اللہ تعالیٰ کے قُرب کی حقیقت، اہمیت اور اس کو حاصل کرنے کے بعض طریق
(انتخاب از خطبہ جمعہ حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ ۲؍مئی ۲۰۱۴ء)
اس بات کی وضاحت فرماتے ہوئے کہ اللہ تعالیٰ کو حاصل کرنا ہے تو اس بات کا ادراک ہونا ضروری ہے کہ اصل نیکی خدا تعالیٰ کی ذات میں ہے اور اس کی طرف سے ہی نیکی آتی ہے۔ جو خدا تعالیٰ کی تعلیم کو اختیار کرنے سے ملتی ہے اور نتیجۃً خدا تعالیٰ کے انعامات اور اس کا قرب حاصل ہوتا ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں کہ ’’حقیقی طور پر بجز خدائے تعالیٰ کے اور کوئی نیک نہیں۔ تمام اخلاق فاضلہ اور تمام نیکیاں اسی کے لئے مسلم ہیں۔ پھر جس قدر کوئی اپنے نفس اور ارادت سے فانی ہوکر اس ذات خیر محض کا قرب حاصل کرتا ہے اسی قدر اخلاقِ الٰہیہ اس کے نفس پر منعکس ہوتی ہیں…‘‘ (یعنی جس قدر کوئی اپنے نفس اور ارادت یعنی چاہت اور پسند سے بالا ہو کر اللہ تعالیٰ کے قرب کی کوشش کرتا ہے تو پھر اسے اس کا قرب حاصل ہو جاتا ہے اور اخلاق الٰہیہ جو ہیں اس کے نفس پر منعکس ہوتے ہیں۔ جب انسان اپنے نفس سے بالا ہو، انسان اپنی پسندوں کوچھوڑے، اللہ تعالیٰ میں ڈوبنے کی کوشش کرے تو پھر یہ نتیجہ ہو گا کہ اللہ تعالیٰ کے جو اخلاق ہیں، اللہ تعالیٰ کے جو رنگ ہیں اس میں انسان رنگین ہونا شروع ہوتا ہے اور پھر جتنا زیادہ اللہ تعالیٰ کے رنگ میں رنگین ہو گا اس کے احکامات پر عمل کرنے کی توفیق ملتی چلی جائے گی، بڑھتی چلی جائے گی۔)
فرمایا: ’’…پس بندہ کو جو جو خوبیاں اور سچی تہذیب حاصل ہوتی ہے وہ خدا ہی کے قرب سے حاصل ہوتی ہے اور ایسا ہی چاہئے تھا کیونکہ مخلوق فی ذاتہٖ کچھ چیز نہیں ہے۔ سو اخلاق فاضلہ الٰہیہ کا انعکاس انہیں کے دلوں پر ہوتا ہے کہ جو لوگ قرآن شریف کا کامل اتباع اختیار کرتے ہیں …‘‘ اللہ تعالیٰ کے جو اخلاق فاضلہ ہیں اسی کے دل پر منعکس ہوتے ہیں، انہیں سے ان کا اظہار ہو رہا ہوتا ہے اسی کی جو قرآن شریف کی مکمل اور کامل پیروی کرتے ہیں اتباع کرتے ہیں۔ فرمایا: ’’…اور تجربہ صحیحہ بتلا سکتا ہے کہ جس مشرب صافی اور روحانی ذوق اور محبت کے بھرے ہوئے جوش سے اخلاق فاضلہ ان سے صادر ہوتے ہیں اس کی نظیر دنیا میں نہیں پائی جاتی اگرچہ منہ سے ہر یک شخص دعویٰ کرسکتا ہے اور لاف و گذاف کے طور پر ہریک کی زبان چل سکتی ہے مگر جو تجربہ صحیحہ کا تنگ دروازہ ہے اس دروازہ سے سلامت نکلنے والے یہی لوگ ہیں اور دوسرے لوگ اگر کچھ اخلاق فاضلہ ظاہر کرتے بھی ہیں تو تکلّف اور تصنّع سے ظاہر کرتے ہیں…‘‘ (جو اللہ تعالیٰ کے رنگ میں رنگین ہونے کی کوشش کرتا ہے قرآن شریف کے احکامات پر عمل کرنے کی کوشش کرتا ہے اسی سے ہی ایسے اخلاق ظاہر ہوں گے۔ دوسری دنیا میں یا اس کے علاوہ اگر کوئی اخلاق فاضلہ ظاہر کرتا ہے یا بظاہر اخلاق ظاہر ہو رہے ہیں تو تکلّف ہے، تصنّع ہے، بناوٹ ہے۔)
فرمایا: ’’… اور اپنی آلودگیوں کو پوشیدہ رکھ کر اور اپنی بیماریوں کو چھپا کر اپنی جھوٹی تہذیب دکھلاتے ہیں…‘‘ (ان کے اوپر جو گند ہیں، زنگ لگے ہوئے ہیں ان کو انہوں نے چھپایا ہوتا ہے، اخلاق اصل میں نہیں ہوتے وہ ظاہری لیپا پوتی ہوتی ہے، بناوٹ ہوتی ہے، تصنع ہوتی ہے۔
فرمایا: ’’… اپنی جھوٹی تہذیب دکھلاتے ہیں …‘‘ (سب کچھ انہوں نے چھپایا ہوتا ہے۔) ’’… اور ادنیٰ ادنیٰ امتحانوں میں ان کی قلعی کھل جاتی ہے…‘‘ (جب امتحان آتا ہے، آزمایا جاتا ہے تو قلعی کھل جاتی ہے۔ ذاتی مقدمے ہوتے ہیں تو اس وقت پتا لگ جاتا ہے کہ کتنے پانی میں ہیں۔ جھوٹ اور سچ اور اخلاق سب ظاہر ہو جاتے ہیں۔ یہ پتا لگ جاتا ہے کہ جھوٹ کتنا ہے۔ سچ کو کتنا چھپایا جا رہا ہے یہ پتا لگ جاتا ہے۔ اخلاق کس حد تک دکھائے جا رہے ہیں یہ پتا لگ جاتا ہے۔ اور یہ نہ بھی ہو تو حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے مثال دی ہے کہ ایک دفعہ بڑے پڑھے لکھوں کی ایک جگہ ایک مجلس میں جو ظاہری طور پر سوسائٹی کے بڑے سرکردہ بنے پھرتے تھے، ان کی مجلس میں فیصلہ ہوا کہ آج بے تکلف مجلس ہونی چاہئے اور آپ کہتے ہیں اس بے تکلفی کا معیار یہ تھا کہ جو کچھ بیہودگیاں ہو سکتی تھیں وہ کی گئیں۔ تو وہاں ان سب کی قلعی کھل جاتی ہے۔
فرمایا: ’’… اور تکلف اور تصنع اخلاق فاضلہ کے ادا کرنے میں اکثر وہ اس لئے کرتے ہیں کہ اپنی دنیا اور معاشرت کا حسن انتظام وہ اسی میں دیکھتے ہیں …‘‘ (یہ تکلف اور تصنع اور اخلاق کیوں دکھائے جاتے ہیں؟ اس لئے کہ ان کی جو دنیا ہے، جو دنیاوی باتیں ہیں، معاشرہ ہے اس میں وہ سمجھتے ہیں کہ ہمارے لئے یہ چیزیں دکھانی ضروری ہیں۔ اس سے ہمیں فائدہ ہوگا۔ اس لئے دکھایا جاتا ہے نہ کہ خدا تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے کے لئے۔)
فرمایا: ’’…اور اگر اپنی اندرونی آلائشوں کی ہر جگہ پیروی کریں تو پھر مہمات معاشرت میں خلل پڑتا ہے…‘‘ جو ان کے دلوں میں گندگی اور آلائشیں شامل ہوئی ہوئی ہیں اگر اس کی پیروی کریں، اس کے پیچھے چلیں تو جو کچھ ان کے دنیاوی کام ہیں وہ پھر متاثر ہوں گے، ان میں خلل پڑے گا۔ اس لئے یہ اخلاق دکھانے کا مقصد صرف ذاتی مفاد ہوتا ہے نہ کہ اخلاق کو لاگو کرنا۔ اخلاق پر عمل کرنا اس لئے کہ خدا تعالیٰ کی رضا حاصل ہو، اخلاق اس لئے دکھانا کہ دوسرے کا فائدہ ہو، (یہ مقصدنہیں ہوتا)۔
فرمایا: ’’…اور اگرچہ بقدر استعداد فطرتی کے کچھ تخم اخلاق کا ان میں بھی ہوتا ہے مگر وہ اکثر نفسانی خواہشوں کے کانٹوں کے نیچے دبا رہتا ہے اور بغیر آمیزشِ اغراضِ نفسانی کے خالصاً للہ ظاہر نہیں ہوتا چہ جائیکہ اپنے کمال کو پہنچے اور خالصاً للہ انہیں میں وہ تخم کمال کو پہنچتا ہے کہ جو خدا کے ہورہتے ہیں اور جن کے نفوس کو خدائے تعالیٰ غیریّت کی لوث سے بکلّی خالی پاکر خود اپنے پاک اخلاق سے بھر دیتا ہے…‘‘(وہ یہ سب کچھ خدا تعالیٰ کے لئے کرتے ہیں اور جو غیریت کی آلودگی ہے، اللہ تعالیٰ کے علاوہ کسی چیز کی آلودگی ہے وہ اس سے بالکل پاک ہو جاتے ہیں اور اللہ تعالیٰ اپنے اخلاق ان میں بھر دیتا ہے۔) ’’…اور ان کے دلوں میں وہ اخلاق ایسے پیارے کردیتا ہے جیسے وہ اس کو آپ پیارے ہیں۔ پس وہ لوگ فانی ہونے کی وجہ سے تخلق باخلاق اللّٰہ کا ایسا مرتبہ حاصل کرلیتے ہیں کہ گویا وہ خدا کا ایک آلہ ہوجاتے ہیں جس کی توسّط سے وہ اپنے اخلاق ظاہر کرتا ہے اور ان کو بھوکے اور پیاسے پاکر وہ آب زلال ان کو اپنے اس خاص چشمہ سے پلاتا ہے…‘‘ (یعنی اخلاق کا، روحانیت کا ایک میٹھا پانی پلاتا ہے۔) (براہین احمدیہ، روحانی خزائن جلد 1 صفحہ541-542حاشیہ در حاشیہ نمبر 3)
پھر ایک جگہ قرب الٰہی کے طریق کے بارے میں فرمایا کہ ’’خدا تعالیٰ دھوکا کھانے والا نہیں۔ وہ انہیں کو اپنا خاص مقرب بناتا ہے جو مچھلیوں کی طرح اس کی محبت کے دریا میں ہمیشہ فطرتاً تیرنے والے ہیں اور اسی کے ہو رہتے ہیں اور اسی کی اطاعت میں فنا ہو جاتے ہیں۔ پس یہ قول کسی سچے راستباز کا نہیں ہو سکتا…‘‘ (جو بعض مذہبوں کے بعض لوگوں کا اس کے بارہ میں نظریہ ہے۔) ’’کہ خدا تعالیٰ کے سوا درحقیقت سب گندے ہی ہیں اور کوئی نہ کبھی پاک ہوا نہ ہوگا…‘‘۔ فرمایا: ’’…گویا خدا تعالیٰ نے اپنے بندوں کو عبث پیدا کیا ہے بلکہ سچی معرفت اور گیان کا یہ قول ہے کہ نوع انسان میں ابتدا سے یہ سنت اللہ ہے کہ وہ اپنی محبت رکھنے والوں کو پاک کرتا رہا ہے۔ ہاں حقیقی پاکی اور پاکیزگی کا چشمہ خدا تعالیٰ ہی ہے۔ جو لوگ ذکر اور عبادت اور محبت سے اس کی یاد میں مصروف رہتے ہیں خدا تعالیٰ اپنی صفت ان پر بھی ڈال دیتا ہے تب وہ بھی اس پاکی سے ظلی طور پر حصہ پا لیتے ہیں جو خدا تعالیٰ کی ذات میں حقیقی طور پر موجود ہے‘‘ (ست بچن، روحانی خزائن جلد 10صفحہ 210)
پھر آپ نے فرمایا کہ یہ اخلاق فاضلہ اور نیکیاں اور خدا تعالیٰ کا قرب حاصل کرنے کا جو وسیلہ اور نمونہ اور تعلیم خدا تعالیٰ نے ہمارے سامنے رکھی ہے وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی کامل اتباع ہے۔ چنانچہ آپؑ فرماتے ہیں کہ ’’ہمارا اس بات پر بھی ایمان ہے کہ ادنیٰ درجہ صراط مستقیم کا بھی بغیراتباع ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ہرگز انسان کو حاصل نہیں ہو سکتا چہ جائیکہ راہِ راست کے اعلیٰ مدارج بجُز اقتدا اُس امام الرسل کے حاصل ہو سکیں کوئی مرتبہ شرف و کمال کا اور کوئی مقام عزت اور قرب کا بجز سچی اور کامل متابعت اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ہم ہرگز حاصل کر ہی نہیں سکتے۔ ہمیں جو کچھ ملتا ہے ظلّی اور طفیلی طور پر ملتا ہے‘‘ (ازالۂ اوہام حصہ اوّل، روحانی خزائن جلد 3 صفحہ 170)