تقریر جلسہ سالانہ

تقریر برموقع جلسہ سالانہ یو کے ۲۰۲۴ء: خلافت احمدیہ: امت مسلمہ میں وحدت کا ذریعہ

(مبارک احمد تنویر۔ استاد جامعہ احمدیہ جرمنی)

وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْاِنْسَ اِلَّا لِيَعْبُدُوْنِ۔ (الذّٰریٰت:57) اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: ہم نے جن و انس کو اپنی عبادت کے لیے پیدا کیا ہے۔

اب سوال یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے عبادت یعنی اپنی صفات کا مظہر بنانے اور اپنے حسن لازوال سے مالا مال کرنے کے لیے کوئی نظام بھی پیش کیا ؟

جب اس سوال کا جواب قرآن کریم میں تلاش کرتے ہیں تو اس مقصد پیدائش کو حاصل کرنے والے یہ اعلان عام کرتے نظر آتے ہیں نَحْنُ لَہٗ عٰبِدُوْنَ کہ ہم ہیں وہ خوش نصیب جنہوں نے خدا تعالیٰ کے فضل سے اس کا عبد بننے کا مقصد حاصل کرلیا۔ جس نظام سے منسلک ہو کر انہوں نے یہ مقصد پیدائش پایا اس کا ذکر کچھ یوں ملتا ہے۔ صِبْغَۃَ اللّٰہِ وَمَنْ اَحْسَنُ مِنَ االلّٰہِ صِبْغَۃً… یعنی اللہ کا رنگ پکڑو۔ اور رنگ میں اللہ سے بہتر اور کون ہو سکتا ہے۔ اللہ کا رنگ پکڑنے سے مراد اللہ تعالیٰ کی صفات کا مظہر بننا ہے۔ اب ظاہر ہے اللہ تعالیٰ اپنی صفات کا مظہر بنانے کے لیے جو نظام خودقائم کرے گا وہی سب سےاکمل اور اعلیٰ ہوگا۔ اللہ تعالیٰ اپنے نظام کے متعلق خودفرماتا ہے وہ ایسا اتم اور اکمل ہے جس میں کسی طرح کی خامی تلاش کرتے کرتے انسانی آنکھ تھک ہار کر واپس تو لوٹ جائے گی مگر کوئی رخنہ اس میں نہ پائے گی۔ (الملک :4۔5) آئیں اب دیکھتے ہیں کہ وہ نظام کیاہے؟

اللہ تعالیٰ نے عرش پر قرار پکڑنے کے بعد اپنی صفات کی جلوہ گری کے لیے خلافت کا نظام جاری کرتے ہوئے قرآن کریم میں فرمایا:اِنِّىْ جَاعِلٌ فِى الْاَرْضِ خَلِيْفَۃً۔(البقرہ:۳۱)۔ یعنی میں زمین میں اپنا خلیفۃ بنانے والا ہوں۔ حدیث میں اس کی وضاحت کچھ یوں ملتی ہے:کُنْتُ کَنْزًا مَّخْفِیَّا فَاَحْبَبْتُ اَنْ اُعْرَفَ فَخَلَقْتُ آدَمَ۔یعنی میں ایک مخفی خزانہ تھا اور میں نے پسند کیا کہ میں پہچانا جاؤں سو میں نے آدم کی تخلیق کی۔یہ حدیث صوفیاء نے بیان کی ہے اور یہی الفاظ اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعودؑ کو الہام بھی کیے۔(ملفوظات جلد چہارم، صفحہ ۱۰۹۔ایڈیشن۲۰۲۲ء)

اس مضمون پر روشنی ڈالتے ہوئے آپؑ فرماتے ہیں: ’’جب خدا تعالیٰ اپنے تئیں دنیا میں ظاہر کر نا چاہتا ہے تو نبی کو جو اس کی قدرتوں کا مظہر ہے دنیا میں بھیجتا ہے اور اپنی وحی اس پر نازل کرتا ہے اور اپنی ربوبیت کی طاقتیں اس کے ذریعہ سے دکھلاتا ہے۔ تب دنیا کو پتہ لگتا ہے کہ خدا موجود ہے… وہی ایک قوم ہے جو خدا نما ہے جن کے ذریعہ سے وہ خدا جس کا وجود دقیق در دقیق اور مخفی در مخفی اور غیب الغیب ہے ظاہر ہوتا ہے اور ہمیشہ سے وہ کنز مخفی جس کا نام خدا ہے نبیوں کے ذریعہ ہی شناخت کیا گیا ہے۔‘‘( حقیقۃ الوحی، روحانی خزائن، جلد۲۲، صفحہ۱۱۶،۱۱۵)

معزز سامعین! اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم کی جس سورۃ میں گذشتہ امم میں اپنی خلافت کے نظام کا ذکر کرتے ہوئے اسی طرز پر امت محمدیہؐ میں خلافت علیٰ منہاج نبوت کا وعدہ کیا اس سورۃ کا نام ہی سورۃ النور رکھا۔ خدا تعالیٰ کی عجیب قدرت ہے کہ اس سورۃ میں وہ اپنی ذات کا تعارف بھی اَللّٰہُ نُوۡرُالسَّمٰوٰتِ وَ الۡاَرۡضِ (النور: 36) کے مقدس الفاظ میں کرواتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے اس نور کا جلوہ سلسلہ انبیاء کے ذریعہ حضرت آدمؑ سے شروع فرمایا اور ہر زمانہ میں ضرورت کے مطابق خدائے علیم و حکیم نے اس زمانہ کو نبوت اور پھر خلافت علیٰ منہاج نبوت کے ذریعہ اپنے نور سے منور کیا۔ لیکن جب ظَہَرَ الْفَسَادُ فِي الْبَرِّ وَالْبَحْرِ۔(الروم :۴۲ )کی ظلمت و تاریکی کا ہولناک منظر اپنے عروج پر پہنچا تو اس حکیم مطلق نے اس ظلمت و تاریکی کو مٹانے کے لیے اپنے اکمل و اتم نور کے مظہر کامل حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ کو نازل فرمایا۔ آپؐ کے ظہور کے متعلق حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام تحریر فرماتے ہیں: ’’وہ خلافت حقہ جس کے وجود کامل کے تحقق کے لیے سلسلہ بنی آدم کا قیام بلکہ ایجاد کل کائنات کا ہوا ہے آنحضرت ﷺ کے وجود باجود سے اپنے مرتبہ اتم و اکمل میں ظہور پذیر ہو کر آئینہ خدا نما ہوئے۔‘‘ (سرمہ چشم آریہ، روحانی خزائن جلد ۲، صفحہ ۲۳۵، حاشیہ)

حضرت محمد مصطفیٰﷺ کے نور کی شان بیان کرتے ہوئے فرمایا : ’’وہ اعلیٰ درجہ کا نور جوا نسان کو دیا گیا یعنی انسان کا مل کو وہ ملایک میں نہیں تھا نجوم میں نہیں تھا قمر میں نہیں تھا آفتاب میں نہیں تھا،… غرض وہ کسی چیز ارضی اور سماوی میں نہیں تھا صرف انسان میں تھا یعنی انسا ن کامل میں جس کا اتم اور اکمل اور اعلیٰ اور ارفع فرد ہما رے سیّدومولیٰ سیّد الا نبیاء سیّد الاحیاء محمد مصطفےٰ ﷺ ہیں۔ سو وہ نور اس انسان کو دیا گیا اور حسب مراتب اس کے تمام ہم رنگوں کو بھی یعنی ان لوگوں کو بھی جو کسی قدر وہی رنگ رکھتے ہیں‘‘(آئینہ کما لات اسلام، روحانی خزائن جلد۵ صفحہ ۱۶۰۔۱۶۱)

پھراپنے منظوم فارسی کلام میں فرماتے ہیں:

محمدؐ است امام و چراغ ہر دو جہاں

محمدؐ است فروزندۂ زمین و زماں

(کتاب البریّہ، روحانی خزائن،جلد13صفحہ157حاشیہ)

ترجمہ: محمد ﷺ ہی دونوں جہانوں کا امام اور چراغ ہے۔ محمد ﷺ ہی زمین و زماں کا روشن کرنے والا ہے۔

معزز سامعین! اللہ تعالیٰ نےحضرت محمد مصطفیٰ ﷺ کے ذریعہ ایک ایسی امت کی بنا ڈالی جسےكُنْتُمْ خَيْرَ اُمَّۃٍ۔(آل عمران:111) کے مقدس الفاظ میں تمام امتوں سے اعلیٰ قرار دیا۔ جس میں وحدت کا ایک بے مثل نظارہ چشم فلک نے دیکھا۔ آپؐ نے اپنے صحابہ ؓکو ایسا اللہ تعالیٰ کے نور میں رنگ دیا کہ وہ بھی آپؐ کی اتباع کی برکت سے خدا نما انسان بن گئے اور اللّٰہ اللّٰہ فی اصحابی کے مصداق ٹھہرے۔ جن کے متعلق حضرت مسیح موعودؑ نے فرمایا: ’’آنحضرت ﷺ کی جماعت نے اپنے رسول مقبول کی راہ میں ایسا اتحاد اور ایسی روحانی یگانگت پیدا کرلی تھی کہ اسلامی اخوت کی رو سے سچ مچ عضو واحد کی طرح ہو گئی تھی اور اُن کے روزانہ برتاؤ اور زندگی اور ظاہر و باطن میں انوار نبوت ایسے رچ گئے تھے کہ گویا وہ سب آنحضرت ﷺ کی عکسی تصویریں تھے۔‘‘(فتح اسلام، روحانی خزائن جلد۳، صفحہ ۲۱)

معزز سامعین! امت محمدیہؐ خیر امم ہی رہی جب تک آنحضرت ﷺ کا وجود باجود ان میں موجود رہا اور اس کے بعد خلافت راشدہ کا بابرکت نظام ان کی راہنمائی کے لیے خدا تعالیٰ نے قائم رکھا۔لیکن جب امت نے نظام خلافت کی قدر نہ کی اور اللہ تعالیٰ کے واضح حکم وَاعْتَصِمُوْا بِحَبْلِ اللّٰہِ جَمِيْعًا وَّلَا تَفَرَّقُوْا۔(آل عمران آیت ۱۰۴)اور تم سب (کے سب) اللہ کی رسی کو مضبوطی سے پکڑ لو اور پراگندہ مت ہو۔ کی نافرمانی کی،تو اللہ تعالیٰ نے اس بابرکت نظام کو اٹھا لیا، جس کے ساتھ ہی امت کی وحدت پارہ پارہ ہو گئی اور وہ برکتیں اٹھ گئیں جو اس خدا تعالیٰ کے قائم کردہ نظام سے وابستہ تھیں۔ خلافت راشدہ کے بعد وہ فتنے موج در موج امت کی صفوں میں داخل ہو گئے جن کے بارے میں پہلے سے مخبر صادق ﷺ نے مسلمانوں کو خبردار فرما رکھا تھا۔ امن اور توحید کا دور ختم ہوا اور بلاؤں اور کربلاؤں کے دور کا آغاز ہوا۔ امت مسلمہ میں اس ٹوٹی ہوئی وحدت کو قائم کرنے کے لیے سیاسی اور مذہبی قیادت نے ہر طرح کی تدابیر کیں۔ مسلمان بادشاہوں نے اپنے لیے خلفاء کے القاب بھی اختیار کیےلیکن وہ وحدت جو خدا تعالیٰ نے نبوت اور خلافت راشدہ کے ذریعہ عطا کی تھی اس کا منہ پھر کبھی کسی انسانی منصوبہ سے دیکھنا نصیب نہ ہوا بلکہ گزری ہوئی چودہ صدیاں اس بات کی گواہ ہیں کہ مرض بڑھتا گیا جوں جوں دوا کی۔

معزز سامعین! حضرت محمد مصطفیٰﷺنے امت پر آنے والے مختلف ادوار کی پیشگوئی کرتے ہوئے فرمایا : ’’تم میں نبوت قائم رہے گی۔ جب تک اللہ چاہے گا پھر وہ اس کو اٹھالے گا۔ اور خلافت علیٰ منہاج النبوۃ قائم ہوگی۔ پھراللہ تعالیٰ جب چاہے گا اس نعمت کو بھی اٹھا لے گا۔ پھر اس کی تقدیر کے مطابق ایذارساں بادشاہت قائم ہوگی جس سے لوگ دل گرفتہ ہوں گے اور تنگی محسوس کریں گے۔ پھر جب یہ دور ختم ہوگا تو اس سے بھی بڑھ کر جابر بادشاہت قائم ہوگی۔ یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ کا رحم جوش میں آئے گا اور اس ظلم و ستم کے دور کو ختم کردے گا۔ اس کے بعد پھر خلافت علی منہاج النبوۃ قائم ہوگی۔‘‘(مسند احمد بن حنبل جلد4صفحہ273)

معزز سامعین !دور آخر ین کی ہولناک ظلمت بھی حضرت محمد مصطفیٰﷺ ہی کے نور سے دور ہونا خدائی تقدیر ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے یہ نور اس زمانہ میں کس کے ذریعہ اپنا جلوہ دکھا کر آپؐ کے مشن کی تکمیل کر رہا ہے۔ ہمارے آقا مخبر صادق ﷺ کی خوشخبری کے مطابق اللہ تعالیٰ نے اپنا یہ فضل اس دور آخرین میں عشق رسول ﷺ میں فنا حضرت مرزا غلام احمد قادیانی مسیح موعودؑ اور مہدی معہودؑ کے وجود باجود کی شکل میں نازل فرمایا۔ آپؑ ہی حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ کے وہ عاشق صادق ہیں جس کے متعلق فرشتوں نے گواہی دی۔ ھَذَا رَجُلٌ یُحِبُّ رَسُوْلَ اللّٰہِ یعنی یہ وہ آدمی ہے جو رسول اللہ سے محبت رکھتاہے۔‘‘ (براہین احمدیہ۔ روحانی خزائن جلد 1صفحہ 598)

آپؑ اپنے نزول کے متعلق فرماتے ہیں: ’’وہ خدا جو کبھی اپنے وجود کو بے دلیل نہیں چھوڑتا وہ جیسا کہ تمام نبیوں پر ظاہر ہوا اور ابتدا سے زمین کو تاریکی میں پا کر روشن کرتا آیا ہے اس نے اس زمانہ کو بھی اپنے فیض سے محروم نہیں رکھا بلکہ جب دنیا کو … روشنی سے دور پایا تب اس نے چاہا کہ زمین کی سطح کو ایک نئی معرفت سے منور کرے اور نئے نشان دکھائے اور زمین کو روشن کرے۔ سو اس نے مجھے بھیجا۔ ‘‘(تحفہ قیصریہ، روحانی خزائن جلد۲ا، صفحہ ۲۸۳)۔

معزز سامعین! حضرت مصلح موعودؓ سورۃ الشمس کی تفسیر میں شمس سے مراد شرعی نبی اور قمر سے مراد تابع نبی لے کر حضرت مسیح موعودؑ کے مقام و مرتبہ کے متعلق فرماتے ہیں: ’’ہر قمر صرف اپنے شمس سے ادنیٰ ہو گا مگر اپنے شمس سے ادنیٰ قمر تما م دوسرے شموس سے بڑے درجہ کا ہو سکتا ہے۔ یہ ایسی بات ہے جیسے آگ بالذات روشن ہے مگر قمر کے مقابلہ میں اس کی روشنی …ادنیٰ ہے یہی وہ چیز ہے جس کے متعلق حضرت مسیح موعودؑ فرماتے ہیں۔ ؏ تیرے بڑھنے سے قدم آگے بڑھایا ہم نے۔

یعنی اے میرے شمسِ روحانی! تو چونکہ بہت روشن تھا اس لیے تیرا قمر دوسرے تمام شموس سے اپنی روشنی میں بڑھ گیا۔ اس نقطۂ نگاہ کے ماتحت ہمارا یقین ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام رسول کریم ﷺ کو مستثنیٰ کرتے ہوئے باقی تمام انبیاء سے اپنے درجہ اور مقام کے لحاظ سے افضل ہیں۔ میں نے دیکھا ہے بعض لوگوں کے دلوں میں یہ شبہ پیدا ہوتا ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ و السلام دوسرے شموس سے کس طرح بڑھ سکتے ہیں؟ مثلاً حضرت موسیٰ علیہ السلام صاحبِ شریعت نبی تھے ان سے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ و السلام کا مقام کس طرح بلند ہو گیا یا بعض اور قوموں میں جو صاحبِ شریعت نبی گزرے ہیں ان سے آپ بڑے کس طرح قرار دیے جا سکتے ہیں ؟ اس کا جواب یہ ہے کہ بے شک یہ انبیاء بڑے تھے مگر اُن شموس اور اس قمر میں بھی زمین وآسمان کا فرق ہے۔ یہ بے شک قمر ہے مگر یہ قمر اس شمس کا ہے جو پہلے تمام شموس سے بہت زیادہ روشن تھا اس لیے یہ لازم تھا کہ اس شمس کا قمر اپنی روشنی میں پہلے شموس سے بھی بڑھ جاتا۔ اس کی ایسی ہی مثال ہے جیسے کسی جگہ پر ایک ہزار لیمپ ہو اور ہر لیمپ کا ایک ایک ری فلیکٹر ہو تو اگر اس ہزار لیمپ کے مقابلہ میں ایک لیمپ ایسا ہو جس میں دو ہزار لیمپ کے برابر روشنی کی طاقت ہو تو اس کا ری فلیکٹر اپنی روشنی میں ایک ہزار لیمپ سے بڑھ جائے گا۔ فرض کرو اس ہزار لیمپ میں سے کوئی پچاس کینڈل پاور کا ہے کوئی سو کینڈل پاور کا ہے اور اس طرح مجموعی طور پر ان کی طاقت دو لاکھ کینڈل پاور کی بن جاتی ہے تو اگر ان کے مقابلہ میں تین لاکھ کینڈل پاور کا صرف ایک ہی لیمپ ہو تو اس کا ری فلیکٹر باقی تمام روشنیوں کو مات کر دے گا اور باوجود قمر ہونے کے دوسرے شموس پر غالب آجائے گا۔‘‘ ( تفسیر کبیرجلد۱۳صفحہ ۲۷۔ایڈیشن۲۰۲۳ء)

معزز سامعین !حضرت امام مہدیؑ کے مقام و مرتبہ کے بارے میں حضرت امام عبدالرزاق قاشانی ؒ(وفات ۷۳۰ھ) نے فرمایا:’’آخری زمانہ میں جو امام مہدی آئیں گے وہ احکامِ شریعت میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے تابع ہوں گے اور معارف و علوم اور حقیقت میں آپ کے سوا تمام انبیاءاور اولیاءان کے تابع ہوں گے… کیونکہ امام مہدی کا باطن حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کا باطن ہو گا۔‘‘(شرح فصوص الحکم مطبع مصطفی البابی الحبی مصر صفحہ: ۴۲۔۴۳ بحوالہ ’’مسیح اور مہدی رسول اللہ کی نظر میں ‘‘ صفحہ ۴۷۹ )

معزز سامعین! یہ نورحضرت مسیح موعودؑ کی وفات کے بعد آپؑ کی پیشگوئی کے مطابق قدرت ثانیہ یعنی خلافت احمدیہ کی شکل میں جاری و ساری ہے جس کے بارے میں حضرت خلیفۃالمسیح الثالثؒ نے فرمایا:’’حضرت مسیح موعودؑ کے وصال سے اس روشنی نے جو اللہ تعالیٰ نے نازل کی تھی چمکنا بند نہیں کر دیا… وہ روشنی اپنی جگہ قائم ہے اور روحوں کو باقاعدہ اور مسلسل منور کر رہی ہے اور مَردوں اور عورتوں کی ان کی حقیقی منزل کی طرف رہنمائی کر رہی ہے۔… روشنی چمک رہی ہے اور اس کی شعاعیں حضرت مسیح موعودؑ کے خلفاء کے ذریعہ اکنافِ عالم میں پہنچ رہی ہیں ان خلفاء کو چھو ڑ کر نہ کہیں روشنی ہے نہ حقیقی رہنمائی‘‘۔ (خطبہ جمعہ ۱۷؍اپریل ۱۹۷۰ بمقام مسلم ٹیچرز ٹریننگ کالج لیگوس۔ نائیجیریا۔ بحوالہ خطبات ناصر جلد سوم، صفحہ ۹۸)

حضرت خلیفۃ المسیح الثالث ؒ کے الفاظ ’’ان خلفاء کو چھو ڑ کر نہ کہیں روشنی ہے نہ حقیقی رہنمائی ‘‘ کو اس زمانہ میں ایک سادہ سی مثال سے سمجھنا بہت آسان ہے۔ اگر کوئی انسان دنیا کی بہترین لائٹس خرید کر لے آئے اور سارا کمرہ ان لائٹس سے بھر دے لیکن ان لائٹس کو ان کےمناسب حال بجلی کے نظام سے منسلک نہ کرےاور ساری فیملی کے ساتھ عمر بھرمختلف تدابیر اوردعائیں کرتا رہے کہ یہ لائٹس اب روشنی دینی شروع کر دیں تو کیا وہ روشنی دینا شروع کر دیں گی؟ ہر گز نہیں۔ یہی حال اللہ تعالیٰ کے نور کے حصول کا ہے۔ اس نور کا عطا کرنے والا خود خدا ہے۔نورکو عطا کرنے کے لیے جو نظام اس نےاس زمانہ میں آسمان سے مقرر فرما دیا ہے اس سے جڑے بغیر کسی روشنی یا آسمانی راہنمائی کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔

آج یہ امت مرحومہ اختلاف و تفرقہ کے جس دردناک اورہلاک کر دینے والے مرض میں مبتلا ہے اور جس طرح دجالی قوتیں انہیں اپنے اشاروں پر اپنے آگے سر جھکانے پر مجبور کر رہی ہیں، عراق، لیبا، شام کی تباہی کے بعد اب فلسطین کی حالت زار اس کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ اس مرض کے علاج کا واحد حل بھی خلافت ہی کو قرار دینے کی آوازیں مشرق و مغرب سے بلند ہونا کسی بھی صاحب علم پر مخفی نہیں۔ لیکن اس شعور سے محروم ہیں کہ ہر زمانہ میں انسانوں کو وحدت کی لڑی میں پرونے والی خلافت صرف اور صرف خدائے واحد ہی قائم کیا کرتا ہے نہ کہ انسان۔ اسی سنت اللہ کو واشگاف الفاظ میں خلفائے احمدیت دنیا کے سامنے کئی بار چیلنج کے طور پر پیش کر چکے ہیں۔ ہمارے پیارے امام حضرت خلیفة المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا: اے دشمنان احمدیت! میں تمہیں دو ٹوک الفاظ میں کہتا ہوں کہ اگر تم خلافت کے قیام میں نیک نیّت ہو تو آؤ اور مسیح محمدی ؐکی غلامی قبول کرتے ہوئے اس کی خلافت کے جاری و دائمی نظام کا حصہ بن جاؤورنہ تم کوششیں کرتے کرتے مر جاؤ گے اور خلافت قائم نہیں کر سکو گے۔ تمہاری نسلیں بھی اگر تمہاری ڈگر پر چلتی رہیں تو وہ بھی کسی خلافت کو قائم نہیں کر سکیں گی۔ قیامت تک تمہاری نسل در نسل یہ کوشش جاری رکھے تب بھی کامیاب نہیں ہو سکے گی۔ خدا کا خوف کرو اور خدا سے ٹکر نہ لو اور اپنی اور اپنی نسلوں کی بقاء کے سامان کرنے کی کوشش کرو۔ ‘‘ (خطابات مسرور خطاب صد سالہ خلافت جوبلی 27مئی 2008ء Excel سینٹر لندن صفحہ5۵)

معزز سامعین! امت مسلمہ میں یہ انتشار خلافت علیٰ منہاج نبوت کی نا قدری سے پیدا ہوا۔ تو اب لازماً یہ وحدت خدائی سنت کے مطابق خلافت علیٰ منہاج نبوت کے ذریعہ ہی قائم ہو گی۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ کی زبان مبارک سے اس کے حقیقی اور فطری علاج کے لیے ایک حَکَم عَدَل کے ظہور کی خوشخبری بھی دی۔جس کا ذکر آپ ﷺ نے سورۃ جمعہ کی آیت وَاٰخَرِیْنَ مِنْھُمْ لَمَّا یَلْحَقُوْا بِھِمْ(الجمعۃ: 4) کے نزول کے وقت فرمایا۔جب یہ آیت نازل ہوئی تو صحابہ ؓکی مجلس میں بیٹھے ہوئے ایک صحابی نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا۔ یا رسول اللہ! وہ کون لوگ ہیں جو ابھی ان کے ساتھ نہیں ملے اور صحابہ کا درجہ رکھتے ہیں؟… اس پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت سلمان فارسیؓ کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر فرمایا کہ اگر ایمان ثریّا کے پاس بھی پہنچ گیا تو ان لوگوں میں سے کچھ لوگ اسے واپس لے کر آئیں گے۔ (صحیح البخاری کتاب تفسیر القرآن باب وآخرین منھم لما یلحقوا بھم الخ حدیث 4897)۔

خدا تعالیٰ نے سیدنا حضرت مسیح موعودؑ کو امت مسلمہ کو امت واحدہ بنانے کا مشن بذریعہ الہام سپردکرتے ہوئے فرمایا :’’سب مسلمانوں کو جو روئے زمین پر ہیں جمع کرو۔ عَلَی دِیْنٍ وَّاحِد‘‘ (تذکرہ ایڈیشن ۲۰۲۳ء صفحہ ۵۴۲)

معزز سامعین!حضرت مسیح موعودؑ کے ذریعہ امت مسلمہ کی وحدت کے بارے میں خدا تعالیٰ کی فعلی شہادت نےایک طرف تو حضرت مسیح موعودؑ کے ہاتھ پرمسلسل نشانات کو ظاہر کیا اور دوسری طرف ہمارے آقا و مولیٰ حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ نے نیک فطرت مسلمانوں کو خود رؤیا اور کشوف میں آکر امام مہدی و مسیح موعودؑ کی تصدیق کی۔ آپؑ فرماتے ہیں: ’’مجھے اس خدا کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے کہ اب تک دو لاکھ سے زیادہ میرے ہاتھ پر نشان ظاہر ہو چکے ہیں اور شاید دس ہزار کے قریب یا اس سے زیادہ لوگوں نے پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کو خواب میں دیکھا اور آپؐ نے میری تصدیق کی‘‘(تذکرۃالشہادتین۔ روحانی خزائن جلد20صفحہ36)

معزز سامعین! خدا ئی وعدہ یَنْصُرُکَ رِجَالٌ نُّوْحِیْ اِلَیْھِمْ مِّنَ السَّمَآءِ۔(تذکرہ ایڈیشن ۲۰۲۳ء صفحہ۴۴) کا جو سلسلہ آپؑ کی زندگی میں شروع ہوا وہ خلافت احمدیہ کی برکت سے اب پوری دنیا میں پھیل چکا ہے۔ اللہ تعالیٰ خود نیک فطرتوں کو رؤیا و کشوف کے ذریعے خلافت احمدیہ کے ذریعہ وحدت کی لڑی میں پرو رہا ہے جس کے ایمان افروز واقعات ہم اپنے پیارے امام حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی زبان مبارک سے مسلسل سن کر ہم اپنے دل وجان کو خدائی نصرت کی تازہ خوشبوؤں سے معطر کرتے ہیں۔ وقت کی مناسبت سے صرف ایک واقعہ پیش کرتا ہوں۔ گیمبیا کےایک دوست نے… ’’ایک رات خواب میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا آؤ میرے ساتھ چلو۔ اس وقت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ کچھ اور لوگ بھی تھے۔ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھا اور ہم نے ایک صحرا عبور کیا۔ صحرا عبور کر کے جس جگہ پہنچ رہے تھے وہاں دُور سے کچھ لوگ نظر آنے لگ گئے۔ جب مَیں ان لوگوں کے قریب پہنچا تو میں نے واضح طور پر پہچان لیا کہ یہ جماعت احمدیہ کے افراد ہیں۔ گویا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم دو گروہوں کے ساتھ تھے۔ ایک پہلا گروہ تھا اور دوسرا بعد والا۔ اس خواب کے ذریعہ مجھ پر احمدیت کی صداقت واضح ہو گئی… اور بیعت کر کے احمدیت میں شمولیت اختیار کرلی۔‘‘(خطبہ جمعہ 12؍ ستمبر 2014ء فرمودہ حضرت مرزا مسرور احمد، خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز)؎

آسماں پر دعوتِ حق کے لیے اِک جوش ہے

ہو رہا ہے نیک طبعوں پر فرشتوں کا اُتار

معزز سامعین! آنحضرت ﷺ نے امت کے ۷۳ فرقوں میں بٹ جانے کی خبر دی اورفرمایا: ان میں سے ایک فرقہ جنتی ہوگا۔ توصحابہؓ نے پوچھا۔ یا رسول اللہﷺ! اس ناجی فرقہ کی علامت کیا ہوگی؟ تو آپ ﷺ نے دو علامتیں بیان فرمائیں۔ 1۔ ھي الجماعة۔ وہ ایک منظم جماعت ہوگی۔ 2۔ما انا علیہ و اصحابی۔ وہ میرے اور میرے صحابہؓ کے نقش قدم پر چلنے والی ہو گی۔(سنن ابو داؤد حدیث نمبر 4597، کتاب:سنتوں کا بیان باب: سنت و عقائد کی شرح و تفسیر)

اس حدیث میں رسول کریم ﷺ نے واضح طور پر وآخرین منھمکی وضاحت فرما دی ہے یعنی وہ ایک منظم جماعت ہو گی اور اس جماعت کی تنظیم کا سلسلہ وہی ہو گا جس پر اس وقت میں اور میرے صحابہ ہیں۔ یعنی خدا تعالیٰ وہ وحدت ایک ہاتھ پر بیعت کے ذریعے قائم کرے گا۔ اور یہ وحدت اسی ہاتھ پر قائم ہو سکتی ہے جس ہاتھ کو اللہ تعالیٰ اپنا ہاتھ قرار دے۔ اس دور آخرین میں اللہ تعالیٰ نے اسلام کے احیاءِ نو کا حکم دیتے ہوئے حضرت مسیح موعودؑ کے ہاتھ کو اپنا ہاتھ قرار دیا۔ یَدُاللّٰهِ فَوْقَ اَیْدِیْهِمْ۔ (تذکرہ، ایڈیشن ۲۰۲۳ء صفحہ۲۱۴)اس زمانہ میں خلافت علیٰ منہاج نبوت کے ذریعے امت مسلمہ میں وحدت قائم کرنے کا فیصلہ خدائی فیصلہ ہے جو ہر صورت پورا ہو گا۔؎

جس بات کو کہے کہ کروں گا یہ میں ضرور

ٹلتی نہیں وہ بات خدائی یہی تو ہے

حضرت مسیح موعودؑ اس خدائی تقدیر کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں: ’’مسیح موعود کا زمانہ… ایک ایسا مبارک زمانہ ہے کہ فضل اور جود الٰہی نے مقدر کر رکھا ہے کہ یہ زمانہ پھر لوگوں کو صحابہؓ کے رنگ میں لائے گا اور آسمان سے کچھ ایسی ہوا چلے گی کہ یہ تہتر فرقے مسلمانوں کے جن میں سے بجز ایک کے سب عار اسلام اور بدنام کنندہ اس پاک چشمہ کے ہیں خود بخود کم ہوتے جائیں گے اور تمام ناپاک فرقے جو اسلام میں مگر اسلام کی حقیقت کے منافی ہیں صفحۂ زمین سے نابود ہو کر ایک ہی فرقہ رہ جائے گا جو صحابہ رضی اللہ عنہم کے رنگ پر ہو گا۔‘‘(تحفہ گولڑویہ، روحانی خزائن جلد ۱۷، صفحہ۲۲۷)

امت مسلمہ کی وحدت کے لیے خدا تعالیٰ کی فعلی شہادت نے جو زمینی و آسمانی اسباب پیدا کیےان پر روشنی ڈالتے ہوئے حضرت مسیح موعودؑ فرماتے ہیں: ’’اب زمانہ کے لیے ایسے سامان میسر آگئے ہیں جو مختلف قوموں کو وحدت کا رنگ بخشتے جاتے ہیں۔‘‘ (چشمۂ معرفت۔ روحانی خزائن جلد 23 صفحہ 76)

معزز سامعین !اللہ تعالیٰ نے اس زمانہ میں لٹریچر کی اشاعت کے سامان، ذرائع آمدو رفت، ذرائع مواصلات ٹی وی، انٹرنیٹ اور نت نئی ایجادات کے ذریعے دنیا کو ایک گلوبل ویلیج بنا دیا ہے اور پھر خلافت احمدیہ کی براہ راست راہنمائی میں نظام جماعت ان تمام ذرائع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے جس احسن رنگ میں خدا تعالیٰ کی منشاء کے مطابق امت مسلمہ کو وحدت کی لڑی میں پرو رہا ہے وہ خود اللہ تعالیٰ کی فعلی شہادت کا منہ بولتا ثبوت ہے۔

خدا تعالیٰ کے فضل سےخلافت احمدیہ کے زیر سایہ دنیا کے ۲۱۴؍ ممالک میں کروڑوں مسلمان خلافت کے ہاتھ پر بیعت کر کے اس امت واحدہ کی لڑی میں شامل ہوکر اسلام کی شان و شوکت کے نور کو پھیلا رہے ہیں۔ ایک آواز پر بیٹھتے اور ایک ہی آواز پر کھڑے ہوتے ہیں۔ جس کا نظارہ ایم ٹی اے کے ذریعے خلافت خامسہ کے قیام کے وقت ایک ہی آواز پر پوری دنیا کے احمدیوں کا بیٹھ جانا اور پھر خلافت احمدیہ کے سوسالہ جشن تشکرکے وقت عہد دہرانے کے لیے دنیا کے تمام احمدیوں کاایک ہی آواز پر کھڑا ہونا خدا تعالیٰ کی ایسی فعلی شہادت ہے جس کا جلوہ چشم فلک نے پہلی بار ہی دیکھا۔ پھر گذشتہ جلسہ سالانہ گھانا کا منظر کیسےآنکھیں فراموش کر پائیں گی کہ خدا تعالیٰ نے کس طرح اس حبل اللہ سے دلوں کو الفت کی لڑی میں پرودیا ہے۔ کیا یہ کسی انسان کے بس میں ہے؟ نہیں ہر گز نہیں۔

معزز سامعین! قرآن کریم میں امّۃ کا لفظ ایسے فرد واحد کے لیے بھی استعمال ہوا ہے جس نے اپنے تمام وجود کو خداتعالیٰ کے سپرد کر دیا ہو۔اِنَّ اِبۡرٰہِیۡمَ کَانَ اُمَّۃً قَانِتًا لِّلّٰہِ حَنِیۡفًا۔ (النحل آیت 121) یقیناً ابراہیم (فی ذاتہ) ایک امت تھا جو ہمیشہ اللہ کا فرمانبردار، اسی کی طرف جھکا رہنے والا تھا۔ اس لحاظ سے اگر فردی وحدت کا سوال ہو یا قومی وحدت کا سوال، امت مسلمہ سے مراد اصطلاحی امت مسلمہ ہو یا ہر وہ قوم یا گروہ جو امن کا طالب ہے۔ اب اس کے لیے اس وحدت کو حاصل کرنے کا صرف اور صرف ایک ہی ذریعہ خدا تعالیٰ نے مقرر فرما دیا ہے اور وہ ہے خلافت احمدیہ۔

معزز سامعین! الحمدللہ ثم الحمدللہ! خلافت خامسہ پر چڑھنے والا ہر نیا دن ہر رنگ میں امت واحدہ بنانے کے مقصد کوقریب سے قریب تر لا رہا ہے۔ پس اس مبارک دور میں جس کثرت اور وسعت سے ایم ٹی اے کے ۸ چینلز پر مختلف زبانوں میں روحانی مائدہ تقسیم ہو رہا ہے اور دوسرے ذرائع ابلاغ پر نت نئے زاویوں سے پروگرامز کے ذریعے اسلام کی اشاعت اکنافِ عالم میں ہورہی ہے وہ ہر لحاظ سے بے مثل اور یکتا ہے۔

٭۔ حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کا خطبہ جمعہ زمین کے کناروں تک مسلمانوں کو خدا ئی منشاء کے مطابق وحدت کے رنگ میں ایک وجود کی طرح بنا رہا ہے۔

٭۔اللہ تعالیٰ نے ہمارے پیارے امام حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز سے ایم ٹی اے العربیہ پر عربی زبان میں خطاب کروا کرامت مسلمہ کو وحدت کی لڑی میں پروئے جانے کے ایک نئے دور کا آغاز کروا دیا۔

٭۔دنیا پر آنے والی کورونا کی وبا نے آن لائن ملاقاتوں اور میٹنگز کے ذریعے خلافت احمدیہ کے ذریعے امت کی وحدت کا ایک نیا در کھول دیا۔

٭۔ ہر سال عالمی بیعت کی تقریب خلافت احمدیہ کے ذریعے امت مسلمہ کی وحدت پر خدا تعالیٰ کی ایک عظیم الشان فعلی شہادت ہے۔ جس میں ہر سال لاکھوں سعید فطرت اسلام کے ۷۲ فرقوں سے نکل کر اس وحدت کی لڑی میں پروئے جا رہے ہیں۔

٭۔ حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کا عالمی راہنماؤں کو امن کے لیے خطوط لکھنا، مختلف ممالک میں جاکر امت مسلمہ کی وحدت میں شامل ہونے کی دعوت دینا اور ہر سال پیس سمپوزیم کے ذریعہ امت مسلمہ کی وسعت کی کوشش کرنا۔ سیاسی راہنماؤں کا خود حاضر ہو کر راہنمائی حاصل کرنا۔ یہ سب خدا تعالیٰ کے عطا کردہ وسائل ہیں جو ان شاء اللہ ایک دن ہر امن کے طالب کو اس وحدت کے نظام میں لے آئیں گے۔

٭۔ خلافت احمدیہ کی کامل اطاعت کے ذریعے ہر ملک میں کتنے ہی خوش قسمت زندہ خدا سے زندہ تعلق قائم کرکے خدائی نور کو پھیلانے کا ذریعہ بن رہے ہیں۔

٭۔ خلافت احمدیہ کے زیر سایہ ہر ملک میں ایک جیسا نظام جماعت قائم ہےخواہ وہ شوریٰ کا نظام ہو یا ذیلی تنظیموں کا نظام،یا پھر جماعتی سطح پر تعلیم،تربیت، تبلیغ اور قضا ء کا نظام۔ ہر ملک میں ایک ہی رنگ میں سب رنگے جا رہے ہیں۔ تو کیا یہ خداتعالیٰ کی فعلی شہادت کا ایک عظیم الشان ثبوت نہیں؟

پس اے امت واحدہ بننے کے خواہاں مسلمانو! آؤ اور آنحضرتﷺ کے ارشاد ’’تَلْزَمُ جَمَاعَۃَ الْمُسْلِمِیْنَ وَ اِمَامَھُمْ…( بخاری کتاب الفتن باب کیف الامر اذا لم تکن جماعۃ) یعنی مسلمانوں کی جماعت اور ان کے امام کے ساتھ چمٹ جانا، پر عمل کر کے حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ کے مشن کی تکمیل کے لیے آگے بڑھو۔

حضرت مسیح موعودؑ کی امت مسلمہ کے لیے مقدس خواہش اور دعا کو سنو۔ آپؑ فرماتے ہیں : ’’نبیوں کی کتابوں میں پہلے سے اس مبارک فرقہ کی خبر دی گئی ہے اور اس کے ظہور کے لیے بہت سے اشارات ہیں… خدا ایسا کرے کہ تمام روئے زمین کے مسلمان اِسی مبارک فرقہ میں داخل ہو جائیں تا انسانی خونریزیوں کا زہر بکلّی اُن کے دلوں سے نکل جائے اور وہ خدا کے ہو جائیں اور خدا اُن کا ہو جائے۔ اے قادر و کریم! تو ایسا ہی کر۔ آمین‘‘( تریاق القلوب، روحانی خزائن جلد ۱۵، صفحہ ۵۲۸)

الہامی دعا: رَبِّ اَصْلِحْ اُمَّۃَ مُحَمَّدٍ۔ اے میرے ربّ! اُمّت محمدیہؐ کی اصلاح کر۔ ( تذکرہ ایڈیشن ۲۰۲۳،صفحہ ۴۲)

خاکسار اپنی گزارشات کو اپنے پیارے آقا سیدنا حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے بابرکت الفاظ پر ختم کرتا ہے۔ آپ فرماتے ہیں: ’’ہر احمدی کا فرض ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے مشن کو قدرت ثانیہ سے چمٹ کر اپنی تمام استعدادوں کے ساتھ پورا کرنے کی کوشش کرے۔آج ہم نے عیسائیوں کو بھی آنحضرتﷺ کے جھنڈے تلے لانا ہے۔یہودیوں کو بھی آنحضرت ﷺ کے جھنڈے تلے لانا ہے۔ ہندوؤ ں کو بھی اور ہر مذہب کے ماننے والے کو بھی آنحضرت ﷺکے جھنڈے تلے لانا ہے۔یہ خلافت احمدیہ ہے جس کے ساتھ جڑ کرہم نے روئے زمین کے تمام مسلمانوں کو بھی مسیح و مہدی کے ہاتھ پر جمع کرنا ہے۔

پس اے احمدیو! جو دنیا کے کسی بھی خطۂ زمین میں یا ملک میں بستے ہو، اس اصل کو پکڑلو اور جو کام تمہارے سپرد امام الزمان اور مسیح و مہدیؑ نے اللہ تعالیٰ سے اذن پاکر کیا اسے پورا کرو جیسا کہ آپ علیہ السلام نے ’یہ وعدہ تمہاری نسبت ہے‘ کے الفاظ فرما کریہ عظیم ذمہ داری ہمارے سپرد کردی ہے۔ وعدے تبھی پورے ہوتے ہیں جب ان کی شرائط بھی پوری کی جائیں۔

پس اے مسیح محمدیؐ کے ماننے والو! اے وہ لوگوجو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے پیار ے اور آپ کے درخت وجود کی سر سبز شاخیں ہو، اٹھواور خلافت احمدیہ کی مضبوطی کے لیے ہر قربانی کے لیے تیار رہو، تاکہ مسیح محمدیؐ اپنے آقا و مطاع کے جس پیغام کو لے کر دنیا میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے آیا، اس حبل اللہ کو مضبوطی سے پکڑ تے ہوئے دنیا کے کونے کونے میں پھیلادو۔ دنیا کے ہر فرد تک یہ پیغام پہنچادو کہ تمہاری بقاء خدائے واحدو یگانہ سے تعلق جوڑنے میں ہے۔ دنیاکا امن اس مہدی و مسیح کی جماعت سے منسلک ہونے سے وابستہ ہے کیونکہ امن و سلامتی کی حقیقی اسلامی تعلیم کایہی علمبردار ہے، جس کی کوئی مثال روئے زمین پر نہیں پائی جاتی۔آج اس مسیح محمدیؐ کے مشن کو دنیا میں قائم کرنے اور وحدت کی لڑی میں پروئے جانےکا حل صرف اور صرف خلافت احمدیہ سے جڑے رہنے سے وابستہ ہے اور اسی سے خدا والوں نے دنیا میں ایک انقلاب لانا ہے۔

اللہ تعالیٰ ہر احمدی کو مضبوطیٔ ایمان کے ساتھ اس خوبصورت حقیقت کو دنیا کےہر فرد تک پہنچانے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین‘‘ (خطابات، امام جماعت احمدیہ عالمگیر حضرت مرزا مسرور احمد صاحب، خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز۔صفحہ 18تا20۔ ناشر اسلام انٹر نیشنل پبلیکیشنز، یوکے)

وآخر دعوانا ان الحمد للّٰہ ربّ العالمین

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button