ظاہری اعمال تقویٰ کے بغیر کچھ چیز نہیں ہیں (انتخاب از عید الاضحی حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ ۲۱؍ جولائی ۲۰۲۱ء)
آج عیدِ قربان ہے جسے ہم عید الاضحی بھی کہتے ہیں۔ اس عید پر مسلمان بڑے ذوق شوق سے قربانیاں کرتے ہیں۔ بکروں، بھیڑوں، گائے، اونٹ کی قربانیاں کی جاتی ہیں۔ ہزاروں لاکھوں جانور اس عید کے موقع پر مسلمان دنیا میں ذبح ہوتے ہیں۔ حج کے موقع پر مکہ میں ہی لاکھوں جانور ذبح ہوجاتے ہیں۔ … لاکھوں جانوروں کی قربانیاں مکہ میں ہوتی ہیں جنہیں سنبھالنا ہی مشکل ہے۔ جو قربانیاں سنبھالی جاتی ہیں کہتے ہیں کہ ان کا گوشت حکومت کی طرف سے غریب ممالک کو بھجوا دیا جاتا ہے۔ یہ بھی دیکھنے میں آیا ہے کہ بعض دفعہ سنبھالنا مشکل ہو جاتا ہے تو یہ گوشت ضائع چلا جاتا ہے، اس کی بھی خبریں آتی رہتی ہیں۔ پھر عمومی طور پر جیسا کہ میں نے کہا مسلمان دنیا میں ہم دیکھتے ہیں لاکھوں بلکہ کروڑوں جانور قربان کیے جاتے ہیں، ذبح کیے جاتے ہیں۔ پھر ہمیں یہ بھی نظر آتا ہے کہ بعض جگہ تو دکھاوے کے لیے اس طرح کوشش ہوتی ہے کہ ایک دوسرے سے بڑھ کر بڑے جانور اَور مہنگے جانور خریدے جائیں اور پھر اپنے ماحول میں اس قسم کا اظہار ہو کہ ہم نے اتنی بڑی قربانی کی ہے اور پھر اس پر بڑا فخر ہوتا ہے اور پاکستان میں تو اب اس بات پر بھی فخر ہونے لگ گیا ہے کہ ہم نے احمدیوں کو عید قربان پر قربانی نہیں کرنے دی کیونکہ یہ مسلمان نہیں ہیں۔ یعنی ان مذہب کے ٹھیکیداروں کے نزدیک احمدی مسلمان نہیں ہیں اور عید کے تین دنوں میں جانوروں کی قربانی یا اسے ذبح کرنے کا حق صرف مسلمان کو ہے۔ کوئی احمدی کوئی جانور ذبح نہیں کر سکتا اور حیرت اس بات پر ہوتی ہے کہ حکومت کے افسران اور انصاف قائم کرنے والے ادارے، قانون نافذ کرنے والے ادارے ان مفاد پرست نام نہاد علماء کی باتوں کی وجہ سے احمدیوں کو قربانی کرنے سے روکتے ہیں۔ بہرحال جہاں بعض شریف افسران ہیں وہ اتنی رعایت کر بھی دیتے ہیں کہ کہتے ہیں کہ چھپ کر قربانی کر لو ظاہر نہ ہو ورنہ ان علماء کے جذبات مجروح ہو جاتے ہیں اور ایک فتنہ و فساد کی کیفیت پیدا ہو جاتی ہے۔ یہ تو ملک کی حالت ہو چکی ہے۔ اسلام کے نام پر نام نہاد ملّاں کا دین نافذ کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے اور حکومت ان کا ساتھ دیتی ہے یا مجبور ہوتی ہے کہ خاموش رہے۔ اس تعلیم کا اسلام کی تعلیم سے کچھ بھی واسطہ نہیں ہے۔ بہرحال جماعت احمدیہ کی تاریخ ہمیں یہی بتاتی ہے کہ مخالفین احمدیت کا یہ طریق ہے۔ جو بھی طریقہ وہ بروئے کار لا سکیں، جو طریقہ بھی اختیار کر سکیں وہ طریق اختیار کرنے کی کوشش کرتے ہیں کسی طرح احمدیوں کوتنگ کیا جائے۔ اور یہ طریق ان میں اس لیے رائج ہے اور بڑھتا جا رہا ہے اور ہمیشہ سے یہی وجہ ہے کہ ان لوگوں میں تقویٰ نہیں ہے۔ اسلام کے نام پر خدا تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے نام پر ظلم کرکے سمجھتے ہیں کہ ہم اسلام کی بہت خدمت کر رہے ہیں اور نیکی کے اعلیٰ معیار حاصل کر رہے ہیں۔ بہرحال یہ تو ایک دن خدا تعالیٰ فیصلہ فرمائے گا کہ تقویٰ کیا ہے اور تقویٰ پر چلنے والے کون لوگ ہیں، نیکی کے معیار کیا ہیں، خداتعالیٰ کے نزدیک صحیح کون ہے اور اللہ تعالیٰ کے نزدیک غلط کون ہے۔ ہم تو اللہ تعالیٰ کے آگے جھکتے ہیں اوراسی سے مانگتے ہیں۔ اگر ہم تقویٰ پر چلتے ہوئے اللہ تعالیٰ کے آگے جھکتے رہے اور جھکے رہے تو یقیناً اللہ تعالیٰ کی مدد ہمارے ساتھ ہو گی ،ان شاء اللہ۔
یہ آیت جو میں نے تلاوت کی ہے اس میں اللہ تعالیٰ نے فرما دیا ہے کہ اگر تقویٰ نہیں ہے توصرف تمہارے بڑے اور مہنگے جانوروں کی قربانیاں خدا تعالیٰ قبول نہیں کرتا ۔ اللہ تعالیٰ کو تمہارے گوشت اور خون کی ضرورت نہیں ہے۔ وہ تو ان حاجتوں سے پاک ہے۔ پس ہمیں ان باتوں سے پریشان ہونے کی ضرورت نہیں ہے کہ ہمیں قربانی سے روکا گیا یا مولوی یا حکومتی کارندے ہمارے جانور اٹھا کر لے گئے۔ بعض جگہ تو یہ ذبح کیے ہوئے جانوروں کا گوشت اٹھا کر لے جاتے ہیں۔ اگر کسی کو موقع مل گیا کہ جانور ذبح کر لیا اور ان کو پتہ لگے تو وہ کہتے ہیں یہ تمہارے لیے حرام ہے، جائز نہیں، اور اٹھا کر لے جاتے ہیں۔ یہ گوشت ان کے ہاں جا کر حلال ہو جاتا ہے چاہے وہ احمدی نے ذبح کیا ہو۔ بہرحال اگر ہم نے تقویٰ پر چلتے ہوئے اس قربانی کا ارادہ کیا اور قربانی کی تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ میرے ہاں مقبول ہے اور اگر یہ تقویٰ سے خالی قربانی ہے تو پھر بے فائدہ صرف ایک جانور کاذبح کرنا ہی ہے۔
پس ہمارا کام ہے کہ ہم اپنے ہر عمل میں تقویٰ کو سامنے رکھیں۔ ہماری یہ خوش قسمتی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ہمیں اس زمانے میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام اور مہدی معہود علیہ السلام کو ماننے کی توفیق عطا فرمائی جنہوں نے قرآن و سنت کی روشنی میں ہمیں تقویٰ کی حقیقت سمجھائی۔ ہمیں اس بات پر پریشان یا افسردہ ہونے کی ضرورت نہیں ہے کہ ہمیں قربانی کا موقع نہیں ملا۔ اگر ہم زمانے کے امام کے بتائے ہوئے طریق پر عمل کرتے رہیں گے اور تقویٰ پر قائم رہیں گے تو ہماری قربانیوں کے ارادے جو نیک نیتی سے کیے گئے ہیں اللہ تعالیٰ کے ہاں مقبول ہوں گے، ان شاء اللہ۔ جیسا کہ ایک روایت میں آتا ہے کہ تقویٰ پر قائم رہنے والے ایک شخص کا حج صرف اس کے ارادے کی وجہ سے قبول ہوا اور وہ خرچ اس نے کسی وجہ سےکہیں اور ضرورت مند کی ضرورت پوری کرنے کے لیے کرلیا اور عملاً حج کرنے والوں کے حج کو اللہ تعالیٰ نے قبول نہیں فرمایا۔(ماخوذ از تذکرۃ الاولیاء صفحہ 165 ممتاز اکیڈیمی اردو بازار لاہور)
پس اس حقیقت کو سمجھنے کی ضرورت ہے کہ اصل چیز تقویٰ ہے۔ ظاہری اعمال تقویٰ کے بغیر کچھ چیز نہیں ہیں۔ اس وقت میں یہ بتانا چاہتا ہوں کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام اپنے ماننے والوں میں کس قسم کا تقویٰ پیدا کرنا چاہتے ہیں۔ اگر ہم یہ پیدا کر لیں تو ہم خوش قسمت ہیں ورنہ اگر ہماری قربانی ہو بھی جاتی ہے اور وہ تقویٰ کے بغیر ہے اور اس سوچ کے ساتھ نہیں کہ ہم صرف اور صرف اللہ تعالیٰ کی رضا کی خاطر قربانی کر رہے ہیں تو پھر یہ قربانی بے فائدہ ہے۔ قرآن کریم میں بےشمار مرتبہ، بےشمار جگہوں پر تقویٰ کا ذکر آیا ہے اور اس تعلیم کو سامنے رکھتے ہوئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام نے بھی مختلف مواقع پر، مختلف زاویوں سے ہمیں تقویٰ کی حقیقت سمجھائی ہے کہ اگر ہم یہ کچھ سمجھ جائیں تو ہم کامیاب ہو جائیں گے۔ اس بات کی وضاحت فرماتے ہوئے کہ تمہارے گوشت اور تمہارے خون اللہ کو نہیں پہنچتے بلکہ تقویٰ ہے جو اللہ تعالیٰ کو پہنچتا ہے حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں: ’’خدا تعالیٰ نے شریعت اسلام میں بہت سے ضروری احکام کے لئے نمونے قائم کئے ہیں۔ چنانچہ انسان کو یہ حکم ہے کہ وہ اپنی تمام قوتوں کے ساتھ اور اپنے تمام وجود کے ساتھ خدا تعالیٰ کی راہ میں قربان ہو۔ پس ظاہری قربانیاں اسی حالت کے لئے نمونہ ٹھہرائی گئی ہیں لیکن اصل غرض یہی قربانی ہے جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:لَنْ يَّنَالَ اللّٰهَ لُحُوْمُهَا وَ لَا دِمَاؤُهَا وَلٰكِنْ يَّنَالُهُ التَّقْوٰى مِنْكُمْ ۔ یعنی خدا کو تمہاری قربانیوں کا گوشت نہیں پہنچتا اور نہ خون پہنچتا ہے مگر تمہاری تقویٰ اس کو پہنچتی ہے۔ یعنی اس سے اتنا ڈرو کہ گویا اس کی راہ میں مر ہی جاؤ اور جیسے تم اپنے ہاتھ سے قربانیاں ذبح کرتے ہو اسی طرح تم بھی خدا کی راہ میں ذبح ہو جاؤ۔ جب کوئی تقویٰ اس درجہ سے کم ہے تو ابھی وہ ناقص ہے۔‘‘ (چشمہ معرفت روحانی خزائن جلد23 صفحہ99 حاشیہ)
پس یہ معیار ہے اور اصل تقویٰ یہ ہے کہ ہر قربانی ہمیں اس بات کی طرف توجہ دلانے والی ہو کہ ہم نے اللہ تعالیٰ کے احکامات کی مکمل پیروی کرنی ہے۔