گنا ہ …کا علاج استغفار سے ہی ہو سکتا ہے
استغفار کے حقیقی اور اصلی معنے یہ ہیں کہ خدا سے درخواست کرنا کہ بشریت کی کوئی کمزوری ظاہر نہ ہو اور خدا فطرت کو اپنی طاقت کا سہارا دے اور اپنی حمایت اور نصرت کے حلقہ کے اندر لے لے یہ لفظ غَفْر سے لیا گیا ہے جو ڈھانکنے کو کہتے ہیں سو اس کے یہ معنے ہیں کہ خدا اپنی قوت کے ساتھ شخص مُسْتَغْفِرکی فطرتی کمزوری کو ڈھانک لے۔ لیکن بعداس کے عام لوگوں کے لئے اس لفظ کے معنے اور بھی وسیع کئے گئے اور یہ بھی مراد لیا گیا کہ خدا گناہ کو جو صادر ہو چکا ہے ڈھانک لے۔ لیکن اصل اور حقیقی معنی یہی ہیں کہ خدا اپنی خدائی کی طاقت کے ساتھ مستغفر کو جو استغفار کرتا ہے فطرتی کمزوری سے بچاوے اور اپنی طاقت سے طاقت بخشے اور اپنے علم سے علم عطا کرے اور اپنی روشنی سے روشنی دے۔
(عصمتِ انبیاءؑ، روحانی خزائن جلد ۱۸ صفحہ ۶۷۱)
گنا ہ ایک ایسا کیڑا ہے جو انسان کے خون میں ملا ہو ا ہے مگر اس کا علاج استغفار سے ہی ہو سکتا ہے۔ استغفارکیا ہے؟ یہی کہ جو گناہ صادرہو چکے ہیں ان کے بدثمرات سے خدا تعالیٰ محفوظ رکھے اور جوابھی صادرنہیں ہوئے اور جوبالقوۃانسان میں موجود ہیں ان کے صدور کا وقت ہی نہ آوے اور اندر ہی اندروہ جل بھن کرراکھ ہو جاویں۔
یہ وقت بڑے خوف کا ہے۔ اس لئے توبہ و استغفار میں مصروف رہواور اپنے نفس کا مطالعہ کرتے رہو۔ ہر مذہب وملّت کے لوگ اور اہل کتاب مانتے ہیں کہ صدقات وخیرات سے عذاب ٹل جا تا ہے مگر قبل ازنزول عذاب۔ مگر جب نا زل ہوجاتا ہے تو ہرگز نہیں ٹلتا۔ پس تم ابھی سے استغفار کرواور توبہ میں لگ جائوتا تمہاری باری ہی نہ آوے اور اللہ تعالیٰ تمہاری حفا ظت کرے۔
(ملفوظات جلد ۵صفحہ ۲۹۹ ایڈیشن ۱۹۸۴ء)
خوب یاد رکھو کہ دل اللہ تعالیٰ ہی کے ہاتھ میں ہے۔ اس کا فضل نہ ہو تو دوسرے دن جا کر عیسائی ہو جاوے یا کسی اَور بےدینی میں مبتلا ہو جاوے۔ اس لئے ہر وقت اس کے فضل کے لئے دعا کرتے رہو اور اس کی استعانت چاہو تا کہ صراط مستقیم پر تمہیں قائم رکھے۔جو شخص خدا تعالیٰ سے بے نیاز ہوتا ہے وہ شیطان ہو جاتا ہے۔ اس کے لئے ضروری ہے کہ انسان استغفار کرتا رہے تا کہ وہ زہر اور جوش پیدا نہ ہو جو انسان کو ہلاک کر دیتا ہے۔
(ملفوظات جلد۸صفحہ ۱۵۵، ایڈیشن ۱۹۸۴ء)