حضرت مسیح موعودؑ کی جماعت کی اصلاح کے حوالے سے ایمان افروز روایات
’’میرے آنے کی اصل غرض یہ ہے کہ ایک ایسی جماعت تیارہوجاوے جو سچی مومن ہو اور خدا پر حقیقی ایمان لائے اوراس کے ساتھ حقیقی تعلق رکھےاور اسلام کو اپنا شعار بنائے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اسوۂ حسنہ پر کاربند ہو اور اصلاح و تقویٰ کے رستے پر چلے اور اخلاق کا اعلیٰ نمونہ قائم کرے تا پھر ایسی جماعت کے ذریعے دنیا ہدایت پاوے اور خدا کا منشاء پورا ہو‘‘(حضرت مسیح موعودؑ)
خدا سے وہی لوگ کرتے ہیں پیار
جو سب کچھ ہی کرتے ہیں اس پر نثار
اسی فکر میں رہتے ہیں روز و شب
کہ راضی وہ دلدار ہوتا ہے کب
انبیاء علیہم الصلوٰۃ والسلام کا اصل کام بندوں کا خدا کے ساتھ مضبوط تعلق قائم کرنا ہوتا ہے۔ عقائد کی اصلاح اور بدعات اور رسم و رواج کا خاتمہ اسی اصل مقصد کے حصول کی کَڑیاں ہیں۔ اس اصل مقصود کو مد نظر رکھتے ہوئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام اپنی انتہائی فکرمندی کا اظہارکرتے ہوئے فرماتے ہیں:چند دن سے ایک خیال میرے دماغ میں اس زور کے ساتھ پیدا ہورہا ہے کہ اس نے دوسری باتوں سے مجھے بالکل محو کر دیا ہے بس ہر وقت اٹھتے بیٹھتے وہی خیال میرے سامنے رہتا ہے، میں باہر لوگوں میں بیٹھا ہوں اور کوئی شخص مجھ سے کوئی بات کرتا ہے تو اس وقت بھی میرے دماغ میں وہی خیال چکرلگا رہا ہوتا ہے۔ وہ شخص سمجھتا ہوگا کہ میں اس کی بات سن رہا ہوں مگر میں اپنے اس خیال میں محو ہوتا ہوں۔ جب میں گھر جاتا ہوں تو وہاں بھی وہی خیال میرے ساتھ ہوتا ہے۔ غرض ان دنوں یہ خیال اس زور کے ساتھ میرے دماغ پرغلبہ پائے ہوئے ہے کہ کسی اورخیال کی گنجائش نہیں رہی۔ وہ خیال کیا ہے؟ وہ یہ ہے کہ میرے آنے کی اصل غرض یہ ہے کہ ایک ایسی جماعت تیارہوجاوے جو سچی مومن ہو اور خدا پر حقیقی ایمان لائے اوراس کے ساتھ حقیقی تعلق رکھےاور اسلام کو اپنا شعار بنائے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اسوۂ حسنہ پر کاربند ہو اور اصلاح و تقویٰ کے رستے پر چلے اور اخلاق کا اعلیٰ نمونہ قائم کرے تا پھر ایسی جماعت کے ذریعے دنیا ہدایت پاوے اور خدا کا منشاء پورا ہو پس اگر یہ غرض پوری نہیں ہوتی تواگر دلائل و براہین سے ہم نے دشمن پرغلبہ بھی پا لیا اور اس کو پوری طرح زیر بھی کر لیا تو پھر بھی ہماری فتح کوئی فتح نہیں کیونکہ اگر ہماری بعثت کی اصل غرض پوری نہ ہوئی تو گویا ہمارا سارا کام رائیگاں گیا مگر میں دیکھ رہا ہوں کہ دلائل و براہین کی فتح کے تو نمایاں طور پر نشانات ظاہر ہو رہے ہیں اور دشمن بھی اپنی کمزوری محسوس کرنے لگا ہے لیکن جو ہماری بعثت کی اصل غرض ہے اس کے متعلق ابھی تک جماعت میں بہت کمی ہےاوربڑی توجہ کی ضرورت ہے پس یہ خیال ہے جو مجھے آجکل کھا رہا ہے اور یہ اس قدر غالب ہورہا ہے کہ کسی وقت بھی مجھے نہیں چھوڑتا۔(سیرت المہدی جلد اول روایت نمبر ۲۵۸)
ایک موقع پر کسی نے عرض کیا کہ حضورؑ کے پاس بعض لوگ ایسے آتے جاتے ہیں جن کی داڑھیاں منڈھی ہوتی ہیں فرمایا:تمہیں پہلے داڑھی کی فکر ہے مجھے ایمان کی فکر ہے۔ (سیرت المہدی جلد اول روایت نمبر۲۵۷)
ایک روایت میں ہے کہ حضرت خلیفۃ المسیح الاولؓ نے فرمایا کہ ایک دفعہ میں نے کسی شخص سے ایک زراعتی کنواں ساڑھے تین ہزارروپیہ میں رہن لیا مگر میں نے اس سے نہ کوئی رسیدلی اور نہ کوئی تحریر کروائی اور کنواں بھی اسی کے قبضے میں رہنے دیا ۔کچھ عرصہ کے بعد میں نے اس سے کنویں کی آمدکا مطالبہ کیا تو وہ صاف منکر ہو گیا اور رہن کا ہی انکار کر بیٹھا…کسی نے یہ خبر حضرت مسیح موعود علیہ السلام تک پہنچا دی اور مولوی صاحب کے نقصان پر افسوس کیا مگر حضرت صاحبؑ نے فرمایا تمہیں ان کے نقصان کی فکر ہے مجھےایمان کی فکر ہے مولوی صاحب نے کیوں دوسرے شخص کو ایسی حالت میں رکھا جس سے اس کو بد نیتی کا موقع ملا اور کیوں اسلامی حکم کے مطابق اس سے کوئی تحریر نہ لی اور کیوں اس سے باقاعدہ قبضہ نہ حاصل کیا؟(سیرت المہدی جلد اول روایت نمبر۱۵۱)
دنیا کے مختلف ممالک میں جماعت احمدیہ پر مخالفت کی سختی، تنگی وتکالیف کے دن آتےرہتے ہیں جیسے آج کل پیارے آقا پاکستان فلسطین اور یمن کے احمدیوں پر سختیوں کا ذکر کرکے بار بار خدا کے آگے جھکنے اور دعاؤں پرزور دینے کا فرما رہے ہیں۔ حضرت مسیح موعودؑ کے وقت میں بھی ایسے حالات پیش آتے اور بعض جوشیلے احمدی مقابلہ کرنے کی اجازت چاہتے تو حضورؑ انہیں امن، صبر اور دعا کی تلقین فرماتے۔ چنانچہ ایک دفعہ قادیان کے بعض غیر مسلم لوگوں کی ایذا رسانیوں پر سید احمد نور مہاجرکابلی نے اپنی تکالیف کااظہار کیا اورمقابلہ کی اجازت چاہی مگر حضرت صاحبؑ نے فرمایا دیکھو اگر امن اور صبر کے ساتھ یہاں رہنا ہے تو یہاں رہواوراگرلڑنا ہےاورصبر نہیں کرسکتےتو کابل چلے جاؤ۔(سیرت المہدی جلداول روایت نمبر۱۴۰)
اگرکبھی کوئی احمدی کسی بدزبان کو اس کی بدزبانی پر کچھ ردعمل دکھاتا تو آپؑ سخت ناراض ہوتے۔چنانچہ حضرت مسیح موعودؑ اپنے بیٹے مبارک احمد کی وفات پر صبر کی اہمیت بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ جب قضاءوقدر کے قانون کی چوٹ بندے کو آکر لگتی ہے اور وہ اس کو خدا کے لئے برداشت کرتا ہے اور صبر سے کام لیتا ہے اور خدا کی قضا پرراضی ہوتا ہے تو پھر وہ اس ایک آن میں اتنی ترقی کر جاتا ہے جتنی کہ چالیس سال کی نماز روزے سے بھی نہیں کرسکتا پس مومن کے لئے ایسے دن درحقیقت ایک لحاظ سے بڑی خوشی کے دن ہیں۔(سیرت المہدی جلد اول روایت نمبر ۱۵۸)
پس آجکل کےمشکل حالات میں ہم صبر اور دعا اور اعلیٰ نمونہ دکھا کر وہ مقام حاصل کرسکتے ہیں جو چالیس سال کی نماز روزے سے بھی نہیں حاصل ہوسکتا۔