیٰ اپنے فضل خاص سے دنیا میں حق وصداقت قائم فرمائے اور ہمارے آنے کی غرض پوری ہو۔ (سیرت المہدی جلد۲صفحہ۷۱)چنانچہ حضور نے اسی آرزو کی تکمیل کے لیے ۱۳؍مارچ ۱۹۰۳ء کو جمعہ کے بعدبیت الفکر کے ساتھ غربی جانب ایک مقدس کمرہ کی بنیاد رکھی جس کا نام مسجد البیت اور ’’بیت الدعا‘‘تجویز فرمایا۔ (اصحاب احمد جلد اول صفحہ۱۱۵) حضور نے ’’مسجد البیت اور ’’بیت الدعا‘‘کے بارے میں ایک دفعہ اپنے مخلص صحابی حضرت مفتی محمد صادق صاحبؓ سے فرمایا:’’ ہم نے سوچا کہ عمر کا اعتبار نہیں۔ ستر سال کے قریب عمر سے گزر چکے ہیں۔ موت کا وقت مقرر نہیں خدا جانے کس وقت آجائے اور کام ہمارا ابھی بہت باقی ہے۔ ادھر قلم کی طاقت کمزور ثابت ہوئی ہے۔ رہی سیف اس کے واسطے خداتعالیٰ کا اذن اورمنشاء نہیں۔ لہٰذا ہم نے آسمان کی طرف ہاتھ اٹھائے اور اسی سے قوت پانے کے واسطے ایک الگ حجرہ بنایا اور خدا سے دعا کی کہ اس مسجد اور بیت الدعا کو امن اور سلامتی اور اعداء پربذریعہ دلائل نیرہ اور براہین ساطعہ کے فتح کا گھر بنا دے‘‘۔ (ذکر حبیب از حضرت مفتی محمد صادق صاحب صفحہ۱۰۹)
تہجد میں گریہ وزاری
حضرت منشی ظفر احمد صاحبؓ بیان کرتے ہیں کہ حضور تنہائی میں بہت لمبی نماز پڑھتے تھے اور رکوع سجود لمبے کرتے تھے ایک بار ایک بوڑھی خادمہ مائی تابی حضور کے برابر مصلیٰ پر کھڑے ہو کر نماز پڑھ کر چلی گئی اور حضور کو پتہ بھی نہیں چلا۔(سیرۃالمہدی روایت نمبر ۱۱۵۵)
حضرت مسیح موعودؑ کے خادم حضرت حافظ حامد علی صاحبؓ بیان کرتے ہیں کہ ’’تہجد کے وقت حضور ایسی آہستگی اور خاموشی سے اٹھتے کہ مجھے خبر نہ ہوتی لیکن گاہے گاہے جب آپ کی آواز خشوع وخضوع کے سبب سے بے اختیار بلند ہوتی مجھے خبر ہوجاتی اور میں شرمندہ ہو کر اٹھتا… سجدہ کو بہت لمبا کرتے۔ ایسا معلوم ہوتا تھاکہ اس گریہ وزاری میں آپ پگھل کر بہ جائیں گے۔ نماز تہجد کے واسطے آپ پابندی سے اٹھا کرتے تھے‘‘۔(اصحاب احمد جلد ۱۸صفحہ۷۴)
حضرت حافظ حامد علی صاحبؓ یہ بھی فرمایا کرتے تھے کہ حضور نماز میں اِہۡدِنَا الصِّرَاطَ الۡمُسۡتَقِیۡمَکا بہت تکرار کرتے تھے اور سجدہ میں يَا حَيُّ يَا قَيُّومُ کا بہت تکرار کرتے۔ بار بار یہی الفاظ بولتے جیسے کوئی بڑے الحاح اور زاری سے کسی بڑے سے کوئی شے مانگے اور بار بار روتے ہوئے اپنی مطلوبہ چیز کو دہرائے۔ایسا ہی حضرت صاحبؑ کرتے۔ عموماًپہلی رکعت میں آیت الکرسی پڑھا کرتے تھے۔سجدہ کو بہت لمبا کرتے اور بعض دفعہ ایسا معلوم ہوتا کہ اس گریہ وزاری میں آپ پگھل کر بہ جائیں گے۔(الفضل ۳؍جنوری ۱۹۳۱ء)
سیالکوٹ میں ملازمت کے دوران کا اکثر معمول تھا کہ آپ گھر سے باہر اپنے اوپر چادر لپیٹے رکھتے اور صرف اتنا حصہ چہرہ کا کھلا رکھتے جس سے راستہ نظر آئے۔ جب کچہری سے فارغ ہو کر واپس اپنی قیام گاہ پر تشریف لاتے تو دروازہ بند کرلیتے اور قرآن شریف کی تلاوت اور ذکر الٰہی میں مصروف ہو جاتے۔ آپ کے اس طریق مبارک سے بعض متجسس طبیعتوں کو خیال پیدا ہوا کہ یہ ٹوہ لگانا چاہیے کہ آپ کِواڑ بند کر کے کیا کرتے ہیں۔ چنانچہ ایک دن ’’سراغ رسان‘‘ گروہ نے آپ کی ’’خفیہ سازش‘‘کو بھانپ لیا یعنی ’’انہوں نے بچشم خود دیکھا کہ آپ مصلٰی پر رونق افروز ہیں قرآن مجید ہاتھ میں ہے اور نہایت عاجزی اور رقت اور الحاح وزاری اورکرب وبلا سے دست بدعا ہیں کہ ’’یا اللہ تیرا کلام ہے مجھے تو تُو ہی سمجھائے گا تو میں سمجھ سکتا ہوں ‘‘۔(تاریخ احمدیت جلد ۱صفحہ۸۵)
مائی حیات بی بی صاحبہ بنت فضل دین صاحب کی روایت ہے کہ ’’آپؑ کی عادت تھی کہ جب کچہری سے واپس آتے تو پہلے میرے باپ کو بلاتے اور ان کو ساتھ لے کر مکان میںجاتے۔ مرزا صاحب کا زیادہ تر ہمارے والد صاحب کے ساتھ ہی اٹھنا بیٹھنا تھا۔ ان کا کھانا بھی ہمارے ہاں ہی پکتا تھا۔ میرے والد ہی مرزا صاحب کو کھانا پہنچایا کرتے تھے۔ مرزاصاحب اندر جاتے اور دروازہ بند کر لیتے اور اندر صحن میں جا کر قرآن پڑھتے رہتے۔ میرے والد صاحب بتلایا کرتے تھے کہ مرزا صاحب قرآن مجید پڑھتے پڑھتے بعض وقت سجدہ میں گر جاتے ہیں اور لمبے لمبے سجدے کرتے ہیں اور یہاں تک روتے ہیں کہ زمین تر ہو جاتی ہے‘‘۔(سیرت المہدی جلد ۳صفحہ۹۳)حضرت میاں سانولا پٹھانہ ضلع پونچھ کے رہنے والے تھے وہ بیمار ہو گئے اور جوڑوں میں درد ہو گیا۔ اتفاق سے کوئی احمدی ملا جس نے قادیان جا کر حکیم مولوی نورالدین ؓسے علاج کرانے کا مشورہ دیا۔ چنانچہ چار ماہ چھٹی لے کر قادیان میں رہے۔ جہاں علاج بھی کرایا اور حضرت مسیح موعودؑ کی مجلس میں شامل ہوتے رہے۔ آپ نے دیکھا کہ تقریر کرتے ہیں تو پٹوں پر ہاتھ مارتے اور زبان سے اَڑ کر بولتے ہیں انہوں نے یہ امام مہدی کی علامت سنی تھی۔ جب اسے ہوبہو مرزا صاحب میں دیکھا تو آپؑ کی صداقت کا یقین آ گیا۔ حضور جب مسجد مبارک میں رات کو نماز پڑھنے کے لئے آتے تو وہ بھی اسی مسجد میں نماز پڑھنے کے لئے جاتے۔ انہوں نے دیکھا کہ آپؑ گھنٹے دو گھنٹے نماز میں کھڑے رہتے جب سجدہ میں جاتے تو دو دو گھنٹے سجدہ میں پڑے رہتے اور سجدہ کے وقت ان سے ایسی آواز نکلتی جیسے ابلتی ہوئی ہانڈی سے نکلتی ہے۔ سجدے کی جگہ روتے روتے تر ہو جاتی تھی۔ یہ دیکھ کر انہیں یقین آگیا کہ یہ شخص سچا ہے۔ تب انہوں نے آپ کے ہاتھ پر بیعت کی ۔(تاریخ احمدیت کشمیر صفحہ۶۷)
نماز جنازہ کی ادائیگی
حضرت بھائی عبدالرحمٰن صاحب قادیانیؓ فرماتے ہیں:نماز جنازہ عموماً حضور خود پڑھاتے تھے۔ حضور کو میں نے نماز جنازہ کسی کے پیچھے پڑھتے نہیں دیکھا یا کم از کم میری یاد میں نہیں۔ (اصحاب احمد جلد ۹صفحہ ۱۹۳ تا ۱۹۶)حضرت ڈاکٹر میر محمد اسمعٰیل صاحبؓ فرماتے ہیں کہ حضرت صاحب کے زمانہ میں نماز جنازہ خود حضور ہی پڑھاتے تھے۔ حالانکہ عام نمازیں حضرت مولوی نورالدین صاحبؓ یا مولوی عبدالکریم صاحبؓ پڑھاتے تھے۔ کئی دفعہ ایسا ہوتا کہ جمعہ کو جنازہ غائب ہونے لگا تو نماز تو مولوی صاحبان میں سے کسی نے پڑھائی اور سلام کے بعد حضرت مسیح موعودؑ آگے بڑھ جاتے تھے اور جنازہ پڑھادیا کرتے تھے۔ (سیرت المہدی جلد ۳صفحہ۱۶۷)
حضرت پیر سراج الحق صاحب نعمانی ؓنے حضور کے پیچھے کئی دفعہ نماز جنازہ پڑھی۔ آپؑ بعض واقعات کا تذکرہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں:حضرت مولوی نورالدین صاحبؓ کا صاحبزادہ فوت ہو گیا اور اس کے جنازہ میں بہت احباب شریک تھے کہ حضرت اقدسؑ نے نماز جنازہ پڑھائی اور بڑی دیر لگی بعدسلام کے آپ نے تمام مقتدیوں کی طرف منہ کر کے فرمایا کہ اس وقت ہم نے اس لڑکے کی نماز جنازہ ہی نہیں پڑھی بلکہ تم سب کی جو حاضر ہو اور ان کی جو ہمیں یاد آیانماز جنازہ پڑھ دی ہے۔ ایک شخص نے عرض کیا کہ اب ہمارے جنازہ پڑھنے کی تو ضرورت نہیں رہی حضرت اقدس نے فرمایا کہ اگر تم میں سے کسی کو ایسا موقع نہ ملے تو یہی نماز کافی ہو گئی ہے اس پر تمام حاضرین احباب کو بڑی خوشی ہوئی اور حضرت مسیح موعودؑ نے جو سب کی طرف متوجہ ہو کرفرمایا کہ ہم نے تم سب کی نماز جنازہ پڑھ دی ایسے پر شوکت اور یقین سے بھرے ہوئے الفاظ میںیہ فرمایا کہ جس سے آپ کے الفاظ اور چہرہ سے یہ معلوم ہوتا تھا کہ گویا ہم سب آپ کے سامنے جنازہ ہیں اور یقیناً ہماری مغفرت ہو گئی اور ہم جنت میں داخل ہو گئے اور آپ کی دعا ہمارے حق میں مغفرت کی قبول ہو گئی ہے اور اس میں کسی قسم کا شک وشبہ باقی نہیں رہا۔ (تذکرة المہدی صفحہ۷۹)
حضرت ڈاکٹر میر محمد اسمٰعیل صاحبؓ فرماتے ہیں کہ ۱۹۰۵ء کے زلزلہ کے بعد جب باغ میں رہائش تھی۔ تو ایک دن حضرت مسیح موعودؑ نے فرمایا کہ آج ہم نے اپنی ساری جماعت کا جنازہ پڑھ دیا ہے۔ حضرت مرز ابشیر احمد صاحبؓ روایت فرماتے ہیںکہ پورا واقعہ یوں ہے کہ ان ایام میں آپ نے جب ایک دفعہ کسی احمدی کا جنازہ پڑھا تو اس میں بہت دیر تک دعا فرماتے رہے اور پھر نماز کے بعد فرمایا کہ ہمیں علم نہیں کہ ہمیں اپنے دوستوں میں سے کس کس کے جنازہ میں شرکت کا موقعہ ملے گا۔ اس لئے آج میں نے اس جنازہ میں سارے دوستوں کے لئے جنازہ کی دعا مانگ لی ہے اور اپنی طرف سے سب کا جنازہ پڑھ دیا ہے۔ (سیرت المہدی جلد ۳صفحہ۲۱)
حضرت پیر سراج الحق صاحبؓ فرماتے ہیں کہ اٹھارہ بیس برس کا ایک شخص نوجوان تھا وہ بیمار ہوا اور اس کو حضرت مسیح موعودؑ کے حضور کسی گائوں سے لے آئے اور وہ قادیان میںآپ کی خدمت میں آیا چند روز بیمار رہ کر وفات پا گیا۔ صرف اس کی ضعیفہ والدہ ساتھ تھی۔ حضرت اقدس نے حسب عادت شریفہ اس مرحوم کی نماز جنازہ پڑھائی بعض کو بباعث لمبی لمبی دعائوں کے نماز میں دیر لگنے کے چکر بھی آ گیا اور بعض گھبرا ا ٹھے (یہ گھبرانا اور چکرانا یا تھک جانا دراصل ابتدائی حالت ہے ورنہ بعد میں جو اس تعلیم حقہ اور صحبت کے یقینی رنگ میں رنگے گئے پھر تو ذوق وشوق کی حالت ہر ایک میں ایسی پیدا ہو گئی کہ دیر بھی عجلت معلوم ہوتی تھی او رہر شخص یہی چاہتا تھا کہ ابھی اور لمبی نماز کی جائے اور نماز اور دعائوں کو طول دیا جائے) بعد سلام کے فرمایا کہ وہ شخص جس کے جنازہ کی ہم نے اس وقت نماز پڑھی اس کے لئے ہم نے اتنی دعائیں کی ہیں اور ہم نے دعاؤں میں بس نہیں کی جب تک اس کو بہشت میں داخل کرا کر چلتا پھرتا نہ دیکھ لیا۔ یہ شخص بخشا گیا۔ اس کو دفن کردیا۔ رات کو اس کی والدہ نے خواب میں دیکھا کہ وہ بہشت میں بڑے آرام سے ٹہل رہا ہے اور اس نے کہا کہ حضرت کی دعا سے مجھے بخش دیا اور مجھ پر رحم فرمایا اور جنت میرا ٹھکانا کیا گوکہ اس کی والدہ کو اس کی موت سے سخت صدمہ تھا لیکن اس مبشر خواب کے دیکھتے ہی وہ ضعیفہ خوش ہوگئی اور تمام صدمہ اور رنج و غم بھول گئی اور یہ غم مبدل بہ راحت ہو گیا۔ (تذکرة المہدی صفحہ ۷۹-۸۰)
حضرت پیر سراج الحق صاحبؓ نعمانی فرماتے ہیں: میاں جان محمد صاحب کا جنازہ قبرستان میں گیا تو حضرت اقدسؑ نے نماز جنازہ پڑھائی اور خود امام ہوئے نماز میںاتنی دیر لگی کہ ہمارے مقتدیوں کے کھڑے کھڑے پیر دکھنے لگے اورہاتھ باندھے باندھے درد کرنے لگے اوروں کی تو میں کہتا نہیں کہ ان پر کیا گزری لیکن میں اپنی کہتا ہوں کہ میرا حال کھڑے کھڑے بگڑ گیا اور یوں بگڑا کہ کبھی ایسا موقع مجھے پیش نہیں آیا کیونکہ ہم نے دو منٹ میں نماز جنازہ ختم ہوتے دیکھی ہے پھر مجھے ہوش آیا تو سمجھا کہ نماز تو یہی نماز ہے پھر تومیں مستقل ہوگیا اور ایک لذت اور سرور پیدا ہونے لگا اور یہ جی چاہتا تھا کہ ابھی اور نماز لمبی کریں۔ جب نماز جنازہ سے فارغ ہوئے تو حضرت اقدسؑ مکان کو تشریف لے چلے۔ ایک صاحب نے عرض کیا کہ حضور اتنی دیر نماز میں لگی کہ تھک گئے۔ حضور کا کیا حال ہوا ہو گا۔ یعنی آپ بھی تھک گئے ہوں گے۔حضرت اقدسؑ نے فرمایا : ہمیں تھکنے سے کیا تعلق ہم تو اللہ تعالیٰ سے دعائیں کرتے تھے، اس سے مرحوم کے لئے مغفرت مانگتے تھے۔ مانگنے والا بھی کبھی تھکا کرتا ہے۔ جو مانگنے سے تھک جاتاہے وہ رہ جاتا ہے۔ ہم مانگنے والے اور وہ دینے والا پھر تھکنا کیسا۔ جس سے ذراسی بھی امید ہوتی ہے وہاں سائل ڈٹ جاتا ہے اور بارگاہ احدیت میں تو ساری امیدیں ہیں ۔ وہ معطی ہے، وہّاب ہے، رحمٰن ہے، رحیم ہے اور پھر مالک ہے اور پھر عزیز۔
ایک صاحب نے پوچھاحضور نے کیا کیا دعائیں کیں دعاء ماثور ہ تو چھوٹی سی دعا ہے۔
حضرت اقدسؑ : دعائیں جو حدیثوں میں آئی ہیں وہ دعا کا طرز اور طریق سکھانے کے لئے ہیں یہ تو نہیں کہ بس یہی دعائیں کرو اور اس کے بعد جو ضرورتیں اور پیش آئیں ان کے لئے دعا نہ کرو۔ دعا کا سلسلہ قرآن شریف نے اور حدیث شریف نے چلا دیا۔ اب آگے داعی پراس کی ضرورتوں کے لحاظ سے معاملہ رکھ دیا کہ جیسی ضرورتیں اور مطالب اور مقاصد پیش آئیں دعا کرے۔ ہم نے اس مرحوم کے لئے بہت دعائیں کیں اور ہمیں یہ خیال بندھ گیا کہ یہ شخص ہم سے محبت رکھتا تھا ہمارے ساتھ رہتا تھا ہمارے ہر ایک کام میں شریک رہتا تھا اور اب یہ ہمارے سامنے پڑا ہے اب ہمارا فرض ہے کہ اس وقت ہم شریک حال ہوں اور یہ وہ ہے کہ اس کے واسطے جناب باری میں دعائیں کی جائیں سو اس وقت جہاں تک ہم میں طاقت تھی دعائیں کیں۔میں کچھ بولنا چاہتا تھا جو حضرت مولانا نورالدین صاحبؓ بول اٹھے۔جناب مجھے اس وقت یہ خیال آیا اور اس وقت بھی کہ جب مرحوم کا جنازہ پڑھا جا رہا تھا کہ یہ جنازہ میں ہوتا۔حضرت اقدس نے ہنس کر فرمایا آپ مولوی صاحب نیکیوں میں سَابِقُ بِالۡخَیۡرٰتِ ہیں۔ اِنَّما الأعمالُ بالنِّيَّاتِ۔ انسان کو نیت صحیح کے مطابق اجرمل جاتا ہے اور آپ تو نورالدین اسم بامسمی ہیں۔ (تذکرة المہدی صفحہ ۷۷-۷۸)
آخری عمل
حضرت مسیح موعودؑ کی مبارک زندگی کے آخری دن کا تذکرہ کرتے ہوئے حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ فرماتے ہیں(۲۶؍مئی ۱۹۰۸ء)کی صبح ہو گئی اور حضرت مسیح موعودؑ کی چارپائی کو باہر صحن سے اٹھا کر اندر کمرے میں لے آئے۔ جب ذرا روشنی ہو گئی تو حضور نے پوچھا کہ نماز کا وقت ہو گیا ہے؟ عرض کیا گیاکہ حضور ہو گیا ہے اس پرحضور نے بستر پر ہی ہاتھ مار کر تیمم کیا اور لیٹے لیٹے ہی نماز شروع کر دی۔ اسی حالت میں تھے کہ غشی سی طاری ہو گئی اور نماز پوری نہ کر سکے۔ تھوڑی دیر بعد حضور نے پھر دریافت فرمایا کہ صبح کی نماز کا وقت ہو گیا ہے؟ عرض کیا گیا کہ ہو گیا ہے۔ آپ نے پھر نیت باندھی اور لیٹے لیٹے نماز ادا کی۔ اس کے بعدنیم بے ہوشی کی کیفیت طاری رہی مگر جب کبھی ہوش آتا تھا وہی الفاظ اللہ میرے پیارے اللہ سنائی دیتے تھے اور ضعف لحظہ بلحظہ بڑھتا جاتا تھا۔(سلسلہ احمدیہ صفحہ۱۸۳)
حضرت مفتی محمد صادق صاحبؓ فرماتے ہیں:’’آپ کا آخری کام بھی دنیا میں عبادت الٰہی ہی تھا۔ آپ کی وفات کے وقت میں حضور کے قدموں میں حاضر تھا۔ جب تک آپ بول سکتے تھے۔ سوائے اس کے کوئی لفظ آپ کے منہ پر نہ تھا کہ اے میرے پیارے اللہ! اے میرے پیارے اللہ! آخری نصف شب اس حالت میں گزری یہاں تک کہ گلے کی خشکی کے سبب بولنا دشوار ہو گیا۔ جب کمرے میں فجر کی کچھ روشنی آپ نے دیکھی تو فرمایا نماز! اس وقت یہ عاجزحضور کے پاؤں دبا رہا تھا اور حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب… نے جو سرہانے کے قریب بیٹھے تھے، یہ سمجھا ،مجھے فرماتے ہیں کہ نماز کا وقت ہو گیا نماز پڑھ لو۔ انہوں نے عرض کی میں نماز پڑھ چکا ہوں۔ آپ نے دوبارہ فرمایا نماز! اور ہاتھ سینے پر باندھ کر نماز پڑھنی شروع کی۔ اس کے بعد حضور نے پھر کوئی کلمہ نہیں بولا یہاں تک کہ آٹھ بجے کے قریب حضور کا وصال اپنے حقیقی معبود اور محبوب کے سا تھ ہو گیا۔ پس آپ کا آخری فعل بھی اس دنیا میں عبادت ہی تھا۔ خلوت میں بھی عبادت الٰہی میں مصروف رہتے تھے اور جلوت میں بھی آپ عبادت الٰہی میں لگے رہتے تھے۔ آپ کا جینا بھی عبادت الٰہی میں تھا اور آپ کا فوت ہونا بھی عبادت الٰہی میں ہوا۔(الفضل ۳؍جنوری ۱۹۳۱ء)
درخت کے پھل
حضرت مسیح موعودؑ کے نمونہ اور تاثیرات قدسیہ کے نتیجے میں ایک عظیم جماعت عابدوں کی تیار ہوئی جن کی نمازوں کے برتن خشوع وخضوع اور برکات سے بھر پور تھے۔ حضرت مولانا غلام رسول صاحب راجیکیؓ تحریر فرماتے ہیں:سیدنا حضرت اقدس مسیح موعودؑ کے زمانہ حیات میں جب کہ خداتعالیٰ کی مقدس وحی کا نزول باران رحمت کی طرح ہو رہا تھا۔ اس عہد میں جو بات بار بار میرے تجربہ میں آئی یہ تھی کہ دعا کرنے اور نماز پڑھنے کی سمجھ اور لذت ان نمازوں کے ذریعہ آئی جو حضور اقدس کی معیت میں پڑھی گئیں۔ سبحان اللہ وہ کیا ہی مبارک زمانہ تھا کہ نماز کے وقت نمازیوں کے خشوع وخضوع، رقت قلب اور اشکبار آنکھوں کے ساتھ گڑگڑانے اور آہ وبکاکرنے کا شور مسجد مبارک میں بلند ہوتا تھا لو گ آستانہ الٰہی پر سربسجود ہوتے اور مسجد مبارک وجدانی صداؤں سے گونج اٹھتی۔ نبی وقت کی پاک صحبت او ربابرکت روحانی توجہ کا یہ اعجاز نما اثر جب بھی یاد آتا ہے تو دل پر خاص کیفیت طاری ہو جاتی ہے۔ حضرت اقدسؑ کے زمانہ میں حضور کی معیت میں قادیان میںشاید ہی کوئی نماز پڑھی ہو گی۔ جو رقت قلب اور اشکبار آنکھوں سے ادا نہ کی گئی ہو۔ علاوہ اس کے دعا کرنے پر جواب بھی فوراً مل جاتا۔ خواہ رات کو رویا کے ذریعہ یا کشفی طور پر یا بذریعہ الہام کے۔(حیات قدسی صفحہ۹۷۱)
حضر ت ڈاکٹر میر محمد اسمٰعیل صاحبؓ فرماتے ہیں کہ حضرت صاحب کے زمانہ میں اس عاجز نے نمازوں میں اور خصوصاً سجدوں میں لوگوں کو آج کل کی نسبت بہت زیادہ روتے سنا ہے رونے کی آوازیں مسجد کے ہر گوشہ سے سنائی دیتی تھیں۔ اور حضرت صاحبؑ نے اپنی جماعت کے اس رونے کا فخر کے ساتھ ذکر کیا ہے۔ جس نماز سے پہلے حضرت صاحب کی کوئی خاص تقریر اور نصیحت ہو جاتی تھی۔ اس نماز میں تو مسجد میں گویا ایک کہرام برپا ہو جاتا تھا۔ یہاں تک کہ سنگدل سے سنگدل آدمی بھی متاثر ہوئے بغیر نہ رہتے تھے۔ (سیرت المہدی جلد ۳صفحہ۱۱۶) حضرت میاں فضل محمد صاحبؓ بیان کرتے ہیں کہ جب میں نے پہلی دفعہ حضور کی بیعت کی تھی تو دل پوری طرح راضی نہیں تھا مگر بار بار یہی خیال آتا تھا کہ میں نے تو قادیان میں سوائے قرآن اور دینی باتوں کے کچھ نہیں سنا سب لوگ دن رات یاد الٰہی میں مشغول ہیں اس خیال کے ساتھ میں نے دعا کرنی شروع کی تو مجھے شرح صدر ہو گیا اور میں نے دوبارہ بیعت کی۔ (سیرت المہدی روایت نمبر ۱۲۳۶ )
حقیقت میں حضرت مسیح موعودؑ کا سب سے بڑا احسان یہی ہے کہ آپ ثریا سے ایمان واپس لائے آپ نے دلوں میں خدا کی محبت کے چراغ روشن کیے، عشق الٰہی کے پودے لگائے، ان کو اپنے آنسوؤں سے سینچنا سکھایا اور اپنے سچے متبعین کو مومن کی معراج عطا کر دی۔ آج دنیا میں جس قدر ایک احمدی کو دعا اور نماز پر یقین ہے دوسروں کو اس کا عشر عشیر بھی نصیب نہیں۔یہ حضرت مسیح موعودؑ کی نمازیں اور دعائیں ہی ہیں جو آج احمدیت کی ترقی کی ضامن ہیں اور ہمیشہ رہیں گی۔ ان شاءاللہ تعالیٰ