مہمان نوازی میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا اسوۂ حسنہ
امیر المومنین سیدنا حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں :’’جیسا کہ سب جانتے ہیں کہ جلسہ کے سب انتظامات یا تقریباً نوّے فیصد خاص طور پہ جو جلسہ کے دنوں کے انتظامات ہیں افراد جماعت رضاکارانہ طور پر کر رہے ہوتےہیں۔ اس لئے بعض کاموں میں کمیاں اور کمزوریاں بھی رہ جاتی ہیں۔ لیکن ان کمیوں اور کمزوریوں کو ہم سب شامل ہونے والوں نے ٹھیک کرنا ہے اور دُور کرنا ہے۔ جہاں کارکنان اپنے کاموں کا جائزہ لیتے ہوئے انہیں ٹھیک کرنے کی کوشش کریں گے وہاں مہمان بھی، شامل ہونے والے بھی ان کمیوں اور کمزوریوں سے صَرفِ نظر کریں اور جہاں کہیں کارکنوں کی مدد کی ضرورت ہو خود بڑھ کر ان کی مدد کے لئے اپنے آپ کو پیش کریں۔ اِکائی ہم میں تبھی پیدا ہو سکتی ہے جب ہم ایک دوسرے کے بوجھ اٹھانے والے ہوں اور اگر مدد کی ضرورت ہو تو مدد کرنے کی کوشش کریں۔ پس اس بنیادی بات کو مہمانوں اور میزبانوں دونوں کو یاد رکھنا چاہئے… سب سے پہلی بات کارکنوں کے لئے یہ ہے کہ انہوں نے اُن لوگوں کی خدمت کے لئے اپنے آپ کو پیش کیا ہے جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے جاری کردہ بلکہ اللہ تعالیٰ کے حکم سے جاری کردہ جلسہ میں شامل ہونے کے لئے آئے ہیں۔ اور کسی دنیاوی میلے میں شامل ہونے کے لئے نہیں آئے بلکہ اپنے روحانی، علمی اور اخلاقی معیاروں میں بہتری کے لئے جمع ہوئے ہیں۔ اور مَیں امید کرتا ہوں کہ یہی سوچ جلسہ میں شامل ہونے والے ہر فرد کی ہے اور ہونی چاہئے ورنہ ان کا جلسہ میں شامل ہونا بے مقصد ہے۔ بہرحال کارکنان کو یہ ہمیشہ یاد رکھنا چاہئے کہ مہمانوں کا رویّہ جیسا بھی ہو کام کرنے والوں نے اعلیٰ اخلاق کا مظاہرہ کرتے ہوئے ان کے جذبات اور احساسات کا خیال رکھنا ہے۔ اگر کبھی مہمان یا شامل ہونے والا کوئی فرد بھی غلط رویّہ بھی اپنائے تو کارکن کا کام ہے کہ اپنے جذبات پر کنٹرول رکھے اور اُسی طرح اور اُسی رویّے سے اسے جواب نہ دے۔ جب ہر کارکن نے خدا تعالیٰ کی رضا کی خاطر مہمانوں کی خدمت کے لئے اپنے آپ کو پیش کر دیا ہے تو پھر خدا تعالیٰ کی خاطر ہی بعض مہمانوں کے غلط رویّے بھی برداشت کرنے پڑیں تو برداشت کریں تبھی اللہ تعالیٰ کی خوشنودی اور رضا حاصل کرنے والے بن سکتے ہیں۔ ہم جس نبی کے ماننے والے ہیں اس کا اُسوہ حسنہ مہمانوں کے لئے کیا تھا؟ کبھی کبھی آنے والے مہمان نہیں کہ سال میں ایک دفعہ جلسہ کے لئے آئے بلکہ وہ لوگ جو شہر میں رہنے والے تھے، روزانہ ملنے والے تھے، ان کو اگر کبھی ان کی غربت کی حالت کی وجہ سے کھانے پر بلایا یا ویسے کھانے پر بلایا اور وہ لمبا عرصہ آ کر بیٹھ کر باتیں کرنے لگ گئے اور آپؐ کے آرام اور آپ کے کام میں مخل ہوئے تو انہیں کبھی نہیں کہتے تھے کہ وقت سے پہلے نہ آؤ مَیں مصروف ہوں اور کھانا کھا کر جلدی چلے جاؤ کہ تمہارے بیٹھے رہنے کی وجہ سے میں اپنے بعض کام نہیں کر سکتا۔ یہ لوگوں کی حالت دیکھ کر اور آپ کامہمانوں کو برداشت کرنے کا صبر اور حوصلہ دیکھ کر اللہ تعالیٰ نے مومنوں کو فرمایا کہ فَیَسْتَحْیٖ مِنْکُمْ (الاحزاب: 54) کہ وہ تمہارے جذبات کا خیال رکھتے ہوئے تمہیں منع کرنے سے حیا کرتا ہے۔ لیکن اللہ تعالیٰ کو یہ بات کہنے میں کوئی روک نہیں۔ پس لمبا عرصہ بلا وجہ نبی کے گھر میں بیٹھ کر اسے تکلیف نہ دو۔ پس ایک طرف تو اللہ تعالیٰ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی مہمان نوازی کے اعلیٰ ترین اُسوہ کا ذکر فرما دیا۔ اخلاق کے اعلیٰ ترین ہونے کا ذکر فرما دیا۔ تو دوسری طرف مہمانوں کو بھی خاص طور پر حکم دیا کہ مہمان بن کر اپنے حق سے تجاوز نہ کرو۔ مہمان کی جو حدودو قیود ہیں ان کے اندر رہنے کی ضرورت ہے۔ اور مہمانوں کو بھی اپنے مہمان ہونے کا ناجائز فائدہ نہیں اٹھانا چاہئے۔‘‘ (خطبہ جمعہ فرمودہ ۳؍اگست ۲۰۱۸ء)