S. M. Zwemer اور M. T. Titus امریکن عیسائی مشنریزکی قادیان آمد ۔مئی ۱۹۲۴ء
اپریل ۱۹۰۸ء میں قادیان آنے والے امریکی مہمانوں نے جب حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام سے آپؑ کی صداقت کے دلائل پوچھے تو حضور علیہ السلام نے الہام الٰہی یَأْتُوْنَ مِنْ کُلِّ فَجٍّ عَمِیْقٍ کے حوالے سے فرمایا: ’’اصل میں آپ لوگوں کا اتنے دُور دراز سفر کر کے یہاں ایک چھوٹی سی بستی میں آنا بھی ایک پیشگوئی کے نیچے ہے اور ہماری صداقت کے واسطے ایک نشان اور دلیل ہے۔ کہاں امریکہ اور کہاں قادیان …‘‘ (ملفوظات جلد پنجم صفحہ ۵۱۷،ایڈیشن۱۹۸۸ء) لوگ دُور دُور سے تیرے پاس آئیں گے، کا یہ الہامی وعدہ جس طرح آپؑ کی زندگی میں بڑی شان سے پورا ہوا اسی طرح آپؑ کے بعد قائم ہونے والی خلافت کے زمانے میں بھی بڑی شوکت کے ساتھ پورا ہوا ، علاوہ اور لوگوں کے یورپ و امریکہ کے بھی بڑے نامی گرامی حضرات مسیح محمدیؐ کی بستی میں آئے۔ ایسی ہی شخصیات میں سے ایک مشہور امریکن مشنری سکالر سموئیل مارینس زویمر (١٨٦٧-١٩٥٢ء) (Samuel Marinus Zwemer)بھی تھے، جو ۲۸؍مئی ۱۹۲۴ء (۱۰۰ سال قبل)کو قادیان آئے۔ امریکی ریاست اوہائیوOhio کے شہر Batavia سے تعلق رکھنے والے ڈاکٹر مرے تھرسٹن ٹائیٹس (Murray Thurston Titus) جو اُن دنوں ضلع مراد آباد میں مشن کے انچارج تھے، اور ڈاکٹر ڈیوڈ ریڈ گورڈن (Dr. David Reed Gordon) جو گورداسپور میں مشنری ڈاکٹر تھے، بھی ڈاکٹر زویمر کے ساتھ تھے۔ ان میں سے سموئیل زویمر امریکہ سے ہندوستان کے دورے پر آئے تھے ، باقی دونوں گوکہ امریکن مشنریز ہی تھے لیکن دونوں انڈیا میں ہی اپنے مشنز کے سلسلے میں متعین تھے۔
اخبار الفضل نے ان مہمانوں کی آمد پر خبر یوں درج کی:’’… انہوں نے قادیان آنے کی خواہش ظاہر کی جس پر انہیں بڑی خوشی سے خوش آمدید کہا گیا اور ۲۸؍مئی کو ایک معزز صاحب احمدی کو بٹالہ میں انہیں رسیو کرنے کے لیے بھیجا گیا لیکن جناب پادری صاحب موصوف گورداسپور سے بذریعہ موٹر معہ پادری گارڈن صاحب انچارج ضلع گورداسپور اور پادری ٹائٹس صاحب انچارج ضلع مراد آباد قادیان تشریف لے آئے۔ جناب مفتی محمد صادق صاحبؓ نے انہیں مختلف دفاتر اور صیغہ جات دکھائے، حضرت خلیفۃالمسیح الاول رضی اللہ عنہ کی لائبریری کی بے نظیر کتب دکھائیں، نماز عصر کے بعد جناب پادری صاحب موصوف نے حضرت خلیفۃالمسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ سے ملاقات کرنے کی درخواست کی اس پر حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحبؓ ایم اے کی بیٹھک میں حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ نے چند اصحاب کی موجودگی میں انہیں شرف ملاقات بخشا۔ چونکہ اسی وقت جناب پادری صاحب واپس گورداسپور چلے جانا چاہتے تھے اور وقت بہت تنگ تھا اس لئے چند منٹ ہی گفتگو ہوئی جو عربی میں تھی۔ حضرت خلیفۃ المسیح ثانی ایدہ اللہ تعالیٰ نے ان کی آمد پر خوشی کا اظہار فرمایا اور مزاج پرسی کی، پادری صاحبان نے شکریہ ادا کیا۔ اس کے بعد جناب پادری زویمر صاحب نے کچھ دریافت کرنے کی اجازت چاہی اور پھر حسب ذیل گفتگو ہوئی:
پادری زویمر صاحب: کیا آپ مہربانی فرما کے بتائیں گے کہ حضرت مسیح کی روح اب کہاں ہے؟
حضرت خلیفۃ المسیح: حضرت مسیح کی روح اس وقت اسی طرح قبر میں ہے جس طرح کہ باقی انسانی روحیں قبروں میں ہیں۔
پادری زویمر صاحب: کیا آپ قرآن شریف اور احادیث کو ایک ہی رتبہ دیتے ہیں؟
حضرت خلیفۃ المسیح: قرآن شریف کو ہم غلطی سے مبرا مانتے ہیں اور حدیث پر بھی ہمارا ایمان ہے لیکن حدیث کو ہم وہ رتبہ نہیں دیتے جو قرآن شریف کو دیتے ہیں کیونکہ حدیث میں غلطی کا احتمال ہے۔
پادری زویمر صاحب: آپ کی جماعت میں اور لاہوری پارٹی میں کیا فرق ہے؟
حضرت خلیفۃ المسیح: وہ لوگ بھی حضرت صاحب کو مجدّد اور مسیح تو مانتے ہیں لیکن نبی نہیں مانتے، ہم نبی مانتے ہیں۔
یہ سن کر پادری صاحب موصوف نے تعجب سے کہا کہ جب پہلا مسیح نبی تھا تو یہ مسیح کیوں نبی نہ تھا!
پادری زویمر صاحب: یہ جو کہا جاتا ہے کہ مرزا صاحب مسیح تھے، اس کا کیا مطلب ہے۔ کیا حضرت مسیح کی روح مرزا صاحب میں آگئی تھی لیکن آپ لوگ تناسخ کے تو قائل نہیں پھر مرزا صاحب مثیل مسیح کس طرح تھے؟
حضرت خلیفۃ المسیح: ہم یہ نہیں مانتے کہ حضرت مرزا صاحب میں حضرت مسیح کی روح آگئی بلکہ ہم یہ یقین کرتے ہیں کہ آپ روحانیت میں ترقی کرتے کرتے حضرت مسیح کے مقام تک پہنچ گئے اور ان جیسی طاقتیں اور قوتیں آپ کو عطا کی گئیں۔
پادری زویمر صاحب: دنیا نہایت وسیع ہے اور اس میں بے شمار لوگ بستے ہیں ان کی ہدایت کے لئے خدا نے قادیان جیسے چھوٹے گاؤں میں مسیح کو کیوں پیدا کیا اور کسی جگہ کیوں پیدا نہ کیا؟
حضرت خلیفۃ المسیح: یہ ایسا ہی ہے جیسا کہ پہلے مسیح کے لیے ناصرہ کو انتخاب کیا گیا۔
پادری زویمر صاحب: ناصرہ کا ذکر تو پہلی کتابوں میں موجود تھا۔
حضرت خلیفۃ المسیح: قادیان کا ذکر بھی پہلی کتابوں میں موجود ہے جیسا کہ آتا ہے یَخْرُجُ الْمَھْدِیُّ مِنْ قَرْیَۃٍ یُقَالُ لَھَا کَدعَۃٌ۔
اس قدر گفتگو کے بعد جناب پادری صاحب موصوف نے حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ سے حضور کا فوٹو لینے کی خواہش ظاہر کی اور کہا کہ مَیں اسے بطور یادگار اپنے پاس رکھوں گا اور امریکہ میں جاکر دکھاؤں گا کہ میں بھی قادیان سے ہو آیا ہوں۔ حضور نے اس کے متعلق ابھی کچھ ارشاد نہ فرمایا تھا کہ جناب پادری صاحب نے کہا اگر کچھ مضائقہ ہو تو نہ سہی۔ حضور نے فرمایا نہیں، کوئی ہرج نہیں۔ اس پر جناب پادری صاحب نے صحن میں کرسی پر حضرت خلیفۃ المسیح کو بٹھایا اور ایک طرف آپ اور دوسری طرف جناب مفتی محمد صادق صاحب کو کھڑا کیا لیکن کیمرہ چھوٹا ہونے کی وجہ سے جناب مفتی صاحب اور جناب پادری صاحب کو بیٹھنا پڑا اور اس طرح پادری ٹائٹس صاحب نے فوٹو لیا۔
جناب پادری صاحب کو سلسلہ کا بہت سا لٹریچر دیا گیا جس کی آپ قیمت دینے لگے لیکن کہا گیا کہ یہ آپ کے لیے ہدیہ اور تحفہ ہے، انہوں نے کہا میں بھی اپنی کتب ارسال کروں گا۔ اس کے بعد نہایت ادب اور تہذیب سے حضرت خلیفۃ المسیح ثانی ایدہ اللہ تعالیٰ سے مصافحہ کرکے رخصت ہوگئے۔‘‘(الفضل ۳جون١٩٢٤ء صفحہ ١، ٢)
زویمر نے اپنے اس سفرکی روداد لندن سے شائع ہونے والے رسالے The Church Missionary Review کے شمارہ جون ۱۹۲۵ء میں شائع کی اور بعد ازاں اس مضمون کو اپنی کتاب Across the World of Islam میں بھی درج کیا۔ اپنے اس دورۂ قادیان کے متعلق لکھتے ہیں:
’’From Lahore, we went to Gurdaspur and on to Qadian, the birthplace of ’’The Promised Messiah of the Punjab‘‘, and of the Ahmadiya Movement… Our reception was most cordial. In fact, they had sent to meet us at another railway station and invited us to spend days instead of hours… They gave us of their best and we saw all there was to see.
Not only is the ’’Review of Religions‘‘ published here, but three other magazines; and correspondence is carried on with London, Paris, Berlin, Chicago, Singapore, and all the Near East; pigeon-holes filled with possibilities; shelves crowded with encyclopedias, dictionaries, and anti-Christian philosophies; an armory to prove the impossible; a credulous faith that almost removes mountains,‘‘(Across the World of Islam by S. M. Zwemer page 316,317 Fleming H. & Revell Company New York 1929)
[ترجمہ]: لاہور سے ہم گورداسپور اور آگے قادیان گئے جو کہ ’’پنجاب کے مسیح موعود‘‘اور احمدیہ جماعت کی جنم بھومی تھی۔ ہمارا استقبال نہایت والہانہ تھا، اصل میں انہوں نے ایک اور سٹیشن پر ہمارے لیے بندہ بھیجا تھا اور ہمیں دعوت دی تھی کہ ہم (قادیان میں) گھنٹوں کی بجائے دن گزاریں۔ انہوں نے ہمیں اپنی بہترین میزبانی پیش کی اور ہم نے وہ سب کچھ وہاں دیکھا جو دیکھنے کے لیے تھا۔ نہ صرف یہ کہ ’’ریویو آف ریلیجنز‘‘یہاں سے شائع ہوتا ہے بلکہ تین اور رسالے بھی۔ لندن، پیرس، برلن، شکاگو، سنگاپور اور تمام مشرق قریب کے ساتھ خط و کتابت کا سلسلہ بھی جاری ہے۔ چھوٹے چھوٹے دفاتر ہر قسم کے دستیاب ہونے والے سامان، مختلف قسم کی انسائیکلو پیڈیا ڈکشنریوں اور عیسائیت کے خلاف لٹریچر سے بھرے پڑے ہیں۔ یہ ایک اسلحہ خانہ ہے جو ناممکن کو ممکن بنانے کے لئے تیار کیا گیا ہے اور زبردست عقیدہ ہے جو پہاڑوں کو اپنی جگہ سے ہلا دیتا ہے۔
ڈاکٹر ٹائٹس نے گوکہ اس سفر قادیان کے متعلق تو کچھ نہیں لکھا لیکن احمدیت کا مطالعہ کرنے کے بعد اپنی کتب میں احمدیت کا ذکر کیا ہے، اپنی کتاب The Young Moslem Looks at Life میں اُس وقت کے طاقتور مسلمان حکمران سلطان عبدالحمیدآف ترکی (وفات ۱۰؍ فروری ۱۹۱۸ء) کے مقابل پر حضرت مسیح موعودؑ کے متعلق یہ اعتراف کیا کہ
’’While Mirza Ghulam Ahmad in his obscure Indian village of Qadian dreamed his dreams, of spiritual conquest of the world in the latter part of the nineteenth and the early part of the twentieth centuries, the caliph of the Moslem world, Abdul Hamid, in his luxurious palace by the Bosporus, dreamed also dreams of Pan-Islamic power that would oust the exploiting, imperialist European powers from India, Egypt and North Africa. He hoped to see the day when it would be possible to establish a great bloc of independent Moslem nations of whose spiritual and political life the Turkish caliph would be the head…
The names of Mirza Ghulam Ahmad and Abdul Hamid stand today as symbols of the challenge of Islam to the world in these modern times. The caliph’s great political challenge of Pan-Islamism collapsed with the crumbling of the Ottoman Empire; but the spiritual challenge of Islam as found in the world-wide missionary effort of the Ahmadiyya movement of Mirza Ghulam Ahmad is still very much alive….. it represents the ever present spiritual desire and aspiration of the whole Moslem world to see the faith of Islam triumph.‘‘(The Young Moslem Looks at Life page 152,153 by Murray T. Titus, Friendship Press New York 1937)
[ترجمہ] جبکہ مرزا غلام احمد نے انیسویں صدی کے آخر اور بیسویں صدی کے آغاز میں اپنے گمنام انڈین گاؤں قادیان میںدنیا کی روحانی فتح کے خواب دیکھے تو مسلم دنیا کے خلیفہ عبدالحمید نے Bosporusپر واقع اپنے عیش پسند محل میں ہمہ گیر اسلامی حکومت کا خواب دیکھا جس کے ذریعے استحصال کرنے والی یوروپین سامراجی قوتوں کو انڈیا، مصر اور شمالی افریقہ سے بے دخل کیا جاسکے۔ اُس نے اُس دن کی اُمید لگائی تھی کہ جس میں آزاد مسلمان قوموں کا ایک عظیم اتحاد قائم کیا جا سکے جس کا روحانی اور سیاسی لیڈر یہی ترک خلیفہ ہو۔
مرزا غلام احمد اور عبدالحمید کے نام آج کے جدید دور میں دنیا کے لیے اسلام کے چیلنج کی علامت کے طور پر کھڑے ہیں۔ (تُرک) خلیفہ کے ہمہ گیر اسلامی حکومت (Pan-Islamism) کا عظیم سیاسی چیلنج سلطنت عثمانیہ کے ٹکڑے ہونے کے ساتھ ہی ختم ہوگیالیکن اسلام کا روحانی چیلنج جو کہ مرزا غلام احمد کی احمدیہ جماعت کی عالمگیرتبلیغی کاوشوں کی صورت میں پایا جاتا ہے، ابھی تک زندہ ہے…یہ تمام مسلمانوں کی اسلام کے غلبہ دیکھنے کی دائمی روحانی خواہش اور آرزو کی عکاسی کرتی ہے۔