احمد علیہ السلام۔ سیرت و سوانح
براہین احمدیہ کی مالی معاونت کرنے والے خوش بخت
ابھی ذکرہواکہ براہین احمدیہ کی طباعت کے لیے جب آپؑ نے اشتہار شائع فرمایا اور مسلمان رؤساکی طرف سے سردمہری اور عدم توجہ کامظاہرہ ہوااور براہین کی طباعت میں سرمایہ کی کمی روک بنی تو حضرت اقدسؑ نے بےقرارہوکر خداکے حضوردعائیں کیں جس پر الہام ہوا ہُزِّیۡۤ اِلَیۡکِ بِجِذۡعِ النَّخۡلَۃِ تُسٰقِطۡ عَلَیۡکِ رُطَبًا جَنِیًّا یہ الہام اس دردمند دل کی بےقراری اوربےچینی کی طرف بھی اشارہ کرتاہے۔چشم تصور اس بےچین وبےقرارکو دیکھنے کی کوشش کرسکتی ہے جو مریم ؑکی طرح بےقرار ہوکر سجدہ میں تڑپ تڑپ کر دعائیں کر رہا ہوگا۔لیکن اس رحیم و کریم اورحکیم وقدیر خدا کی بےنیازیوں کے بھی صدقے جو اپنی عظمتوں اورقدرتوں کے وہ وہ نشان بھی دکھلانا چاہتاتھا جو شاید فوری طور پر اعانت ہوجانے کی صورت میں چُھپے ہی رہتے۔اس حکیم کی حکمتیں وہ ہی جانے۔وگرنہ ایک بارتو یہ صورت حال دیکھ کر ہی ان اسرارو رموز سے ناواقف اورانجان روح کانپ جاتی ہے کہ بےچاری ایک عورت دردِزہ جیسی جان لیوا درد میں مبتلا اوراس دردِ زِہ سے بڑھ کرایک اوردرداورتکلیف جو اس حمل اورولادت کی شکل میں مستقل دل وجان کوکھائے جارہی تھی یہ تکلیف اس کے سوا،پیدائش کے بعد جو اس معصوم جان پر گزری،جسم نڈھال اور دل بےحال ہے، ایسے میں خدانے ایک فرشتہ بھیجا جو اتنی دُورسے صرف یہ بتانے آتاہے کہ وہ کھجورکا درخت ہے،اٹھو،جاؤ،کیاآج کے زمانے میں یہ تصور بھی ہوسکتاہے ؟لیکن اس کو کہاجارہاہے کہ خوداٹھو،جاؤ،کھجورکے درخت تک چل کے جاؤ اوریہ نہیں کہ وہاں نیچے کھجوریں گری پڑی ہوں گی نہیں نہیں،اب اس کھجورکے تنے کو ہلاؤ اوراتنے زورسے ہلاؤ کے کھجوریں نیچے گریں اورپھر انہیں کھاؤ…کیاوہی فرشتہ یہ چھوٹاسا اور معمولی سا کام کرنہیں سکتاتھا۔تھوڑی سی کھجوریں ساتھ ہی لیتاآتا۔اوران فرشتوں کے لیے اس معصومہ کی طرف پھل فروٹ لے کرآنا تو ویسے بھی کوئی نئی بات نہ تھی۔ وَجَدَ عِندَھا رزقًا کا معمول تو رہاکرتاتھا لیکن آخر کیا وجہ تھی جو وہ نازبرداری یہاں نہیں ہورہی تھی …یہ ایسی رمزیں ہیں کہ خداجانے اوراس کے چاہنے والے جانیں،ان کا علاقہ الگ،ان کامحلہ جدا،ان کا ملک جدا…
انوکھی وضع ہے سارے زمانے سے نرالے ہیں
یہ عاشق کون سی بستی کے یارب رہنے والے ہیں
اس لیے ہم ان حکمتوں کی کنہ تک تونہیں پہنچ سکتے لیکن ہم ان بزرگان اورمحبوبانِ الٰہی کی سوانح میں بکثرت مشاہدہ کرتے اور دیکھتے ہوئے اس یقین پر قائم ہیں کہ وہ بے نیاز اورعلیم وحکیم ہستی کے اندازاوراپنے پیاروں کے ساتھ اس کا سلوک کچھ اسی طرح کا ہوتاہے کہ کبھی تو اِدھر وہ سوچتے ہیں اوراُدھر وہ ان کی اس خواہش کو پوراکرنے کے لیے فرشتوں کی فوج کو لگا دیتاہے اورنہیں کہہ سکتے کہ خواہش پہلے پیداہوئی یا وہ پوری پہلے ہوچکی ہوگی اورکبھی کچھ اورہوتاہے اورکبھی کچھ اور۔اورکبھی تو دوسروں کوزندگی دینے والامسیحا خوداپنی صلیب اٹھائے ہوئے لڑکھڑاتاہواچلاجارہاہوتاہے اور جان بلب ہوکربے قراردل کے ساتھ ایلی ایلی لماسبقتانی کہہ اٹھتاہے…؎
تیری باتوں کے فرشتے بھی نہیں ہیں رازدار
بہرحال یہاں ہمارا یہ مضمون نہیں ہے وہ انشاء اللہ حضرت اقدس علیہ السلام کی سیرت میں دعاؤں کے آئینہ میں بیان ہوگا۔ یہاں تو یہ عرض کرناہے کہ جب حضرت اقدس علیہ السلام نے براہین احمدیہ کی اعانت کے لیے دعافرمائی تو الہام ہوا کہ ہُزِّیۡۤ اِلَیۡکِ بِجِذۡعِ النَّخۡلَۃِ اس الہام کا ذکر کرتے ہوئے آپؑ فرماتے ہیں :’’جب پہلے الہام کے بعد جس کو میں ابھی ذکر کرچکا ہوں ایک عرصہ گزر گیا اور لوگوں کی عدم توجہی سے طرح طرح کی دقّتیں پیش آئیں اور مشکل حد سے بڑھ گئی تو ایک دن قریب مغرب کے خداوند کریم نے یہ الہام کیا۔ ہُزِّیۡۤ اِلَیۡکِ بِجِذۡعِ النَّخۡلَۃِ تُسٰقِطۡ عَلَیۡکِ رُطَبًا جَنِیًّا۔ سو میں نے سمجھ لیا کہ یہ تحریک اور ترغیب کی طرف اشارہ ہے اور یہ وعدہ دیا گیا ہے کہ بذریعہ تحریک کے اس حصہ کتاب کے لئے سرمایہ جمع ہوگا… اب خلاصہ کلام یہ کہ اس الہام کے بعد میں نے حسب الارشاد حضرت احدیّت کسی قدر تحریک کی تو تحریک کرنے کے بعد لاہور۔ پشاور۔ راولپنڈی۔ کوٹلہ مالیر اور چند دوسرے مقاموں سے جس قدر اور جہاں سے خدا نے چاہا اس حصہ کے لئے جو چھپتا تھا۔ مدد پہنچ گئی۔ والحمدللہ علی ذالک۔‘‘(براہین احمدیہ، روحانی خزائن جلد اول صفحہ25۱،25۰ بقیہ حاشیہ درحاشیہ نمبر1)
اسی الہام کاذکرکرتے ہوئے ایک اورجگہ بیان فرماتے ہیں :’’ جب میں نے اپنی کتاب براہین احمدیہ تصنیف کی جو میری پہلی تصنیف ہے تو مجھے یہ مشکل پیش آئی کہ اُس کی چھپوائی کے لئے کچھ روپیہ نہ تھا اور میں ایک گمنام آدمی تھا مجھے کسی سے تعارف نہ تھا تب میں نے خدا تعالیٰ کی جناب میں دعا کی تو یہ الہام ہوا ہُزِّیۡۤ اِلَیۡکِ بِجِذۡعِ النَّخۡلَۃِ تُسٰقِطۡ عَلَیۡکِ رُطَبًا جَنِیًّا۔ دیکھو براہین احمدیہ صفحہ 226 (ترجمہ) کھجور کے تنہ کو ہلا تیرے پر تازہ بتازہ کھجوریں گریں گی… اِس جگہ ایک نکتہ یاد رکھنے کے لائق ہے کہ یہ وحی الٰہی کہ ہُزِّیۡۤ اِلَیۡکِ بِجِذۡعِ النَّخۡلَۃِ۔ یہ حضرت مریم ؑکو قرآن شریف میں خطاب ہے جب لڑکا پیدا ہونے سے وہ بہت کمزور ہو گئی تھیں اور غذا کے لئے خدا تعالیٰ کی مدد کی محتاج تھیں۔ اِسی طرح براہین احمدیہ میرے لئے بطور بچہ کے تھی جو پیدا ہوا۔ اور یہ بات ہرایک جانتا ہے کہ تالیفات کی نسبت یہ عام محاورہ ہے کہ ان کو نتائج طبع کہتے ہیں۔ یعنی طبع زاد بچے۔ اور جبکہ براہین احمدیہ میرا بچہ ٹھہرا جو پیدا ہوا تو اُس کے پیدا ہونے کے وقت میں بھی اپنی مالی حالت میں کمزور تھا جیسا کہ مریم کمزور تھی اور اپنے طور پر اس بچہ کی پرورش کے لئے یعنی اس کے طبع کے لئے غذا حاصل نہیں کر سکتا تھا تو مجھے بھی مریم کی طرح یہی حکم ہوا کہ ہُزِّیۡۤ اِلَیۡکِ بِجِذۡعِ النَّخۡلَۃِ پس اس پیشگوئی کے مطابق سرمایہ کتاب اکٹھا ہو گیا اور پیشگوئی پوری ہو گئی اور اس روپیہ کا آنا بالکل غیر متوقع تھا کیونکہ میں گمنام تھا اور یہ میری پہلی تالیف تھی۔ ‘‘(حقیقۃ الوحی صفحہ 336تا 338،روحانی خزائن جلد 22 صفحہ 35۱،35۰)
امرواقعہ یہ ہے کہ اسبابِ ظاہری کا استعمال بھی ایک ضروری اورلابُدِّی امر ہے انبیاء بھی اس سے باہر نہیں بلکہ بعض اوقات تو حکمت ایزدی انہیں خود ان اسباب کی طرف لاتی ہے۔ اسباب ظاہری کی اہمیت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے حضرت اقدسؑ فرماتے ہیں:’’انسان کی کمزوریاں جو ہمیشہ اس کی فطرت کے ساتھ لگی ہوئی ہیں ہمیشہ اس کو تمدن اور تعاون کا محتاج رکھتی ہیں اور یہ حاجت تمدن اور تعاون کی ایک ایسا بدیہی امر ہے کہ جس میں کسی عاقل کو کلام نہیں خود ہمارے وجود کی ہی ترکیب ایسی ہے کہ جو تعاون کی ضرورت پر اول ثبوت ہے ہمارے ہاتھ اور پاؤں اور کان اور ناک اور آنکھ وغیرہ اعضاء اور ہماری سب اندرونی اور بیرونی طاقتیں ایسی طرز پر واقع ہیں کہ جب تک وہ باہم مل کر ایک دوسرے کی مدد نہ کریں تب تک افعال ہمارے وجود کے علی مجری الصحت ہرگز جاری نہیں ہوسکتے اور انسانیت کی کل ہی معطل پڑی رہتی ہے جو کام دو ہاتھ کے ملنے سے ہونا چاہیئے وہ محض ایک ہی ہاتھ سے انجام نہیں ہوسکتا اور جس راہ کو دو پاؤں مل کر طے کرتے ہیں وہ فقط ایک ہی پاؤں سے طے نہیں ہوسکتا اسی طرح تمام کامیابی ہماری معاشرت اور آخرت کے تعاون پر ہی موقوف ہورہی ہے کیا کوئی اکیلا انسان کسی کام دین یا دنیا کو انجام دے سکتا ہے ہرگز نہیں کوئی کام دینی ہو یا دنیوی بغیر معاونت باہمی کے چل ہی نہیں سکتا ہریک گروہ کہ جس کا مدعا اور مقصد ایک ہی مثل اعضا یکدیگر ہے اور ممکن نہیں جو کوئی فعل جو متعلق غرض مشترک اس گروہ کے ہے بغیر معاونت باہمی ان کی کے بخوبی و خوش اسلوبی ہوسکے بالخصوص جس قدر جلیل القدر کام ہیں اور جن کی عّلت غائی کوئی فائدہ عظیمہ جمہوری ہے وہ تو بجز جمہوری اعانت کے کسی طور پر انجام پذیر ہی نہیں ہوسکتے اور صرف ایک ہی شخص ان کا متحمل ہرگز نہیں ہوسکتا اور نہ کبھی ہوا انبیاء علیہم السلام جو توکل اور تفویض اور تحمل اور مجاہدات افعال خیر میں سب سے بڑھ کر ہیں ان کو بھی بہ رعایتِ اسبابِ ظاہری مَنْ اَنْصَارِی اِلَی اللّٰہِ کہنا پڑا خدا نے بھی اپنے قانون تشریعی میں بہ تصدیق اپنے قانون قدرت کےتَعَاوَنُوْا عَلَی الْبِرِّ وَالتَّقْوٰی کا حکم فرمایا۔‘‘(براہین احمدیہ،روحانی خزائن جلداول صفحہ۶۰،۵۹)
اوربراہین احمدیہ کے لیے تو بطورخاص حکم الٰہی تھا کہ… بالفعل نہیں بہرکیف حضرت اقدس علیہ السلام نے اس وقت ہندوستان بھر کے کلمہ گو امراء اوررؤساء کو اس عظیم الشان دینی خدمت کے لیے پکارا۔ آپؑ ان کو دعوت دیتے ہوئے فرماتے ہیں :’’ازانجا کہ ایسی بڑی کتاب کاچھپ کرشائع ہونا بجزمعاونت مسلمان بھائیوں کے بڑا مشکل امرہے اورایسے اہم کام میں اعانت کرنے میں جس قدر ثواب ہے وہ ادنیٰ اہل اسلام پر بھی مخفی نہیں۔لہٰذا اخوان مؤمنین سے درخواست ہے کہ اس کارِ خیر میں شریک ہوں۔اوراس کے مصارف طبع میں معاونت کریں۔اغنیاء لوگ اگراپنے مطبخ کے ایک دن کا خرچ بھی عنایت فرمائیں گے تویہ کتاب بسہولت چھپ جائے گی ورنہ یہ مہرِ درخشاں چُھپا رہے گا۔یایوں کریں کہ ہرایک اہلِ وسعت بہ نیت خریداری کتاب پانچ پانچ روپیہ معہ اپنی درخواستوں کے راقم کے پاس بھیج دیں۔جیسی جیسی کتاب چھپتی جائے گی ان کی خدمت میں ارسال ہوتی رہے گی۔غرض انصار اللہ بن کر اس نہایت ضروری کام کو جلد تر بسرانجام پہونچاویں …‘‘(اشتہار بعنوان’’اشتہار بغرض استعانت واستظہار ازانصاردین محمدؐ مختار صلے اللہ علیہ وعلےٰ آلہ الابرار‘‘ منقول از ضمیمہ اشاعة السنة نمبر4 جلد 2 صفحہ3-4،اپریل 1879ء مطبوعہ مئی 1879ء بحوالہ مجموعہ اشتہارات جلد اول صفحہ17)
لیکن اس آوازپر شاید ہی کسی نے کان دھرا۔انتظار کی گھڑیاں جب طویل ہونے لگیں تو آپؑ نے دوبارہ یوں اعلان فرمایا:’’مگر ہم نے محض اس امید اورنظر سے جو بعض امراء اسلام جو ذی ہمت اوراولوالعزم ہیں اس کتاب کی اعانت میں توجہ کامل فرماویں گے اوراس طور سے جبر اس نقصان کا ہوجاوے گا جو کمی قیمت کے باعث سے عاید حال ہوگا۔صرف پانچ روپیہ قیمت مقرر کی تھی۔مگر اب تک ایسا ظہور میں نہ آیا اورہم انتظار کرتے کرتے تھک بھی گئے…‘‘(مجموعہ اشتہارات جلد اول صفحہ 18)
اوراب کے دفعہ تو ہندوستان کے بعض چوٹی کے نوابوں اوررئیسوں کے نام لکھ کر آپؑ نے اعانت کی طرف توجہ دلائی۔چنانچہ آپؑ نے لکھا:’’اصل قیمت اس کی یعنے جو اپنا خرچ آتا ہے فی جلد پچیس روپیہ ہے۔ مگر ابتدا میں پانچ روپیہ قیمت اس کی اس غرض سے مقرر ہوئی تھی اور یہ تجویز اٹھائی گئی تھی جو کسی طرح سے مسلمانوں میں یہ کتاب عام طور پر پھیل جائے اور اس کا خریدنا کسی مسلمان پر گراں نہ ہو اور یہ امید کی گئی تھی کہ امراء اسلام جو ذی ہمت اور اولی العزم ہیں ایسی ضروری کتاب کی اعانت میں دلی ارادت سے مدد کریں گے تب جبر اس نقصان کا ہوجائے گا۔ پر اتفاق ہے کہ اب تک وہ امید پوری نہیں ہوئی بلکہ بجز عالی جناب حضرت خلیفہ سید محمد حسن خان صاحب بہادر وزیراعظم و دستور معظم ریاست پٹیالہ پنجاب کہ جنہوں نے مسکین طالب علموں کو تقسیم کرنے کے لئے پچاس جلدیں اس کتاب کی خریدیں اورجو قیمت بذریعہ اشتہار شائع ہوچکی تھی وہ سب بھیج دی اور نیز فراہمی خریداروں میں بڑی مدد فرمائی اور کئی طرح سے اور بھی مدد دینے کا وعدہ فرمایا (خدا ان کو اس فعل خیر کا ثواب دے اور اجر عظیم بخشے) اور اکثرصاحبوں نے ایک یا دو نسخہ سے زیادہ نہیں خریدا…لہٰذا بذریعہ اس اعلان کے بخدمت ان عالی مراتب خریداروں کے کہ جن کے نام نامی حاشیہ میں بڑے فخر سے درج ہیں اور دیگر ذی ہمت امراء کے جو حمایت دین اسلام میں مصروف ہورہے ہیں عرض کی جاتی ہے کہ وہ ایسے کار ثواب میں کہ جس سے اعلائے کلمہ اسلام ہوتا ہے اور جس کا نفع صرف اپنے ہی نفس میں محدود نہیں بلکہ ہزارہا بندگان خدا کو ہمیشہ پہنچتا رہے گا۔ اعانت سے دریغ نہ فرماویں کہ بموجب فرمودہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اس سے کوئی اور بڑا عمل صالح نہیں کہ انسان اپنی طاقتوں کو ان کاموں میں خرچ کرے کہ جن سے عبادالٰہی کو سعادت اخروی حاصل ہو۔ اگر حضرات ممدوحین اس طرف متوجہ ہوں گے تو یہ کام کہ جس کا انجام بہت روپیہ کو چاہتا ہے اور جس کی حالت موجودہ پر نظر کرکے کئی طرح کی زیر باریاں نظر آتی ہیں نہایت آسانی سے انجام پذیر ہوجائے گا…‘‘(براہین احمدیہ،روحانی خزائن جلداول صفحہ2تا4)