خطبہ جمعہ

خطبہ جمعہ سیّدنا امیر المومنین حضرت مرزا مسرور احمد خلیفۃ المسیح الخامس ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ 5؍ جولائی 2024ء

ان غزوات سےبھی یہ ثابت ہوتا ہے کہ یہ غزوات دشمن کے شر کو روکنے اور ان کے اپنے بدارادوں کو ختم کرنے اور امن عامہ کی فضا قائم کرنے کے لیے کیے گئے تھے نہ کہ کسی قتل و غارت اور ناجائز تصرفات کے لیے اور امن برباد کرنے کے لیے

جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے غزوۂ بدر الموعد کے لیے نکلنے کی تحریک فرمائی اور آپؐ نے اپنی تقریر میں فرمایا کہ ہم نے کفار کے چیلنج کوقبول کر کے اس موقع پر نکلنے کا وعدہ کیا ہے اس لئے ہم اس سے تخلّف نہیں کر سکتے اور خواہ مجھے اکیلا جانا پڑے میں جاؤں گا اور دشمن کے مقابل پر اکیلا سینہ سپر ہوں گا تو لوگوں کا خوف جاتا رہا اور وہ بڑے جوش اوراخلاص کے ساتھ آپؐ کے ساتھ نکلنے کوتیار ہو گئے

جنگِ احد کے بعد مختلف قبائل جو مسلمانوں کو کمزور سمجھ کر ان پر حملہ کرنے کے منصوبے کرنے لگے تھے ان پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بڑی حکمت اور کامیابی سے مسلمانوں کی قوت اور دلیری کے اثرات کو بحال فرمایا

غزوۂ بدرالموعد میں گو عملی لڑائی نہ ہوئی تاہم مسلمانوں کا وقار اور اعتماد بحال ہوا اور دشمن پر رعب میں خوب اضافہ ہوا

’’یہ غزوہ اس رنگ میں پہلاغزوہ تھا کہ اس کی غرض یاکم از کم بڑی غرض ملک میں امن کاقیام تھی‘‘ (حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ)

غزوۂ بَدْرُالمَوْعِداور غزوۂ دومۃ الجندل کے اسباب اور حالات و واقعات کا تفصیلی اور پُرمعارف تذکرہ

دنیا میں قیامِ امن کے لیے دعاؤں کی تحریک

مسلمانوں کو اپنی بقا کے سامان کرنے ہوں گے۔ ایک اکائی بننا ہو گا۔ اپنی حالتوں کو بہتر کرنا ہوگا۔اللہ تعالیٰ کرے کہ یہ اسے سمجھنے والے ہوں

خطبہ جمعہ سیّدنا امیر المومنین حضرت مرزا مسرور احمدخلیفۃ المسیح الخامس ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزفرمودہ 5؍ جو لائی 2024ء بمطابق 05؍ وفا 1403 ہجری شمسی بمقام مسجد مبارک، اسلام آباد، ٹلفورڈ (سرے)یوکے

(خطبہ جمعہ کا یہ متن ادارہ الفضل اپنی ذمہ داری پر شائع کر رہا ہے)

أَشْھَدُ أَنْ لَّا إِلٰہَ إِلَّا اللّٰہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِيْکَ لَہٗ وَأَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ۔

أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّيْطٰنِ الرَّجِيْمِ۔ بِسۡمِ اللّٰہِ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ﴿۱﴾

اَلۡحَمۡدُلِلّٰہِ رَبِّ الۡعٰلَمِیۡنَ ۙ﴿۲﴾ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ ۙ﴿۳﴾ مٰلِکِ یَوۡمِ الدِّیۡنِ ؕ﴿۴﴾إِیَّاکَ نَعۡبُدُ وَ إِیَّاکَ نَسۡتَعِیۡنُ ؕ﴿۵﴾

اِہۡدِنَا الصِّرَاطَ الۡمُسۡتَقِیۡمَ ۙ﴿۶﴾ صِرَاطَ الَّذِیۡنَ أَنۡعَمۡتَ عَلَیۡہِمۡ ۬ۙ غَیۡرِ الۡمَغۡضُوۡبِ عَلَیۡہِمۡ وَ لَا الضَّآلِّیۡنَ﴿۷﴾

آج دو غزوات کا ذکر کروں گا۔ پہلے غزوہ کا نام ہے

غزوۂ بدرالموعد

جو چار ہجری میں ہوا۔ یہ غزوہ بدرالموعد، بدر الثانیہ ، بدر الاٰخِرہ اور بدر الصُّغریٰ کے ناموں سے معروف ہے۔

( الرحیق المختوم صفحہ 313،312 مکتبۃ الرشد ناشرون 2000ء)

اس غزوہ کی تاریخ کے متعلق مختلف قول ملتے ہیں۔ ابنِ ہشام اور ابنِ اسحاق کے مطابق آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ماہ شعبان چار ہجری میں بدر کی طرف روانہ ہوئے۔

(السیرۃ النبویۃ لابن ہشام صفحہ618 دارالکتب العلمیۃ بیروت 2001ء)

(السیرۃ النبویۃ ابن اسحاق صفحہ 391 دارالکتب العلمیۃ بیروت 2004ء)

واقدی کے مطابق یہ غزوہ چار ہجری ذُوالقَعْدَہ کا چاند نظر آنے پر ہوا اور بدر میں یکم ذوالقعدہ سے آٹھ ذوالقعدہ تک بازار لگتا تھا۔

(کتاب المغازی واقدی جلد 1 صفحہ 324، 325 دارالکتب العلمیۃ بیروت)

ایک روایت میں ذکر آتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم شوال میں بدر کی طرف روانہ ہوئے تھے یعنی مدینہ سے روانہ ہو کر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ذوالقعدہ کی چاند کی رات کو میدانِ بدر میں پہنچے۔ بہرحال ان تینوں اقوال کے مطابق

یہ غزوہ چار ہجری میں ہوا۔

(سیرۃ الحلبیہ جلد 2 صفحہ 373-374 دارالکتب العلمیۃ بیروت 2002ء)

البتہ مہینے میں اختلاف ہے۔ حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ نے بھی اس ضمن میں لکھا ہے کہ ’’4ہجری میں جب شوال کے مہینہ کا آخر آیا تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ڈیڑھ ہزار صحابہ کی جمیعت کو ساتھ لے کر مدینہ سے نکلے۔‘‘

(سیرت خاتم النبیینؐ از حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحبؓ ایم اے صفحہ 529)

اس غزوہ کا سبب

یہ ہے کہ ابوسفیان بن حَرْب جب غزوۂ احد سے واپس پلٹا تو اس نے بآواز بلند کہا تھا کہ آئندہ سال ہماری اور تمہاری ملاقات بدر الصَّفْرَاء کے مقام پر ہو گی۔ بدر کو بدرالصّفراءبھی کہا جاتا ہے۔ ہم وہاں جنگ کریں گے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عمر ؓکو فرمایا کہ اسے کہو کہ ہاں۔ ان شاءاللہ۔ علامہ بیضاوی نے لکھا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے خود جواب دیا تھا۔ اِن شاءاللہ۔ بدر مکہ اور مدینہ کے درمیان ایک مشہور کنواں ہے جو وادی صفرا اور جَارْ مقام کے درمیان واقع ہے۔ بدر مدینہ کے جنوب مغرب میں ایک سو پچاس کلو میٹر کے فاصلے پر واقع ہے۔ یہ اس جگہ کی لوکیشن ہے۔ زمانۂ جاہلیت میں اس جگہ ہر سال یکم ذی قعدہ سے آٹھ روز تک ایک بڑا میلہ لگا کرتا تھا۔ کہنے کو تو ابو سفیان نے غرور میں آ کر یہ اعلان کر دیا تھا لیکن اب جوں جوں وعدے کا وقت قریب آ رہا تھا ابوسفیان مقابلے سے کترانے لگا تھا لیکن ظاہر یوں کر رہا تھا کہ وہ ایک بہت بڑا لشکر لے کر آپؐ پر حملہ آور ہونے کی تیاری کر رہا ہے تا کہ یہ خبر اہلِ مدینہ تک پہنچ جائے اور عرب کے دیگر حصوں میں بھی پھیل جائے اور مسلمانوں کو اس سے خوف زدہ کیا جا سکے۔ اسی دوران بَنُو اَشْجَعْ سے تعلق رکھنے والا ایک شخص نُعَیم بن مسعود مکہ گیا۔ اس نے بعد میں اسلام بھی قبول کر لیا تھا۔ اس نے وہاں ابوسفیان سے ملاقات کی اور کہنے لگا کہ میں مکہ اس غرض سے آیا ہوں کہ تمہیں مسلمانوں کی تیاری کے متعلق آگاہ کروں۔ میں نے خود دیکھا ہے کہ ان کے پاس بے تحاشہ اسلحہ، اونٹ اور گھوڑے ہیں اور انہوں نے اپنے حلیف قبیلے کو بھی ساتھ ملا لیا ہے۔ اب وہ بڑے زور و شور سے حملہ آور ہونے والے ہیں۔ دیکھو تم نے خود مقابلہ کے لیے پکارا تھا اب اس وعدے کا وقت قریب آ گیا ہے۔ لہٰذا تم میدان کارزار میں اپنے جوہر دکھاؤ۔ ابوسفیان بات ٹالتے ہوئے کہنے لگا کہ اے نُعَیم! تم جانتے ہو کہ ہمارے علاقے میں قحط سالی ہے۔ عرصہ دراز سے بارش نہیں ہوئی۔ پانی کے تالاب خشک ہیں۔ چراگاہوں میں مویشی اور سواری کے جانوروں کے لیےگھاس کا تنکا تک نہیںہے۔ ہر طرف رزق کی تنگی ہے۔ لہٰذا عقلمندی اسی میں ہے کہ ہم یہ دن گزار لیں اس کے لیے تم اہم کردار ادا کر سکتے ہو۔ اس سے مدد مانگی کہ تم مدینہ جا کر لوگوں کو ہمارے عزائم اور افرادی قوت کے متعلق بڑھا چڑھا کر معلومات دو اور اسے خوب مشہور کرو تا کہ ہمارا بھرم بھی رہ جائے اور مسلمان خود ہی ڈر کے مارے بدر کی طرف نہ آئیں۔ نُعَیم نے کہا اس کے بدلے مجھے کیا دو گے؟ ابوسفیان نے بیس اونٹوں کی پیشکش کی جو نُعَیم نے بخوشی قبول کر لی اور کہا کہ یہ انعام سُہَیل بن عَمرو کے سپرد کر دیا جائے۔ پھر مَیں اس کام کے لیے جاؤں گا۔ سہیل اس کا گہرا دوست تھا اس کی یقین دہانی پر نُعَیم چلنے کے لیے تیار ہو گیا۔ اسے تیز رفتار اونٹ دیا گیا تا کہ اس منصوبے کو جلد از جلد عملی جامہ پہنایا جائے۔

(دائرہ معارف سیرت محمد رسول اللہؐ جلد 7 صفحہ 240، بزم اقبال لاہور 2022ء)

( اٹلس سیرت نبویؐ صفحہ 216، دار السلام ریاض 1424ھ)

(سبل الہدیٰ والرشادجلد4صفحہ337دارالکتب العلمیۃ بیروت 1993ء)

(غزوات النبیؐ صفحہ 259 ، زاویہ پبلشرز لاہور 2018ء)

نُعَیم نے رختِ سفر باندھا اور مدینہ کی طرف چل پڑا۔ اس نے عمرہ کر کے سر مونڈھ رکھا تھا۔ مدینہ کی طرف سرپٹ بھاگا جا رہا تھا۔ وہ فوراً مدینہ پہنچنا چاہتا تھا کہ کہیں اسلامی لشکر مدینہ سے چل نہ پڑے۔ چنانچہ جب وہ مدینہ پہنچا تو مسلمان بڑے جوش و خروش سے جہاد کی تیاری میں مصروف تھے۔ مسلمانوں نے اس سے پوچھا نُعَیم! کہاں سے آئے ہو؟ اس نے بتایا میں عمرہ کر کے مکہ سے آ رہا ہوں۔ انہوں نے کہا: پھر تو تمہیں ابوسفیان کے بارے میں علم ہو گا۔ اس کی جنگ کی تیاری کیسی ہے؟ اس نے کہا کہ ابوسفیان نے تو بہت سے لشکر اکٹھے کر لیے ہیں، سارا عرب اپنے ساتھ ملا لیا ہے۔ بڑا مبالغہ کیا اس نے۔ وہ اتنی بڑی فوج لے کر آ رہا ہے کہ اس کا مقابلہ کرنا تمہارے بس کی بات نہیں ہے۔ میری مانو تو تم لوگ مدینہ ہی میں ٹھہرے رہو۔ جنگ کے لیے مدینہ سے باہر مت جاؤ۔ وہ اتنے بڑے لشکر کے ساتھ حملہ آور ہونے والا ہے کہ اس سے صرف وہی بچ سکے گا جو بھاگ نکلے گا۔ تمہارے سرکردہ لوگ قتل کر دیے جائیں گے۔ خود محمد (صلی اللہ علیہ وسلم ) زخموں کی تاب نہ لا سکیں گے۔ کیا تم مدینہ سے نکل کر موت کے منہ میں جانا چاہتے ہو؟ افسوس تم نے اپنے لیے بہت برا فیصلہ کیا ہے۔ اللہ کی قسم! میں نہیں سمجھتا کہ تم میں سے کوئی بچ نکلے گا۔ بڑی مایوس کن باتیں کیں تا کہ وہ ڈر جائیں۔ اس نے باتوں کا ایسا بتنگڑ بنایا کہ کبھی ابوسفیان کی تیار کردہ سپاہ کی عددی کثرت کا تذکرہ، کبھی ان کے اسلحے کے ذخائر کابیان، کبھی رؤوسائے قریش کے جوش و خروش کی حکایت، کبھی ان کی خطرناک جنگی چالوں کی مدح سرائی۔ اس نے ایسی مہارت سے اپنی مہم چلائی کہ چند ہی روز میں مدینہ کی فضا خوف و ہراس سے مسموم ہو گئی۔

نُعَیم بن مسعود کی چال کارگر ثابت ہوئی۔ کمزور ایمان والے مسلمان اس کی افواہوں سے واقعی مرعوب ہو گئے حتیٰ کہ جو بھی بات کرتا وہ نُعَیم بن مسعود کے قول کی تصدیق کرتا تھا۔ ہر مجلس میں ابوسفیان کے لشکر جرار اور خوفناک تیاری کا ذکر چھڑاہوا تھا۔ مسلمانوں کی یہ حالت دیکھ کر یہود اور منافقین خوشی سے پھولے نہیں سما رہے تھے اور ایک دوسرے کو یہ خوشخبری سنا رہے تھے کہ اب اسلام کے ماننے والوں کا وجود صفحۂ ہستی سے مٹ جائے گا۔

(سیرت انسائیکلو پیڈیا جلد 7 صفحہ 91، دار السلام ریاض 1435ھ)

مدینہ کی اس کیفیت کے وقت میں حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ انہوں نے عرض کی یار سول اللہؐ! اللہ تعالیٰ اپنے دین کو غالب کرے گا۔ اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو عزت دے گا۔ ہم نے قوم کے ساتھ وعدہ کیا تھا اور ہم اس کی خلاف ورزی پسند نہیں کرتے۔ وہ یعنی کفار اسے بزدلی شمار کریں گے اگر ہم وہاں میدان میں نہ جائیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم وعدے کے مطابق تشریف لے چلیں۔ بخدا اس میں ضرور بھلائی ہے۔ یہ جذبات سن کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم بہت خوش ہوئے اور

فرمایا: وَالَّذِيْ نَفْسِيْ بِيَدِهٖ لَاَخْرُ جَنَّ وَإِنْ لَّمْ يَخْرُجْ مَعِيَ أَحَدٌ۔ اس ذات کی قسم !جس کے ہاتھ میں میری جان ہے میں ضرور نکلوں گا خواہ میرے ساتھ ایک فردبھی نہ نکلے۔

مسلمانوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا عزم اور ہمت اور حوصلہ دیکھا تو خوف و ہراس کی کیفیت ختم ہو گئی اور وہ جوش و خروش سے تیاری کرنے لگے۔

(دائرہ معارف سیرت محمد رسول اللہؐ جلد 7 صفحہ 241، 242 ، بزم اقبال لاہور 2022ء)

حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ نے بھی اس غزوۂ بدرالموعد کے بارے میں لکھا ہے کہ ’’ابوسفیان بن حرب …باوجود احد کی فتح اوراتنی بڑی جمعیت کے ساتھ ہونے کے اس کا دل خائف تھا اور اسلام کی تباہی کے درپے ہونے کے باوجود وہ چاہتا تھا کہ جب تک بہت زیادہ جمعیت کا انتظام نہ ہوجاوے وہ مسلمانوں کے سامنے نہ ہو۔ چنانچہ ابھی وہ مکہ میں ہی تھا کہ اس نے ایک شخص نُعَیم نامی کو جو ایک غیرجانبدار قبیلہ سے تعلق رکھتا تھا مدینہ کی طرف روانہ کر دیا اور اسے تاکید کی کہ جس طرح بھی ہو مسلمانوں کو ڈرا دھمکا کر اور جھوٹ سچ باتیں بنا کر جنگ سے نکلنے کے لئے باز رکھے۔ چنانچہ یہ شخص مدینہ میں آیا اورقریش کی تیاری اور طاقت اوران کے جوش وخروش کے جھوٹے قصے سنا سنا کر اس نے مدینہ میں ایک بے چینی کی حالت پیدا کر دی۔ حتٰی کہ بعض کمزور طبیعت لوگ اس غزوہ میں شامل ہونے سے خائف ہونے لگے لیکن

جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے نکلنے کی تحریک فرمائی اور آپؐ نے اپنی تقریر میں فرمایا کہ ہم نے کفار کے چیلنج کوقبول کر کے اس موقعہ پر نکلنے کا وعدہ کیا ہے اس لئے ہم اس سے تخلف نہیں کر سکتے اور خواہ مجھے اکیلا جانا پڑے میں جاؤں گا اور دشمن کے مقابل پر اکیلا سینہ سپر ہوں گا تو لوگوں کا خوف جاتا رہا اور وہ بڑے جوش اوراخلاص کے ساتھ آپؐ کے ساتھ نکلنے کوتیار ہو گئے۔‘‘(سیرت خاتم النبیینؐ از حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحبؓ ایم اے صفحہ 529)

اور اس طرح دوبارہ تیاری شروع ہو گئی۔

بہرحال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو جب ابوسفیان کے لشکر کی تیاری کے بارے میں خبر ملی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے عبداللہ بن عبداللہ بن اُبَی بن سلول جو رئیس المنافقین عبداللہ بن اُبَی کے مخلص اور جاںنثار بیٹے تھے، بڑے پکے مسلمان تھے ان کو اپنے پیچھے مدینہ کا امیر مقرر فرمایا۔ ایک روایت کے مطابق حضرت عبداللہ بن رَوَاحہ کو امیر مقرر کیا۔ بہرحال ہو سکتا ہے کہ مختلف کاموں کے لیے دونوں کو منتظم بنایا ہو یا یہ بھی ہو سکتا ہے کہ راوی کو عبداللہ کے نام سے شبہ پڑ گیا ہو۔ کسی نے عبداللہ بن عبداللہ کہہ دیا اور کسی نے عبداللہ بن رَوَاحَہ کا ذکر کر دیا۔ پھر

آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا جھنڈا حضرت علی ؓکو عطا فرمایا اور پندرہ سو صحابہؓ کے ہمراہ بدر کی جانب روانہ ہوئے۔

اس لشکر میں دس گھڑ سوار تھے۔ ایک گھوڑا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے تھا۔ اس کے علاوہ حضرت ابوبکر ؓ، حضرت عمر ؓ، حضرت ابوقتادہ ؓ، حضرت سعید بن زید ؓ، حضرت مِقْدَاد بن اسودؓ، حضرت حُبَابْ بن مُنْذِرؓ، حضرت زبیر بن عَوَّامؓ، حضرت عَبَّاد بن بِشرؓ کے پاس گھوڑے تھے۔ مسلمان اپنے تجارتی مال کے ساتھ بدر کی طرف نکلے۔ ذوالقعدہ کا چاند طلوع ہوا تو مسلمان میدانِ بدر میں پہنچ چکے تھے۔ دیکھا جائے تو مسلمان تو ابوسفیان کے ساتھ لڑائی اور مقابلے کے لیے جا رہے تھے لیکن ان کا تجارتی مال اور اسباب ساتھ لے کر نکلنا ان کے اس عزم و ہمت اور یقین پر دلالت کرتا ہے اور کوئی بعید نہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ہی ارشاد یا اشارے پر وہ تجارتی اموال لے کر نکلے ہوں کہ ابوسفیان یا تو مقابلے پر آئے گا نہیں اور اگر آیا تو بری طرح شکست کھا کر بھاگ جائے گا اور انہی تاریخوںمیں وہاں جو میلہ لگا کرتا تھا مسلمان وہاں خرید و فروخت کی تجارت کر کے فائدہ اٹھائیں گے اور عملاً پھر ایسا ہی ہوا۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم وعدہ کے مطابق ابوسفیان کے انتظار میں بدر میں قیام فرما تھے کہ مَخْشِی بن عمرو ضَمْرِی آپ کے پاس آیا۔ یہ بنو ضَمْرہ کا سردار تھا اور دو ہجری میں اس قبیلے کے ساتھ مسلمانوں کا ایک معاہدہ ہوا تھا کہ آپؐ بنو ضمرہ پر حملہ نہیں کریں گے اور نہ بنو ضمرہ آپؐ کے خلاف کوئی کارروائی کریں گے، نہ کسی کارروائی میں حصہ لیں گے اور آپؐ کے کسی دشمن کی مدد بھی نہیں کریں گے۔ اس نے کہا کہ اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم! کیا آپ اس چشمہ پر قریش سے جنگ کرنے آئے ہیں؟ اس کی گفتگو سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اندازہ لگا لیا کہ یہ شخص قریش کی طرف جھکاؤ رکھتا ہے۔ آپؐ نے فرمایا کہ ہاں اے بنو ضمرہ کے بھائی! اگر تُو چاہتا ہے تو ہمارے اور تمہارے درمیان جو صلح کا معاہدہ ہے اسے ختم کر کے ہم تم سے جنگ کر لیتے ہیں یہاں تک کہ خدا تعالیٰ ہمارے اور تمہارے درمیان فیصلہ کر دے؟مَخْشِی نے کہا اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم! بخدا ہمیں آپ سے جنگ کرنے کی کوئی ضرورت نہیں۔

(سیرۃ الحلبیہ جلد 2 صفحہ 374 دار الکتب العلمیۃ بیروت 2002ء)

(اٹلس سیرت نبوی صفحہ 202 ، دار السلام ریاض 1424ھ)

(دائرہ معارف سیرت محمد رسول اللہؐ جلد 7 صفحہ 242، 244 ، بزم اقبال لاہور 2022ء)

(السیرۃ النبویہ لابن ہشام صفحہ 618 دارالکتب العلمیۃ بیروت 2001ء)

اس ملاقات میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حکمت اور دلیری سے اس قبیلے پر واضح کر دیا کہ ہمارے درمیان جنگ بندی کا معاہدہ کسی بزدلی اور کمزوری کی بنا پر نہیں تھا اور یوں

جنگِ احد کے بعد مختلف قبائل جو مسلمانوں کو کمزور سمجھ کر ان پر حملہ کرنے کے منصوبے کرنے لگے تھے ان پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بڑی حکمت اور کامیابی سے مسلمانوں کی قوت اور دلیری کے اثرات کو بحال فرمایا۔

(ماخوذسیرت انسائیکلو پیڈیا جلد7 صفحہ97 ، دار السلام ریاض 1435ھ)

مسلمان تو حسبِ وعدہ بدر کے میدان میں پہنچ چکے تھے۔ البتہ دوسری طرف ابوسفیان نے سردارانِ قریش سے کہا کہ ہم نے نُعَیم بن مسعود کو بھیج دیا ہے وہ مسلمانوں کو سفر پر روانہ ہونے سے پہلے پست ہمت کر دے گا۔ وہ انتہائی کوشش کر رہا ہے لیکن ہم ایک یا دو راتوں کے لیے نکلیں گے پھر ہم واپس آ جائیں گے۔ اگر محمد صلی اللہ علیہ وسلم سفر کے لئے نہ نکلے تو ہم بڑے آرام سے کہہ دیں گے کہ ہم تو گئے تھے لیکن محمد صلی اللہ علیہ وسلم اور ان کے ساتھی ہی نہیں آئے اور اس طرح پر ہماری فتح ہو گی اور اگر وہ سفر کے لیے نکل پڑے تو ہم ظاہر کریں گے یہ قحط کا سال ہے۔ ہمارے لیے شادابی کا سال (نکلنے کے لیے) بہتر ہو گا اور یہ کہہ کر راستے سے ہی پلٹ آئیں گے۔ قریش نے کہا یہ اچھا مشورہ ہے۔ اس پر کفار کا لشکر ابو سفیان کی قیادت میں مکہ سے روانہ ہوا۔ ان کی تعداد دو ہزار تھی۔ ان میں سے پچاس گھڑسوار تھے۔ یہ لشکر وادی مَرُّالظَّہْرَان میں مَجَنَّہ نامی چشمہ پر خیمہ زن ہوا۔ مر الظہران مکہ سے بائیس کلو میٹر شمال میں ہے۔

قحط سالی کے سبب قریش کے اقتصادی حالات واقعی خراب تھے اور ان کی آمدنی کے ذرائع کم ہو گئے تھے۔ اس لیے ان کو مقررہ وقت اور جگہ پر پہنچنے کی ہمت نہیں ہو رہی تھی یعنی بدر پر پہنچنے کی لیکن شرمندگی کے ڈر سے اس لشکر نے کوچ کیا۔

ان کا سپہ سالار مکہ سے ہی بوجھل اور بددل تھا۔ وہ بار بار مسلمانوں سے ہونے والی جنگ کا انجام سوچتا تھا اور ان کی ہیبت کے مارے لرز رہا تھا۔ مَرُّالظَّہْرَان پہنچ کر ا س کی ہمت جواب دے گئی اور وہ واپسی کے بہانے سوچنے لگا اور آخر کار اپنی فوج میں واپسی کا اعلان اور اس بات کی وضاحت کرنے کے لیے کھڑا ہوا۔ اس نے کہا کہ اے قریش کے لوگو! تمہارے لیے شادابی اور ہریالی کا سال جنگ کے لیے موزوں رہے گا تا کہ تم جانوروں کو بھی چرا سکو اور خود بھی دودھ پی سکو۔ اس وقت خشک سالی ہے۔ لہٰذا مَیں واپس جا رہا ہوں تم بھی واپس چلے چلو۔ ابوسفیان کے اس فیصلے کی مخالفت کیے بغیر سب نے واپسی کی راہ لی اور کسی نے بھی سفر جاری رکھنے اور مسلمانوں سے جنگ کی رائے نہ دی۔ جس سے معلوم ہوتا ہے کہ

پورے لشکر کے اعصاب پر مسلمانوں کی ہیبت چھائی ہوئی تھی۔

(سیرت انسائیکلوپیڈیا جلد 7صفحہ96،95 ، دار السلام ریاض 1435ھ)

آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم وعدہ کے مطابق ابوسفیان کے انتظار میں بدر میں آٹھ روز قیام کرنے کے بعد مدینہ واپس آ گئے اور آپؐ اس غزوہ کے لیے کل سولہ راتیں مدینہ سے باہر رہے۔ دشمن مدمقابل آنے کی ہمت نہ کر سکا۔ اس کی خوب سبکی ہوئی۔ مسلمانوں کے حوصلے بلند ہوئے۔ اس علاقے کے بعض مقامی کافروں کا جھکاؤ قریش مکہ کی طرف تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نہایت بہادری سے ان پر اپنا عزم واضح کیا تو وہ بھی دبک گئے۔ بدر کے بعض تاجر فارغ ہو کر مکہ گئے اور ابوسفیان کو مسلمانوں کی مستحکم صورتحال کی تفصیل سے آگاہ کیا۔ ابوسفیان اور اس کے ساتھی اپنی بزدلی اور وعدہ خلافی پر نہایت شرمندہ ہوئے۔

اس غزوہ میں گو عملی لڑائی نہ ہوئی تاہم مسلمانوں کا وقار اور اعتماد بحال ہوا اور دشمن پر رعب میں خوب اضافہ ہوا۔

(کتاب المغازی واقدی جلد 1 صفحہ 324 ، دار الکتب العلمیہ بیروت 2004ء)

(دائرہ معارف سیرت محمد رسول اللہؐ جلد7 صفحہ 248 ، بزم اقبال لاہور 2022ء)

حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ نے اس ضمن میں لکھا ہے کہ ’’آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ڈیڑھ ہزار صحابہ کے ساتھ مدینہ سے روانہ ہوئے اور دوسری طرف ابوسفیان اپنے دوہزار سپاہیوں کے ہمراہ مکہ سے نکلا لیکن خدائی تصرف کچھ ایسا ہوا کہ مسلمان توبدر میں اپنے وعدہ پر پہنچ گئے مگر قریش کا لشکر تھوڑی دور آ کر پھر مکہ کو واپس لوٹ گیا۔ اور اس کا قصہ یوں ہوا کہ جب ابوسفیان کونُعَیم کی ناکامی کا علم ہوا تو وہ دل میں خائف ہوا اور اپنے لشکر کو یہ تلقین کرتا ہوا راستہ سے لوٹا کر واپس لے گیا کہ اس سال قحط بہت ہے اور لوگوں کو تنگی ہے اس لئے اس وقت لڑنا ٹھیک نہیں ہے۔ جب کشائش ہوگی تو زیادہ تیاری کے ساتھ مدینہ پر حملہ کریں گے۔ اسلامی لشکر آٹھ دن تک بدر میں ٹھہرا اور چونکہ وہاں ماہ ذوقعدہ کے شروع میں ہرسال میلہ لگا کرتا تھا۔ ان ایام میں بہت سے صحابیوں نے اس میلہ میں تجارت کر کے کافی نفع کمایا۔ حتی کہ انہوں نے اس آٹھ روزہ تجارت میں اپنے راس المال کو دوگنا کر لیا۔ جب میلے کا اختتام ہو گیا اور لشکر قریش نہ آیا تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم بدر سے کوچ کر کے مدینہ میں واپس تشریف لے آئے اور قریش نے مکہ میں واپس پہنچ کر مدینہ پر حملے کی تیاریاں شروع کر دیں۔‘‘

(سیرت خاتم النبیینؐ از حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحبؓ ایم اے صفحہ 529-530)

اب دوبارہ قریش نے واپس پہنچ کے شرمندگی مٹانے کے لیے اور مسلمانوں کو نقصان پہنچانے کے لیے پھر جنگ کی تیاریاں شروع کر دیں۔ بہرحال اس غزوہ کا یہ انجام ہوا۔

دوسرا غزوہ ہے دُوْمَةُ الْجَنْدَلْ۔

یہ ربیع الاول پانچ ہجری میں ہوا۔ دُوْمَةُ الْجَنْدَلْ مدینہ سے تقریباً چار سو پچاس کلو میٹر کے فاصلے پر ہے۔ قدیم دور میں یہ سفر قریباً پندرہ یا سترہ دنوں میں طے ہوتا تھا۔ یہ مدینہ کے شمال میں شامی سرحد کے قریب ترین مقام تھا۔ یہاں بنو قُضَاعَہ قبیلہ کی شاخ بنو کَلْب کے لوگ آباد تھے۔ اس جگہ بہت بڑی تجارتی منڈی لگتی تھی جو بنو کلب کے زیر انتظام تھی۔

(دائرہ معارف سیرت محمد رسول اللہﷺ جلد7 صفحہ249 ، بزم اقبال لاہور 2022ء)

دُوْمَةُ الْجَنْدَلْکی وجہ تسمیہ کیا ہے؟ وہاں ایک قلعہ تھا جو پتھر کی خاص قسم سے بنایا گیا تھا۔ دُوْمَة کا لفظ اس جگہ پر بھی بولا جاتا ہے جہاں سیلابی ریلے کی وجہ سے گول پتھر خاصی مقدار میں جمع ہو جاتے ہیں۔ اس جگہ کو دومة کہنے کی وجہ یہ بھی ہے کہ حضرت اسماعیلؑ کے دو بیٹوں دُوْمَہ یا دُوْمَان کی طرف یہ منسوب ہے۔ بہرحال یہ اس کے نام کی وجہ ہے۔

اس غزوہ کی تاریخ اور لشکر کی تعداد کے بارے میں

لکھا ہے کہ

یہ غزوہ تمام مؤرخین اور سیرت نگاروں کے نزدیک پانچ ہجری میں ربیع الاول کی پچیس تاریخ کو ہوا تھا۔

(دائرہ معارف سیرت محمد رسول اللہﷺ جلد7 صفحہ249-250 ، بزم اقبال لاہور 2022ء)

اس کی وجہ کیا بنی؟

اس کے بارے میں لکھا ہے کہ اب تک مخالفین کے ساتھ جتنی جنگی مہمات ہوئیں وہ کم و بیش مدینہ اور حجاز کے علاقے تک ہی محدود تھیں اور یہ پہلی مہم تھی کہ جو مدینہ سے دُور کم و بیش پندرہ دنوں کی مسافت پر رومی سلطنت کے صوبہ شام کی سرحدوں کے قریب وقوع پذیر ہونے جا رہی تھی۔ اس کا پس منظر یہ ہے کہ مسلمانوں سے پے در پے شکست کھانے اور مسلمانوں کے بڑھتے ہوئے رعب کو محسوس کرتے ہوئے دشمنانِ دین کسی ایسے موقع کی تلاش میں تھے کہ اسلام اور مسلمانوں کو جڑ سے ہی ختم کر دیا جائے۔ اس پر عمل کرنے کے لیے مدینہ کے انتہائی شمال میں شام کی سرحد سے ملحق دُوْمَةُ الْجَنْدَلْ کے گرد قبائل نے اسلامی ریاست کو چیلنج کرتے ہوئے ایک بڑا لشکر ترتیب دینا شروع کر دیا۔ انہوں نے چیلنج کیا کہ ہم حملہ کریں گے۔ یہ لوگ تجارتی قافلوں کو لوٹ لیتے تھے۔ صرف چیلنج ہی نہیں تھا بلکہ فساد بھی انہوں نے برپا کیا ہوا تھا کہ قافلوں کو لوٹتے تھے۔ جو مسلمان ہاتھ لگتا اسے اذیتیں دیتے تھے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دومة الجندل کے ان قبائل کی تمام حرکتوں کی خبر دی گئی تو فیصلہ ہوا کہ قبل اس کے کہ دُوْمَةُ الْجَنْدَلْ کے قبائل کوئی بڑی فوج تیار کر کے مدینہ پر چڑھائی کر دیں بہتر ہے کہ ان کے علاقہ میں پہنچ کر انہیں اس طرح بکھیر دیا جائے کہ وہ مدینہ پر لشکر کشی سے باز رہیں اور تجارتی قافلے امن سے شام پہنچ سکیں۔

(غزوات و سرایا صفحہ244-245 ، فریدیہ پبلشرز ساہیوال 2018ء)

اس کی تیاری کے بارے میں

لکھا ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے لشکر تیار کرکے لوگوں کو نکلنے کا حکم دیا اور مدینہ میں حضرت سِبَاعْ بن عُرْفُطَہ غِفَارِیؓکو نائب بنایا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک ہزار صحابہ کرامؓ کا لشکر لے کر روانہ ہوئے۔ آپؐ رات کو سفر کرتے اور دن بھر پوشیدہ رہتے۔ بَنُو عُذْرَہ کا ایک شخص راستہ بتانے کے لیے آپؐ کے ساتھ تھا۔ اس کا نام مَذْکُور تھا۔ وہ ایک ماہر راستہ بتانے والا تھا۔ وہ تیزی کے ساتھ نکلا اور اس نے سفر کے لیے غیرمانوس راستہ اختیار کیا تا کہ دشمن کو خبر نہ ہو۔ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم دومة الجندل کے قریب پہنچے تو راستہ بتانے والے نے کہا یہ بنو تمیم کی چراگاہ ہے۔ یہاں ان کے اونٹ اور مویشی ہیں۔ آپؐ یہاں ٹھہریں۔ میں معلومات لے کر آتا ہوں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ٹھیک ہے۔ تو عُذْرِی اکیلے معلومات لینے کے لیے گیا اور وہاں چوپایوں اور بکریوں کے آثار دیکھ لیے اور یہ بھی کہ وہ اپنی پناہ گاہوں میں چھپے ہوئے تھے۔ پھر وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس واپس آیا اور خبر دی کہ وہ ان کی جگہیں پہچان چکا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم وہاں سے چل پڑے اور ان کے جانوروں اور چرواہوں پر حملہ کیا اور ان میں سے کچھ پر قبضہ کیا اور باقی بھاگ گئے۔ دومة الجندل والے لوگ جو وہاں چھپے ہوئے تھے، جو لڑنے کے لیے تیاری کر رہے تھے وہ منتشر ہو گئے۔ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے میدان میں پڑاؤ ڈالا۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے وہاں چند دن قیام کیا او رمختلف گروہ اردگرد بھیجے۔ اسلامی دستے بحفاظت آپؐ کے پاس واپس پہنچے۔ ہر گروہ کچھ اونٹ لے کر آیا لیکن انہیں کوئی آدمی نہ ملا۔ صرف حضرت محمد بن مسلمہ ان میں سے ایک آدمی کو پکڑ کر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس لے آئے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے اس کے ساتھیوں کے بارے میں دریافت فرمایا تو اس نے کہا کہ گذشتہ رات جب انہوں نے سنا کہ آپؐ نے ان کے جانور پکڑ لیے ہیں تو وہ بھاگ گئے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے اسلام کی دعوت دی تو وہ مسلمان ہو گیا۔

(سبل الھدیٰ والرشاد جلد4 صفحہ342 دارلکتب العلمیہ بیروت1993ء)

(سیرت انسائیکلوپیڈیا جلد 7 صفحہ 138تا 140 ، دار السلام ریاض 1435ھ)

حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ نے بھی اس بارے میں لکھا ہے کہ غزوۂ دُوْمَةُ الْجَنْدَلْ کے بارے میں تحریر کرتے ہوئے کہ ’’دُوْمَةُ الْجَنْدَلْ شام کی سرحد کے قریب واقع تھا اور مدینہ سے اس کا فاصلہ پندرہ سولہ دن کی مسافت سے کم نہ تھا۔ اس غزوہ کی وجہ یہ ہوئی کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ اطلاع موصول ہوئی کہ دُوْمَةُ الْجَنْدَلْ میں بہت سے لوگ جمع ہوکر لوٹ مار کررہے ہیں اور جو مسافر یاقافلہ وغیرہ وہاں سے گزرتا ہے اس پر حملہ کرکے اسے تنگ کرتے اور اس کا مال ومتاع لوٹ لیتے ہیں۔ اور ساتھ ہی یہ اندیشہ بھی پیدا ہوا کہ کہیں یہ لوگ مدینہ کا رخ کر کے مسلمانوں کے لئے موجب پریشانی نہ ہوں۔ چونکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی جنگی کارروائیوں کی ایک اہم غرض قیامِ امن بھی تھی۔‘‘ آپؐ کی جنگی کارروائیوں کا اصل مقصد تو امن کا قیام تھا ’’اس لئے باوجود اس کے کہ ان لوگوں کی اس لوٹ مار سے مدینہ کے مسلمانوں کو حقیقتاً کوئی زیادہ اندیشہ نہیں تھا۔ آپؐ نے صحابہ میں تحریک فرمائی کہ اس ڈاکہ زنی اور ظلم کے سلسلہ کو روکنے کے لئے وہاں چلنا چاہئے۔ چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی تحریک پر ایک ہزار صحابی اس دُور و دراز کے تکلیف دہ سفر کو اختیار کر کے آپؐ کے ساتھ ہو لئے۔ اورآپؐ ہجرت کے پانچویں سال ماہ ربیع الاول میں مدینہ سے روانہ ہوئے اور پندرہ سولہ دن کی طویل اور پراز مشقت مسافت طے کرنے کے بعد دُوْمَةُ الْجَنْدَلْ کے قریب پہنچے۔ مگر وہاں جاکر معلوم ہوا کہ یہ لوگ مسلمانوں کی خبر پاکر اِدھر اُدھر منتشر ہوگئے تھے اور گو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم وہاں چند دن تک ٹھہرے اور آپؐ نے چھوٹے چھوٹے دستے بھی اِدھر اُدھر روانہ فرمائے تاکہ ان مفسدین کا کچھ پتہ چلے مگر وہ کچھ ایسے لاپتہ ہوئے کہ ان کا کوئی سراغ نہ ملا۔ البتہ ان کا ایک چرواہا مسلمانوں کے ہاتھ میں قید ہوکر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی تبلیغ سے مسلمان ہو گیا اور آپؐ چند دن کے قیام کے بعد مدینہ کی طرف واپس تشریف لے آئے۔‘‘

(سیرت خاتم النبیینؐ از حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحبؓ ایم اے صفحہ540 ،541)

دُوْمَةُ الْجَنْدَلْ سے واپسی

کے بارے میں لکھا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تقریباً تین دن کے قیام کے بعد تمام لشکر کے ساتھ مدینہ کی طرف روانہ ہو کر بیس ربیع الثانی کو مدینہ واپس تشریف لے آئے۔

(سبل الھدیٰ والرشاد جلد4 صفحہ342 دارالکتب العلمیہ بیروت 1993ء)

(دائرہ معارف سیرت محمد رسول اللہﷺ جلد7 صفحہ251 ، بزم اقبال لاہور 2022ء)

ایک مصنف

غزوۂ دُوْمَةُ الْجَنْدَلْ کے مقاصد

کا ذکر کرتے ہوئے لکھتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے اس غزوہ کے کئی مقاصد تھے۔ یہ بجائے خود جنگ نہ تھی تاہم اس سے جزیرہ نمائے عرب کے شمال کے حالات سے باخبر رہنے اور دیکھ بھال کا موقع میسر آیا۔ جزیرہ نمائے عرب میں قوت کے اصل مراکز کا کھوج بھی اس کے اہداف میں شامل تھا۔ اس کے ساتھ غزوۂ دومة الجندل اپنے نتائج و ثمرات کے اعتبار سے بھی بہت مفید ثابت ہوا۔ سارا علاقے کا پتہ بھی لگ گیا اور یہی مقصد تھا کہ علاقے کا پتہ لگ جائے اور جو ظلم ہو رہا ہے اس کو بھی دُور کیا جائے۔ بہرحال یہ لکھتا ہے کہ عملاً نہ ہونے والی یہ جنگ رحمتِ ربّانی سے مسلمانوں کے لیے آئندہ کی فتح و نصرت کے نتائج سمیٹ رہی تھی۔ یہ ایک عسکری کارروائی تھی جو درحقیقت مستقبل کی ممکنہ جنگ کا سدِّباب تھی۔ اصل میں توجنگ ہو سکنے کا جو امکان تھا اس کو روکنے کے لیے یہ کارروائی تھی کیونکہ اس علاقے کے بہت سارے عربی قبائل مدینہ پر چڑھائی کا ارادہ رکھتے تھے۔ علاوہ ازیں یہ ایک سیاسی جنگ بھی تھی جس نے ان قبائل کی ممکنہ حملہ آوری کو روکا جو جنگِ احد میں مسلمانوں کی عارضی شکست سے فائدہ اٹھا کر مدینہ پر چڑھ دوڑنے کا خواب دیکھ رہے تھے۔

اس جنگ کا ایک مقصد عربوں کی نفسیاتی مرعوبیت کو دور کرنا بھی تھا کہ وہ کبھی سلطنت روم سے جنگ نہیں کر سکتے۔

صرف ایک نہیں بلکہ عربوں پہ ان کا جو یہ نفسیاتی اثر قائم ہوا تھا کہ سلطنت روم سے ہم کبھی مقابلہ نہیں کر سکتے وہ بھی اس کارروائی سے دور ہوگیا۔ انہیں عملاً یقین دہانی کرانی بھی مقصود تھی کہ ان کا پیغام عالمی ہے صرف عرب تک محدود نہیں۔ اس کارروائی نے مسلمانوں کو یہ تسلّی بھی کروا دی۔ ان اچانک اور فیصلہ کن اقدامات اور حکیمانہ تدبیر پر مبنی منصوبوں کے ذریعہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اسلامی ریاست میں امن و امان بحال کرنے اور صورتحال پر قابو پانے میں کامیابی حاصل کی اور وقت کی رفتار کا رخ مسلمانوں کے حق میں موڑ لیا اور مسلسل پیش آنے والی اندرونی اور بیرونی مشکلات کی شدت کم کی جو ہر جانب سے انہیں گھیرے ہوئے تھی۔ بہت سارے لوگ جو مخالفین تھے وہ بھی اس کارروائی سے باز آ گئے۔ اندرونی طور پر منافقین بھی اس سے باز آ گئے چنانچہ منافقین خاموش اور مایوس ہو کر بیٹھ گئے۔ عرب کے بدو ڈھیلے پڑ گئے اور مسلمانوں کو اسلام پھیلانے اور رب العالمین کے پیغام کی تبلیغ کرنے کا موقع میسر آ گیا۔

(سیرت انسائیکلو پیڈیا جلد7 صفحہ140 ، دار السلام ریاض 1435ھ)

حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ جن کی سیرت النبیؐ کے موضوع پر بڑی گہری تحقیق ہے وہ بھی اس کے بارے میں لکھتے ہیں کہ

’’یہ غزوہ اس رنگ میں پہلاغزوہ تھا کہ اس کی غرض یاکم از کم بڑی غرض ملک میں امن کاقیام تھی۔

اہلِ دُوْمَہکا مسلمانوں کے ساتھ کوئی جھگڑا نہیں تھا۔ وہ مدینہ سے اتنی دور تھے کہ ان کی طرف سے بظاہر یہ اندیشہ کسی حقیقی خطرہ کاموجب نہیں ہوسکتا تھا کہ وہ اتنے لمبے سفر کی صعوبت برداشت کرکے مدینہ میں مسلمانوں کی پریشانی کا موجب ہوں گے۔ پس ان کے مقابلہ کے لئے پندرہ سولہ دن کاتکلیف دہ سفر اختیار کرنا حقیقتاً سوائے اس کے اور کسی غرض سے نہیں تھا کہ انہوں نے جو اپنے علاقہ میں لوٹ مار کا سلسلہ جاری کر رکھا تھا اور بے گناہ قافلوں اور مسافروں کو تنگ کرتے تھے اس کا سدباب کیا جاوے۔ پس مسلمانوں کا یہ سفر محض رفاہِ عام اور ملک کی مجموعی بہبودی کے لئے تھا جس میں ان کی اپنی کوئی غرض مدنظر نہیں تھی۔ اور یہ ایک عملی جواب ہے ان لوگوں کا جنہوں نے سراسرظلم اور بے انصافی کے ساتھ مسلمانوں کی ابتدائی جنگی کارروائیوں کو جو انہوں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم کے ماتحت اختیار کیں جارحانہ یاخود غرضانہ قرار دیا ہے۔ اس غزوہ کاایک نتیجہ تویہ ہوا کہ اہل دُوْمَہمرعوب ہو کر اپنی ان مفسدانہ کارروائیوں سے باز آگئے اور مظلوم مسافروں کو اس ظلم سے نجات مل گئی اور دوسرے شام کی سرحد میں جہاں ابھی تک مسلمانوں کا صرف نام ہی پہنچا تھا اور لوگ اسلام کی حقیقت سے بالکل ناآشنا تھے اسلام کا ایک گونہ انٹروڈکشن ہو گیا اور اس علاقہ کے لوگ مسلمانوں کے طریق وتمدّن سے ایک حد تک واقف ہو گئے۔ دومة الجندل کے قرب وجوار میں بعض عیسائی بھی آباد تھے۔ مگر روایات میں یہ مذکور نہیں ہے کہ آیا یہ مفسدین جن کے خلاف یہ مہم اختیار کی گئی عیسائی تھے یا کہ بت پرست مشرک۔ مگر حالات سے قیاس ہوتا ہے کہ غالباً یہ لوگ مشرک ہوں گے کیونکہ اگریہ مہم عیسائیوں کے خلاف ہوتی تو مؤرخین ضرور اس کا ذکر کرتے۔‘‘

(سیرت خاتم النبیینؐ از حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحبؓ ایم اے صفحہ541)

عیسائی مؤرخین تو ضرور ذکر کرتے۔ بہرحال اللہ بہتر جانتا ہے۔

ان غزوات سےبھی یہ ثابت ہوتا ہے کہ یہ غزوات دشمن کے شر کو روکنے اور ان کے اپنے بدارادوں کو ختم کرنے اور امن عامہ کی فضا قائم کرنے کے لیے کیے گئے تھے نہ کہ کسی قتل و غارت اور ناجائز تصرفات کے لیے اور امن برباد کرنے کے لیے۔

تو یہ جو اسلام پر، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر الزام ہے یہ واقعات اس کی نفی کرتے ہیں کیونکہ جنگ نہیں ہوئی تو آرام سے امن سے لوگ واپس بھی آ گئے اور کسی کو نقصان نہیں ہوا اور علاقے میں عمومی طور پر مسلمانوں کی اس کارروائی سے امن بھی قائم ہو گیا۔ صرف مسلمانوں کے قافلوں کو ظلم سے نجات نہیں ملی بلکہ دوسرے قافلوں کو بھی ملی۔ یہ جو دونوں غزوے تھے ان کا ذکر ختم ہوا۔

دعا کی طرف بھی دوبارہ توجہ دلانا چاہتا ہوں۔

دعا کریں اللہ تعالیٰ دنیا میں عمومی امن بھی قائم فرمائے وہ امن جس کی خاطر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے زمانے میں بھی کوششیں کی اور یہی مقصدتھا آپؐ کے آنے کا، یہی مقصد ہے اسلام کی تعلیم کا۔ یہ سب کچھ اللہ تعالیٰ کے خاص فضل سے ہی ہو سکتا ہے۔ اس کے لیے دعاؤں کی ضرورت ہے۔ بظاہر لگتا ہے کہ دنیا والے اب اپنے پاؤں پر کلہاڑا مارنے پر تلے ہوئے ہیں ظاہری طور پر امن کی صورت نظر نہیں آ رہی۔

دوسرے ان مغربی ممالک میں اب مسلمانوں کے خلاف بھی مہم بہت تیز ہو گئی ہے۔خیال یہی ہے کہ آئندہ مزید ہو گی۔ اس کے لیے بھی انہیں،

مسلمانوں کو اپنی بقا کے سامان کرنے ہوں گے۔ ایک اکائی بننا ہو گا۔ اپنی حالتوں کو بہتر کرنا ہوگا۔اللہ تعالیٰ کرے کہ یہ اسے سمجھنے والے ہوں۔

مسلمان ملکوں میں سوڈان وغیرہ میں مسلمان مسلمانوں پر جو ظلم کر رہے ہیں

اس کے لیے بھی دعا کریں۔

اللہ تعالیٰ انہیں بھی امن قائم کرنے کی توفیق دے۔ دین کا جو مقصد ہے اس کو یہ بھول گئے ہیں۔ اپنے بھائیوں کو مار رہے ہیں تو یہی وجہ ہے کہ جو غیر ہیں وہ بھی مسلمانوں پر ظلم کر رہے ہیں۔

اللہ تعالیٰ ان کو اپنی اناؤں اور ذاتی خواہشات کو پورا کرنے کی بجائے ملک و قوم کی خدمت کرنے والا بنائے اور امن بربادکرنے والے بننے کی بجائے امن قائم کرنے والا بنائے۔

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button