غزوہ بنو مصطلق کےحالات و واقعات کابیان نیزجلسہ سالانہ برطانیہ اور شاملین جلسہ کے لیے دعاؤں کی تحریک:خلاصہ خطبہ جمعہ فرمودہ ۱۹؍جولائی۲۰۲۴ء
٭… مالِ غنيمت ميں حاصل ہونے والے اونٹوں کي تعداد دو ہزار تھي، بکريوں کي تعداد پانچ ہزار تھي، اور قيديوں کي تعداد دو سَو گھرانوں پر مشتمل تھي
٭… رسول اللہﷺ اس غزوے سے مظفر ومنصور واپس تشريف لائے اور کُل اٹھائيس روز آپؐ مدينے سے باہر رہے
٭… اس غزوے سے واپسی پر رئیس المنافقین عبداللہ بن ابی بن سُلول کا نفاق بھی کُھل کر ظاہر ہوگیا
٭… جلسہ سالانہ برطانیہ اور شاملینِ جلسہ کے لیے دعاؤں کی تحریک
٭…محترمہ سلیمہ بانو صاحبہ اہلیہ حمید کوثر صاحب ناظر دعوتِ الیٰ اللہ شمالی ہند، مکرم نور الحق مظہر صاحب آف لاہور اور محترمہ امة الحفیظ نگہت صاحبہ اہلیہ محمد شفیع صاحب مرحوم آف ربوہ کا ذکر خیر اور نماز جنازہ غائب
خلاصہ خطبہ جمعہ سیّدنا امیر المومنین حضرت مرزا مسرور احمدخلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ ۱۹؍جولائی۲۰۲۴ء بمطابق۱۹؍وفا ۱۴۰۳؍ہجری شمسی بمقام مسجد مبارک،اسلام آباد،ٹلفورڈ(سرے)، یوکے
اميرالمومنين حضرت خليفةالمسيح الخامس ايدہ اللہ تعاليٰ بنصرہ العزيز نے مورخہ ۱۹؍جولائی۲۰۲۴ء کو مسجد مبارک، اسلام آباد، ٹلفورڈ، يوکے ميں خطبہ جمعہ ارشاد فرمايا جو مسلم ٹيلي وژن احمديہ کے توسّط سے پوري دنيا ميں نشرکيا گيا۔جمعہ کي اذان دينےکي سعادت مولانا فیروز عالم صاحب کے حصے ميں آئي۔تشہد، تعوذاور سورة الفاتحہ کی تلاوت کے بعد حضورِ انورایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا:
غزوہ بنو مصطلق کا ذکر گذشتہ خطبے میں ہوا تھا۔ اس کی مزید تفصیل احادیث اور تاریخ میں ملتی ہے۔
صحیح بخاری میں اس کی تفصیل میں لکھا ہے کہ جب نبی کریمﷺ نے بنو مصطلق پر حملہ کیا تو وہ غافل تھے۔ حضرت مرزا بشیراحمد صاحبؓ اس واقعے کے حوالے سے فرماتے ہیں کہ اس غزوے کے متعلق صحیح بخاری میں ایک روایت ہے کہ آنحضرتﷺ نے بنو مصطلق پر ایسے وقت میں حملہ کیا کہ وہ غفلت کی حالت میں اپنے جانوروں کو پانی پلا رہے تھے۔ ا گر غورسے دیکھا جائے تو یہ روایت مؤرخین کی روایت کے خلاف نہیں ہے
درحقیقت یہ دو روایتیں دو مختلف وقتوں سے تعلق رکھتی ہیں۔
واقعہ یوں ہے کہ جب اسلامی لشکر بنومصطلق کے قریب پہنچا تو کیونکہ ان کو معلوم نہیں تھا کہ مسلمان بالکل قریب آگئے ہیں گوکہ انہیں اسلامی لشکر کی آمد آمد کی اطلاع ضرور ہوچکی تھی۔ وہ اطمینان کے ساتھ ایک بےترتیبی کی حالت میں پڑے تھے، اسی حالت کی طرف بخاری کی روایت میں اشارہ ہے۔ مگر
جب انہیں اسلامی لشکر کے پہنچنے کی اطلاع ہوئی تو وہ اپنی مستقل سابقہ تیاری کے مطابق فوراً صف بند ہوکر جنگ کے لیے تیار ہوگئے اور یہ وہ حالت ہے جس کا ذکر مؤرخین نے کیا ہے۔
اس غزوے میں ایک صحابی ہی شہید ہوئے تھے اور وہ بھی غلطی سے، ایک مسلمان نے انہیں کافر سمجھ کر غلطی سے شہید کردیا تھا۔
ام المومنین حضرت جویریہؓ فرماتی ہیں کہ اس جنگ کے روز مَیں نے اپنے والد کو کہتے ہوئے سنا کہ اتنا بڑا لشکر آگیا ہے کہ جس کے مقابلے کی طاقت ہم میں نہیں۔ آپؓ فرماتی ہیں کہ مَیں خود اتنے زیادہ لوگ، ہتھیار اور گھوڑے دیکھ رہی تھی کہ مَیں بیان نہیں کرسکتی۔
جب مَیں نے اسلام قبول کیا اور رسول اللہﷺ نے مجھ سے شادی کرلی اور ہم واپس آگئے تو مَیں دیکھنے لگی کہ مسلمان مجھے پہلے کی طرح زیادہ نظر نہیں آئے۔ تب مَیں نے جانا کہ یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے رعب تھا جو وہ مشرکین کے دلوں میں ڈالتا ہے۔
مالِ غنیمت میں حاصل ہونے والے اونٹوں کی تعداد دو ہزار تھی، بکریوں کی تعداد پانچ ہزار تھی، اور قیدیوں کی تعداد دو سَو گھرانوں پر مشتمل تھی۔ بعض مؤرخین نے قیدیوں کی تعداد سات سَو سے زائد بھی بیان کی ہے۔
آنحضرتﷺ نے حضرت بریدہ ؓکو ان قیدیوں کا نگران مقرر فرمایا تھا۔
آنحضرتﷺ نے سارے مالِ غنیمت میں سےخُمس نکالا۔ خُمس خدا تعالیٰ کے حکم کے مطابق مالِ غنیمت میں سے وہ پانچواں حصّہ ہے جو اللہ اور اس کے رسولﷺ اور رسول کے قریبی رشتےداروں اور مشترک اسلامی ضروریات کے لیے الگ کیا جاتا ہے۔
اس قبیلے کے جو لوگ گرفتار ہوئے تھے ان میں قبیلے کے سردار حارث بن ابی ضرار کی بیٹی برّہ بھی تھیں، جن کا نام تبدیل کرکے آنحضرتﷺ نے جویریہ رکھ دیا تھا۔ قیدیوں کی تقسیم کے دوران جویریہؓ ایک انصاری صحابی ثابت بن قیس ؓکی سپردگی میں آئی تھیں۔ برّہ نے ثابت بن قیس سے مکاتبت کے طریق پر سمجھوتہ کیا تھا(مکاتبت کہتے ہیں کہ کوئی لونڈی یا غلام اپنےمالک سے یہ معاہدہ کرلے کہ وہ اگر اپنے مالک کو اس قدر رقم، جو رقم یہاں مقرر تھی وہ نَو اوقیہ سونا تھا، جو تین سَو ساٹھ درہم بنتے ہیں، فدیے کے طور پر اداکردے تو آزاد سمجھا جائے گا۔) اس سمجھوتے کے بعد برّہ آنحضرتﷺ کے پاس حاضر ہوئیں اور سارے حالات بتائے اور یہ جتلاکر کہ
مَیں بنو مصطلق کے سردار کی لڑکی ہوں فدیے کی ادائیگی میں آپؐ کی اعانت چاہی۔
اس کی کہانی سے آنحضرتﷺ متاثر ہوئے اور غالباً یہ خیال کرکے کہ وہ ایک مشہور قبیلے کے سردار کی لڑکی ہے شاید اس تعلق سے تبلیغ میں آسانیاں پیدا ہوجائیں آپؐ نے ارادہ فرمایا کہ اس سے شادی فرمالیں۔ برّہ کی رضامندی پر آپؐ نے فدیے کی ادائیگی فرماکر ان سے شادی کرلی۔
صحابہؓ نے جب یہ دیکھا تو اس بات کو پسند نہ کیا کہ رسول اللہﷺ کے سسرال والوں کو اپنے ہاتھ میں قید رکھیں لہٰذا ایک سَو گھرانے یعنی سینکڑوں قیدی بلا ادائیگی فدیہ یک لخت آزاد کردیے گئے۔ اسی لیے حضرت عائشہؓ فرماتی تھیں کہ جویریہ اپنی قوم کے لیے نہایت مبارک وجود ثابت ہوئی ہے۔
رسول اللہﷺ اس غزوے سے مظفر ومنصور واپس تشریف لائے اور کُل اٹھائیس روز آپؐ مدینے سے باہر رہے۔
اس غزوے سے واپسی پر رئیس المنافقین عبداللہ بن ابی بن سُلول کا نفاق بھی کُھل کر ظاہر ہوگیا۔ ایک واقعہ پر عبداللہ بن ابی نے قریش اور رسول اللہﷺ کے خلاف اپنے قبیلے والوں کو بہکانے کی کوشش کی اور یہاں تک کہا کہ مدینے واپس پہنچ کر سب سے زیادہ معزز شخص سب سے زیادہ ذلیل شخص کو شہر سے نکال دے گا۔
زید بن ارقمؓ نے اس موقعے پر غیرت کا مظاہرہ کیا اور عبداللہ بن ابی کو ٹوکا اور کہا کہ تُوہی اپنی قوم میں سب سے زیادہ ذلیل ہے
اور پھر آپؓ نے رسول اللہﷺ کے پاس حاضر ہوکر اس کی ساری بات بتادی۔ رسول اللہﷺ نے زید کی بات کو ناپسند کیا اور فرمایا کہ اے لڑکے! شاید تجھے عبداللہ بن ابی پر غصّہ ہے۔ روایات میں مذکور ہے کہ اس کے بعد عبداللہ بن ابی ازخود یا کسی کی تحریک پر رسول اللہﷺ کے پاس آیا اور خدا کی قسم کھا کر کہا کہ زید نے جو کچھ کہا ہے وہ سب غلط ہے۔ حضورِانور نے فرمایا کہ آنحضرتﷺ کو بھی خیال تھا کہ عبداللہ بن ابی نے بات ضرور کی ہے۔ اس کے بعد حضورﷺ نے روانگی کا حکم دیا اور انصار میں سے بعض رؤسا کے استفسار پر فرمایا کہ کیا تم نہیں جانتے کہ تمہارے ساتھی نے کیا بات کہی ہے یعنی یہ کہ مدینے واپس پہنچ کر سب سے زیادہ معزز شخص سب سے زیادہ ذلیل شخص کو شہر سے نکال دے گا۔ اس پر اُن مخلص انصار صحابہ نے عرض کیا کہ
یارسول اللہﷺ! یقیناً آپؐ سب سے زیادہ معزز ہیں اور تمام عزتیں اللہ اور اس کے رسولؐ کے لیے ہیں۔ اگر آپؐ چاہیں تو عبداللہ بن ابی کو شہر بدر کردیں اور اگر چاہیں تو اس سے نرمی کا سلوک فرمائیں۔
حضورِانور نے فرمایا کہ عبداللہ بن ابی نے جو بات کہی تھی اُس کے متعلق حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ نے جو تفصیل بیان فرمائی ہے وہ ان شاء اللہ آئندہ بیان ہوگی۔
اس کے بعد حضورِانور نے فرمایا کہ
اگلے جمعے ان شاء اللہ برطانیہ کا جلسہ سالانہ بھی شروع ہوگا۔ اس کے لیے بھی دعا کریں۔ اللہ تعالیٰ ہر لحاظ سے بابرکت فرمائے۔ تمام کارکنان کو اعلیٰ اخلاق دکھاتے ہوئے اور قربانی کے جذبے سے اپنے فرائض ادا کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ جو مہمان آئے ہیں اور جو سفر میں ہیں سب کو اپنی امان میں رکھے۔ آمین
خطبے کے آخری حصّے میں حضورِانور نےدرج ذیل تین مرحومین کا ذکرِخیر فرماتے ہوئے نمازِ جنازہ غائب پڑھانے کا اعلان فرمایا:
۱۔محترمہ سلیمہ بانو صاحبہ اہلیہ حمید کوثر صاحب ناظر دعوتِ الیٰ اللہ شمالی ہند۔ مرحومہ گذشتہ دنوں وفات پاگئی تھیں۔انا للہ و انا الیہ راجعون۔مرحومہ موصیہ تھیں۔ بڑی مہمان نواز، سادہ طبیعت کی مالک،دعاگو، نوافل کی پابند، قناعت پسند خاتون تھیں۔ آپ کو بطورصدر لجنہ بمبئی خدمات کی توفیق ملی۔ جب مرحومہ کے خاوند کبابیر میں مبلغ تھے تو وہاں بڑی جلدی بول چال کی عربی سیکھی اور خواتین کی تعلیم و تربیت میں بھرپور حصّہ لیا۔ مرحومہ کو گیارہ سال بطورصدر لجنہ اماء اللہ کبابیر خدمت کی توفیق ملی۔
۲۔مکرم نور الحق مظہر صاحب آف لاہور۔ مرحوم راغب ضیاء الحق مبلغ سلسلہ تنزانیہ کے والد تھے۔ گذشتہ دنوں آپ وفات پاگئے۔ انا للہ و انا الیہ راجعون۔ مرحوم موصی تھے۔ بڑے صابر، بہادر،تہجد گزار، پنجوقتہ نماز کے پابند، تلاوت قرآن کریم کا شوق رکھنے والے، سخی دل، غریب پرور، نیک شہرت کے مالک تھے۔ مرحوم کی بیٹی امة المتین صاحبہ مربی سلسلہ علی محمود صاحب کی اہلیہ ہیں جو غانا میں خدمات بجا لارہے ہیں۔ مرحوم کے بیٹے راغب ضیاء الحق اور بیٹی امة المتین صاحبہ میدانِ عمل میں خدمات بجا لانے کی وجہ سے والد کے جنازے میں شامل نہیں ہوسکے۔
۳۔محترمہ امة الحفیظ نگہت صاحبہ اہلیہ محمد شفیع صاحب مرحوم آف ربوہ۔ مرحومہ گذشتہ دنوں وفات پاگئیں۔ انا للہ و انا الیہ راجعون۔ مرحومہ موصیہ تھیں اور مبارک تنویر صاحب مربی سلسلہ جرمنی کی ساس تھیں۔ آپ کی بیٹی امة الجمیل غزالہ نائب صدر لجنہ اماء اللہ جرمنی ہیں۔ مرحومہ صوم و صلوٰة کی پابند، دعا گو، خلافت سے والہانہ لگاؤ رکھنے والی، تبلیغ کی شوقین، غریبوں اور بیماروں کا خیال رکھنے والی، عمدہ اخلاق کی مالک خاتون تھیں۔
حضورِانور ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے تمام مرحومین کی مغفرت اور بلندیٔ درجات کے لیے دعا کی۔
٭…٭…٭