دشمن قوموں کی دشمنی تمہیں انصاف سے مانع نہ ہو
خدا تعالیٰ نے عدل کے بارے میں جو بغیر سچائی پر پورا قدم مارنے کے حاصل نہیں ہو سکتی۔ فرمایا ہے لَایَجۡرِمَنَّکُمۡ شَنَاٰنُ قَوۡمٍ عَلٰۤی اَلَّا تَعۡدِلُوۡا ؕ اِعۡدِلُوۡا ۟ ہُوَ اَقۡرَبُ لِلتَّقۡوٰی (المائدہ:۹)یعنی دشمن قوموں کی دشمنی تمہیں انصاف سے مانع نہ ہو۔ انصاف پر قائم رہو کہ تقویٰ اسی میں ہے۔ اب آپ کو معلوم ہے کہ جو قومیں ناحق ستاویں اور دکھ دیویں اور خونریزیاں کریں اور تعاقب کریں اور بچوں اور عورتوں کو قتل کریں جیسا کہ مکہ والے کافروں نے کیا تھا اور پھر لڑائیوں سے باز نہ آویں ایسے لوگوں کے ساتھ معاملات میں انصاف کے ساتھ برتاؤ کرنا کس قدر مشکل ہوتا ہے مگر قرآنی تعلیم نے ایسے جانی دشمنوں کے حقوق کو بھی ضائع نہیں کیا اور انصاف اور راستی کے لئے وصیت کی مگر آپ تو تعصب کے گڑھے میں گرے ہیں ان پاک باتوں کو کیونکر سمجھیں۔ انجیل میں اگرچہ لکھا ہے کہ اپنے دشمنوں سے پیار کرو مگر یہ نہیں لکھا کہ دشمن قوموں کی دشمنی اور ظلم تمہیں انصاف اور سچائی سے مانع نہ ہو۔ میں سچ سچ کہتا ہوں کہ دشمن سے مدارات سے پیش آنا آسان ہے مگر دشمن کے حقوق کی حفاظت کرنا اور مقدمات میں عدل اور انصاف کو ہاتھ سے نہ دینا یہ بہت مشکل اور فقط جوانمردوں کا کام ہےاکثر لوگ اپنے شریک دشمنوں سے محبت تو کرتے ہیں اور میٹھی میٹھی باتوں سے پیش آتے ہیں مگر ان کے حقوق دبا لیتے ہیں ایک بھائی دوسرے بھائی سے محبت کرتا ہے۔ اور محبت کے پردہ میں دھوکا دے کر اس کے حقوق دبا لیتا ہے مثلاً اگر زمیندار ہے تو چالاکی سے اس کا نام کاغذات بندوبست میں نہیں لکھواتا اور یوں اتنی محبت کہ اس پر قربان ہوا جاتا ہے پس خدا تعالیٰ نے اس آیت میں محبت کا ذکر نہ کیا بلکہ معیار محبت کا ذکر کیا۔ کیونکہ جو شخص اپنے جانی دشمن سے عدل کرے گا۔ اور سچائی اور انصاف سے درگذر نہیں کرے گا وہی ہے جو سچی محبت بھی کرتا ہے مگر آپ کے خدا کو یہ تعلیم یاد نہ رہی کہ ظالم دشمنوں کے ساتھ عدل کرنے پر ایسا زور دیتا جو قرآن نے دیا اور دشمن کے ساتھ سچا معاملہ کرنے کے لئے اور سچائی کو لازم پکڑنے کے لئے وہ تاکید کرتا جو قرآن نے تاکید کی۔
(نورالقرآن نمبر2، روحانی خزائن جلد 9صفحہ۴۰۹-۴۱۰)