ایک حقیقی مومن کے لیے دونوں حقوق کا خیال رکھنا ضروری ہے (انتخاب از خطبہ جمعہ حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ ۲۲؍اپریل ۲۰۲۲ء)
اگر نیک کام کرنے، عبادات کرنے، نیکیاں بجا لانے کے باوجود انسان کی حالت پر اثر نہیں پڑ رہا تو پھر قابل فکر بات ہے۔ بہت سارے لوگ کچھ سوال بھی لکھتے ہیں، بھیجتے ہیں کہ کس طرح پتا لگے۔ تو پتا اسی طرح لگے گا کہ اگر نیکیوں کی طرف زیادہ توجہ پیدا ہو رہی ہے، اللہ کی طرف توجہ زیادہ پیدا ہو رہی ہے تو پھر وہ کام انسان اللہ تعالیٰ کی خاطر کر رہا ہے اور اللہ تعالیٰ اس میں برکت ڈال رہا ہے۔تقویٰ کی راہوں کی نشاندہی کرتے ہوئے، اس طرف توجہ دلاتے ہوئے آپؑ فرماتے ہیں کہ ’’انسان کی تمام روحانی خوبصورتی تقویٰ کی تمام باریک راہوں پر قدم مارنا ہے۔ تقویٰ کی باریک راہیں روحانی خوبصورتی کے لطیف نقوش اور خوشنما خط و خال ہیں۔‘‘ تقویٰ کی باریک راہیں کیا ہیں کہ روحانی طور پر اس میں ایک خوبصورتی پیدا ہو جاتی ہے۔ ’’اور ظاہر ہے کہ خدا تعالیٰ کی امانتوں اور ایمانی عہدوں کی حتی الوسع رعایت کرنا اور سر سے پیر تک جتنے قویٰ اور اعضاء ہیں جن میں ظاہری طور پر آنکھیں اور کان اور ہاتھ اور پیر اور دوسرے اعضاء ہیں اور باطنی طور پر دل اور دوسری قوتیں اور اخلاق ہیں ان کو جہاں تک طاقت ہو ٹھیک ٹھیک محل ضرورت پر استعمال کرنا اور ناجائز مواضع سے روکنا اور ان کے پوشیدہ حملوں سے متنبّہ رہنا اور اسی کے مقابل پر حقوقِ عباد کا بھی۔‘‘ یہ چیزیں جو ہیں ایمانی عہد ہیں جو اللہ تعالیٰ سے ہم نے کیے ہیں کہ اپنی آنکھ کو بھی صحیح جگہ استعمال کرنا ہے۔ بدنظری سے بچانا ہے۔ غلط کاموں سے بچانا ہے۔ کانوں کو بھی غلط باتیں سننے سے بچانا ہے۔ ہاتھ اور پیر سے بھی نیک عمل کرنے ہیں۔ دل کے اندر جو گندے خیالات ہیں ان کو بھی نکالنا ہے اور اس کے لیےزیادہ سے زیادہ استغفار بھی کرنی چاہیے۔
دوسری قوتیں ہیں ان سے بھی کام لینا ہے۔ اپنے اخلاق کو اعلیٰ معیار تک پہنچانا ہے۔ یہ عہد ہیں ایمانی عہد جو اللہ تعالیٰ سے انسان کرتا ہے۔ فرمایا کہ تم نے ان کو پورا کرنا ہے اور اس کے مقابلے پر فرمایا کہ حقوق العباد کا بھی لحاظ رکھنا ہے۔ بندوں کے جو حقوق ہیں ان کا بھی خیال رکھنا ہے۔ وہ چیزیں تو تمہارے اپنے لیے ہو گئیں اب بندوں کے حق بھی ادا کرنے ہیں اور اگر یہ حق ادا ہوں گے تو فرمایا ’’یہ وہ طریق ہے جو انسان کی تمام روحانی خوبصورتی اس سے وابستہ ہے۔‘‘اللہ کے حق ادا ہو گئے، بندوں کے حق ادا ہو گئے تو روحانی خوبصورتی انسان میں پیدا ہو جاتی ہے ’’اور خدا تعالیٰ نے قرآن شریف میں تقویٰ کو لباس کے نام سے موسوم کیا ہے۔ چنانچہ لِبَاسُ التَّقْوٰى قرآن شریف کا لفظ ہے۔ یہ اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ روحانی خوبصورتی اور روحانی زینت تقویٰ سے ہی پیدا ہوتی ہے اور تقویٰ یہ ہے کہ انسان خدا کی تمام امانتوں اور ایمانی عہد اور ایسا ہی مخلوق کی تمام امانتوں اور عہد کی حتی الوسع رعایت رکھے یعنی ان کے دقیق در دقیق پہلوؤں پر تا بمقدور کاربند ہو جائے۔‘‘(ضمیمہ براہین احمدیہ حصہ پنجم، روحانی خزائن جلد 21 صفحہ 209-210)
عبادات کے بارے میں اللہ تعالیٰ کے جو حکم ہیں، اپنی ذات کو صحیح کرنے کے بارے میں، لوگوں کے حق ادا کرنے کے بارے میں ان کی باریکیوں میں جا کر اُن کو ادا کرنے کی کوشش کرو۔ پس جب تک انسان حقوق اللہ اور حقوق العباد کے باریک در باریک پہلوؤں پر عمل کرنے کی کوشش نہ کرے اس وقت تک آپؑ نے فرمایا کہ تقویٰ کا معیار حاصل نہیں ہوتا۔ پس یہ بہت اہم نکتہ ہے جسے ہمیں یاد رکھنا چاہیے کہ صرف عبادتیں اگر اس کے ساتھ بندوں کے حقوق کی ادائیگی نہیں تو کچھ فائدہ نہیں دیتیں اور صرف مخلوق کے بعض حق ادا کر دینا اور خدا تعالیٰ کو بھول جانا جس طرح لوگ کہتے ہیں ہم بندوں کے حق ادا کر رہے ہیں یہ بھی تقویٰ پر چلنے والے نہیں بنا سکتے۔ ایک حقیقی مومن کے لیے دونوں حقوق کا خیال رکھنا ضروری ہے۔
پھر بدعات کے پھیلنے اور تقویٰ سے دوری کا ذکر کرتے ہوئے آپؑ فرماتے ہیں کہ ’’ہزارہا قسم کی بدعات ہر فرقہ اور گروہ میں اپنے اپنے رنگ کی پیدا ہو چکی ہیں۔ تقویٰ اور طہارت جو اسلام کا اصل منشاء اور مقصود تھا جس کے لئے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے خطرناک مصائب برداشت کیں جن کو بجز نبوت کے دل کے کوئی دوسرا برداشت نہیں کر سکتا وہ آج مفقود و معدوم ہو گیا ہے۔ جیل خانوں میں جا کر دیکھو کہ جرائم پیشہ لوگوں میں زیادہ تعداد کن کی ہے۔‘‘یعنی جرائم پیشہ لوگ جو ہیں ان میں کن کی تعداد ہے آپ اس طرف اشارہ فرما رہے ہیں کہ جرائم پیشہ مسلمان زیادہ ہیں۔ گھانا میں ہمارے ایک منسٹر تھے۔ میں پہلے بھی بیان کر چکا ہوں وہ بتایا کرتے تھے کہ ہماری میٹنگ ہو رہی تھی تو انہوں نے کہا کہ ہماری جیلوں میں زیادہ تعداد مسلمانوں کی ہے۔ انہوں نے کہا میں احمدی ہوں اور میں یہ چیلنج کرتا ہوں کہ ان مسلمانوں میں سے تم دیکھ لو گے کہ احمدی کوئی نہیں ہو گا یا احمدی ہوں گے تو اس نسبت کے لحاظ سے بالکل برائے نام اور جب جا کے جائزہ لیا گیا تو یہی بات صحیح نکلی۔ تو حقیقی مومن، حقیقی احمدی کی یہ نشانی ہے اور یہ پھر تبلیغ کا بہت بڑا ذریعہ بن جاتا ہے۔ اگر اس چیز کو ہم اپنے سامنے رکھیں اور ہر معاملے میں، ہر عمل میں، اپنے کاروباروں میں، اپنی نوکریوں میں، اپنی روزمرہ کی لوگوں کے ساتھ dealingمیں اپنے اعلیٰ اخلاق دکھلانے والے ہوں، اپنی عبادتوں کے معیار بلند کرنے والے ہوں۔ تقویٰ دل میں پیدا کرنے کی کوشش کرنے والے ہوں، اللہ تعالیٰ کا خوف دل میں رکھنے والے ہوں تو پھر جہاں یہ ہماری اصلاح کا باعث بنے گی وہاں تبلیغ کا بھی ایک خاموش ذریعہ بن جاتی ہے۔
فرمایا’’زنا، شراب اور اِتلافِ حقوق اور دوسرے جرائم اس کثرت سے ہو رہے ہیں کہ گویا یہ سمجھ لیا گیا ہے کہ کوئی خدا نہیں۔ اگر مختلف طبقاتِ قوم کی خرابیوں اور نقائص پر مفصل بحث کی جاوے تو ایک ضخیم کتاب تیار ہو جاوے۔ ہر دانشمند اور غور کرنےو الا انسان قوم کے مختلف افراد کی حالت پر نظر کر کے اس صحیح اور یقینی نتیجہ پر پہنچ جاوے گا کہ وہ تقویٰ جو قرآن کریم کی علّت غائی تھاجو اکرام کا اصل موجب اور ذریعہ شرافت تھا آج موجود نہیں۔‘‘ قرآن کریم تو تقویٰ پیدا کرنا چاہتا تھا۔ یہی مقصد تھا قرآن کریم کا۔ وہ مسلمانوں میں مفقود ہو گیا۔ فرمایا کہ ’’عملی حالت جس کی اشد ضرورت تھی کہ اچھی ہوتی اور جو غیروں اور مسلمانوں میں مابہ الامتیاز تھی سخت کمزور اور خراب ہو گئی ہیں۔‘‘(ملفوظات جلد4صفحہ 4 ایڈیشن1984ء) اگر ایسی حالت ہو تو پھر کیا تبلیغ ہونی ہے اور پھر کیا مسلمانوں کا اثر دنیا پہ ہونا ہے اور اسی کا نتیجہ ہم آج کل دیکھ رہے ہیں اور اس کا حل احمدیوں کے پاس ہے۔ اگر ہم بھی بگڑ گئے تو پھر کون سنبھالے گا اوراللہ تعالیٰ کے فضل سے حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے جو اللہ تعالیٰ کے وعدے ہیں وہ تو پورے ہونے ہیں لیکن ہم اگر ان میں شامل نہ ہوئے تو اللہ تعالیٰ اور قوموں کو کھڑا کر دے گا اور ان کے ذریعہ سے وعدے پورے کروا دے گا۔
جب ہمارے معاشرے کی یہ حالت ہو جائے جیسی حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے بیان کی ہے تو ہمیں کتنی فکر اپنے نیکی اور تقویٰ کے معیاروں کے لیے کرنی چاہیے اور کتنی فکر ہمیں اپنی نسلوں کی نیکی اور تقویٰ کے معیاروں کے لیے کرنی چاہیے۔ آپؑ نے یہ بھی فرمایا کہ تقویٰ یہ نہیں کہ اللہ تعالیٰ کی نعمتوں سے فائدہ نہ اٹھایا جائے بلکہ ان سے فائدہ نہ اٹھاؤ گے تو یہ بھی تقویٰ سے دوری ہے۔