حیا کے لئے حیادار لباس ضروری ہے
ایک بچی نے پچھلے دنوں مجھے خط لکھا کہ میں بہت پڑھ لکھ گئی ہوں اور مجھے بینک میں اچھا کام ملنے کی امید ہے۔ مَیں پوچھنا چاہتی ہوں کہ اگر وہاں حجاب لینے اور پردہ کرنے پر پابندی ہو، کوٹ بھی نہ پہن سکتی ہوں تو کیا مَیں یہ کام کر سکتی ہوں؟ کام سے باہر نکلوں گی تو حجاب لے لوں گی۔ کہتی ہے کہ مَیں نے سنا تھا کہ آپ نے کہا تھا کہ کام والی لڑکیاں اپنے کام کی جگہ پر اپنا برقع، حجاب اتار کر کام کر سکتی ہیں۔ اس بچی میں کم از کم اتنی سعادت ہے کہ اس نے پھر ساتھ یہ بھی لکھ دیا کہ آپ منع کریں گے تو کام نہیں کروں گی۔ یہ اس لئے بیان کر رہا ہوں کہ یہ ایک نہیں کئی لڑکیوں کے سوال ہیں، تو پہلی بات یہ ہے کہ مَیں نے اگر کہا تھا تو ڈاکٹرز کو بعض حالات میں مجبوری ہوتی ہے۔ وہاں روایتی برقع یا حجاب پہن کر کام نہیں ہو سکتا۔ مثلاً آپریشن کرتے ہوئے۔ ان کا لباس وہاں ایسا ہوتا ہے کہ سر پر بھی ٹوپی ہوتی ہے، ماسک بھی ہوتا ہے، ڈھیلا ڈھالا لباس ہوتا ہے۔ اس کے علاوہ تو ڈاکٹر بھی پردے میں کام کر سکتی ہیں۔ ربوہ میں ہماری ڈاکٹرز تھیں۔ ڈاکٹر فہمیدہ کو ہمیشہ ہم نے پردہ میں دیکھا ہے۔ ڈاکٹر نصرت جہاں تھیں بڑا پکّا پردہ کرتی تھیں۔ یہاں سے بھی انہوں نے تعلیم حاصل کی اور ہر سال اپنی قابلیت کو نئی ریسرچ کے مطابق ڈھالنے کے لئے، اس کے مطابق کرنے کے لئے یہاں لندن بھی آتی تھیں لیکن ہمیشہ پردہ میں رہیں بلکہ وہ پردہ کی ضرورت سے زیادہ پابند تھیں۔ ان پر یہاں کے کسی شخص نے اعتراض کیا، نہ کام پر اعتراض ہوا، نہ ان کی پیشہ ورانہ مہارت میں اس سے کوئی اثر پڑا۔ آپریشن بھی انہوں نے بہت بڑے بڑے کئے تو اگر نیّت ہو تو دین کی تعلیم پر چلنے کے راستے نکل آتے ہیں۔ اسی طرح مَیں نے ریسرچ کرنے والیوں کو کہا تھا کہ کوئی بچی اگر اتنی لائق ہے کہ ریسرچ کر رہی ہے اور وہاں لیبارٹری میں ان کا خاص لباس پہننا پڑتا ہے تو وہ وہاں اس ماحول کا لباس پہن سکتی ہیں بیشک حجاب نہ لیں۔ وہاں بھی انہوں نے ٹوپی وغیرہ پہنی ہوتی ہے لیکن باہر نکلتے ہی وہ پردہ ہونا چاہئے جس کا اسلام نے حکم دیا ہے۔ بینک کی نوکری کوئی ایسی نوکری نہیں ہے کہ جس سے انسانیت کی خدمت ہو رہی ہو۔ اس لئے عام نوکریوں کے لئے حجاب اتارنے کی اجازت نہیں دی جا سکتی جبکہ نوکری بھی ایسی جس میں لڑکی روزمرّہ کے لباس اور میک اَپ میں ہو، کوئی خاص لباس وہاں نہیں پہنا جانا۔ پس ہمیشہ یاد رکھنا چاہئے کہ حیا کے لئے حیادار لباس ضروری ہے اور پردہ کا اس وقت رائج طریق حیادار لباس کا ہی ایک حصہ ہے۔ اگر پردہ میں نرمی کریں گے تو پھر اپنے حیا دار لباس میں بھی کئی عذر کر کے تبدیلیاں پیدا کر لیں گی اور پھر اس معاشرے میں رنگین ہو جائیں گی جہاں پہلے ہی بے حیائی بڑھتی چلی جا رہی ہے۔ دنیا تو پہلے ہی اس بات کے پیچھے پڑی ہوئی ہے کہ کس طرح وہ لوگ جو اپنے مذہب کی تعلیمات پر چلنے والے ہیں اور خاص طور پر مسلمان ہیں انہیں کس طرح مذہب سے دُور کیا جائے۔
(خطبہ جمعہ فرمودہ ۱۳؍ جنوری ۲۰۱۷ء مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل ۳؍ فروری ۲۰۱۷ء)