قرآن کریم کی دیگر کتب و شریعتوں پر فضیلت
رَسُوۡلٌ مِّنَ اللّٰہِ یَتۡلُوۡا صُحُفًا مُّطَہَّرَۃً۔ فِیۡہَا کُتُبٌ قَیِّمَۃٌ (البیّنۃ:۳-۴)اس کا ترجمہ ہے کہ اللہ کا رسول مطہر صحیفے پڑھتا تھا ان میں قائم رہنے والی اور قائم رکھنے والی تعلیمات تھیں۔ قرآن کریم جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل ہوا۔ اس کے بارے میں اللہ تعالیٰ گواہی دیتا ہے کہ یہ پاک کتاب ہے اور ہر قسم کے ممکنہ عیب سے پاک ہے اور نہ صرف پاک ہے بلکہ ہر قسم کی حسین اور خوبصورت تعلیم اس میں پائی جاتی ہے جس کا کوئی مقابلہ ہی نہیں ہے۔ اور اس میں وہ تمام خوبیاں شامل کر دی گئی ہیں جن کی پہلے صحیفوں میں کمی تھی اور اب یہی ایک تعلیم ہے جو ہر ایک قسم کی کمی سے پاک ہے۔ بلکہ اس تعلیم پر عمل کرکے ہر برائی سے بچا جا سکتا ہے۔ اور نہ صرف بچا جا سکتا ہے بلکہ اس کی تعلیم پر عمل کرنے اور اس تعلیم کو لاگو کرنے سے ہی اپنی اور دنیا کی اصلاح ممکن ہے۔ یعنی یہ تعلیم جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر اتری یہی اب دنیا کی اصلاح کی، دنیا میں نیکیاں رائج کرنے کی، دنیا میں امن قائم کرنے کی، دنیا میں عبادت گزار پیدا کرنے کی، دنیا میں ہر طبقے کے حقوق قائم کرنے کی ضمانت ہے۔ تو جس نبی پر یعنی حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر یہ کامل اور مکمل تعلیم اتری اور جو خَاتَمَ النَّبِیِّیْن کہلائے، جن کے بعدکوئی نئی شریعت آ ہی نہیں سکتی اللہ تعالیٰ نے فرما دیا ہے۔ تو وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم خود اس تعلیم پر کس قدر عمل کرنے والے ہوں گے، اس کا تصور بھی انسانی سوچ سے باہر ہے۔ کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہی ہیں جنہوں نے اس پاک کلام کو سمجھا، وہ آپؐ ہی ہیں جن کو اللہ تعالیٰ کے اس کلام کا مکمل فہم اور ادراک حاصل ہوا۔ یہ آپؐ ہی کی ذات ہے جس کو اپنے پر اترنے والی اس آخری کتاب، اس آخری شریعت، کلام کے مطالب اور معانی کے مختلف زاویوں اور اس کے مختلف بطون کو سمجھنے کا کامل علم حاصل ہوا۔ گویا یہ خَاتَمَ النَّبِیِّیْنؐ کی ذات ہی تھی جس نے اس خَاتَمُ الْکُتُبْ کو سمجھا اور نہ صرف اس گہرائی میں جا کر عمل کیا بلکہ صحابہؓ کو بھی وہ شعور عطا فرمایا جس سے وہ اس کو سمجھ کر پڑھتے تھے اور اس پر عمل کرنے کی کوشش کرتے تھے۔ اس آخری کتاب کو پڑھنے کے بعد یہ ممکن ہی نہیں کہ کسی اور شریعت یا کتاب سے رہنمائی لی جائے۔ کیونکہ پہلوں کی باتیں بھی اس میں آ چکی ہیں اور آئندہ کی باتیں اور خبریں بھی اس میں آ چکی ہیں۔
(خطبہ جمعہ فرمودہ ۴؍مارچ۲۰۰۵ء مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل ۱۸؍مارچ۲۰۰۵ء)