احمد علیہ السلام۔ سیرت و سوانح
باب پنجم:براہین احمدیہ کی کتابت، اشاعت و طباعت کے مراحل
براہین احمدیہ کے لیے اشتہار
حضرت اقدس علیہ الصلوٰة والسلام کی سوانح سے یہ بات عیاں ہوتی ہے کہ آپؑ نے طالب علمی کے زمانے سے ہی اسلام کے مقابل پر لکھی جانے والی کتب اورمضامین کا مطالعہ شروع کردیا تھا۔اوراسلام کے خلاف ہردوسرے مذہب کے حملے جو کروڑوں تصنیفات اورہزاروں کی تعداد میں اعتراضات کی صورت میں ہوئے اس کا دل میں ایسا درد پیداہواکہ ہروقت اسلام کے دفاع کے لیے بے چین رہنے اورکتب کے مطالعہ کی وجہ سے ایسی بیماریاں لاحق ہوگئیں کہ جو آپؑ کے ساتھ آخری سانس تک لگی رہیں لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ اسی آخری سانس تک اسلام کے حق میں تحریروتصنیف کا سلسلہ بھی جاری رہا۔براہین احمدیہ کی صورت میں پہلی باقاعدہ تصنیف شائع تو ۱۸۸۰ء میں ہوئی البتہ اس پر کام بہت پہلے سے شروع ہوچکاتھا۔جو تحریری مواد ابھی تک ہمارے سامنے موجودہے اس کے مطابق باقاعدہ ریکارڈ جو ملتاہے اس کی روشنی میں قیاس کیاجاسکتاہے کہ ۱۸۷۳ء سے کوئی ایسی کتاب لکھے جانے کا سوچاجارہاتھا جس سے یہ ثابت ہو کہ قرآن کریم دوسری جملہ شرائع کے مقابل پر ایک مکمل شریعت ہے۔ممکن ہے کہ یہ براہین احمدیہ کی تصنیف کے آغاز کا سن ہی ہو۔حیات ِ احمد میں مصنف عرفانی صاحب ؓ نے’’یادداشت لکھنےکا طریق‘‘ کے عنوان سے حضرت اقدس علیہ السلام کے اس طریق مبارک کا ذکر کیا ہے کہ آپؑ کوئی مضمون یا کتاب پڑھتے تو قابل ذکر اموریا کوئی خیال یا کوئی دلیل ذہن میں آتی تواسے نوٹ فرمالیاکرتے۔اوراس قسم کی یادداشتیں آپؑ فارسی زبان میں لکھتے تھے۔حضرت عرفانی ؓ کے مطابق آپؑ کی یادداشتوں کا یہ ایک مجموعہ تھا جو کہ طاعون کے ایام میں جل گیا۔اسی قسم کی یادداشتوں میں سے ایک یادداشت انہوں نے ’’ حیات احمد‘‘ میں درج فرمائی ہے وہ یہ ہے :’’یادداشت بسیار ضروری
ایں بیان دریں کتاب ضروری خواہد بود کہ شریعت مصطفوی از ہمہ شرایع کامل و مکمل است وبرائے اثبات ایں مطلب مثلاً اول حکمے بموجب توریت بیان خواہد شد۔ بعدہ بموجب انجیل بودہ۔ بعدہ بموجب قرآن مجید تا مطالعہ کنندہ رابعد نظردراحکام ثلٰثہ خودمعلوم شود۔کہ حکم افضل واعلیٰ ازیں ہرسہ احکام کدام است
فقط غلام احمد ۱۷ اکتوبر ۱۸۷۳ء بروزجمعہ قادیان‘‘
’’ترجمہ :بہت ضروری یادداشت: اس کتاب میں یہ بیان بہت ضروری ہوگا کہ شریعت مصطفوی ؐ دوسری سب شریعتوں سے کامل اورمکمل ہے۔اوراسکے اثبات کے لیے مثلاً پہلے تورات کے احکام کابیان ہوگا،اوراسکے بعد انجیل کی رُوسے، اوراسکے بعد قرآن مجید کی رُو سے تاکہ مطالعہ کرنے والا ان تینوں (شریعتوں ) کے احکام سے خودمعلوم کرلے کہ ان سب سے افضل اوراعلیٰ احکام کہاں اورکس کتاب میں ہیں۔فقط غلام احمد بروزجمعہ قادیان ۱۷ اکتوبر۱۸۷۳ء۔‘‘(حیاتِ احمد،جلداول صفحہ ۳۹۷)
مذکورہ بالا حوالے کی تائید حضرت اقدس علیہ السلام کے ایک اور ارشاد مبارک سے بھی ہوتی ہے جس سے معلوم ہوتاہے کہ براہین کی تالیف کئی سال سے جاری تھی جیسا کہ آپ ۲۷؍دسمبر ۱۹۰۶ء کو بعد نماز ظہر وعصرمسجد اقصیٰ قادیان میں خطاب کے دوران فرماتے ہیں :’’براہین احمدیہ کے زمانہ میں جس کو بتیس سال کے قریب گزرے کیونکہ کتاب تالیف پہلے ہوتی ہے اور پھر طبع ہوتی ہے اس کو شائع ہوئے بھی چھبیس سال گزرے اور وہ تالیف اس سے بہت پہلے ہوئی۔ ‘‘(ملفوظات جلد نہم صفحہ ۱۶۰، ۱۶۱ ایڈیشن ۱۹۸۴ء)
اور بعض دوسرے قرائن سے معلوم ہوتاہے کہ مئی ۱۸۷۹ء تک آپ علیہ الصلوٰة والسلام یہ تصنیف مکمل کرچکے تھے۔یہاں یہ خیال کرنا کہ اتنی ضخیم اور زبردست اورعظیم الشان تصنیف اتنی جلدی اورتھوڑے سےوقت میں کیونکر تصنیف ہوئی ہوگی؟ اس ’’کیونکر‘‘ کا جواب تسلی بخش ہویانہ ہو لیکن ہواایسے ہی ہے۔کیونکہ جب بھی ناممکن اور انہونی کو ہونا ہوتاہے تو وہ ہوجایاکرتی ہے۔ اِذا قَضٰی اَمْرًا جب وہ قادرمطلق ہستی جوکہ فَعَّالٌ لِّمَا یُرِیۡدُہستی ہے جب وہ کسی امرکے متعلق فیصلہ فرمادے فَاِنَّما یَقُولُ لَہٗ کُنْ تو وہ صرف اس کے متعلق یہی کہتاہے کہ ہوجا! تو پھرحالات جیسے بھی ناموافق ہوں فَیَکُوْنُ وہ ہوجایاکرتی ہے۔وہ ہوکررہتی ہے۔ یہی معجزہ اور قدرت نمائی کانشان براہین احمدیہ کی تصنیف وتالیف میں ہمیں نظرآتاہے۔ اسی قادر کی قدرتیں تھیں جو اس اپنے پیارے کے ساتھ تھیں اوریہ کوئی جذباتی یا عقیدت کے رنگ میں رنگی ہوئی بات نہیں ہے۔ خود حضرت اقدس مسیح موعودعلیہ السلام نے بھی اس کی طرف اشارہ فرمایاہے چنانچہ آپؑ فرماتے ہیں : ’’اب اے بھائیو! خلاصہ کلام یہ ہے کہ جب میں نے ایسے ایسے باطل عقائد میں لوگوں کو مبتلا دیکھا اور اس درجہ کی گمراہی میں پایا کہ جس کو دیکھ کر جی پگھل آیا اور دل اور بدن کانپ اٹھا۔ تو میں نے ان کی رہنمائی کے لیے اس کتاب کا تالیف کرنا اپنے نفس پر ایک حق واجب اور دَین لازم دیکھا جو بجز ادا کرنے کے ساقط نہ ہوگا۔ چنانچہ مسودہ اس کتاب کا خدا کے فضل اور کرم سے تھوڑے ہی دِنوں میں ایک قلیل بلکہ اقل مدت میں جو عادت سے باہر تھی طیار ہوگیا۔‘‘(براہین احمدیہ، روحانی خزائن جلد ۱صفحہ ۸۳)
تو اتنے تھوڑے سے عرصہ میں کتاب تیارہوئی تبھی تو یہ خارق عادت قرارپایا۔
بہرحال یہ کتاب جب تیارہوگئی تو ایک طرف آپؑ نے اس کی طباعت کا اہتمام کرنا شروع فرمایا اوردوسری طرف اس کا اشتہار اخبارات ورسائل میں دے دیا۔چنانچہ پہلااشتہار اپریل ۱۸۷۹ء میں آپؑ کی طرف سے اشاعۃ السنہ میں شائع ہوا۔جس کاعنوان تھا:’’اشتہاربغرض استعانت واستظہار ازانصاردین محمدؐ مختار صلے اللہ علیہ وعلےٰ آلہ الابرار‘‘ اس میں آپؑ تحریرفرماتے ہیں :’’ اخوان دیندار مو منین غیرت شعارو حامیان دین اسلام و متبعین سنت خیر الانام پر روشن ہو کہ اس خاکسار نے ایک کتاب متضمن اثبات حقانیت قرآن و صداقت دین اسلام ایسی تالیف کی ہے جس کے مطالعہ کے بعد طالبِ حق سے بجرقبولیت اسلام اور کچھ بن نہ پڑے۔ اور اس کے جواب میں قلم اُٹھانے کی کسی کو جرات نہ ہو سکے۔ اس کتاب کے ساتھ اس مضمون کاایک اشتہار دیا جاوے گا کہ جو شخص اس کتاب کے دلائل کو توڑ دے و مع ذلک اس کے مقابلہ میں اسی قدر دلائل یا ان کے نصف یا ثلث یا ربع یا خمس سے اپنی کتاب کا (جس کو وہ الہامی سمجھتا ہے) حق ہونا یا اپنے دین کا بہتر ہونا ثابت کر دکھائے۔ اور اس کے کلام یا جواب کو میری شرائط مذکورہ کے موافق تین منصف (جن کو مذہب فریقین سے تعلق نہ ہو)مان لیں تو میں اپنی جائیداد تعدادی دس ہزار روپیہ سے (جو میرے قبضہ و تصرف میں) دستبردار ہو جاؤں گا۔ اور سب کچھ اس کے حوالہ کر دوں گا۔ اس باب میں جس طرح کوئی چاہے اپنی اطمینان کر لے۔مجھ سے تمسک لکھا لے یا رجسڑی کرالے اور میری جائیداد منقولہ و غیرمنقولہ کو آکر بچشم خود دیکھ لے۔
باعث تصنیف اس کتاب کے پنڈت دیانند صاحب اور ان کے اتباع ہیں جو اپنی اُمت کو آریہ سماج کے نام سے مشہور کر رہے ہیں۔ اور بُجز اپنے وید کے حضرت موسیٰ اور حضرت عیسیٰ مسیح اور حضرت محمد مصطفٰے علیہم السلام کی تکذیب کرتے ہیں۔ اور نعوذ باللہ توریت زبور، انجیل ،فرقان مجید کو محض افتراء سمجھتے ہیں اور ان مقدس نبیوں کے حق میں ایسے توہین کے کلمات بولتے ہیں کہ ہم سن نہیں سکتے۔ ایک صاحب نے ان میں سے اخبار سفیر ہند میں بطلب ثبوت حقانیت فرقان مجید کئی دفعہ ہمارے نام اشتہار بھی جاری کیا ہے۔ اب ہم نے اس کتاب میں ان کا اور ان کے اشتہاروں کا کام تمام کر دیا ہے اور صداقت قرآن و نبوت کو بخوبی ثابت کیا۔ پہلے ہم نے اس کتاب کا ایک حصہ پندرہ جزو میں تصنیف کیا۔ بغرض تکمیل تمام ضروری امروں کے نو حصے اور زیادہ کر دیئے۔جن کے سبب سے تعداد کتاب ڈیڑھ سو جزء ہو گئی۔ ہر ایک حصہ اس کا ایک ایک ہزار نسخہ چھپے ، تو چورانوے روپیہ صرف ہوتے ہیں۔ پس کل حصص کتاب نوسوچالیس روپے سے کم میں چھپ نہیں سکتے۔
ازانجاکہ ایسی بڑی کتاب کا چھپ کر شائع ہونا بجز معاونت مسلمان بھائیوں کے بڑا مشکل امر ہے۔ اور ایسے اہم کام میں اعانت کرنے میں جس قدر ثواب ہے وہ ادنیٰ اہل اسلام پر بھی مخفی نہیں۔ لہٰذا اخوان مومنین سے درخواست ہے کہ اس کارخیر میں شریک ہوں۔ اور اس کے مصارف طبع میں معاونت کریں۔اغنیاء لوگ اگر اپنے مطبخ کے ایک دن کا خرچ بھی عنایت فرمائیں گے۔تو یہ کتاب بسہولت چھپ جائے گی۔ ورنہ یہ مہرِ درخشاں چھپا رہے گا۔یا یوں کریں کہ ہر ایک اہل وسعت بہ نیت خریداری کتاب پانچ پانچ روپیہ معہ اپنی درخواستوں کے راقم کے پاس بھیج دیں۔جیسی جیسی کتاب چھپتی جائے گی ان کی خدمت میں ارسال ہوتی رہے گی۔
غرض انصار اللہ بن کر اس نہایت ضروری کام کو جلد تر بسر انجام پہونچا دیں اور نام اس کتاب کا ’’ البراہین الاحمدیہ علیٰ حقیۃ کتاب اللّٰہ القرآن و النبوۃ المحمدیہ‘‘رکھا گیا ہے۔ خدا اس کو مبارک کرے اور گمراہوں کو اس کے ذریعہ سے اپنے سیدھے راہ پر چلا وے آمین۔
المشتہر خاکسار غلام احمد از قادیان ضلع گورداسپور ملک پنجاب‘‘(ضمیمہ اشاعۃ السنۃ نمبر ۴جلد دوئم صفحہ ۳-۴ بابت اپریل ۱۸۷۹ء مطبوعہ مئی ۷۹ء مصنفہ مولوی ابوسعید محمدحسین بٹالوی بحوالہ مجموعہ اشتہارات جلد اوّل صفحہ ۱۶، ۱۷)
یہی اشتہارریاست میسورکے شہر بنگلورسے شائع ہونے والے اخبارمنشورمحمدیؐ میں بھی شائع ہوا۔
دین اسلام پرچلنے والی زہریلی طوفانی ہواؤں کے جواب میں اس تریاقی اشتہارکے شائع ہونے پرآپؑ کوامیدتھی کہ کلمہ گوجاں نثاران اسلام اور آنحضرت محمدمصطفیٰ ﷺ سے محبت کے دعویداران انصاردین محمدؐ مختار صلے اللہ علیہ وعلےٰ آلہ الابرار،من انصاری الی اللہ کی ایک آوازپرذوق شوق اور جوق درجوق اعانت کے لیے کتاب کی خریداری کے لیے اپنی غیرت ومحبت اسلام کامظاہرہ کریں گے۔لیکن یہ آواز صدابصحراء ثابت ہوئی اور یوں لگا کہ جیسے مردہ لوگوں کاشہرتھا کہ کسی بھی جسم میں حرکت کے آثارپیدانہیں ہوئے۔ ایمان کہ جس کی بنیادپراعانت کی توقع کی گئی تھی وہ ایمان تو دلوں سے ایسے پروازکرچکاتھا کہ جیسے گھونسلے سے پرندہ۔وہ ایمان کہ جس سے بے چین ہوکرلوگ اس کتاب کوخریدنے کے لیے پُرجوش اظہارکرتے وہ ایمان تو زمانہ ہوادلوں کی سرزمین سے اٹھ کرثریاپرجاچکاتھا۔اپریل مئی میں دئے جانے والےاشتہار پرسات آٹھ ماہ ہوچکے تھے لیکن سوائے چندایک کے کسی کوتوفیق نہ ملی کہ وہ اس کرب وبلاکے میدان میں دین ِحق بیماروبے کس ہمچوزین العابدین کی نصرت اور مددکے لیے آگے بڑھتا۔ ۳۔دسمبر۱۸۷۹ء میں آپؑ نے اس بےرخی اور بے توجہی پردکھ اور افسوس کااظہارکرتے ہوئے ایک اوراشتہارشائع فرماتے ہوئے واضح فرمایا کہ کتاب کی اصل قیمت تو اس سے چارگنازیادہ یعنی بیس روپے تھی لیکن زیادہ لوگوں تک حمایت وتائیداسلام کایہ حربہ دینے کی خاطرقیمت صرف پانچ روپے مقررکی گئی لیکن اس کے لیے بھی دلوں میں گرمی اور حوصلہ پیدانہیں ہورہا۔آپؑ نے اس اشتہارمیں فرمایا: ’’ واضح ہوکہ جواصل قیمت اس کتاب کی بلحاظ ضخامت اور حسن اور لطافت ذاتی اسکے اورنیز بنظراس پاکیزگی خط اور تحریر اور عمدگی کاغذ وغیرہ لوازم اور مراتب کے کہ جن کے التزام سے یہ کتاب چھاپی جائے گی۔بیس روپیہ سے کم نہ تھی۔مگرہم نے محض اس امیداور نظرسے جوبعض امراء اسلام جوذی ہمت اور اولوالعزم ہیں اس کتاب کی اعانت میں توجہ کامل فرماویں گے اور اس طورسے جبر اس نقصان کاہوجاوے گاجوکمی قیمت کے باعث سے عایدحال ہوگا۔ صرف پانچ روپیہ قیمت مقررکی تھی۔مگراب تک ایساظہورمیں نہ آیااورہم انتظار کرتے کرتے تھک بھی گئے……‘‘(اشتہارمنقول از اخبار سفیر ہند نمبر ۵۱ مطبوعہ ۲۰؍دسمبر۱۸۷۹ء صفحہ ۸۲۴ بحوالہ مجموعہ اشتہارات جلداول صفحہ ۱۸-۱۹)
آپؑ کا اندازہ یہ تھا کہ جنوری یا فروری ۱۸۸۰ء میں یہ کتاب شائع ہوکر خریداروں میں تقسیم ہونا شروع ہوجائے گی۔جیساکہ آپؑ ۳؍دسمبر ۱۸۷۹ء کے ایک اشتہار میں جو کہ ۲۰۔دسمبر۱۸۷۹ءکو شائع ہوافرماتے ہیں :’’……ان شاء اللہ یہ کتاب جنوری۱۸۸۰ء میں زیر طبع ہوکر اس کی اجراء اسی مہینہ یا فروری میں شائع اورتقسیم ہونی شروع ہوجائے گی۔‘‘(مجموعہ اشتہارات جلد اول صفحہ ۱۹ مورخہ ۲۰؍دسمبر ۱۸۷۹ء)(باقی آئندہ)