ہومیو پیتھی یعنی علاج بالمثل (جلدکے متعلق نمبر ۱۱) (قسط ۷۹)
(حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ کی کتاب ’’ہومیو پیتھی یعنی علاج بالمثل ‘‘کی ریپرٹری یعنی ادویہ کی ترتیب بلحاظ علامات تیار کردہ THHRI)
لیک کینائینم
Lac caninum
لیک کینائینم میں جلد کی شدید زود حسی پائی جاتی ہے۔ عموماً عورتوں میں یہ زود حسی نمایاں ہوتی ہے اور وہ پانچوں انگلیاں پھیلا کر رکھتی ہیں۔ اگر اتفاقاً ایک انگلی دوسرے سے لگ جائے تو چلااٹھتی ہیں۔ کپڑے کا ہلکا سا لمس بھی برداشت نہیں کرسکتیں۔ لیکیسس میں بھی یہ زود حسی پائی جاتی ہے اور بعض دفعہ یہ دونوں ایک دوسرے کی متبادل دوائیں بن جاتی ہیں۔ (صفحہ526)
لیکیسس Lachesis
(سیاہ پھن دار سانپ’’سروکوکو‘‘کا زہر)
لیکیسس کی ایک اور نمایاں علامت یہ ہے کہ بدن پر جامنی یا سیاہی مائل داغ پڑ جاتے ہیں جو چہرے پر نمایاں دکھائی دیتے ہیں۔ وہ مریض جن پر دل کا حملہ ہوا ہو ان کے چہرے پر بھی ایسے ہی نشان پڑتے ہیں۔ ایسے مریض جن کے جسم پر یہ نشان پڑنے کا رجحان ہو ان کو وقتاً فوقتاً لیکیسس دیتے رہنا چاہیے۔ یہ خون میں Clot بننے اور نتیجۃًًدل کے حملے کی روک تھام کے لیے بہترین دوا ہے۔ اس مقصد کے لیے اسے آرنیکا سے ملا کر دیا جائے تو اور بھی زیادہ کارآمد ہوتی ہے۔ (صفحہ543)
اس کے زخموں سے آرسینک اور سیکیل کی طرح سیاہ رنگ کا خون بہتا ہے جو گھاس پھوس کے ریشوں کی طرح جم جاتا ہے اور مقدار میں بھی بہت زیادہ ہوتا ہے۔(صفحہ543)
سیکیل کار (Secale Cor)اور لیکیسس میں خون کی رنگت سیاہی مائل ہوتی ہے اور ان کے زخموں کی شکل بھی ایک جیسی ہوتی ہے۔ سیکیل کی طرح لیکیسس کے زخموں میں بھی گینگرین بننے کا رجحان ہوتا ہے اور ان سے سیاہی مائل خون رستا ہے۔ زخموں کے ارد گرد کے کنارے گل کر متورم ہو جاتے ہیں۔ جلد سکڑ کر سیاہی مائل ہو جاتی ہے اور اس میں جھریاں پڑ جاتی ہیں لیکن لیکیسس کی باقی علامتیں سیکیل سے بہت مختلف ہیں۔ (صفحہ544،543)
لیکیسس میں ایک علامت رگوں کے گچھے کا نیلا ہو کر پھول جانا (Varicose Veins)ہے جن میں خون جم جاتا ہے اور ابھار اور گانٹھیں بن جاتی ہیں ان کے پھٹ جانے کا اندیشہ بھی ہوتا ہے۔ یہ بہت ہی خطرناک اور تکلیف دہ بیماری ہے۔ عموماً بعض عورتوں میں حمل کے دوران یا بعد میں ٹانگوں اور پاؤں پر یہ بیماری حملہ کرتی ہے۔ بعض دفعہ یہ تکلیف اتنی شدید ہوتی ہے کہ چلنا پھرنا دو بھر ہو جاتا ہے۔ ان پھولی ہوئی رگوں کے علاج میں اکیلی لیکیسس نا کام رہتی ہے۔ ایسی صورت میں بہت سی ایسی علامات کا مشاہدہ کرنا چاہیے جو اس پہلو سے مریض کی تشخیص کریں کہ بحیثیت مریض وہ کس دوا کا تقاضا کرتا ہے اور اگر اس دوا میں رگیں پھولنے کی علامت بھی ہو تو اسے ہی اولیت دینی چاہیے لیکن اگر تشخیص نہ ہو سکے تو روزمرہ کی دوا کے طور پر آرنیکا اور لیکیسس بار بار دینے سے کچھ نہ کچھ فرق پڑتا ہے لیکن سب سے اچھا روٹین کا علاج ایسکولس ہے۔ (صفحہ544)
ایسکولس کی ایک خاص علامت یہ ہے کہ لگتا ہے زخم جلد ہی گل سڑ جائیں گے لیکن کسی طرح پکنے ہی میں نہیں آتے اور پیپ بن کر پھٹتے نہیں۔ پھٹے بغیر لمبے عرصہ تک زخموں کا اس بین بین حالت میں چلتے چلے جانا بہت تکلیف دہ مرض ہے۔ ایسکولس کو ایسے مریضوں کی شفایابی میں شہرت حاصل ہے لیکن یہ دوا بھی اکیلی مکمل فائدہ نہیں دیتی بلکہ آرنیکا، لیکیسس اور اسی طرح کی دوسری مددگار دواؤں کی ضرورت پڑتی ہے۔ اس مرض کو آغاز ہی میں پکڑنے کے لیے ہمیشہ اپنے پاؤں کا معائنہ کرتے رہنا چاہیے۔ اگر پاؤں دھوتے ہوئے ٹخنوں کے دونوں طرف نیچے اور ایڑھی سے اوپر نیلے رنگ کے نشان ظاہر ہونے لگیں تو یہ اس بات کا نشان ہیں کہ خون کی نیلی رگوں میں خرابی پیدا ہورہی ہے اور وہاں خون جم سکتا ہے۔ اگر وہ رگیں پھول جائیں اور گچھے سے بننے لگیں تو یہ مرض ہاتھ سے نکل بھی سکتا ہے اور ایسے مریض کی وریدوں میں اچانک ایسا Clot بھی بن سکتا ہے جو دل کے حملے پر منتج ہو۔ اگر آغاز میں ہی پتا چل جائے تو خدا کے فضل سے آرنیکا اور لیکیسس حفظ ما تقدم کے طور پر بہت اچھا کام کرتی ہیں۔ (صفحہ544-545)
شنگلز (Shingles)کی بیماری میں جیسا کہ بعض دوسرے ابواب میں بھی تفصیلی ذکر گزر چکا ہے آرنیکا، لیڈم پال۔لیکیسس اور نیٹرم میور مفید ثابت ہوتی ہیں۔ (صفحہ545)
لیکیسس کی منہ کی علامتوں میں زبان کا سوج کر موٹا ہونا اور ہونٹوں کا بے حس ہونا شامل ہے۔ اس صورت میں لفظوں کی ادائیگی مشکل ہو جاتی ہے۔ اگر اس قسم کی علامات کسی مریض میں ظاہر ہوں، سر گرم رہتا ہو اور جسم پر جامنی رنگ کے داغ بھی پڑ جاتے ہوں تو لیکیسس ہی دوا ہے۔ (صفحہ547)
لیکیسس کی ایک اور نمایاں علامت جلد کی زود حسی ہے۔ یہ زود حسی کبھی اتنی بڑھ جاتی ہے کہ مریض جسم پر ہلکا سا کپڑا بھی برداشت نہیں کر سکتا۔ کسی خاص حصہ پر تکلیف اور وہاں لمس کے احساس سے شدید بے چینی اور درد کا بڑھ جانا لیکیسس کی خاص علامت ہے۔ کالی کا رب میں بھی یہ علامت پائی جاتی ہے۔ مضبوط دباؤ آرام دیتا ہے لیکن ہلکی لمس تکلیف دہ ہوتی ہے۔ لمس سے تکلیف کا نمایاں احساس لیک کنائینم میں بھی بہت شدت سے پایا جاتا ہے۔ اگر انگلیوں میں معمولی سی بھی تکلیف ہو تو مریض انگلیاں کھول کر رکھتا ہے کیونکہ ذرا بھی انگلیاں بند ہوں تو تکلیف سے چیخیں نکل جاتی ہیں۔ اگر بغل کے نیچے زود حسی ہو تو مریض ہر وقت بغل کھلی رکھے گا۔ (صفحہ549)
سورائینم اور لیکیسس میں ایک قدر مشترک ہے کہ دونوں میں ناک سے شدید بد بو دار نزلے کا مواد خارج ہوتا ہے۔ یہ نزلہ سر کے ایگزیما میں بھی تبدیل ہو جاتا ہے جس میں سر پر ایک سخت خول سا بن جاتا ہے جس کے اندر جراثیم پلتے ہیں۔ اگر یہ خول پھٹ جائے تو اس سے نہایت بد بودار مواد خارج ہوتا ہے اس ایگزیما کو مقامی طور پر علاج سے دبا دیا جائے تو ناک میں انتہائی خطرناک نزلہ شروع ہو جاتا ہے جو ٹھیک نہیں ہوتا۔ اس بیماری میں لیکیسس اور سورائینم دونوں سے بہت بہتر دوا میزیریم (Mezereum)ہے۔ ایک دفعہ میرے پاس ایک بچہ لایا گیا جسے شدید ضدی قسم کا نزلہ تھا، کسی علاج سے آرام نہیں آتا تھا، ناک سے شدید بو آتی تھی جو سارے کمرے میں پھیل جاتی تھی۔ خوش قسمتی سے میں نے ان دنوں میزیریم کے بارے میں نیا نیا پڑھا تھا۔ میں نے اسے میز یریم دی تو فوراً نزلہ ٹھیک ہو گیا۔ لیکن سر پر شدیدا ایگزیما ظاہر ہو گیا۔ چند دنوں میں اللہ کے فضل سے میز یریم سے ہی یہ ایگزیما بھی بالکل ٹھیک ہو گیا۔لیکیسس اور سورائینم دونوں اینٹی سورک (Anti Psoric) ہیں۔ جلد پر بعض دفعہ خون کے کچے کچے چھالے ابھر آتے ہیں۔ لیکیسس ان خون کے چھالوں کی چوٹی کی دوا ہے۔ عام طور پر لیکیسس میں آرنیکا کی طرح سیاہی مائل خون بہتا ہے لیکن چہرے پر سرخ رنگ کے خون کے چھالے بنتے ہیں جن کا لیکیسس سے ہی تعلق ہے۔ (صفحہ550-551)
لاروسیراسس
Laurocerasus
(Cherry-Laurel)
اس میں مریض کے چہرے پر نیلاہٹ آجاتی ہے جس کا مطلب ہے کہ سانس کی کمی کی وجہ سے خون میں آکسیجن کی آمیزش کم ہو گئی ہے لیکن سب مریضوں کے چہرے پر نیلا ہٹ نہیں آتی بلکہ بعض چہرے زرد پڑ جاتے ہیں، ان کے لیے اس بیماری کی الگ دوائیں ہیں۔ نیلاہٹ پیدا کرنے والی دل کی بیماری رفع کرنے کے لیے ہو میو دوا لا رو سیر اسس شہرت رکھتی ہے۔ (صفحہ556)
ہاتھوں اور پاؤں کے ناخنوں پر چھوٹے چھوٹے ابھار بن جاتے ہیں۔(صفحہ556)
لیڈم
Ledum(Marsh Tea)
وہ چوٹیں جو گہرا اثر چھوڑ جائیں یا ایسے زخم جو نوکدار چیز مثلاً کیل یا کا نٹا وغیرہ چبھنے سے پیدا ہوں، ان میں لیڈم بطور خاص مفید ہے۔ بعض دفعہ اس کے زخموں میں بظاہر مندمل ہو جانے کے بعد سالہا سال تک درد کی لہریں بجلی کے کوندوں کی طرح اٹھتی رہتی ہیں۔ ایسی صورت میں اگر تشنج ہو جائے تو لیڈم اس کا بہترین علاج ثابت ہو سکتی ہے۔ گھوڑے کی لید تشنج پیدا کرنے میں مشہور ہے لیکن اگر گھوڑا خود کسی کیل وغیرہ پر پاؤں رکھ دے اور اس کے سم میں گہرا زخم بن جائے جو ہڈی کے کنارے تک جا پہنچے تو اس کا تشنج اور ٹیٹنس لیڈم 200 دینے سے آنا ًفانا ًٹھیک ہو سکتا ہے۔ لیڈم میں تشنج روکنے کا رجحان عموماً ایسے تشنج میں ملتا ہے جو نو کیلی چیزیں چبھنے کے نتیجہ میں پیدا ہو خواہ وہ سالوں بعد ہی کیوں نہ ہو۔ ہڈیوں کے گرد کوئی نوکدار چیز لگنے سے اگر ہڈیوں کا انیمل زخمی ہو جائے تو اس میں لیڈم بہت مفید ہے۔ اس تکلیف میں ہائی پیر یکم ہڈی کے گرد لپٹی ہوئی نسوں کو نقصان پہنچنے کی صورت میں کام آتی ہے۔ اسی طرح اگر جراحی کے وقت نشتر سے اعصاب کٹ جائیں اور زخم بظاہر مندمل بھی ہو جائے لیکن درد باقی رہے تو اس کے خلاف بھی ہائی پیر یکم مفید ہے جبکہ لیڈم نشتر کے زخموں کے لیے زیادہ فائدہ مند نہیں ہے۔ (صفحہ559-560)
لیڈم کی بیماریوں میں مریض کا چہرہ لیکیسس کے مریض کی طرح سوجا ہوا اور متورم دکھائی دیتا ہے۔ دل کے مریضوں میں بھی یہ علامت پائی جاتی ہے۔لیڈم کے مریض کے چہرے کی رنگت نیلگوں ہوتی ہے۔ پاؤں اور پنڈلیوں میں بھی پھلپھلی سی ورم ہوتی ہے اور رنگت میں نیلا ہٹ کی طرف مائل ہوتا ہے۔ لیڈم کا مریض مضبوط، تنے ہوئے جسم کا مالک ہوتا ہے۔ (صفحہ562)
لیڈم میں پیشانی اور گالوں پر سرخ رنگ کے چھوٹے چھوٹے دانے نکل آتے ہیں جن کو چھونے سے درد ہوتا ہے، ناک اور منہ کے قریب کیل نکلتے ہیں۔ (صفحہ562)
میگنیشیا کارب
Magnesia carbonica
(Carbonate of Magnesia)
میگنیشیا کا رب میں نیٹرم میور کی طرح ناخن اور بال خراب ہو جاتے ہیں اور دانت اور اس کے ارد گرد کا حصہ بہت حساس ہو جاتا ہے۔ یہ علامت اینٹی مو نیم کروڈ میں بھی ہے۔ ایسی صورت میں اینٹی مونیم کروڈ اور میگنیشیا کا رب کے علاوہ چائنا بھی مفید ہے۔ (صفحہ569-570)
ایسے مریض جن میں سل کی علامات ظاہر ہونے لگیں۔ چہرہ زرد ہو جائے۔ اگر دیگر علامتیں کسی معین دوا کی طرف اشارہ نہ کریں تو میگنیشیا کا رب استعمال کریں۔(صفحہ570)
چہرے پر دق کے اثرات ظاہر ہونے لگتے ہیں۔ (صفحہ570)
جلد بے رنگ، زرد اور مرجھائی ہوئی۔(صفحہ570)
(نوٹ: ان مضامین میں ہو میو پیتھی کے حوالے سے عمومی معلومات دی جاتی ہیں۔قارئین اپنے مخصوص حالات کے پیش نظر کوئی دوائی لینے سے قبل اپنے معالج سے ضرورمشورہ کرلیں۔)