لوگوں کی کثرت کو دیکھ کر تھک نہ جانا
اللہ تعالیٰ نے مجھے مخاطب کر کے فرمایا: یأتون من کلّ فجٍ عمیق۔ یأتیک من کلّ فَجٍّ عمیق۔ لاتصعّر لخلق اللّٰہِ ولا تسئم من النّاس۔ ربّ لا تذرنی فردًا وانت خیرالوارثین۔
یہ وہ زبردست پیشگوئی ہے جو ان ایّام میں کی گئی اور چَھپ کر شائع ہوگئی۔ اور ہر مذہب و ملّت کے لوگوں نے اسے پڑھا۔ ایسی حالت اور ایسے وقت میں کہ مَیں گمنامی کے گوشہ میں پڑا ہوا تھا اور کوئی شخص مجھے نہ جانتا تھا خدا تعالیٰ نے فرمایا کہ تیرے پاس دُور دراز ملکوں سے لوگ آئیں گے اور کثرت سے آئیں گے اور اُن کے لئے مہمانداری کے ہر قسم کے سامان اور لوازمات بھی آئیں گے۔ چونکہ ایک شخص ہزاروں لاکھوں انسانوں کو مہمانداری کے جمیع لوازمات مہیّا نہیں کر سکتا اور نہ اس قدر اخراجات کو برداشت کرسکتا ہے اس لئے خود ہی فرمایا یأتیک من کلّ فجٍّ عمیق اُن کے سامان بھی ساتھ ہی آئیں گے اور پھر انسان کثرت مخلوقات سے گھبرا جاتا ہے اور ان سے کج خلقی کر بیٹھتا ہے۔ اس لئے اِس سے منع کیا کہ ان سے کج خلقی نہ کرنا۔ اور پھر یہ بھی فرمایا کہ لوگوں کی کثرت کو دیکھ کر تھک نہ جانا۔
(لیکچر لدھیانہ،روحانی خزائن جلد ۲۰ صفحہ ۲۵۲)
ایسا ہی ایک پرند کی مہمان نوازی پر ایک حکایت ہے کہ ایک درخت کے نیچے ایک مسافر کو رات آگئی۔ جنگل کا ویرانہ اور سردی کا موسم ۔درخت کے اوپر ایک پرند کاآشیانہ تھا۔ نرو مادہ آپس میں گفتگو کرنے لگے کہ یہ غریب الوطن آج ہمارا مہمان ہے اور سردی زدہ ہے۔ اس کے واسطے ہم کیا کریں؟ سوچ کر ان میں یہ صلاح قرار پائی کہ ہم اپنا آشیانہ توڑ کر نیچے پھینک دیں اوروہ اس کو جلا کر آگ تاپے۔ چنانچہ انہوں نے کہا کہ یہ بھوکا ہے۔ اس کے واسطے کیا دعوت تیار کی جائے۔اور تو کوئی چیزموجود نہ تھی۔ ان دونونے اپنے آپ کو نیچے اس آگ میں گرادیا، تا کہ ان کے گوشت کا کباب ان کے مہمان کے واسطے رات کا کھانا ہو جائے۔ اس طرح انہوں نے مہمان نوازی کی ایک نظیر قائم کی۔ سو ہماری جماعت کے مومنین اگر ہماری آواز کو نہیں سنتے تو اس مرغی کی آواز کو سنیں۔ مگر سب برابر نہیں۔ کتنے مخلص ایسے ہیں کہ اپنی طاقت سے زیادہ خدمت میں لگے ہوئے ہیں۔ خدائے تعالیٰ ان کو جزائے خیر دے۔
(ملفوظات جلد ۸ صفحہ ۲۸۱-۲۸۲، ایڈیشن ۱۹۸۴ء)