خطبہ جمعہ بطرز سوال و جواب (خطبہ جمعہ فرمودہ ۴؍ اگست ۲۰۲۳ء بمقام مسجد بیت الفتوح، مورڈن، لندن یوکے)
سوال نمبر۱: حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزنے خطبہ کے عنوان کی بابت کیابیان فرمایا؟
جواب:فرمایا:الحمد للہ، اللہ تعالیٰ کے فضل سے گذشتہ جمعےسے اتوار تک جماعت احمدیہ یوکے کا جلسہ سالانہ کامیابی سے منعقد ہوا، اختتام پہ پہنچا اور باوجود موسم کی وقتاً فوقتاً خرابی کے اللہ تعالیٰ کے فضل سے عمومی طور پر ہر لحاظ سے ہر انتظام عموماً بغیر کسی بڑی پریشانی کے چلتا رہا اور پھراس سال حاضری بھی گذشتہ سال کی نسبت بہت زیادہ تھی…غیر جو باہر سے مختلف ممالک سے آئے ہوئے تھے ان میں غیر مسلم بھی تھے ان کے احساسات کیا تھے۔ جلسےکے انتظام اور جلسےکو دیکھ کر کس طرح وہ متاثر ہوئے۔ اس کے چند تبصرے پیش کر دیتا ہوں، سارے تو ممکن نہیں۔
سوال نمبر۲:حضورانورایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے جلسہ کےکامیاب انعقادپراللہ تعالیٰ کاشکراداکرنے کی بابت کیا بیان فرمایا؟
جواب: فرمایا: ہم جتنا بھی اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کریں کم ہے کہ اس نے ہمارے جلسےکو برکتوں سے بے انتہا بھرا اور اسے ہر ایک نے محسوس کیا چاہے وہ احمدی مہمان تھے یا غیر از جماعت مہمان تھے جو مختلف ممالک سے آئے ہوئے تھے۔ ہم تو کمزور ہیں۔ اللہ تعالیٰ کے فضلوں سے ہی ہمارے کام ہوتے ہیں اور اللہ تعالیٰ کے فضلوں کی بارش جماعت پر اس طرح ہوتی ہے جس کا شمار ہی ممکن نہیں۔ہم تو اللہ تعالیٰ کی اس بات کا ہمیشہ اور ہر وقت مشاہدہ کرتے ہیں کہ وَاِنْ تَعُدُّوْا نِعْمَةَ اللّٰهِ لَا تُحْصُوْهَا۔ اِنَّ اللّٰهَ لَغَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ (النحل:19) کہ اگر تم اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کا شمار کرنا چاہو تو اسے احاطے میں نہ لاسکو گےیقیناًاللہ تعالیٰ بہت بخشنے والااور بار بار رحم کرنے والا ہے۔ پس اللہ تعالیٰ تو ہماری کمزوریوں سے صرفِ نظر فرماتے ہوئے اتنا زیادہ اور ایسے ایسے ذرائع اور طریقے سے ہمیں نوازتا ہے کہ ہم کبھی بھی اس کی شکر گزاری کا حق ادا نہیں کر سکتےلیکن ہمیں اللہ تعالیٰ کا یہ حکم بھی ہے کہ تم اس کا شکر ادا کرتے چلے جاؤ اور جب تم اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرتے چلے جاؤ گے تو اللہ تعالیٰ تمہیں اَور بھی نوازتا چلا جائے گا۔ پس شکر گزاری ہمارا کام ہے، اللہ تعالیٰ کی نعمتوں پر اس کے آگے جھکتے چلے جانا ہمارا کام ہے اور جب تک ہم اپنا یہ فرض ادا کرتے چلے جائیں گے، ہر کامیابی کو اللہ تعالیٰ کی رحمت اور فضل سمجھتے ہوئے کام کرتے رہیں گے ہمارے قدم ان شاءاللہ تعالیٰ آگے بڑھتے رہیں گے۔
سوال نمبر۳: حضورانورایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے کارکنان کاشکریہ اداکرنے کی بابت کیابیان فرمایا؟
جواب: فرمایا:میں کارکنوں کا شکریہ بھی ادا کرنا چاہتا ہوں۔اس دفعہ عموماً سب نے بہت اعلیٰ رنگ میں اپنے فرائض ادا کیے اور غیر معمولی طور پر مسکراتے ہوئے جیسا کہ مَیں نے شروع میں ان کو کہا تھا، تلقین کی تھی اپنی ڈیوٹیاں سرانجام دیں۔اللہ تعالیٰ ان سب کو جزا دے۔ہر شعبےکے کارکن کی اپنے شعبےکے کام کو سرانجام دینے میں اس دفعہ خاص طور پر مہارت نظر آ رہی تھی، لجنہ کی طرف بھی، مردوں کی طرف بھی۔ ہر سال لجنہ کی طرف سے کھانا کھلانے اور کھانے کی دستیابی کے بارے میں شکایات ہوتی تھیں لیکن اس دفعہ یہ شکایت نہ ہونے کے برابر ہے اور جو کھانے کی مارکی اور دوسرے ضروری انتظامات کے لیے اس دفعہ جگہ بدل کر ایک حصے میں ہی لجنہ کو تمام سہولیات مہیا کی گئی تھیں اس کو بھی عمومی طور پر خواتین نے پسند کیا ہے۔ اگر کوئی کمی رہ گئی ہے تو وہ ان شاء اللہ تعالیٰ آئندہ دُور کرنے کی کوشش ہو گی۔ اسی طرح ٹریفک کا شعبہ ہے۔ کھانا پکانے کا شعبہ ہے۔ روٹی پلانٹ ہے۔ سیکیورٹی ہے۔ صفائی کا کام ہے۔پھرسب سے بڑھ کر ایم ٹی اے کہ اس نے اس دفعہ دنیا میں نئے انداز میں جلسےکو دنیا سے جوڑا ہے۔ بہرحال تمام شعبوں میں جن کے میں نے نام لیے یا نہیں لیے مردوں اور عورتوں نے بہت محنت سے اپنے فرائض سرانجام دیے۔ پس ان سب کا میں شکریہ بھی ادا کرتا ہوں۔آئے ہوئے غیر مہمانوں نے بھی سب کارکنوں کی محنت اور خوش اخلاقی کو دیکھ کر غیر معمولی حیرت کا اظہار کیا اور یہ ایک خاموش اور عملی نمونہ ایسا تھا جو تبلیغ کا ذریعہ بنتا ہے جو ہمارے کارکنوں نے کی ہے۔ اللہ تعالیٰ ان سب کو بہترین جزا دے۔
سوال نمبر۴: حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزنے برکینافاسو کے ایک پروفیسر ڈاکٹرجیالوژاں کے کیا تاثرات بیان فرمائے؟
جواب: فرمایا:پروفیسر ڈاکٹر جیالو ژاں (Djialo Jean) برکینا فاسو کے بہت معروف آئی سپیشلسٹ ہیں، میڈیکل یونیورسٹی میں پروفیسر ہیں اور آرمی میں حاضر سروس کرنل ہیں۔ ہمارے آئی انسٹیٹیوٹ میں بھی آتے رہتے ہیں۔ انہوں نے پہلی بار شرکت کی توفیق پائی۔ کہتے ہیں میں نے پہلی دفعہ جلسےمیں شرکت کی۔ سب سے پہلےجس چیز نے مجھے بہت متاثر کیا ہے ہزاروں افراد ایک مشترکہ مقصد کے لیے ایک مقام پر جمع ہیں، ایک مذہبی لیڈر کے گرد جمع ہیں۔ سب کے سب متحد ہیں، سب کا مطمح نظر ایک ہے۔پھر غیر معمولی انتظامات کر لینا اور مختلف النوع لوگوں کا ایک مقام پر اکٹھے ہونا حیران کن ہے۔ میں نے ان لوگوں میں گھل مل کر دیکھا پتہ کرنے کے لیے کہ واقعی حقیقت بھی ہے کہ صرف بناوٹ ہے لیکن مجھے کسی ایک فرد کے چہرے پر بھی بیزاری نظر نہیں آئی۔مختلف علاقوں، قوموں اور ملکوں کے متفرق شعبوں سے منسلک الگ الگ معاشرتی طبقات سے تعلق رکھنے والے لوگوں کا ایک مقصد کے لیے ایک مقام پر ایک ہاتھ پر اکٹھے ہو جانا غیر معمولی واقعہ ہے۔ پس احمدی شاملین جلسہ اس طرح غیروں میں عملی تبلیغ بھی کر رہے ہوتے ہیں۔ پھر کہتے ہیں تقاریر کا معیار بہت اعلیٰ تھا۔ یہ تقاریر ہمیں تعلیم دینے ، ایک مقصد اور ایک سمت مہیا کرنے میں بہت مدد دینے والی تھیں۔ خلیفۂ وقت کی تقاریر بھی میں نے سنیں۔قرآنی آیات کی روشنی میں آپ نے تعلیمات بیان کیں اور کہتے ہیں مجھے احساس ہے کس قدر اب دنیا کو ضرورت ہے خدا تعالیٰ کے پیغام کوسمجھنے کی اور اس پیغام کو سمجھنے کے لیے کسی ایسے شخص کی ضرورت ہے جو مدد بھی کرے۔ اس لیےجماعت احمدیہ میں جو خلافت کا نظام ہے وہ ایک ایسا نظام ہے جس سے دنیا سبق حاصل کر سکتی ہے۔ کہتے ہیں ایک اور بات جو میں نے دیکھی وہ احمدیوں کا خدا تعالیٰ اور اپنے امام کے ساتھ غیرمعمولی وفا کا تعلق ہے۔سب اکٹھے ہیں، سب ایک دوسرے کے ساتھ ایک وجود کی طرح ہیں اور اپنے امام پر زیادہ اعتماد کرنے والے ہیں کہ وہ ہم کو راہِ راست دکھانے والا ہے۔ کہتے ہیں اب یہ جلسہ دیکھ کے میرا تو اراد ہ ہے کہ اگر اللہ تعالیٰ نے مجھے توفیق دی تو ہر سال جلسےمیں شامل ہوں گا کیونکہ یہاں تین دنوں میں خداتعالیٰ سے تعلق اور انسانیت کے متعلق باتیں ہوتی ہیں اس لیے ضروری ہے کہ میں بھی یہ باتیں سیکھوں۔
سوال نمبر۵: حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزنے بیلیزکےایک شہرکےمیئرکےکیاتاثرات بیان فرمائے؟
جواب: فرمایا:بیلیز (Belize)کے ایک شہر کے میئر آئے ہوئے تھے۔ کہتے ہیں کہ میں نے اپنی زندگی میں کبھی اتنے پُر امن لوگ نہیں دیکھے جواتنے پیار کرنے والے اور پُرامن ہوں۔ میں یقین نہیں کر سکتا کہ کچھ لوگ اسلام کو دہشت گردی سے تشبیہ دیتے ہیں۔ میں نے جو روحانی ماحول یہاں دیکھا ہے اور لوگوں کا آپس میں معیار اور محبت اور حسن سلوک وہ یقیناً قابل تعریف ہے ۔ کہتے ہیں میں تو خواہش رکھتا ہوں اگلے سال پھر جلسےپہ آؤں اور ایک میئر کی حیثیت سے نہ آؤں بلکہ ایک والنٹیئر کی حیثیت سے آؤں، اتنا مجھے انسپائر (inspire)کیا ہے والنٹیئرز نے ، کام کرنے والوں نے۔ اور کہتے ہیں میں بھی ایسی شاندار جلسےکی انتظامیہ کا حصہ بننا چاہتا ہوں۔ ایسا عظیم جلسہ میں نے کبھی نہیں دیکھا۔ پھر کہتے ہیں یقیناً اس دنیا کا مستقبل احمدیت ہے۔
سوال نمبر۶: حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے ہیٹی سےمذہبی امور کے نمائندہ مسٹر یو ایل ٹیورین کے کیا تاثرات بیان فرمائے؟
جواب: فرمایا:ہیٹی(Haiti)سے مسٹر یوایل ٹیورین (Joel Turenne) جو وزارت مذہبی امور ہیٹی کے نمائندے تھے جلسہ سالانہ یوکے میں شامل ہوئے۔کہتے ہیں میں پہلی دفعہ جلسےمیں شریک ہوا۔ میرے لیے یہ تجربہ بہت ہی متاثر کن اور پُرمسرت رہا۔ انتظامات بہت ہی اچھے ہیں۔ باوجود چالیس ہزار سے زائد افراد کے اجتماع کے کسی بھی قسم کی بدنظمی نظر نہیں آئی۔ ہر شخص ایک دوسرے کے ساتھ مسکراتے ہوئے چہرے کے ساتھ مل رہا تھا۔ ہر ایک اس کوشش میں نظر آ رہا تھا کہ مجھ سے کسی کو کوئی تکلیف نہ پہنچے بلکہ ہر شخص ایک دوسرے کے آرام کا خیال رکھ رہا تھا۔ یہ بات میں نے اَور کسی مذہب یا دنیوی اجتماع میں نہیں دیکھی…کہتے ہیں کہ باوجود مختلف کلچر،رنگ و نسل کے ہر شخص ایک دوسرے کے ساتھ اس طرح مل رہا تھا جیسے ایک ہی خاندان کے افراد ہوں۔ایک ہی قسم کا کھانا روزانہ مختلف اقوام کے لوگ ایسے کھا رہے تھے جیسے یہ کھانا ان سب کا مرغوب کھانا ہے۔ کہتے ہیں (تجسس تھا ان کو) کہ میں نے افریقہ سے آئے ہوئے ایک مہمان سے پوچھا کہ کیا وجہ ہے کہ کسی بھی معاملے میں کوئی اعتراض یا تحفظات تم لوگوں کے نہیں ہیں تو اس افریقن نے بتایا کہ یہاں جلسےمیں ہم صرف اللہ کی رضا کی خاطر اور خلیفہ وقت کو دیکھنے سننے اور ملاقات کے لیے آتے ہیں اس لیے باقی سب دنیاوی چیزیں ہمارے لیے کوئی حیثیت نہیں رکھتیں۔ کہتے ہیں اس چیز نے مجھے بہت متاثر کیا۔ پھر جماعت کی انہوں نے تعریف کی ہے کہ جماعت باوجود مخالفت کے دنیا میں امن پھیلانے کی کوشش کر رہی ہے۔ پھر کہتے ہیں کہ احمدیوں کے درمیان کسی بھی قسم کا امتیازی سلوک نہیں ہے۔ سب برابر تھے میں نے پہلی دفعہ یہ دیکھا۔ تمام طبقات عمر کے افراد رضاکارانہ طور پر مختلف خدمات سرانجام دے رہے تھے۔ ٹریفک کنٹرول ہے۔ پارکنگ ہے۔ کیٹرنگ ہے۔ واٹر سپلائی ہے ۔نظم و ضبط ہے۔ ہر ایک اپنے خدمت کے جذبےسے سرشار تھا۔ کہتے ہیں میں نے تو احمدیوں میں بیشمار خوبیاں دیکھی ہیں جو آج تک مجھے کہیں اَور نظر نہیں آئیں۔ کہتے ہیں میں نے بہت سے مذہبی سکالرز کی تقاریر سنی ہیں اور دیکھا ہے اور ہر کوئی اپنے ہی بارے میں کہتا ہے کہ میری بات سنو لیکن خلیفة المسیح نے تو اللہ اورمحمدﷺاور مسیح موعودؑکی باتیں سنائیں اور کہا ان کو سنو اور ان کی پیروی کرو۔کہتے ہیں یہ بات میرے لیے بڑی حیران کن تھی۔ تینوں دن یہ جلسہ گاہ میں بیٹھ کے تقاریر سنتے رہے بلکہ بہت سارے احمدیوں سے زیادہ توجہ سے سنیں اور توجہ اس لیے کہ مختلف تقریروں کے نوٹس لیتے رہے ہیں۔ اپنی ڈائری بنائی تھی، پورے نوٹس لیتے رہے اس پہ اور جہاں کوئی بات سمجھ نہیں آتی تھی وہ ساتھ والے سے پوچھتے رہتے تھے کہ اس کا کیا مطلب ہے۔ کہتے ہیں کہ بے شک میں احمدی نہیں ہوں لیکن اس جلسےمیں شرکت کے بعد اب میں جماعت احمدیہ کا بھی وکیل ہوں اور میں جہاں بھی مسلمانوں کا ذکر ہو گا بتاؤں گا کہ اصل اور باعمل مسلمان احمدی ہی ہیں اور میں آپ کا دفاع کروں گا۔
سوال نمبر۷: حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے اٹلی کے صحافی مارکورسپنٹی کےکیاتاثرات بیان فرمائے؟
جواب: فرمایا:اٹلی کے ایک صحافی آئے ہوئے تھے مارکورسپنٹی (Marco Respinti)۔ ایک اخبار کے چیف ایڈیٹر ہیں ۔کہتے ہیں کہ میں نے جلسےکے بارے میں پہلے بھی سنا اور پڑھا تھا مگر اس میں شرکت بالکل ایک الگ قسم کا تجربہ ہے۔ میں رضاکاران کے کام کو دیکھ کر بہت متاثر ہوا ہوں۔ اس کے ساتھ ساتھ ایک اَور چیز جو دیکھنے میں آئی وہ بہترین قسم کا نظم و ضبط تھا جو اتنی بڑی تعداد کو مدنظر رکھتے ہوئے بہت مشکل کام ہے۔ کہتے ہیں اتنے بڑے پیمانے پر نظم و ضبط اور اس صفائی کا انتظام کوئی معمولی بات نہیں مگر سب سے زیادہ اہم چیز جو مَیں نے جلسہ سالانہ میں دیکھی وہ نماز تھی۔ہر شخص کے لیے نماز ایک خاص حیثیت کی حامل تھی ۔کہتے ہیں حالانکہ میں مسلمان نہیں ہوں لیکن میں سمجھتا ہوں کہ جس طرح احمدی نماز پڑھتے ہیں یہ ہر انسان کا سب سے پہلا فرض ہے۔مجھے وہاں ہزاروں لوگوں کی لگن اور سنجیدگی کو دیکھ کر بہت خوشی ہوئی۔ کہتے ہیں صحافی ہونے کے ناطے میں بہت سارے لوگوں کو ملا۔ نئے لوگوں کو، پرانے لوگوں کو ،کئی واقف بھی مجھے مل گئے اور پھر مجھے جماعت احمدیہ کی تاریخ کے بارے میں بھی بہت کچھ پتہ لگا۔