سورۃ بقرۃ کی آخری آیت …ایک دعا
(انتخاب از خطبہ جمعہ حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ ۸؍مارچ ۲۰۱۳ء)
…دوسری دعا جس کی ہمیں بہت ضرورت ہے اس کی بھی بڑی اہمیت ہے، وہ سورۃ بقرۃ کی آخری آیت ہے جس کی میں نے تلاوت کی ہے جس میں ہمیں اللہ تعالیٰ نے توجہ دلائی ہے کہ یہ دعا مانگو کہ رَبَّنَا لَا تُؤَاخِذۡنَاۤ اِنۡ نَّسِیۡنَاۤ اَوۡ اَخۡطَاۡنَا کہ اے ہمارے رب! ہمیں نہ پکڑ اگر ہم بھول جائیں یا ہمارے سے کوئی غلطی سرزد ہوجائے۔
بھول جانے کے معنی ہیں کہ کوئی کام کرنا ضروری ہے لیکن نہ کیا جائے۔ ایک تو یہ کہ جان بوجھ کر نہیں چھوڑا بلکہ بھول گئے۔ دوسرے یہ کہ ہمیں اندازہ ہی نہیں تھا کہ اگر اس کو نہ کیا اور وقت پر نہ کیا تو اس کی ہمارے لئے کتنی اہمیت ہے۔ اور اس خیال میں رہیں کہ کوئی بات نہیں۔ نہیں کیا تو کیا ہوا، معمولی سا کام ہے۔ اس لئے اللہ تعالیٰ سے دعا مانگی ہے کہ ہمیں بھولنے اور خطا کرنے سے بچا۔ لیکن یوں بھی ہوتا ہے کہ ایک اہم کام ہے، انسان کو تو علم نہیں کہ کونسا اہم ہے اور کونسا نہیں، اس کے نہ کرنے سے ہماری روحانی ترقی میں فرق آ سکتا ہے، ہمارے خدا تعالیٰ سے تعلق میں فرق آ سکتا ہے۔ پس اے اللہ! تُو ہمیں ایک تو ایسی غلطیاں کرنے سے بچا۔ دوسرے اگر غلطیاں ہو گئی ہیں تو اس پر پکڑ نہ کر۔ اسی طرح کسی کام کے غلط طریق سے کرنے سے یا ایسا کام کرنے سے جو ہمیں نہیں کرنا چاہئے، ہمیں پکڑ میں نہ لے۔ ہمارا مؤاخذہ نہ کر۔ بلکہ ہماری خطاؤں کو معاف فرما اور معاف فرماتے ہوئے اُن کے بد اثرات سے اور اپنی ناراضگی سے ہمیں بچا لے۔ لیکن اگر ہم جان بوجھ کر ایک غلط کام کرتے جائیں یا غلط طریق پر کرتے چلے جائیں۔ اپنی اصلاح کی طرف کوشش نہ کریں اور پھر یہ دعا بھی مانگتے ہیں تو پھر یہ دعا نہیں ہو گی بلکہ اللہ تعالیٰ اور دعا کے ساتھ ایک مذاق بن جائے گا۔ پس دعائیں بہتر نتائج کے لئے ہوتی ہیں نہ کہ خدا تعالیٰ کو آزمانے کے لئے۔ اس لئے جہاں اپنے عمل ہوں گے وہیں دعا بھی حقیقی دعا بنے گی۔ اور جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا کہ اُس پر اُس کو کمال تک پہنچاؤ۔
پھر آتا ہے: رَبَّنَا وَلَا تَحۡمِلۡ عَلَیۡنَاۤ اِصۡرًا کَمَا حَمَلۡتَہٗ عَلَی الَّذِیۡنَ مِنۡ قَبۡلِنَا۔ یعنی ہم پر ایسا بوجھ نہ ڈال جو پہلوں پر ڈالا گیا اور اُس کی وجہ سے اُنہیں سزا ملی۔
یہاں یہ بات یاد رکھنی چاہئے کہ اس کا نمازیں پڑھنے یا قرآنِ کریم کے جو احکامات ہیں ان سے اس کا تعلق نہیں۔ اس میں یہ نہیں کہا کہ یہ ہمارے غیر معمولی بوجھ ہیں۔ خدا تعالیٰ نے تو پہلے ہی فرما دیا۔ لَا یُکَلِّفُ اللّٰہُ نَفۡسًا اِلَّا وُسۡعَہَا کہ اللہ تعالیٰ اپنے احکامات انسان کی طاقت اور وسعت کے مطابق دیتا ہے۔ اس بوجھ نہ ڈالنے کے یہ معنی ہیں کہ بعض جرموں کی وجہ سے پہلے لوگوں کو سزائیں دی گئیں، وہ سزائیں ہم پر نازل نہ ہوں۔ اور ہم سے وہ غلطیاں سرزدنہ ہوں جو پہلے لوگوں سے سرزد ہوئیں اور وہ تباہ ہو گئے۔ اگر ہم غلطیاں بھی کرتے رہیں اور پھر کہیں کہ ہمیں سزا بھی نہ ملے جو پہلوں کو ملی تو یہ تو نہیں ہو سکتا۔ یہ اللہ کے عمومی قانون کے خلاف ہے۔ پس یہ دعا اور ساتھ برے اعمال سے بچنے کی کوشش ہی انسان کو اُس سزا سے بچاتی ہے۔ پہلے لوگوں کی خطاؤں کی وجہ سے اُن پر ایسی حکومتیں مسلّط کر دی گئیں جو اُن کے حقوق کا خیال نہیں رکھتی تھیں۔ پس ہمیں ایسے حکمرانوں سے بچا جو ہمارے لئے سزا بن گئے ہیں اور تیری ناراضگی کی وجہ سے یہ سزا ہم پر مسلّط ہے۔ اگر تو ناراضگی کی وجہ سے ہے تو بہت زیادہ درد سے دعائیں کرنے کی ضرورت ہے۔ اگر یہ صرف امتحان ہے تو اس امتحان کو بھی ہم سے ہلکا کر دے۔
پھر یہ دعا سکھائی کہ رَبَّنَا وَلَا تُحَمِّلْنَا مَالَا طَاقَۃَ لَنَابِہٖ۔ بعض دفعہ دوسروں کی سزا کا بھی اثر انسان پر پڑتا ہے۔ یا کسی نہ کسی طریقے سے اثر پہنچ رہا ہوتا ہے۔ اس لئے اس سے بچنے کی بھی دعا سکھائی کہ اللہ تعالیٰ دوسروں کے قصور کی سزا کے اثرات سے بھی بچائے رکھے۔ لڑائی اور جنگ میں دہشتگردی کے حملوں میں جن کو مارنا مقصودنہیں ہوتا، وہ بھی مارے جاتے ہیں۔ جیسا کہ میں نے ابھی بتایا ہے، کسی خاص گروپ کو مارنا چاہتے تھے لیکن وہاں جو بھی گیا وہ مر گیا۔ معصوم بچے بھی مرجاتے ہیں۔ حضرت مصلح موعودؓ نے بیان فرمایا ہے کہ مَالَا طَاقَۃَ لَنَابِہٖ کی شرط اس لئے ہے کہ یہاں ناراضگی کا سوال نہیں، بلکہ دنیاوی مسائل اور ابتلاؤں کا ذکر ہے۔ ناراضگی تو خدا تعالیٰ کی چھوٹی بھی برداشت نہیں ہوتی لیکن چھوٹی تکلیف برداشت کر لی جاتی ہے۔ پس روحانی سزا میں یہ دعا ہے کہ ہمیں تیری کسی ناراضگی کو برداشت کرنے کی طاقت نہیں۔ مگر جب دنیاوی تکالیف کا ذکر آیا تو وہاں یہ دعا سکھائی کہ مجھے چھوٹے موٹے ابتلاؤں پر اعتراض نہیں۔ مَیں یہ نہیں کہتا کہ ہمیشہ پھولوں کی سیج پر چلتا رہوں کیونکہ اللہ تعالیٰ نے انسان کی آزمائش کے لئے فرمایا ہے کہ میں امتحان لوں گا۔ البتہ وہ ابتلاء جو دنیا میں تیری ناراضگی کا موجب نہیں ہیں اور دنیا میں آتے رہتے ہیں، اُن کے بارے میں میری یہ دعا ہے کہ ایسا نہ ہو کہ وہ ابتلا میری طاقت سے بالا ہو۔ مومن ابتلاؤں کی خواہش نہیں کرتا۔ لیکن جیسا کہ مَیں نے کہا خدا تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ میں مومن کو آزماتا ہوں، اس لئے آزمائش کو آسان کرنے کی دعا بھی سکھا دی۔ (ماخوذ ازتفسیر کبیر جلد 2صفحہ 659)
اور پھر فرمایا کہ یہ دعا کرو کہ وَاعۡفُ عَنَّا۔ مجھ سے عفو کر اور بدنتائج سے مجھے بچا لے وَاغْفِرْلَنَا جو غلط کام میرے سے ہوگئے ہیں اُن کے نتائج اور اثرات سے مجھے بچا لے۔ میرے غلط کاموں پر پردہ ڈال دے اور یوں ہو جائے جیسے میں نے غلط کام کیا ہی نہیں۔ عفو کے معنی رحم کے بھی ہوتے ہیں اور جو چیز کسی انسان سے رہ جائے، اُس کا ازالہ اسی صورت میں ہوتا ہے کہ وہ مہیا کر دی جائے۔ پس وَاعۡفُ عَنَّامیں یہ فرمایا کہ میرے عمل میں سے جو چیز رہ گئی ہے، یا میرے کام میں جو چیز رہ گئی ہے، تُو اُسے اپنے رحم اور فضل سے مہیا فرما دے۔ وَارْحَمْنَا۔ یعنی جو بھی میرے سے غلطیاں ہوئی ہیں اور میری ترقی کے راستے میں روک ہیں یا میری وجہ سے جماعتی ترقی پر اثر انداز ہو سکتی ہیں اُن غلطیوں کے متعلق مجھ پر رحم کر اور ترقیات کے راستے میں تمام روکوں کو دور فرما دے۔
اَنْتَ مَوْلٰنَا۔کہ تو ہمارا مولیٰ ہے۔ ہمارا آقا ہے۔ لوگوں نے ہماری کمزوریاں تیری طرف منسوب کرنی ہیں۔ آج دنیا میں ایک ہی جماعت ہے جس کا یہ دعویٰ ہے کہ ہم جماعت ہیں۔ کوئی فردِ جماعت بھی جب کوئی حرکت کرتا ہے تو اُس کا اثر مجموعی طور پر بعض دفعہ جماعت پر ہی پڑ جاتا ہے۔ پس اے خدا! جب لوگوں نے کمزوریاں تیری طرف منسوب کرنی ہیں، لوگوں نے یہ کہنا ہے کہ یہ الٰہی جماعت کہلاتی ہے، دعویٰ کرتی ہے، اُسے بھی دوسروں کی طرح تکلیفیں پہنچ رہی ہیں اور سزائیں بھی مل رہی ہیں۔ پس اے مولیٰ! تُو ہمارا آقا ہے، ہم تیرے خادم ہیں۔ تُوہم پر رحم کر۔ ہماری کمزوریاں تیری طرف منسوب ہوں گی، لوگ سمجھیں گے کہ یہ صرف ان کے دعوے ہیں ورنہ خداتعالیٰ سے ان کا کوئی تعلق نہیں اور جو ہدایت اور تبلیغ کا کام ہم کر رہے ہیں اُس میں روکیں پیدا ہوں گی، اُس پر اثر پڑے گا اور لوگ ہدایت سے محروم ہو جائیں گے۔ پس ہم رحم کی بھیک مانگتے ہیں۔ اپنی غلطیوں اور کوتاہیوں کا اقرار کرتے ہیں۔ تیرے سے عفو اور بخشش کے طلبگار ہیں۔