حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز

سب سے بہتر جماعت (انتخاب از خطبہ جمعہ حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ۶؍نومبر۲۰۰۹ء)

وہ شریعت ہے جو قرآن کریم کی صورت میں آج تک اپنی اصلی حالت میں محفوظ ہے اور آج تک ہم خداتعالیٰ کے وعدہ کو بڑی شان سے پورا ہوتا دیکھ رہے ہیں اور یہ فخر آج مذاہب کی دنیا میں صرف اور صرف اسلام کو حاصل ہے اور تاقیامت یہ فخر اسلام کو ہی حاصل رہنا ہے۔ ایک حقیقی مسلمان کو ہمیشہ سوچنا چاہئے کہ کیا اللہ تعالیٰ کے اس اعلان اور اسلام کے اس فخر کا ہونا ہی اس کے لئے کافی ہے؟ اسلام کا یہ اعلیٰ مقام ہونے اور آخری اور کامل شریعت ہونے میں ایک عام مسلمان کا کیا حصہ ہے؟ اللہ تعالیٰ نے جو مسلمانوں کو خیراُمّت کہا ہے ایک مسلمان نے یا بحیثیت اُمہ، اُمّت مُسلمہ نے اس کے خیرِ اُمّت ہونے میں کیا حصہ ڈالا ہے۔ یہ تو اللہ تعالیٰ کا فعل ہے کہ اس نے آنحضرتﷺ کو آخری شرعی نبی بنا کر بھیجا ہے۔ قرآن کریم کو آخری شرعی کتاب کی صورت میں نازل فرمایا اور آج تک اس کی حفاظت فرمائی اور اس کو اپنی اصلی حالت میں رکھا۔ اللہ تعالیٰ تو ایک مومن سے ایمان لانے کے بعد عمل صالح کرنے کی توقع رکھتا ہے اور اسے عمل صالح کرنے کا حکم دیتا ہے۔ ایک مسلمان پر کچھ ذمہ داریاں عائد فرماتا ہے۔ اس آیت کے اس حصّہ میں خداتعالیٰ نے انہی ذمہ داریوں کا ذکر فرمایا ہے اور فرمایا کہ ان ذمہ داریوں کو ادا کرنے کی وجہ سے تم خیراُمّت ہو۔ بغیر دلیل کے اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو خیر اُمّت کے خطاب سے نہیں نوازا۔ بلکہ وجہ اور دلیل بیان کی ہے کہ ان وجوہات سے تم خیر امت ہو۔ یہ چیزیں تمہارے اندر ہوں گی تو تم خیراُمّت کہلاؤ گے۔ ایک یہ کہ تم اُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ ہو، تمہیں لوگوں کی بھلائی کے لئے پیدا کیا گیا ہے۔ تمہیں کسی خاص قوم یا لوگوں کی بھلائی کے لئے نہیں پیدا کیا گیا بلکہ انسانیت کی بھلائی کے لئے پیدا کیا گیاہے۔ دوسرے یہ کہ تم تَاْمُرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ کرنے والے ہو۔ تم اچھی اور نیک باتوں کا حکم دیتے ہو۔ یہ پوری اُمّت کی ذمہ داری ہے کہ نیکی کی اور اچھی باتوں کی طرف توجہ دلائیں، اس کا حکم دیں۔ اور خد اتعالیٰ فرماتا ہے وَتَنْھَوْنَ عَنِ الْمُنْکَرِ خیر اُمّت اس لئے ہو کہ بُرائی سے روکتے ہو اور یہ کہ اللہ تعالیٰ پر کامل ایمان رکھتے ہو۔

تاریخ اس بات کی گواہ ہے کہ اسلام کی پہلی چند صدیوں تک مسلمانوں نے خیر اُمّت ہونے کو دنیا پر ثابت کیا۔ حکومت کے معاملات چلاتے ہوئے بلا تخصیص مذہب اگر ایک طرف انصاف قائم کیا تو ساتھ ہی علم کی روشنی سے اس دنیا کو منور کیا۔ اگر اسلام کی خوبصورت تعلیم کی تبلیغ کرکے دنیا کو اس کے حلقے میں لائے تو ساتھ ہی علوم و فنون کے نئے نئے راستے بھی دکھائے، نئے نئے دروازے بھی کھولے۔ جہاں نیکیوں کو پھیلانے کی کوشش کی وہاں برائیوں اور ظلموں کے خاتمے کی بھی کوشش کی اور اس کے خلاف جہاد کیا۔ غرضیکہ انسانیت کی بہتری کے لئے جو کچھ وہ کر سکتے تھے کرتے رہے لیکن پھر ہوس پر ستوں نے، ذاتی مفادات رکھنے والوں نے، باوجود اللہ تعالیٰ کے وعدہ کے کہ اس تعلیم کو اللہ تعالیٰ ہمیشہ محفوظ رکھے گا اس پر عمل نہ کرکے اور بھلائیوں اور نیکیوں کو خیر باد کہہ کر اور برائیوں پر عمل کرکے اپنے آپ کو بڑی تعداد سمیت خیر اُمّت کہلانے سے محروم کر لیا اور ایک شاعر کو یہ کہنا پڑا کہ

گنوا دی ہم نے جو اسلاف سے میراث پائی تھی

(بانگ درا از کلیات اقبال صفحہ 139 ناشر: جواد اکمل بٹ مطبع نیاز جہانگیر پرنٹرز، غزنی سٹریٹ اردو بازار لاہور)

لیکن خداتعالیٰ نے جب قرآن کریم کی تعلیم کو محفوظ کرنے کا وعدہ فرمایا تو اس کتاب قرآن کریم میں بیان کی گئی باتوں کو قصّے کہانیوں کے طور پر محفوظ رکھنے کا وعدہ نہیں کیا تھا بلکہ اس تعلیم پر عمل کرتے چلے جانے والے گروہ اور جماعت کے پیدا کرنے کا بھی وعدہ فرمایا تھا۔ تاکہ اُمّت مُسلمہ پھر سے خیر اُمّت کی عظیم تر شوکت سے دنیا میں ابھرے۔ نیکیوں کی تلقین کرنے والی ہو۔ اسلام کے پیغام کودنیا کے کناروں تک پہنچانے والی ہو۔ برائیوں کو بیزاری سے ترک کرنے والی ہو اور بلا تخصیص مذہب و ملت انسانیت کی خدمت پر مامور ہو اور اس کے لئے اللہ تعالیٰ نے اپنے وعدے کے مطابق آنحضرتﷺ کے عاشق صادق کو دنیا میں بھیجا تاکہ ایمان کو ثریا سے دوبارہ زمین پر لے کر آئے اور آ کر دوبارہ اسلام کی شان و شوکت کو قائم فرمائے تا کہ اسلام کے بہترین مذہب ہونے اور مسلمانوں کے خیراُمّت ہونے کا اعزاز ایک شان سے دوبارہ دنیا کے سامنے سورج کی طرح روشن ہو کر ابھرے۔

پس آج خیر اُمّت ہونے کایہ اعزاز حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی جماعت کو حاصل ہے۔ بیشک دوسرے مسلمان فرقوں میں نیک کام کرنے والے بھی ہیں۔ برائیوں سے روکنے والے بھی ہوں گے لیکن خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ تم خیراُمّت ہو۔ مِنْ حَیْثُ الْاُمّت ان نیکیوں کے بجا لانے والے اور برائیوں سے روکنے والے ہو اور یہ اس وقت تک نہیں ہو سکتا جب تک اُمّت ایک ہاتھ پر کھڑی ہونے والی اور بیٹھنے والی نہ ہو۔ مسلمان ممالک میں بھی گروہوں کی صورت میں بھی اچھے کام کرنے والے اور برے کاموں سے روکنے والے ہو سکتے ہیں اور ہوں گے۔ لیکن وہ ہر ملک میں اپنے اپنے عالم یا لیڈر کے پیچھے چل کر اپنے اپنے طریق پر کام کرنے والے لوگ ہیں اور پھر کتنے مسلمان ملک ہیں جو ایک ہو کر اسلام کا پیغام پہنچانے کی کوشش کرنے والے ہیں، دنیا میں تبلیغ اسلام کرنے والے ہیں۔ جتنے فرقے ہیں اپنے اندرونی فروعی مسائل میں الجھے ہوئے ہیں۔ اسلام کی خوبصورت تعلیم کو کِسے دنیا میں پھیلانے کی فرصت ہے؟ اس تبلیغ کو دنیا کے کناروں تک پہنچانے کی کِسے فرصت ہے؟ گزشتہ دنوں اتفاق سے مَیں نے ایک اسلامی ٹی وی چینل دیکھا۔ اس میں ایک شیعہ عالم تھے اور ایک سنی عالم تھے اور شایدنبوت کے بارہ میں بحث ہو رہی تھی۔ آخر میں چند منٹ مَیں نے دیکھا، وہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام پر بھی ایک اعتراض کا جواب دے رہا تھا۔ یا اعتراض کر رہاتھا۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے بارہ میں تو دونوں ایک جیسے خیالات رکھنے والے تھے۔ لیکن باتوں میں شیعہ عالم اپنے مسلک کے حوالے سے ہی بات کرتا تھا تو سنّی عالم اس کو ٹوک دیتا تھا کہ یوں نہیں یوں ہونا چاہئے یا اس طرح ہے۔ اور جہاں سنّی عالم اپنے مسلک کے حوالے سے کوئی بات کرتا تھا تو شیعہ اسے ٹوک دیتا تھا کہ اس طرح نہیں اس طرح ہونا چاہئے۔ آئے تو شاید، شاید کیا یقیناًہمارے خلاف زہر اگلنے تھے، اپنے خیال میں، اپنے زُعم میں مسلم اُمہ کو ایک فتنے سے بچانے کے لئے تھے لیکن خود آپس میں الجھ کر فتنے کا شکار ہو رہے تھے۔ اور نہ صرف خود شکار ہو رہے تھے بلکہ دوسروں کے لئے بھی بدنمونہ ہی پیش کر رہے تھے۔ اور ان کے چہروں پر صاف عیاں تھا، صاف ظاہر ہو رہا تھا کہ اُنہیں ایک دوسرے کو دیکھ کر بڑی بے زاری پیدا ہو رہی ہے۔ ان کے آپس میں ایک د وسرے کے خلاف جوکفر کے فتوے ہیں، ان کو دیکھ کر ایک عام سادہ مسلمان جو دل سے صرف اسلام کی عظمت دیکھنا چاہتا ہے ان مختلف مسالک اور فرقوں کو دیکھ کر سوچ میں پڑ جاتا ہے۔ اب کئی لوگ یہ سوال اٹھاتے ہیں کہ یہ فرقہ مسلمان ہے یا دوسرا فرقہ مسلمان ہے۔ یہ ایک فرقہ خیر اُمّت میں شامل ہے یا دوسرا فرقہ خیراُمّت میں شامل ہے۔

اس کا جوحل آنحضرتﷺ نے بتایا ہے اگر اس پر عمل کریں تو مسئلہ حل ہو جاتا ہے۔ آپﷺ نے فرمایا کہ جب ایسے حالات ہوں گے، تم لوگ کئی فرقوں میں بھی بٹے ہوئے ہو گے (سنن ابن ماجہ کتاب الفتن باب افتراق الامم حدیث 3993) تو مسیح موعود کو خداتعالیٰ مبعوث فرمائے گا اسے مان لینا اور جا کر میرا سلام پہنچانا۔ بلکہ برف کی سلوں پر گھٹنوں کے بل چل کر بھی اگر جانا پڑے توجانا اور اسے سلام پہنچانا (سنن ابن ماجہ کتاب الفتن باب خروج المہدی حدیث 4084) اور اس کی جماعت میں شامل ہو جانا۔ وہی حَکَم اور عدل ہو گا۔ (سنن ابن ماجہ کتاب الفتن باب فتنۃ الدجال و خروج عیسیٰ ابن مریم و خروج یاجوج و ماجوج حدیث 4078) وہی حقیقی فیصلے کرے گا۔ وہی تمہیں صحیح شریعت بتائے گا۔ وہی اسلام کی برتری تمام ادیان پر ثابت کرے گا۔ وہی اسلام کی تبلیغ کا حق ادا کرے گا۔

پس جہاں یہ غیر از جماعت دوستوں کے لئے اور اسلام کا درد رکھنے والوں کے لئے سوچنے کا مقام ہے، ایک احمدی پر بھی اس بات سے بہت بڑی ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ خیر اُمّت ہونے کا حق ادا کرنے کی کوشش کرے۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو جب اللہ تعالیٰ نے الہاماً فرمایا کہ ’’سب مسلمانوں کو جو روئے زمین پر ہیں جمع کرو عَلٰی دِیْنٍ وَاحِدٍ‘‘(تذکرہ صفحہ 490 ایڈیشن چہارم 2004ء مطبوعہ ربوہ) تو یہ ہماری ذمّہ داری ہے کہ اس کا حق ادا کر یں۔ مسلمان تو پہلے ہی اس آخری شریعت قرآن کریم پر ایمان لانے والے ہیں اور آخری نبی حضرت خاتم الانبیاء محمد مصطفیﷺ پر ایمان لانے والے ہیں۔ کسی نئے دین نے تو اب آنا نہیں ہے اور یہی ایک دین ہے جو تاقیامت قائم رہنے والا دین ہے۔

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button